اسلامی دنیا سے مسلسل ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آرہے ہیں تیونس کے بعد تازہ جھونکا شمالی افریقہ کے اسلامی ملک مراکش سے آیاہے جہاں اسلامی جماعت نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے. اسلامی دنیا میں اخوان المسلمون مصرکے حسن البنا شہیدؒ اور جماعت اسلامی پاکستان کے مولانا مودودی ؒ کے اسلام کی نشاۃ الثانیہ کے لیے لگائے گئے پودے کا پھل آنا شروع ہوگیا ہے. حسن البنا ؒ کو تو مصرکے فرعونوں نے قاہرہ کی ایک مصروف شاہراہ پر شہید کیا گیا اور مولانا مودودی ؒ بھی اسی جرم کی پاداش میں پھانسی گھاٹ سے ہوآئے. ان دونوں کی اسلام کے لیے کی گئیں خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گیں.
شمالی افریقہ کے مغرب میں واقع اہم اسلامی ملک جس کا عربی نام المملكة المغربي یعنی مغربی سلطنت ہے۔ اسے مراکش یا مراکواس کے سابق دارالحکومت مراکش کی وجہ سے کہا جاتا ہے جسے یوسف بن تاشفین نے آباد کیا تھا۔ اس کادارالحکو مت رباط ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں بنو امیہ نے اسے فتح کرکے اسلامی سلطنت میں شامل کیا۔ یہ اسلامی ملک 1956 میں فرانس سے آزاد ہوا تھا.
مراکش کی موجودہ آبادی 32 ملین ہے اور رقبہ 710850 مربع کلومیٹر ہے. تقریباً آدھی آبادی شہری اور آدھی دیہی علاقوں میں آباد ہے. مسلسل قحط سالی کی وجہ سے زراعت میں کمی کا رجحان ہے. ملک میں تعلیم ضروری ہے موجودہ حکومت ایک قسم کی دستوری بادشاہت ہے۔ اصل حاکم بادشاہ محمد ششم ہیں جو1999 سے تخت نشین ہیں۔ ان کا تعلق علوی خاندان سے ہے۔
ویسے تو قانون سازی کے لیے عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل پارلمنٹ موجود ہے لیکن بادشاہ کے پاس پارلمنٹ کو برطرف کرنے کے ساتھ ساتھ پارلمنٹ سے بالا قانون سازی کے اختیارات بھی حاصل ہیں۔ اب تک ہونے والے انتخابات میں عوامی خواہشات کے برعکس شاہ کے منظور نظر کٹھ پتلی انتظامیہ ہی برسراقتدار آتی رہی ہے جس نے شاہ کی حمایت سے سکیولر مغربی اقدار کے فروغ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اسلامی بیداری کی ہر کوشش کو جبر و استبداد سے کچلنے کی کوشش کی ہے۔
مراکش کی یونیورسٹیز میں اسلام پسند طلبہ نے 1990 کے عشرے میں قوت حاصل کی اور اپنے آپ کو منظم کرنا شروع کیا جس کے نتیجے میں اہل اقتدار کے سروں میں خطرے کی گھنٹی بجنی شروع ہوئی۔ انہوں نے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ملک کی 8 یونیورسٹیوں کے ریکٹرز کو تبدیل کرکے شاہ کے وفاداروں کو سکیولر اور بے دین مغربی اقدار کے تحفظ کے لیے لگادیا گیا۔ سرکردہ نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا اور تحریک کے سربارہ عبدالسلام یاسین کو برسوں گھر میں نظر بند رکھا گیا۔
حالیہ عرب انقلاب اور مراکش میں عوامی مظاہروں کے بعد بادشاہ نے پارلمنٹ کو مزید اختیارات تفویض کرنے اور مزید سیاسی آزادیوں کا اعلان کیا۔ جس کے تنیجے میں اسلامی جماعتوں کے کام کے لیے حالات سازگار ہوئے۔ عوامی بے چینی اور مظاہروں کے پیش نظر انتظامیہ نے نئے ہونے والے انتخابات میں اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی جس کے نتیجے میں اسلامی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (پی جے ڈی) نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے سکیولرسٹوں کو ہزیمت سے دوچار کیا۔
جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے مراکش میں 395 نشستوں کی اسمبلی میں 80 نشستیں حاصل کر کے پہلے نمبر پر آگئی ہے. مراکش کے بادشاہ شال محمد ششم نے پہلی بار اسلامی جماعت کے قائد عبداللہ بین کی رین کو وزیراعظم نامزد کردیا ہے جنہوں نے احتجاجی مظاہروں کے بعد ہونے والے تاریخی انتخاب میں کامیابی حاصل کی ہے. جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے سربراہ عبداللہ بین کی رین نے شاہ سے ملاقات کے بعد اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے. جسٹس اینڈ ڈدیلپمنٹ پارٹی نے عوام سے غربت میں کمی اور اجرت میں 50 فی صد اضافے کا وعدہ کیا ہے. دوسری پارٹیوں میں آزاد استقلال پارٹی نے 60 ،لبرل2اور سوشلسٹ یونین آف پاپولر فورسز نے 39 سیٹیں حاصل کی ہیں. جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے سربراہ عبداللہ نے دیگر جماعتوں کو بھ حکومت میں شامل ہونے کی پیشکس کی ہے.
یہ نوشتہ دیوار ہے ان قوتوں کے لیے جو اپنے بیرونی آقائوں کے اشارے پر اسلامی معاشروں کو پراگندہ کرنا چاہتے ہیں کہ جب کبھی کسی ملک میں آزادانہ اور شفاف انتخابات ہوں گے تو کامیابی اسلامی جماعتوں کا ہی مقدر ٹھرے گی۔ اسلامی معاشرے میں اسلام کے علاوہ کوئی اور نظام نہیں نافذ ہوسکتا کہ اس کی وجہ عوام کا اسلام سے محبت اور لگائو ہے. تیونس، مراکش اور مصرکے اندر عوام جو کامیاب ہوئے ہیں اس کی وجہ مغرب کے سیکولر نظام حکومت، بادشاہت اور ڈکٹیٹروں سے نفرت ہے۔
یہ نوشتہ دیوار ہے ان استعماری اور طاغوطی طاقتوں کے لیے بھی جو اپنے صلیبی صیہونی مفادات کے حصول کے لیے اسلامی دنیا میں اپنے منظور نظر لوگوں کی حکمرانی کو مضبوط بناتے ہیں جو اپنے اقتدار کے عوض عاغوت کے مفادات کے لیے اپنے عوام کی خواہشات و مفادات کو فراموش کردیتے ہیں کہ اب پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک مٰں برسراقتدار یہ کٹھ پتلی حکمران عوامی امنگوں اور خواہشات کا گلہ نہیں گھونٹ سکیں گے. ساتھ ہی اسلام پسندوں کے لیے بھی کڑے امتحان کا وقت ہے کہ وہ بدامنی، کرپشن، مہنگائی اور خراب گورننس کے چیلنجز سے کیسے نبرد آزما ہوکر عوام کو انکا حق دیتے ہیں.
شايد اسی لئے کسی نے کہا تھا ” اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد ”
ميں پاکستان ميں جماعتِ اسلامی کو وہ نہيں پاتا جو مودودی صاحب اور مياں طفيل صاحب کے زمانہ ميں تھی ۔ اس کی وجہ ميری غلط سوچ ہے يا زمانہ آگے نکل گيا اور ميں وہيں کھڑا ہوں ؟