سقوط ڈھاکہ اور بنگلہ دیش کا قیام

سولہ دسمبر انیس سواکہترء کا دن پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے کی منظرکشی نے ہمارے جسد ملی کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں کو بھی دونیم کردیا. صرف چوبیس سال کے قلیل عرصے میں دو قومی نظریہ، مشترکہ جدوجہد اورتاریخ اور وراثت کے امین ایک دوسرے سے برسرپیکار ہوگئے. یہ منظر آج بھی تاریخ کے صفحوں سے جھانک کر ہمیں مضطرب کردیتا ہے.

سقوط ڈھاکہ ہماری قومی تاریخ کا انتہائی مشکل سوال ہے. اس سے صرف نظر ہماری اجتماعی دانش پر دھبہ ہے. اسی لیے ہم حال کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہے ہیں. قیام پاکستان نے ہندومت کی با لا دستی کے خوا ب کو ایک حسرت میں بدل دیا. لہذا دفاعی، معاشی ،علمی اثاثوں سے محرومی، فسادات، لاکھوں بیگناہوں کا قتل عام، ہجرت اور سازشیں اس کا مقدر بنا دی گئیں. تعصب اور جانبداری کی انتہا تھی کہ پاکستان کے دونوں حصوں کے درمیان کوئی راہ داری نہ تھی بلکہ سولہ سوکلومیٹر رقبے پر محیط ھندوستان حائل تھا جہاں سے زہریلا پروپیگنڈہ دن رات غلط فہمیوں کو پھیلا تا، افواہوں کو جنم دیتا اور حالات کو دھندلا بناتا.

حاجی شریعت کے دیس نے صدیوں تک انگریزی استعمار اور پھر ہندو استحصال کا شکار ہونے کے باوجود سیاسی شعور کا ثبوت دیا. مسلم لیگ پاکستان کی خالق جماعت ڈھا کہ میں وجود میں آئی، مگر فہم و فراست سے عاری حکمرانوں نے مسلمانان بنگال کو قومی دھارے سے کاٹ دیا. غربت، افلاس تو ملک کے دونوں حصوں میں یکساں تھا مگر احساس محرومی کو اجاگر کرنے اور مغربی پاکستان کو غاصب کے طور پر پیش کرنے میں ھندو لابی کارفرما تھی. پے در پے قحط اور سیلاب کے پیچھے قدرت کے ساتھ ساتھ، ہندوستانی دریا ؤں پر بند کی منصو بہ بندی کا نتیجہ تھے۔ تعلیمی اداروں میں موجود ھندو اساتذہ، نظریہ پاکستان کی نفی کرتے اور قوم کے اثاثے طلبہ میں اسلام دشمنی، عصبیت کا رنگ گہرا کر تے۔

عا قبت نااندیش قائدین نے بنگلہ زبان کی سرکاری حیثیت منسوخ کرکے طلبہ کو مشتعل اور محب وطن بنگالیوں کو مایوس کردیا. فوجی اور سیاسی طا لع آزماؤں کی ذاتی چپقلش نے ملک کا مستقبل داؤ پر لگادیا. متواتر مارشل لاء نے احساس محرومی کو دوآتشہ کردیا. مجیب الرحمان کا چھ نکاتی منشور ہو یا صوبائی خودمختاری کا مطالبہ، خدا اور خلق سے بے نیاز اقتدار پر قابضین نے کسی کو درخوءاعتنا نہ جانا (یہ روش آج بھی ہے!!) اگر یہ دونوں باتیں مذاکرات کی میز پر کی جا تیں توالمیہ کی شدت میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور آجاتی.

علیحدگی کی تحریک مسلح جدوجہد میں بدل گئی. عوامی لیگ کی اکثریت سے کامیا بی نے انتہاپسندی کی خلیج کو اور گہرا کردیا. انتخابات کے نتائج بھی قومی حمیت کو نہ جگاسکے. امن و امان کی بگڑتی صورت حال پر مذاکرات کے بجائے شرپسندوں کی سرکوبی کا نسخہ آزمایا گیا. یوں چنگاریوں کو ہوا دے کر قومی وحدت اور سالمیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا اور پھر ملت اسلامیہ کی آنکھ کا تارا پاکستان دولخت کردیا گیا.

ملت کفر کا مثالی اتحاد مسلمانوں کو لسانیت کے نام پر تہ تیغ ہوتا دیکھ کر آسودہ ہوا. امن، انصاف اور انسانیت کے نام پر کوئی بین الاقوامی ادارہ پاکستان کی طرف نہ بڑھا. اسرائیل، امریکہ اور ہندوستان اسلام کے نا م پر بننے والی ریاست کی مکمل شکست کے خواہاں تھے. پاکستان کے قیمتی اثاثے اجاڑ کر نشان عبرت بنادیے گئے. بیٹیاں بتول کی، کلکتہ کے بازاروں میں سجادی گئیں. یوں لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں پر پانی پھیر دیا گیا.

