آج کل میڈیا کی بریکنگ خبر کی دوڑ کے با عث ہر گذرتے لمحے جدید کو قدیم اور قدیم کو آنکھ سے اوجھل کردیتی ہے۔ بہرحال یادداشت کا بے ضرر لفظ گذشتہ دنوں ذرائع ابلاغ کے ہاتھوں زبان زد خاص وعام رہا بلکہ بدنام رہا۔ اگرچہ کہ معاملہ حساس قومی نوعیت سے زیادہ عدالت میں سماعت کے مراحل سے گذررہا ہے. مگر قلم کی شوخیاں، جولانیاں تو اپنی جگہ برقرار ہیں.
ذکر کچھ ہمارے سابق سفیر صاحب کا جو ہمیشہ سے یاد داشت لکھنے کے ماہر ہیں، بحیثیت شعلہ بیان مقرر صدر انجمن طلبہ جامعہ کراچی کے کئی مجلے ان کی ڈائریوں میں موجود یادداشتوں کے اقتباسات سے سجے ہوئے ہیں۔ مگر کیا کیجئے ہماری یادداشت کا جس پر پُرجوش انداز میں معصوم طلبہ وطالبات سے جامعہ کے سبزہ زاروں پر نعرے لگوانے کا منظر یوں نمایاں ہوگیا ہے جیسے گہرے سمندر میں پوشیدہ آئس برگ!
امریکہ کا جو یار ہے
غدار ہے غدار ہے
افسوس اب اسی یار کی یاری کے جرم میں وہ خود غدار قرار پاگئے ہیں۔ اور جو گذشتہ ماہ جو استعفٰی انھوں نے ازراہ تکلف پیش کیا یا بزور دلوایا گیا۔ اس کی بازگشت تو دو سال قبل پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی انجمن میں مباحثہ کے دوران سنی گئی. حیرت انگیز اتفاق یہ ہے کہ وہاں بھی ان کا گریبان کھینچ کر زدو کوب کے بعد استعفٰی طلب کیا گیا۔ مگر افسوس قضیہ ڈاکٹر ایسوسی ایشن کے دائرہ اختیار سے باہر ہونے کے باعث ایسا ممکن نہ ہوسکا. غالبآ معاملہ ڈاکٹر عافیہ کے مقدمہ پر کارکردگی کا تھا جس پر وہ قوم اور اہل خانہ کو محض طفل تسلیاں دیتے رہے.
وطن عزیز سے ان کی وفاداریاں اسی وقت مشکوک قرار پائی تھیں جب انہوں نے انتہا ئی عرق ریزی سے ’’ لوگر بل ‘‘ کی شقیں ترتیب دی تھیں اور پاکستان کے عوام بھی سابق سفیر کے بدلے ہوئے تیور اور بگڑے ہوئے لچھن سے بذریعہ پاکستان ٹیلی وژن انٹرویو بخوبی واقف ہوگئے تھے جب وہ چبا چبا کر عہد سفارت کاری کے دوران ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو مواقع کی سرزمین(land of oppertunities(قرار دے رہے تھے. چیدہ چیدہ اخبارورسائل تو ان کی قبلہ کی تبدیلی سے آ گہی دے رہے تھے مگر اصل فیصلہ کن گھڑی تو ہمارے سادہ لوح حکمرانوں کی آ نکھوں سے پردہ ہٹنے کی ہے اور یہ پردہ اسی وقت ہٹتا ہے جب امریکی ایلچی کوڑا لے کر مطلع کرنے آ دھمکے.
بی بی سی کو دیے گئے ان کے انٹر ویو کے چند جملے ان کی عہدے کے موزوں سرگرمیاں واضح کرتے ہیں. خود کوlady killer سمجھنے والے قوم کے بہی خواہ زمانے کے سا تھ قدم ملا کر چلنے والے……….ایک اور عہدہ اور سفیر کا مرتبہ ایک اور شادی! نئے عہدہ کا تقاضا تھا شاید! کتنے اصول و ضوابط قربان ہوئے. موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا ان کی فطرت ثانیہ رہی. دیکھا گیا ہے کہ یاداشت ہو یا ضبط دونوں بڑھتی ہوئی عمر اور مرتبوں کے ساتھ جواب دے جاتی ہے مگر برا ہو تاریخ کی کتابوں کا کہ ہر ریکارڈ پیش کردیتی ہے جیسا کہ کل بارگاہ ذوالجلال کی عدالت میں اس کام پر مامور فرشتے کریں گے.
خیر ہمارے سابق سفیر نے عوام کو طویل المیعاد منصوبہ بندی کا زریں مشورہ دیا تھا! اب ہم انہیں کیا یاد دلائیں کہ قوم سے غداری اور دشمن سے یاری کا جو طویل المیعاد منصوبہ بنایا تھا وہ تارعنکبوت ثابت ہوا… اب یقیناًعہدہ جلیلہ سے برطرفی یا رخصت کے بعد ان پر مواقع کی سرزمین کے نئے نئے معنی اور جہتیں آشکار ہوئی ہوں گی اور امید کی جاتی ہے کہ وہ ہمارے لئے ایک نئی یاداشت لکھیں گے.
تحقیقات کے مراحل سے گزر کر قلب ماہیت کے تجربے کے طور پر یاری سے غداری تک وطن عزیز کے خلاف سازش کرنے اور سازش کا مہرہ بننے تک، سفارت کاری سے توہین آمیز استعفے تک مقدمہ عدالت میں ہے گو کہ وہاں سے ان کی برائت کے اشارے بھی ملے ہیں مگر تاریخ کا سفر جاری ہے. غداروں کے خلاف شواہد اکھٹے ہورہے ہیں…
good memory