بظاہر ایک جیسی نظر آنے والی تصاویر میں فرق تلاش کرنا صرف بچوں کی دلچسپ سرگرمی نہیں ہے بلکہ بڑوں، اور بزرگوں میں بھی یکساں مقبول ہے۔ خاکے میں دی گئی شکلوں کے سر پر ٹوپی، ہاتھ میں گاجر اور پائوں میں جوتے کا فرق بآسانی ڈھونڈ لیا جاتا ہے مگر کاسئہ سر میں مغز اور سینے میں دل کی موجودگی کا سراغ لگانا بچوں کا کھیل نہیں!
فرق ڈھوندنے کے معاملے کو انفرادی سطح سے بلند کرکے دنیا کے نقشے پر قوموں اور ملکوں پر چسپاں کیا جائے تو وطن عزیز اور اس کے ہمسائے عظیم دوست چین کے مابین فرق تلاش کرتے ہوئے بیک وقت حیرت اور ندامت کا سامنا ہوتا ہے۔
دو پڑوسیوں، دو قوموں، دو دوستوں کے درمیان موازنہ ہمارے دانشور کچھ یوں کرسکتے ہیں کہ نہ لباس نہ تہوار ایک ہیں، زبان ایک بولتے ہیں نہ ہی خورد و نوش ایک ہے مگر ہمیں تو ہمالیہ کے بلند وبالا پہاڑوں کے دونوں اطراف جفاکش، محنتی اور صابر عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آتا ہے۔ بس فرق ہے تو بیدار مغز، محب وطن قیادت کا!!! جمہوریہ چین کے باصلاحیت اور پرعزم قائدین نے قوم کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا اور کامیابی نے ان کے قدم چومے اور ہمارے بلند قامت لیڈر درون خانہ گیدڑ! دل قومی حمیت سے خالی، دماغ سوچنے سمجھنے سے عاری!
شراب کے نشے میں دھت یحیٰی سے امتحان کی گھڑی میں ایک فون کال پر ڈھیر ہونے والے مشرف اور بیرونی سازش پر بیماری کاناٹک رچا کر ملک سے فرار ہونے والے زرداری تک ایک تسلسل ہے تو غلامی کا، نا کامی کا، شخصی مفاد پرستی کا! صرف اور صرف یہ ہی قیادت کافرق سارے اختلافات پر بھاری ہے ورنہ سترہ کروڑ دلیر عوام نہ دو قومی نظریے سے متنفر ہیں نہ آپس کے اختلافات کو علیحدگی کی انتہا تک لے جا نا چا ہتے ہیں۔ وہ تو مساوات، امن، انصاف کے خواہاں ہیں، پانی، بجلی اور گیس کی برابر تقسیم! ورنہ قدرتی آفات پر چشم فلک نے اتحاد اور اتفاق کے روح پرور مناظر دیکھے ہیں۔
جس شخص پر اسکی شریک حیات بھروسہ نہ کرے اسکے ہاتھ میں کروڑوں انسانوںکی قسمت تھمادی جائے تو جو صورتحال ہوتی ہے وہ عین ہماری ہے
ایک وہ ہیں جنہیں صورت بنا آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ہم ہیں جو بگاڑ بیٹھے ہیں
یقینا باصلاحیت مخلص رہنما اپنے ہم وطنوں کو آزمائش کی کسوٹی سے گذار کر کندن بنادیتے ہیں جیسا کہ جمہوریہ چین کے غیر معمولی بصیرت کے قائدین نے ہجوم بلکہ گراں خواب چینیوں کو ایک منظم قوم میں بدل ڈالا اور یہ معجزہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا۔ حالانکہ موجودہ چینی ارباب اقتدارکا کنفیوشس کے فلسفئہ حیات سے دور کا بھی واسطہ نہیں مگر ہر حال میں پاکستان کا ساتھ دینے کاعزم دراصل اپنی جغرافیائی سرحدوں کو ایک جانب سے محفوظ بنانا ہے۔ کیسا سیدھا طمانچہ ہے ہمارے خود غرض حکمرانوں پر جو اپنی ذات کے علاوہ کسی کے ساتھ مخلص نہیں۔
