با ت نہ نئی تھی نہ بظاہر بڑی! لیکن نہ جانے کیوں اسلم صاحب کی سوئی اٹک کر رہ گئی تھی. آفس سے آکر فریش ہونے کے بعد کھانے کی میز پربیٹھتے ہی انہوں نے ٹی وی ریموٹ اٹھالیا. یہ روز کا معمول تھا ہر لقمے پر چینل بدلنا! کچھ عادت سی ہوگئی ہے. لیکن آج عمیر نے ان کے ہاتھ سے ریموٹ چھین لیا یہ کہتے ہوئے کہ بس آپ ہر وقت ناچ گانا دیکھتے رہتے ہیں.
بات کچھ اتنی غلط بھی نہ تھی، چینل بدلتے ہوئے کہیں سے میوزیکل پروگرام آرہا تھا دباتے دباتے بھی بہت کچھ دکھا اور سنا گیا تھا. اب عمیر کو اپنے باپ کے اخلاق بگڑنے کی فکر تو ہرگز نہ تھی، اس کا مقصد تو اپنا پسندیدہ میچ جاری رکھنا تھا جو وہ پچھلے چار پانچ گھنٹوں سے دیکھ رہا تھا.
اسلم صاحب اپنے بچوں کو بڑے دوستانہ ماحول میں پرورش کررہے ہیں. کیونکہ ان کا تعلق والدین کے اس گروہ سے ہے جو اولاد کی تربیت کے اصول و قواعد اپنے والدین سے ہٹ کر طے کرتے ہیں یعنی کوئی جبر ہو اور نہ کوئی فکر! جدید اصطلاح میں جیسے چاہو جیو یا پھر جیسے زمانہ جیے! چنانچہ سختی کے نہ وہ قائل ہیں اور نہ بچے عادی! نو سالہ عمیر، سات سالہ ماہا، چا ر سالہ ملائیکہ اور تین سالہ یاسر نے اپنے ابو کا ایک ہی روپ دیکھا ہے۔ سونے کے نوالے کھلانے والا اور جہاں تک شیر کی نگاہ کا سوال ہے وہ تو صرف انہوں نے تصویروں میں ہی دیکھی ہے.
مگر یہ صرف اس گھر کی تو بات نہیں، یہ تو آج کے زمانے کی عام روش ہے. چائلڈ سنٹر دور میں بچے کو کب، کہاں اور کیا کرنا ہے کا فیصلہ اس اسکرین سے ہوتا ہے جو ہر گھر میں خاص جگہ اور وقت رکھتا ہے. ٹی وی ہو یا کمپیوٹر، بلاروک ٹوک اور بلا لحاظ عمر اور وقت جاری اور ساری رہتا ہے. والدین اور بچوں میں اصل جھگڑا تو صرف ریموٹ کا ہوتا ہے لہذا اس معاملے میں ایسی کوئی خاص بات نہ تھی مگر اسلم صاحب تو سنجیدہ ہی ہوگئے تھے. مارے غصے کے جلدی جلدی کھانا کھا کر واک کو روانہ ہوگئے.
آدھ گھنٹے بعد وہ گھر میں داخل ہوئے تو عمیر اس وقت تک میچ ختم کرکے کمپیوٹر پر بیٹھ چکا تھا جبکہ ریمورٹ بیوی کے ہاتھ میں تھا اور باقی بچے ساتھ ہی بیٹھے تھے. یہ ایک معمول کا منظر تھا لیکن ان کا موڈ بحال نہ تھا چنا نچہ وہ بیوی بچوں کے ساتھ بیٹھنے کے بجائے اپنے کمرے میں جاکر لیٹ گئے. اس خلاف معمول روش پر بیوی آمنہ کو تھوڑی سی تشویش ہوئی اور اس میں اس وقت اور اضافہ محسوس ہوا جب انہوں نے ریموٹ آمنہ بیگم کو واپس کردیا حالانکہ اس وقت تو وہ ایک کے بعد دوسرا ٹاک شو شروع کرچکے ہوتے تھے.
جب گفتگو شروع ہوئی تو شکوے کے جواب میں آ منہ بول پڑیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تو خود عاجز ہوں. ذرا بھی پڑھائی میں وقت نہیں لگاتے! ٹی وی سے اٹھے تو کمپیوٹر…….. اور اگر بجلی نہ ہو تو موبائل پر گیم…… کھانا کھانے، کپڑے بدلوانے حتی کہ واش روم تک جانے کے لیے باقاعدہ چیخ و پکار کرنی پڑتی ہے………
’’یہ میڈیا تو ما نسٹر (عفریت) بن چکا ہے………‘‘ کانوں میں عادل صاحب کی آواز گونجی جو آج ہی آ فس میں کہ رہے تھے.
