روشنیوں کے شہر میں…

جاوید چوہدری کے کالمز کا ایک زمانہ معترف ہے بات کو سمجھانے کی خداداد صلاحیت کا بھرپور و کامیاب استعمال نظر آ تا ہے. ان کی تحریر رائے سازی میں بہت اہمیت رکھتی ہے اس لئے ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہے.

مورخہ 03 جنوری کو روزنا مہ ایکسپریس میں بعنوان ’’شاید آپ کے پاس ہو‘‘ پڑھنے کا موقعہ ملا. اس کے تھیم سے تو مکمل اتفاق ہے مگرکراچی شہر کے ترقیاتی کاموں کا کریڈٹ ایم کیو ایم (MQM) کو دیا گیا جو ادھوری بات ہے بلکہ شاید یہ کہنا بجا ہو گا کہ حقائق کے برخلاف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام منصوبے نعمت اﷲ خان کے عہد نظامت میں شروع کیے گئے تھے۔ انہوں نے شہر میں فلاحی اور تعمیری منصوبوں کی جو داغ بیل ڈالی تھی آنے والی شہری حکومت کے لیے اس سے مفر ممکن ہی نہ تھا. completation کے سہرے ضرور آپ ایم کیو ایم کے سر پر سجا سکتے ہیں. اس میں بھی کس طرح دھونس و دھاندلی اور بددیانتی برتی گئی وہ آپ شہر کراچی کے کسی بھی فرد سے پوچھ سکتے ہیں (اگر وہ جبر کی رسی سے آزاد ہو!). اور پھر کوئی پراجیکٹ مکمل کرکے اسکو برقرار بھی رکھنا ہوتا ہے۔ لیکن نااہلی اور بددیانتی کا ثبوت ان کی تباہ حالی سے نمایاں ہے۔ اگر انصاف نام کی کوئی شئے ہے تو قلم اٹھائیں اور سچ لکھیں!!

مکمل اور درست بات تو یہ ہے کہ شہر کراچی 1987ء سے بلاشرکت ایم کیو ایم کے ہاتھ میں ہے۔ کیا ربع صدی سے حاکم جماعت کے کریڈٹ پر ترقی اور خوشحالی کے نام پر دوسرے کے کاموں کے دستار کے سوا کچھ اور بھی ہے؟ امن جو ترقی کی کنجی ہے یہاں سے ناپید ہے. یہ موضوع بہت تکلیف دہ ہے۔ فی الوقت ہم شہر کی ظاہری حالت پر گفتگو کر لیتے ہیں۔ کچھ وہ گوشے جو اظہر من الشمس ہیں مگر کہتے ہوئے لوگ ڈر جاتے ہیں۔

یہ ٹھیک ہے کہ شہر میں اوور ہیڈ برج، پلوں اور انڈر پاسز کا جال بن چکا ہے۔ یہ راتوں رات نہیں بن گئے۔ یہاں کے شہریوں نے سالوں تکلیف اٹھائی ہے، منوں مٹی پھانکی ہے، دھواں پیا ہے اور راستے بدل بدل کر منزلوں تک پہنچے ہیں جب جا کر یہ دن بدلے ہیں مگر صورت حا ل کیا ہے؟

شہر کو میگا سٹی بنانے والے اسے قصبے کی سطح پر لے آ ئے ہیں۔ جی ہاں! آپ کسی بھی شاندار برج کے کنارے بنے عظیم الشان، وسیع وعریض بس اسٹاپ پر کھڑے ہوں اور دائیں بائیں، آ گے پیچھے اور سامنے سے چنگ چیز اور رکشے آ پ کو گھیرے میں لے لیتے ہیں۔ ان کو چلانے والے نوعمر اور نوسیکھ نوجوان ہوتے ہیں جو ٹریفک قوانین کی قطعا پر واہ نہیں کرتے۔ اور یوں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر بس کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بہت دیر بعد انتہائی بدحال اور خستہ قسم کی کی کوئی ویگن یا بس نظر آتی ہے جن میں مسا فر جانوروں کی طرح ٹھونسے ہوئے ہوتے ہیں حتٰی کہ چھتوں پر سفر کررہے ہو تے ہیں۔ بڑی بڑی سڑکوں کا کیا کریں اگر ان پر شایان شان ٹریفک نہ ہو؟ بڑی بڑی شاہراہوں کے لیے بسیں درآمد ہوتی ہیں اوراہتمام سے سڑکوں پر آتی ہیں۔ چند دن افتتاحی نمائش کے لیے نظر آتی ہیں پھر نہ جانے کہاں چلی جاتی ہیں؟

ہلکی چنگ چی اور سی این جی سلنڈر والے رکشوں جیسی سواری کی اندرونی گلیوں اور سڑکوں پر تو گنجائش سمجھ میں آتی ہے جہاں بسیں نہیں آپاتیں مگر 15, 15 کلومیٹر کے فاصلے کے لیے بھی اس ہلکی سواری کا استعمال اہل کراچی کی صحت کے لیے مستقبل میں ایک سوالیہ نشان ہے۔ مگر مجبور عوام کیا کریں؟ رکشوں کے کرائے آسمان سے باتیں کرتے ہیں کیونکہ سڑکوں پر کٹ ختم ہونے کی وجہ سے فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ دوسری طرف ٹریفک جام جوں کا توں ہے۔ حتٰی کہ پلوں تک پر عام نظر آتا ہے۔