نوے ہزار فوجیوں کی ذلت آمیز قید سے بڑھ کر ستم یہ ہوا کہ ہم نے یہ المیہ قومی زندگی سے خارج کردیا. زندہ قومیں وہ ہوتی ہیں جو سانحات کو لوح دل پر اپنے لہو سے رقم کرتی ہیں. بلاشبہ ہمارے اہل دانش و بینش اپنا فرض ادا نہ کرسکے ورنہ کم از کم نو ہزار کتابیں تو وجود میں آجاتیں. نوسو حلقہ فکرونظر تو قا ئم ہوجاتے!!!

اے کاش مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کرنے کی منطق نہ بگھاری جاتی! اگر مغربی محاذ ( جہاں ایک گولی چلائے بغیر جنگ بندی ہوگئی ) پر طبل جنگ بجایا جاتا تو صورت حال کتنی مختلف رہتی اور…………..

ہماری سیاسی اور فوجی قیادت کا احتساب ان تاریخی لمحوں کی غلطی کا کفارہ تھے اور آج بھی واجب الادا ہیں!! ریاست کا دفاع صرف سپاہ کا کا م نہیں……! سا تھ ہی اہل دانش اٹھیں اور نسل نو کی آبیاری کریں، تا کہ آئندہ کسی کو مملکت کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جراءت نہ ہو اور ایک تابناک مستقبل کے سفر کا آغاز ہو!!!

فیس بک تبصرے

سقوط ڈھاکہ اور بنگلہ دیش کا قیام“ پر 6 تبصرے

  1. اپ كو اصل صورت حال معلوم نهي.
    Contact me on email : ashar_81970@yahoo.com
    For truth. اپ كا تبصره بلكل غلط هى

  2. ميں نے ذاتی تجربات پر مبنی ايک خلاصہ لکھ کر محفوظ کر ليا ہے ۔ ميرا خيال تھا کہ 16 دسمبر سے قبل شائع کروں ليکن جن اصحاب کی فرمائش پر لکھا تھا اُنہوں نے مطلع کيا کہ ميرا بلاگ اُن کے پاس کبھی کھُلتا ہے اور کبھی نہيں کھُلتا چنانچہ ويب ہوسٹنگ تبديل کی ہے اور اب يہ مضمون اگلے ہفتے نسے اِن شاء اللہ ہر 3 دن کے بعد شائع کيا جائے گا
    لگے ہاتھوں آپ بھی چيک کر ليجئے کہ اب ميرا بلاگ فوراً کھُلتا ہے کہ نہيں اور مجھے مطلع فرمايئے ۔ مشکور ہوں گا

  3. ’’بھارت سے ہمیں ہر قسم کی امداد ملتی تھی۔ ہتھیاربھی، اسلحہ بھی اور حفاظت بھی۔ ہم سات دوستوں نے مل کر بہت سے پاکستان نواز بنگالی اور فوجی قتل کیے لیکن سقوطِ ڈھاکا سے ایک دن پہلے ہم نے جو خون بہایا، آج بھی مجھے اس پر افسوس ہوتا ہے ۔لیکن ہماری کھوپڑیوں میں نفرت کی جو آگ بھر دی گئی تھی، ہمیں کچھ اور دکھائی نہیں دیتا تھا۔ پلٹن میدان میں جنرل نیاجی (نیازی) کا بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا منجر (منظر) ہم سب کا دل ٹھنڈا کرگیا۔‘‘ سعید بھائی اچانک خاموش ہوگئے اور کہنیاں کھڑکی کے سامنے ٹکا کر باہر سردی میں ٹھٹھرتی رات کو تکنے لگے۔ گہری خاموشی نے ہم دونوں کے درمیان تعلق کو ختم کرڈالا تھا۔ پھر وہ اچانک گھومے اور بھرائی آواز میں کہنے لگے: ’’اس خونریزی سے ہمیں کیا ملا؟ بھارت جیت گیا اور پاکستان و بنگلہ دیش ہار گئے۔

    http://urdudigest.pk/2011/12/pakistan-ka-khun-bhany-wala-ak-bangali-2/

    http://urdudigest.pk/2011/12/ye-kuratan-ye-fasly/

    http://urdudigest.pk/2011/12/16decamber1981mujahden-albadr/

  4. 👿

  5. why did this happen? no one knows exactly. But, i have read in a book by a buzurg of a very very high rank that, pakistan will unite again. he has seen this happening and he wants us to see that as well. He further stated that he has seen that Pakistan has not just reunited but has expanded, and india has broken. There are a few things which have been approved by our Prophet (PBUH) that nothing can harm Pakistan now geographically..

Leave a Reply