جائزے بتا رھے ہیں کہ پاکستان میں موبائل کی درآمد میںخاطر خٌواہ اضافہ ہو رھا ہے۔ اسکی ایک وجہ اگرچہ ضرورت بھی ہے لیکن دوسری طرف خواہش نفس کی بڑی خرابی بھی ہے جسکے پیچھے ریاکاری کا جذبہ اسراف اور فضول خرچی کا سبب بن رہا ہے۔
اسٹیٹس سمبل کے بطور قیمتی سے قیمتی موبائل کا حصول اور اسکی گاہے بگاہے نمائش تفاخر کو ہوا دیتی ہے تو دوسری جانب احساس کمتری کو فروغ دیکر ناسمجھ نوجوان بچوں کو اپنی اقدار اور صبرو قناعت سے باغی کردیتی ہے اور بسا اوقات ان بچوں کے ہاتھوں چند ہزار کے موبائل کے حصول کے عوض قیمتی انسانی خوں ارزاں ہوجاتا ہے اور دنیا کو یہ کہنے میں ذرا باک نہیں ہوتی کہٖ بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے اس قوم کے افسانوں سے، یہی نہیں بلکہ وہ اسمیں مسلم دہشت گردی کا پہلو نکال لاتے ہیں۔
الحمد للہ ملک عزیز میں اسوقت نوجوان آبادی کا تناسب 50% تا 60 % ہے جو ملک کی خوشحالی اور مستقبل کے لئے ایک نعمت ہے اور دنیا کے اکثر ترقی یافتہ ممالک کو میسر نہیں ہے۔ جس طرح دشمن اپنے سامنے والے کے دشمن کے مرکز طاقت پر حملہ آور ہوتا ہے اسی طرح مغربی ممالک پاکستان کی اس قدرتی طاقت (نوجوان نسل) پر حملہ آورہے۔ اسکی ساری کوشش بڑھتی ہوئی مسلمانوں کی افرادی قوت کو یا تو حیلے بہانوں سے کم کرنا ہے یا انہیں صلاحیتوں اور دینی جذبوں سے محروم کرنا ہےاور موبائل کے ذریعے انہوں نے ہماری نئی نسل کی صلاحیتوں اور اوقات پر شب خون مارا ہے۔ ہماری افرادی قوت و صلاحیتوں کو مختلف پیکجز کے ذریعے زنگ آلود کیا جا رہا ہے۔ معاشرے میں آپ جسطرف بھی نگاہ اٹھائیں نوجوان نسل عموماً کانوں پر موبائل لگائے ہونٹوں پر خوبصورت مسکراہٹ سجائے کسی اور دنیا میں محوپرواز نظرآتی ہے۔ اسے اپنےارد گرد کے مسائل سے کویئ دلچسپی نہیں۔ خیالی پلاؤ پکانے والے عملاً محنت سے جی چراتے ہیں اور پھر انکی اس عادت کو پختہ کرنے کےلئے مختلف انعامات کی اسکیمیں متعارف کرائی جاتی ہیں جو عموماً جوئے کی ایک قسم ہوتی ہے جو ملت اسلامیہ کے لئے کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ ہمارے معاشرے کے موبائل کلچر میں ڈوب جانے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان موبائل استعمال کرنے والا دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہے جبکہ تعلیمی لحاظ سے پاکستان کا نمبر 145 واں ہے جو ہماری شرمندگی کے لئے کافی ہونا چاہئے۔ لیکن وائے ناکامی کہ کاروان کے دل سے احساس زیاں ہی جاتا رہا۔ ہر محفل میں نوجوان، بچیوں اور بچوں کا موضوع عموماً موبائل ایس ایم ایس یا مختلف کمپنیز کے پیکجز ہی ہوتے ہیں۔ ہم اور ہمارے بچے ہاتھ میں قلم کاغذ کے بجائے موبائل تھام لینے پر ہی اپنے آپ کو کامیاب انسان تصور کرتے ہیں۔ راتوں کو دیر تک گپ شپ لگانے اور دن کا بڑا حصہ سو کر گزارنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔
ہر تہذیب کے پیچھے زندگی کے ہارنے میں کچھ تصورات ہوتے ہیں اسلامی تہذیب اپنے افکار میں ایک باوقار تہذیب ہے اور اس تہذیب کا تقاضہ ہے کہ انسان اپنی زندگی، اپنا وقت اور اپنے ذرائع کو اللہ کو راضی رکھنے کے لئے لگائے اپنے اخلاق، کردار، معاملات میں بہترین فرد بن کر بہترین معاشرہ تشکیل دے جو اللہ کو راضی رکھنے کا موجب بنے۔
کسی قوم کا عروج اسکے افراد کے سبب ہوتا ہے۔ جو قوم سچائی، دیانت داری، محنت، علم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناتی ہے اس قوم کا نام تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جاتا ہے لیکن قوم کا رویہ اسکے برعکس ہو تو قوموں کے زوال کا سبب بن جاتا ہے یہاں رک کر ہم اپنا احتساب کریں کیا ہمارے افکارو عادات ہمارے خیر امت ہونے ہونے کی نشاندہی کر رہے ہیں؟ یا کام چوری اور جھوٹ اس عادت کے سبب عام ہو رہا ہے؟