دوسری اہم چیز جو کراچی کے ماحول میں تبدیلی کے حوالے سے ہے۔ نعمت اﷲ صاحب نے پورے شہر میں پارکوں کا جال بچھا دیا جس نے آ لودگی کا تناسب واضح طور پر کم کر دیا تھا۔ انہوں نے پرانی اور نئی دونوں طرح کی آبادیوں کے نقشے میں موجود پارک قائم کرکے علاقے کی فضا پر خوشگوار اثرات ڈالے۔ مدت ختم ہونے کے بعد جب شہر ایم کیو MQM کے حوالے ہوا تو جہاں یہ تکمیل ہوچکے تھے اور عوام کے ہاتھوں میں تھے وہاں اپنے بہتر انتظام و انصرام کے ساتھ موجود ہیں مگر بقیہ جگہوں پر یہ اجڑ چکے ہیں۔ ایک بڑی تعداد ان پارکوں کی ہے جو نقشوں میں موجود ہیں مگر عملا وہ MQM کے قبضہ گھر ہیں۔

میرا گھر آج سے سترہ سال قبل شہر کی ایک نئی آبادی میں تعمیر ہوا جس کے سامنے پارک کی چار دیواری موجود ہے۔ گھر آباد ہوئے تو امید بندھی کہ اب پارک بھی بن جائے گا۔ پارک میں بیٹھنے کی آس لیے میرے والدین دنیا سے رخصت ہوگئے جبکہ بچے یہاں جھولاجھولنے کی عمر سے نکل کر اپنی پڑھائی میں مصروف ہوگئے مگر ھنوز وہی ویرانی ہے. چار سال پہلے الیکشن کی مہم کے دوران افتتاح ضرور ہوا. کچھ سرگرمی بھی نظر آئی مگر ہوا یہ کہ اس میں کمرے تعمیر کرکے MQM کا سیکٹر آفس بنادیا گیا اور اس کے دونوں طرف چوکی بنا کر سڑک کو ڈھانپ دیا گیا جو رواں گاڑیوں کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے. ہر گلی کو بیریئر لگا کر بند کردیا گیا ہے. یعنی اپنے گھر آنے کے لیے بھی الٹی سمت میں فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک مثال نہیں ہے ایسے سینکڑوں پارک موجود ہیں جہاں غیر قانونی قبضہ ہے۔ نعمت اﷲ صاحب نے ان کے خلاف stay order لیا ہوا ہے مگر ………. نعمت صاحب کے کارناموں پر لکھنا ہر اہل قلم پر واجب ہے جنہوں نے اس شہر کو اس کے حقوق دلوائے لیکن بعد میں آ نے والے صرف cosmetic اقدامات کے ذریعے عوام کو خوش کرنے اور واہ واہ کروانے میں مصروف ہیں۔

ایک اور خاص بات کراچی کی شان! ہر گلی کے نکڑ پر بیٹھا ہوا گارڈ ہے۔ جی ہاں گھر میں کھانے اور کرائے کے پیسے ہوں یا نہ ہوں گارڈ ضروری ہے۔ تحفظ کے لیے! مگر کس سے؟؟؟ ذرا جاوید چوہدری اس پر بھی قلم اٹھائیں! بات پھر وہیں آ گئی جہاں سے ابتدا میں کنی کترا کرنکلنے کی کوشش کی تھی یعنی کراچی کا امن! وہ روشنی کہاں ہے؟؟؟
بچھڑ گئے ہیں اجالوں کے شہر میں خود سے!

فیس بک تبصرے

روشنیوں کے شہر میں…“ پر 6 تبصرے

  1. متفق

  2. یہ کتنا بڑا دھوکہ ہے اور کتنا بڑا جھوٹ ہے جسکا بولنا ایک فیشن کی بن گیا ہے.
    نعمت اللہ خان صاحب کے کاموں پر اپنے نام کی تختی لگوا کر ہیرو بن جانا اور انکی کوششوں اور کامیابیوں کو حرف غلط کی طرح مٹا دینا ایک نہایت افسوسناک امر ہے.

  3. میرے خیال سے آپ پہلے بلاگر ہیں جو کراچی میں رہتے ہیں اور انہوں نے ایم کیو ایم کے خلاف کچھ لکھ دیا ہے ۔۔۔ پہلے تو ایم کیو ایم پر ہلکی سی بھی تنقید کفر سمجھی جاتی رہی ہے ۔

  4. جماعتى لگتا ہے يه

    • شبانہ صاحبہ جملہ یوں ہونا چاہیے کہ “جماعتی لگتی ہیں یہ” کیونکہ مضمون نگار محترمہ فرحت طاہر صاحبہ ہیں۔ 😀

  5. Farhat ,its marvellous piece of truth!

Leave a Reply