اسلم صاحب کا دل چاہا کہ وہ آگے کی بات یاد کریں آخر کیا کہہ رہا تھا عادل؟(ہر وقت سماعت پر اتنی یلغار رھتی ہے کہ یادداشت پر اثر پڑنے لگا ہے!) مگر انہیں یاد آگیا کہ وہ تو بات مذاق میں اڑاچکے تھے بھلا اس تاریک ذہن کی بات پر کون کان دھرتا ہے؟ ٹیکنالوجی کے اس دور میں کیبل اور انٹرنیٹ کنکشن کا بچوں والے گھر میں ہونا غضب نہیں بلکہ نہ ہونا ان بے چاروں پر ظلم ہے؟ کلاس ٹو کی بچی کتنے آرام سے حساب کا کام کرلیتی ہے. نہ ٹیبل یاد کرنے کی جھنجھٹ! نہ ماں با پ کو کوئی زحمت! ہاں البتہ کام کرتے کرتے ہاتھ ادھر ادھر چلا جائے تو بس کام تو نامکمل! اور تفریح شروع، جس کا کوئی اختتام نہیں ہاں الا یہ کہ لائٹ چلی جائے یا پھر توجہ ٹی وی پر مبذول ہوجائے……….. بچے اپنے اپنے کام ادھو رے اور نامکمل چھوڑ کر سوچکے تھے مگر اسلم اور آمنہ میں بحث جاری تھی…
’’ہماری امی زندگی بھر کوئی ڈرامہ نہ دیکھ سکیں نہ ریڈیو سن سکیں کہ ابا کا خیال تھا کہ اگر ماں دیکھے گی تو بچے کیا خاک پڑھیں گے………….‘‘
اسلم صاحب نے بیوی کو ماں کی ذمہ داری یاد دلانے کی کوشش میں گویا تنقیدی حملہ کیا.
’’اور آپ کے ابا بھی تو صرف نو بجے والا خبرنامہ دیکھتے تھے……………‘‘ آمنہ بیگم نے میچ ہارنے کے بجائے ڈرا کی جانب گامزن کردیا.
’’آپ ہی نے تو بتایا تھا……‘‘ آ منہ بیگم نے شوہر کی زہریلی نظروں سے گھبراتے ہوئے کہا.
’’اور سنیں! کل مجھ سے طلاق مانگ رہی تھی ملائکہ!‘‘
’’کیا؟‘‘ اسلم صاحب نے چار سالہ بچی کا سوچتے ہوئے پوچھا.
’’ہاں! اور کیا! وہی مانگ سکتی ہے! ماہا تو سن سن کر سب سیکھ چکی ہے وہ تو بس یہ پوچھ رہی تھی کہ یہ ہوتی کیا ہے؟ سیکھے گی نہیں پچھلے ہفتے ہر ڈرامے میں یہ ہی طلب تھی! کہیں شوہر دے رہا تھا تو کہیں بیوی مانگ رہی تھی۔ کسی چینل سے ساس بہو کو دلوارہی تھی۔۔۔۔۔۔‘‘
آمنہ نے پچھلے ہفتے دیکھے گئے تمام ڈراموں کے مناظر یا د دلائے آخر سب نے مل کر ہی تو دیکھے تھے.
’’ہاں! لگتا ہے ہر رائٹر کو ایک ہی سچوئشن دی جا تی ہے ایک ہی اسکرپٹ ہوتا ہے. کسی ہیروئن کو انڈہ تلتے ہوئے ابکائی آتی ہے تو کوئی ناشتے میں انڈہ دیکھ کر متلی کی شکایت کرنے لگتی ہے، کوئی اچار پر ٹوٹنے لگتی ہے تو کوئی چکرا کر گرنے لگتی ہے……..‘‘ آج سے پہلے تو اسلم اور آمنہ اس بات پر قہقہہ لگاکر ہنس پڑتے مگر اس وقت تو ان کی کیفیت اس مریض کی سی ہورہی تھی جو کسی خطرناک بیماری کی علامات اپنے اندر پارہا ہو چنانچہ وہ مسکرانے کی بھی جرات نہ کر سکے.
’’اچھا‘‘ اسلم صاحب سوچ میں پڑگئے ’’جبھی یاسر بار بار بانجھ بانجھ بول رہا ہے کل سے‘‘ (چو نکہ نیا نیا بولنا سیکھا ہے لہذا جو لفظ سنتا ہے دہرانے میں مصروف ہوجاتا ہے) ’’مسلسل ایک گھنٹہ تک یہ ہی تکرار تو ہورہی تھی کل کے ڈرامے میں……..‘‘
’’ہاں بچے اب صرف ٹام اینڈ جیری تک محدود نہیں رہے ہیں……..‘‘ آمنہ کی اس بات پر متفقہ ڈیکلریشن کے ساتھ اس بحث کا اختتام ہوگیا. اس ٹاک کا بھی وہی نتیجہ نکلنا تھا جو ٹی وی کے ٹاک شوز کا ہوتا ہے. بحث برائے بحث! مگر اسلم صاحب پوری رات اچھی طرح سو نہ سکے. آنکھ لگتی تو بھی مانسٹر خواب میں ڈراتا رہا……….