اس لحاظ سے مورخ ہمیں کس انداز سے یاد کرے گا یہ رہا دنیا فانی کا معاملہ لیکن ہمارا بحیثیت امت مسلمہ یہ عقیدہ ہے کہ ہمیں اپنے اوقات کا حساب اللہ رب العالمین کی عدالت میں دینا ہے- کیا جواب دیں گے جب لمحہ لمحہ کی قسم کھا کر متنبہ کرنے والا رب لمحہ لمحہ کا حساب مانگے گا؟ اس لحاظ سے خوش قسمت قوم ہونے کے باوجود دنیا و آخرت کی بدانجامی نظر آرہی ہے ایسے میں سارا ملبہ معاشرے پر ڈالنے کے بجائے اپنے رویوں اور تربیت پر بھی نظر ڈالنی ہوگی۔
کیا ہم نے بچوں کو وقت کی اہمیت کا احساس دلایا؟
فضولیات و لغویات کی دینی لحاظ سے ناپندیدگی کی طرف متوجہ کیا؟
آخرت میں دور جوانی کے سلسلے میں کئے جانے والے سوالوں کو سامنے رکھا؟
دور جوانی میں بندگی رب کے نتیجے انعام کثیر کا لالچ دیا؟
اپنے نوجوان کو اسلاف کے کارنامے بتائے؟
اسلام اور غلبہ اسلام کے حوالے سےان چند سوالات کے جوابات بھی والدیں کے پاس عموماً نہیں ہیں اور مثبت اور منفی کا تناسب ہماری گردنوں کو جھکا دینے کے لئے کافی ہے لیکن کیا جھکی گردنیں ہمیں اس مسئلے سے نکال سکیں گی؟ یا ہمیں کوئی نہ کوئی عملی قدم اٹھانا ہوگا تاکہ ہماری آئندہ نسلیں اس زیاں کا شکار نہ ہوں۔
مومن کی یہ شان ہے کہ نہ تو وہ مایوس ہوتا ہے نہ بے فکر۔ اسے اپنے آج کے مقابلے میں آنے والے کل کو بہتر بنانے کی ذمہ داری دی گئی ہے تو پھر دیر کس بات کی؟ بس تھوڑی حکمت اور دانشمندی کے ساتھ اپنے بچوں کو پھر بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی ضرورت ہوگی۔
بالکل درست تحریر کیا
زوال اور اخلاقی تنزلی کے اس دور میں پاکستانی شدید قسم کے نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہیں. انہی پیچیدگیوں میں ایک پیچیدگی وہ کچھ نظر آنے کا خبط ہے جو وہ نہیں ہیں. بغیر علم اور کے بات کرنا ، اپنی رائے کو حتمی سمجھنا، اپنی مہارت کے میدان چھوڑ کر ان معاملات پر رائے زنی کرنا جن میں چنداں مہارت نہیں ہے، کامیاب اور وی آئی پی نظر آنے کی کوشش کرنا، اس سوشل اسٹیٹس کو فالو کرنے کی موشش کرنا جو انکا ہے ہی نہیں. انہی چیزوں میں ایک چیز مہنگے موبائل ہیں. جنہیں دکھا کر وہ اپنے آپ کو اعلیٰ و ارفعٰ ظاہر کرنا . یہ مرض صرف پاکستان تک ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں پاکستانی ہیں موجود ہے. سعودیہ میں بہت سے پاکستانی درشت لہجے میں بات کرنا اور اپنے آپ کو وی آئی پی تسلیم کروانا اپنا حق سمجھتے ہیں.
ہمارا معاشرہ ظاہر پرستی اور اس سے متعلق نحوست کی جیتی جاگتی مثال ہے. جہاں شخصیت کی تعمیر پر زور دینے کی بجائے نقالی اور لیپا پوتی کی جاتی ہے.
اسلام علیکم
بلکل ٹھیک تجزیہ کیا سسٹر صبیحہ نے. بچے پالنا واقع بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے . ہر وقت ایک نیا مسلہ اور نیا چلنج سامنے ہے . ماں باپ کو بہت اپ تو ڈیت اور الرٹ رہنا پڑتا ہے -انٹرنیٹ اور موبال بھی ان میں سی ہے – اسکے علاوہ وا لدین کیا بچوں کو بتائیں گے جب وہ خود ہی اس لت میں مبتلا ہیں -ینی دولت کی پوجا اور سٹیٹس کا دکھاوا ،جیسا کہ جواد بھائی نے بلکل ٹھیک کہا-سمجھ میں نہی اتا کہ بچوں کو کہاں لے جائیں اس ماحول سی نکال کر . کیونکہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے –
ادھر ایک ہم اور زمانہ ادھر