’’دو بیویوں کو بیک وقت خوش رکھنا ناممکنات میں سے ہے !………‘‘
معزز قا رئین یہ ہمارا عنوان ضرور ہے مگر مو ضوع ہر گز نہیں!! یہ تو دراصل حسین حقانی کی ڈا ئری کے ایک ورق کی ایک سرخی ہے جو انہوں نے بحیثیت صدر انجمن طلباء ، جامعہ کراچی ( یہ ایک ایسا عہدہ ہے جس سے پچھلے پچیس سال کے طالبعلم تو ناواقف ہی ہو ں گے !!جی ہاں ! ۱۹۸۴ء اور اس سے قبل کے طلباء اس عہد اور عہدے دونوں کے امین ہیں جب وہ اپنے وو ٹ کے ذریعے صدر بلکہ پو ری کا بینہ کا انتخاب کر کے عملی زندگی کے لیے سیاسی شعور حا صل کر تے تھے۔ اس ادارے کے قتل نے گو یا وہ شاخ ہی کاٹ دی جس پر سیاست کا آ شیانہ نمو پاتا تھا، وہ کھیت ہی اجاڑ دیاجس میں سیاست کی نرسری قا ئم تھی )،کے سالانہ مجلہ (یہ ایک اور متروک چیز جوطلبا کو ادب اور صحا فت کے رموز طے کر واتی تھی!) میں اپنی ڈا ئری میں لکھا تھا ( اب ٹو ئٹر پر لکھی جا تی ہے).
یادوں کا معاملہ بھی عجیب ہے ! ایک لڑی اٹھاؤ تو ساری مو تیاں جھلملا اٹھتی ہیں ! حسین حقانی کے استعفٰی سے جو پٹاری کھلی وہ ہمیں اپنے ماضی میں لے گئی۔ یادش بخیر ! ہم یو نیورسٹی کا طالبعلم نہ ہو تے ہوئے بھی( جا معہ میں رہا ئش پذیر ہو نے کے باعث ) اس کی سر گر میوں سے کما حقہ لطف اندوز ہو تے تھے۔ اس میں ہفتہ طلباء سر فہرست تھا۔اس کے علاوہ انتخابی جلسے تفریح اور دلچسپی کا بہترین ذریعہ ہو تے تھے ۔ اس وقت الیکٹرانک اور ڈیجیٹل دلچسپیاں تو ہوتی نہیں تھیں ۔ لے دے کہ ایک چینل تھا ۔اس کے بھی مخصوص گھنٹے تھے۔ یوں بہت سا فارغ وقت بآسا نی دستیاب تھا جس سے آج کی نسل ناآشنا ہے.
ایسے ہی ایک پروگرام کا ذکر ہے ہم کسی انتخابی جلسے میں تقاریر اور دلچسپ ہوٹنگ سے لطف اندوز ہونے کو پہنچے ہوئے تھے۔ پنڈال تو سویرے سے ہی جامعہ کے با قاعدہ طلباء اور طالبات سے بھرچکا تھا. ہمیں اسٹیج کی سیڑھیوں کے پاس جگہ ملی۔ خوب زبردست تقریریں ہوئیں اور اس مضمون کے آغاز میں لکھا گیا جملہ حسین حقانی کی تقریر کا حصہ تھا جو انہوں نے شاید اس حوالے سے کہا تھا کہ جو انہیں تعلیم اور سیاست میں توازن رکھنا دو بیویوں میں عدل رکھنے کے مترادف لگ رہاتھا۔ اس وقت نوعمری میں یہ تشبیہ بہت نامعقول سی لگی تھی مگر اب احساس ہو تا ہے کہ حسین حقانی کتنے دوراندیش اور فہم و فراست سے مالامال تھے۔ ( ان کی بیویوں کی تعداد سے تو ہم لا علم ہیں مگر کم ازکم ایک تو ضرور ہیں جوبالکل اسی طرح سا منے آ ئی ہیں جیسے ہمارے خطے میں بلکہ دنیا بھر کی سیاست میں شوہر کی assasination یا معزول ہونے کے بعد جلوہ افروز ہو تی ہیں ورنہ تو درپر دہ تو حکومت کر ہی رہی ہو تی ہیں ).
جلسہ ختم ہوتے ہی ذمہ داران اترنا شروع ہوئے۔ ہم چونکہ وہیں براجمان تھے لہذا فورآ اپنی آٹوگراف بک آگے بڑھادی ( یہ بھی اس زمانے کا کلچر تھا کہ بچے اور نوجوان جس سے متاثر ہوتے اس کاآ ٹوگراف ضرور اپنے پاس محفوظ کرلیتے تھے۔ کباڑیوں کا شکریہ جو ہماری ان بے وقوفیوں کا ریکارڈ دستیاب نہیں ہے ورنہ اپنے آ پ سے کتنی شرمندگی محسوس ہوتی! بونوں کو قدآور اور پتنگوں کو شاہین بناتی ہوئی وہ کتاب ہمارے لیے کتنے پچھتاوے کا سامان پیدا کردیتی………).
ہاں تو بات ہورہی تھی حسین حقا نی کی جن کی پرمغز گفتگو اس کے بعد براہ راست سننے کو نہ ملی ہاں البتہ وہ خود خبروں میں ضرور نمایا ں رہے. تعلیم کے بعد سول سروس اور پھر سیاسی مشاورت! سری لنکا کی سفارت تک تو وہ اپنی اسی سمت کی طرف محو سفر رہے جس سے آگاہ و آشنا تھے مگر اس کے بعد ہوا کا رخ بدلتے ہی اپنا سیاسی قبلہ 180 کے زاویے سے تبدیل کرکے پیپلزپارٹی کے ترجمان بن بیٹھے! ان کی پھرتی کا تو قائل ہونا پڑتا ہے جسے وقت نے ثابت کردیا مگر بہت تیز چلنے والے، بہت آ گے کا دیکھنے والے کبھی کبھی سامنے کی چیز کو فوکس نہیں کرپاتے اور منہ کے بل گر پڑتے ہیں جیسا کہ آج ہوا جب اڑتے اڑتے اچانک زمین پر آ گرے.