صبح اٹھے تو طبیعت بہت بوجھل تھی بہرحال آفس جانا بہت ضروری تھا اور اس سے پہلے کے کام بھی نبٹانے تھے. نیند بھری آنکھوں سے سارے کام ہورہے تھے! استری کرناہو یا پانی کی موٹر چلانا، ناشتہ تیار کرنا ہو یا مالی جمعدار اور اخبار اوردودھ والے کے لیے دروازے کھولنا! درمیان درمیان میں بچوں کو بستر سے نکلنے پر آمادہ بھی کرنا! سارا روٹین سارے کام بے دلی اور بدنظمی کا شکار تھے! کسی طرح بھی صبح کی ہشاشیت نہیں! اسلم صاحب آج اپنے گھر کے روز و شب کا بغور جائزہ لے رہے تھے. کتنے ہی کام اور چیزیں توجہ طلب نظر آئیں. دروازے کی چوکھٹوں میں لگی دیمک، اجڑا ہوا لان، کچن میں استعمال شدہ بوتلوں کا ڈھیر! فرج اور دیگر جگہوں پر فارمیسی (دوائیں جو نہ جانے کب سے ایکسپائر ہوچکی تھیں) گھر مرمت اور گاڑی سروس کی طلب گار نظر آئے. تنقیدی نظروں سے دیکھا تو لگا کہ بس فوری نوعیت کے کا م ہی نبٹائے جاتے ہیں………
بچے وین آنے سے محض دس منٹ پہلے ناشتے تک پہنچے بھی تو اس طرح کہ ایک ناشتہ لے کر کمپیوٹر ٹیبل پر بیٹھ گیا اور دوسری نے ٹی وی کھول لیا. چیخ چیخ کر یہ مرحلہ ختم ہوا اور بچے اسکول روانہ ہوئے. اب اگلا گھنٹہ دونوں چھوٹوں اور اسلم صاحب کی تیاری اور ایک ساتھ روانگی تھی. یہ بھی کچھ کم ہنگامہ خیز گھنٹہ نہیں ہوتا! بہرحال جب اسلم صاحب بچوں کو لے کر روانہ ہورہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ آمنہ بیگم ماسی کو کاموں کی بریفینگ دے رہی تھیں جس کے بعد انہوں نے ریلیکس ہونے کے لیے مارننگ شوز دیکھنے تھے.
آفس پہنچتے ہی انہوں نے عادل واسطی کی خدمت میں حاضری دی جو کسی اچنبھے سے کم نہ تھا. عادل واسطی نے ایک مسکراہٹ سے ان کا استقبال کیا جو ان کے سوال پر مزید گہری ہو گئی.
’’بھئی بچہ تو اسفنج کی طرح جذب کرتا ہے اپنے والدین کے معمولات کو…اور پانچ چھ سال کافی ہوتے ہیں انجذاب کے لیے… اب تو ریموٹ اسکے ہاتھ آنا ہی ہے چلانا اور پکڑنا جو سیکھ لیا ہے……..‘‘ باتوں میں طنز کی آمیزش نہ تھی مگر جب نشتر زخم پر لگتا ہے تو تکلیف تو ہوتی ہے اسلم صاحب چپ چاپ سنتے رہے حل جو معلوم کرنا تھا جن سے نبٹنے کا!
’’بھئی آپ کو ڈرائیونگ آتی ہے تو آپ ہر وقت تو نہیں کرتے رہتے نا؟ ہر چیز کا متعین وقت اور مقام ہوتا ہے بقدر ضرورت! جو چیز پوری زندگی پر حاوی ہونے لگے اسے کنٹرول میں لانا پڑتا ہے میاں!‘‘
اسلم صاحب کو حیرت ہورہی تھی کہ مسئلے کا حل خود ان کے پاس ہے ان کو خیال کیوں نہ آیا؟ مگر پھر اسی لمحے ان کو اپنے ابا کے دوست صوفی صاحب یاد آئے جن کا قول تھا ’’…اپنے بچوں کو ٹی وی کی ٹی بی سے بچائیے… ‘‘ اور جن سے ابا کی ہر ملاقات کے بعد بچوں پر پابندیاں مزید بڑھ جاتی تھیں جو ان میں منفی ردعمل پیدا کرنے کا باعث بنتی تھیں اس معاملے میں….