ہماری تاریخ میں میر جعفر، میر صادق کے عنوان سے جو فہرست ہے اس میں تازہ اضافہ منصور اعجاز، حسین حقانی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مادر وطن کو نوچ کھانے والے گدھ۔۔۔۔۔۔۔ اپنے ہموطنوں کو سازش کے ذریعے غیرملکی درندوں کے حوالے کرنا، سرحدوں کو پامال کرنا ان کے مشاغل ہیں۔ افسوس ان غداران قوم کا رسوا کن انجام بھی ان کی نظر سے گذرے۔
رنگ گل کا سلیقہ نہ بہاروںکا شعور
ہائے کن ہاتھوں میں تقدیر حنا ٹھہری ہے
وطن عزیز کی چاند سرزمین کو گرہن لگانے والے خود غرض حکمرانوں، سیاست دانوں سے نجات کا مبارک لمحہ آن پہنچا ہے! متبادل قیادت کے نام پرعمران خان کو عوامی طاقت بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ مگر یہ نجات دہندہ عمران خان ہر گز نہیں! مفاد پرست بھگوڑوں کے بوجھ سے ڈگمگاتا ان کا جہاز جلد ہی سونامی کا شکار ہونے والا ہے جس کی پیشن گوئی وہ خود مسلسل کر رہے ہیں۔
درحقیقت آج ہمیں نظریاتی اور آہنی عزم رکھنے والی قیادت کی جتنی اشد ضرورت ہے اتنی کبھی پہلے نہ تھی۔ دراصل دیگر قوتوں کا ابھار نظریاتی قیادت کے نکتے سے ہٹانا ہے مگر خوف خدا اور آخرت کی جواب دہی سے لبریز رہنما وہ مثالیں قائم کرسکتے ہیں جو ماضی میں چشم فلک نے دیکھ رکھے ہیں۔ امن، علم، انصاف پر استوار معاشرہ کروڑوں پاکستانیوں کے دل کی آواز ہے۔ ظلمت شب کا سیاہ پردہ آسمان پر ٹمٹماتے تاروں کی مانند دیانت اور امانت سے مزین رہنمائوں نے چاک کردیا ہے۔ یہ تصویر ہے اس جگمگاتی جماعت کی جو بالکل الگ اور نمایاں تشخص رکھتی ہے!! دیر کس بات کی بلاشبہ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ عوام کے شانہ بشانہ جدوجہد کرتی قیادت سنہرے مستقبل کا آغاز کرسکتی ہے۔
بے شک آپ نے حقیقت بیان کر دی ہے … نا امید تو نہیں ہونا چاہیئے مگر…. حل میں دور دور تک مسلمانوں کے لئے کوئی قابل رہنما تو نظر نہیں آ رہا ہے …. بس اللہ ہی ہم پر رحم کرے………………………..آمین
Quaide Azam tera ehsan hai ! kaash Allah aap ko aur zindagi day deta phir ham bhee China say aagay hotay.
اسلام علیکم
نور محمد بھائ آپکو سید منور حسن صاحب نظر نہیں آرہے-
———–
یہ مضمون پڑھ کر مجھے خرم مراد مرحوم مغفور کا مضمون’عروج کا راستہ’ یاد آگیا-
جس میں انہوں نے وجہ بتائ ہے مسلمانوں کی ترقی نہ کر سکنے کی- اور مرزا بھائ بقول انکے مغرب کو بھی انکے’جذبات’ نے غلبہ دیا نا کہ ٹکنالوجی نے :)، کیسے۔۔۔۔ یہاں سے پڑھۓ صفحہ 20 سے 23 تک
http://www.quranurdu.com/Pumphlets/Urooj%20ka%20Rasta.pdf