آنکھ کھول کر دیکھا تو زمین پر تھے سخت و بنجر زمین! جی ہاں! یہ بھی ان ہی کے الفاظ ہیں جب تقریبآ چار سال پہلے ان کو بڑے عرصے بعد ٹی وی پر دیکھا اور سنا تو موصوف فرما رہے تھے’’……..یہ سب بکواس ہے کہ امریکہ ہماری زمینوں پر قبضہ کر نا چاہتاہے. ہماری زمینیں تو امید اور نمو کھو بیٹھی ہیں! بیکار ناقابل استعمال ہوچکی ہیں! امریکہ کی تو نئی زرخیز زمینیں ہیں وہ ان کے چکر میں کیوں پڑے گا………….‘‘ ہم سب انگشت بدنداں بدلے ہوئے لہجے کے یہ فرمودات سن رہے تھے اور کانوں میں ان کی پچھلی آ وازیں گونج رہی تھیں۔ بازگشت ہمیں حیرانگی پر مجبور کر رہی تھی۔ اس قدر قلب ماہیت!! برین واشنگ کا سنا تھا اس وقت محسوس کررہے تھے۔ اور پھر وہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر مقرر ہوئے۔ یہ عہدہ ہرگز ان کے قد سے بڑا نہیں تھا بلکہ وہ اس کے نہا یت اہل تھے مگرکیا ہو کہ وہ انہیں میرٹ پر نہیں ملا تھا بلکہ درون خانہ کچھ اور تھا!!!! ڈیل بھی بہت نا کافی لفظ ہے اس پر پیچ معاملے کو سمجھنے کے لیے!! سب نے ہی اس پر کچھ یوں تبصرہ کیا ’’………حسین حقانی امریکہ میں پا کستان کے سفیر نہیں بلکہ پاکستان میں امریکی سفیر یا ہا ئی کمشنر لگتے ہیں …..‘‘ پھر شاید انہوں نے اپنی پرانی بات کو کم از کم دل میں ضرور دہرایا ہو گا ’’…….دو بیویوں کا شوہر…….. دودھاری تلوار پر چلتا ہے … ‘‘
پھر ہر ہرمعاملے میں ان کا رویہ اس بات پرمہر ثبت کرتا رہا خواہ کیری لوگر بل ہو یا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی سزا! ………………………اور پھر معاملے کچھ اور ہوتے چلے گئے۔ وقت کی طنابیں ہاتھوں سے نکلتی گئیں اور پھر ان ہی کی ڈائری کا ایک ورق اورجو سال نو پر لکھی گئی تھی ’’……….ایک اور سال بیتا ….انسانی زندگی فنا سے اور قریب ہو گئی ……‘‘
لگتاہے کہ فرشتے بہت تیزی میں ہیں! حسین حقانی کی رفتار اور اندازوں سے کہیں زیا دہ! ثبوت سامنے آ نے کے بعد اس کو کس طرح سے ہینڈل کر نا ہے! دو بیویوں کے درمیان جھگڑے میں کس کا فریق بننا ہے …….‘‘ بر سوں پہلے کہی گئی ان کی با ت کس قدر درست تھی کہ دو بیویوں سے نمٹنا اور بیک وقت دونوں کو خوش رکھنا آسان نہیں!!
ميں سات دہائياں گذار چکنے کے بعد بھی نہيں سمجھ پايا کہ لوگ دوسری شادی کيوں کرتے ہيں ۔ رہی بات سياست کی تو اس ميں ہوشيار لوگ ايک سے زيادہ شادياں کرتے ہيں
آپ نے ياد دِلايا تو ہميں ياد آيا
وہ وقت کہ آشيانہ گل و گلزار تھا
ميں کالج اور يونيورسٹی سے 1962ء مين فارغ ہوا تھا ۔ وہ تقريری مقابلے وہ بيت بازی پھر وہ طلباء يونين سے لے کر ہر سوسائٹی کے انتخابات ۔ کيا رنگ ہوتے تھے جو بدقسمتی ہے کہ کسی عجائب گھر ميں بھی نہيں ملتے ۔يہ فطری عمل ہے کہ جسم کے کسی حصے ناسور پيدا ہو جائے تو کاٹ ديا جاتا ہے ۔ شجر کی ٹہنی پر اگر بيماری پڑ جائے تو وہ بھی کاٹ دی جاتی ہے ۔ 1969ء ميں تعليمی اداروں مين توڑ پھوڑ گھيراؤ جلاؤ کی سياست کی پنيری لگائی گئی جس کی 1972ء سے آبياری شروع ہوئی اور يہ ناسور چند سالوں ميں اپنا رنگ دکھانے لگا ۔ پھر شايد اسے کاٹے بغير کوئی چارہ نہ رہ گيا تھا ۔ اور اب تو پوری قوم ہی اس ناسور کا شکار ہوئی لگتی ہے ۔ کس کس کو کاٹا جائے
فارسی میں کہتے ہیں ناں تدبیر کندبندہ تقدیر زندخندہ۔
خاکم بہ خاک ہونا ہی اس چکر کا اختتام ہے