اپنے اس خدشے کا اظہار جب عادل واسطی سے کیا تو وہ بول پڑے ’’میاں! اگر تمہیں اس پا بندی کے منفی اثرات پتہ ہیں تو تم تو زیا دہ بہتر حکمت عملی طے کرسکتے ہو مگر ایک دلچسپ پہلو بھی ہے‘‘ ’’…..کیا ….‘‘ اسلم صاحب کا پورا جسم سوالیہ نشان بن چکا تھا! ڈراموں اور فلموں کی کثرت نے سوچ کا زاویہ ہی ایسا بنادیا ہے کہ جب تک لفظ دلچسپی نہ آئے مزہ ہی نہیں آتا!
’’بھئی جو کچھ ٹی وی کمپیوٹر میں ہے وہ سب کتابوں سے ہی تو اخذ کیا جاتا ہے نا! ایک کتاب اٹھاؤ اسے پڑھو، سمجھو اور بچوں تک منتقل کرو زندہ معلومات ان کی دلچسپی اور جذبات کے لحاظ سے! جتنا وہ جذ ب کرسکتے ہیں انہیں اتنا ہی دو! اسکینڈلزاور ہوا ہوجا نے والے ایشوز کے بجائے اپنی تاریخ اور اپنا جغرافیہ سمجھاؤ! یہ کام صرف اسکول پر مت چھوڑو! والدین تو پل ہوتے ہیں جن کے ذریعے بچے مستقبل کا راستہ دیکھتے ہیں! انہیں خلا میں معلق ہونے سے روکو! اور اطلاعاتی بدھضمی اور دھماکے سے بچاؤ میرے دوست!‘‘ صوفی صاحب پھر سامنے آکھڑے ہوئے.
’’مگر نہیں! اباجان کی نسل کے سامنے تو یہ جن اچانک سے نمودار ہوا تھا لہذا اس کے تدارک کا کوئی سامان نہ تھا ان کے سامنے! کوئی تجربہ نہ تھا! میرے لیے تو خود اپنا تجربہ ہی کا فی ہے……‘‘
’’اور ہاں! شکر کرو کہ تمہارے بچے ابھی تمہاری باتیں سن رہے ہیں اور مان سکتے ہیں…….‘‘ عادل واسطی نے اسلم کو سوچتے پایا تو ضرب لگائی ایک خوشگوار پہلو کی طرف اشارہ کرکے اور اسلم صاحب ان کے پاس سے سرہلاتے ہوئے اٹھے ’’اب اس بلا کا توڑ آگیا ہے میرے پاس!……..‘‘
جب وہ گھر پہنچے تو سب کچھ معمول کے مطابق تھا کچھ بھی نہ بدلا تھا. ہاں البتہ اسلم صاحب کو ڈرائنگ روم کی دیواروں کا ناپ لیتے دیکھ کر سب ضرور چونکے تھے. آمنہ بیگم نے خوش ہو کر سوچا کہ چلو نیا فرنیچر آرہا ہے! اسلم صاحب بچوں کو اپنے اندر دلچسپی لیتے دیکھ کر سوچ رہے تھے
’’بچے میری دلچسپی کے اردگرد ہی گھومتے ہیں! ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا عادل!‘‘
بچے باپ کی خلاف معمول سرگرمی پر اچھل رہے تھے ا ور اسلم صاحب کتابوں کی الماری کا آرڈر دینے جارہے تھے. یہ کہتے ہوئے
’’ہاں بس بوتل کے جن کا حجم کم کرنا ہوگا کہ وہ واپس بوتل میں چلا جائے! ویری ایزی سلو شن!‘‘…
اسلام علیکم
بلکل صحیح نقشہ کھینچا ،ایسا ہی ہوتا ہے آج کل اور ہوش مند ماں باپ ایسے ہی پریشان ہیں
actually parents are responsible for this chaos. Specially minor kids( less than 12) are under the elder’s set up of life. If parents and elders change their life style there would be a change scenario . ,because they are role model of minors.
Assalamoalykum
yes i agree with you sister, owr man baap ki preshani sy meri yehi murad thi k unko ab pta chal rha hay k ye bachy jo kuch produce kr rhy hain ye unka apna hi boya hoa hay owr wo apny apko bdalny ki koshsish main lgy hain is sy pehly k pani sar sy ooncha ho jaiy. owr wo poory muashry ki norms sy lRny ky liyay tayyar ho rhy hain k unko wo sab nhi krny dyna apny bachon ko jo doosron ky bachy kr rhy hain owr phir apny bachon ki cheekho pukra ka jwab dyna hay k ham tumko baqi logon ki trah factory ..produce nhi bnana chaty aik jaisa, bulke tum hamary designer kids ho, sab sy mukhtalif owr anokhy inshaALLAH
insha’Allah! if parents, teachers and society are joined hand may defeat this monestar ,which is disturbing their lives