دسمبر کا مہینہ ہے اور دسمبر کے مہینے میں ہی ہم بابائے قوم قائد اعظم ؒ کا یوم پیدائش مناتے ہیں۔ جب ہم ان کا یوم پیدائش مناتے ہیں تو اس موقع پر تمام اربابِ حکومت، سیاسی لیڈران، سماجی کارکنان اور عوام سب قائد اعظمؒ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ،ان کے افکار و نظریات پر قائم رہنے کا عید کرتے ہیں اور قیام پاکستان کے مقاصد کو حاصل کرنے کا عزم کرتے ہیں۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے۔زندہ قومیں اسی طرح اپنے اسلاف،اپنے ہیروز کو یاد رکھتی ہیں اور ان کی قربانیوں،ان کی جدو جہد کو کبھی نہیں بھلاتی ہیں اور ان کی جدو جہد و قربانیوں کی داستانوں کو اپنی اگلی نسلوں تک منتقل کرتی ہیں ۔
دسمبر کے مہینے میں ہی ایک 16 دسمبر کی تاریخ بھی آتی ہے۔ وہ تاریخ جب قائد اعظمؒ کا پاکستان دو لخت ہوا،جب دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے دو ٹکڑے کردیئے گئے،جب ہمارا مشرقی بازو ہم سے جدا کردیا گیا، اور جب اندارا گاندھی نے یہ زہریلا جملہ کہا تھا کہ ’’ آج ہم نے دو قومی نظریئے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا‘‘ اور ’’ آج ہم نے مسلمانوں سے ایک ہزار سال کی غلامی کا بدلہ لے لیا‘‘ تدبیر کند بندہ ۔ تقدیر زن خندہ دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں تو کیا ڈوبتا پہلے انڈیا کو پڑوس میں ایک مسلم ریاست کا سامنا تھا اب دو مسلم ریاستیں ہیں۔ دو قومی نظریہ تو اس وقت ڈوبتا جب بنگالی بھائی پاکستان سے الگ ہوکر انڈیا سے مل جاتے ۔
1971 ء کے پر آشوب دور میں جب پاکستان آرمی پہلے خانہ جنگی اور پھر باقاعدہ جنگ میں مصروف تھی اس کو دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ چند بہت بڑی مشکلات کا سامنا تھا نمبر ایک بنگالی فوج اور پولیس کی بغاوت، اس بغاوت اور عدم تعاون کے باعث دیگر دو مسائل پیدا ہوئے وہ یہ کہ اول تو زبان کا مسئلہ کیوں کہ مغربی پاکستان سے جو سپاہی بھیجے جاتے وہ بنگالی زبان نہیں جانتے تھے اور دوسرا مسئلہ آب و ہوا اور جغرافیہ کا تھا ۔مشرقی پاکستان کی آب و ہوا مغربی پاکستان سے بہت مختلف ہے ،اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی فوج کو راستوں سے ناوقفیت کے باعث بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ ایسی صورتحال میں مشرقی پاکستان میں موجود اردو بولنے والے افراد( جن کو عرف عام میں بہاری کہا جاتا ) اور بنگالی بولنے والے محب وطن افراد نے پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ بہاریوں اور محب وطن بنگالیوں کے پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کو،اپنے وطن کو و لخت ہونے سے بچانے کی کوششوں کو ایک جرم ،ایک گالی بنادیا گیا۔
16دسمبر 1971 ء کو ڈھاکہ میں جب جنرل نیازی نے بھارتی فوج کے جنرل وجے سنگھ اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالے ،اور فوج نے باقاعدہ شکست قبول کرلی اس کے بعد وہاں بہاریوں اور محب وطن بنگالیوں ( البدر و الشمس رضا کار) کا قتل عام کیا گیا۔ پوری پوری آبادیوں،پوری پوری بستیوں کو ختم کردیا گیا، ماں باپ اور بھائیوں کے سامنے ان کی بیٹیوں ،بہنوں کی عصمتوں کو پامال کیا گیا،المیہ یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار ہندوؤں اور مسلمانوں نے ایک ساتھ مسلمانوں کا قتل عام اور خواتین کی عصمت دری کی ۔
رضا کار کا لفظ سنتے ہی ذہن میں ایک ایسی شخصیت کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے جو سراپا اخلاص ہو،جو دردمند دل رکھتا ہو،جو انسانیت اور وطن کی بے لوث خدمت کے لئے ہمہ وقت تیار ہو اور اسے کسی معاوضے کی تمنا نہیں ہو۔ دنیا بھر میں رضا کاروں کو عزت دی جاتی ہے۔ لیکن بنگلہ دیش میں رضا کار کا لفظ ایک گالی بن چکا ہے۔وہاں رضا کاروں سے مراد وہ محب وطن پاکستانی ہیں جنہوں نے پاکستانی فوج کا ساتھ دیا،جنہوں نے وطن عزیز کی خاطر دکھ جھیلے صرف اس لئے کہ وطن دو ٹکڑے نہ ہو،جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق رکھنے والے ان رضاکاروں کو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد چن چن کر قتل کیا گیا،چن چن کر اس لئے کہ یہ اردو بولنے والے نہ تھے بلکہ بنگالی ہی تھے اور بنگالیوں کی آبادیوں میں رہائش پذیر تھے، اس لئے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ان لوگوں کو چن چن کر قتل کیا گیا،البدر کے رضاکاروں کی گرفتاریوں پر باقاعدہ انعامات رکھے گئے،کئی رضاکار جن کو پولیس نے پاکستانی فوج کا ساتھ دینے کے ’’جرم‘‘ میں گرفتار کرلیا تھا ان کو تھانوں اور جیلوں سے نکال کر اذیتیں دیکر شہید کیا گیا۔ مشرقی پاکستان کی تاریخ سے تھوڑی بہت واقفیت رکھنے والے اور مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے میرے بزرگوں کو مولوی فرید کانام اور کام اچھی طرح یاد ہوگا، مولوی فریدایک سماجی و سیاسی رہنما اور غالباً پیشے کے لحاظ سے درس و تدریس سے وابستہ تھے،بنگلہ دیش بننے کے بعد مکتی باہنی کے غنڈوں نے پکڑ کر بے انتہا تشدد کیا، پاکستان سے محبت کے جرم میں اس بزرگ کے گلے میں اس کے شاگردوں کے سر کاٹ کر ان کے ہار بنا کر ڈالے گئے اور پھر ان کو بھی شہید کیا گیا۔کئی رضاکاروں کو شیخ مجیب کے بیٹے شیخ کمال نے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا۔
آج ہم نے تو ان محب وطن پاکستانیوں (بہاریوں) کو بھلا دیا ہے جو چالیس سال سے کیمپوں میں بدترین زندگی گزارنے کے باوجود پاکستان کو نہیں بھولے ہیں۔محصورین آج بھی وطن کی راہ دیکھ رہے ہیں،آج کیمپوں میں انکی تیسری نسل جوان ہورہی ہے، انہوں نے پاکستان سے محبت اپنی تیسری نسل کو منتقل کردی ہے لیکن بنگلہ دیش کی شہریت قبول نہیں کی ،وہ آج بھی ان کیمپوں میں پاکستان کا پرچم تھامے ہوئے ہیں۔ہر سال 16 دسمبر ان کے لئے دہرا عذاب لاتا ہے، پہلا عذاب روحانی اور ذہنی ہوتا ہے جب پورا بنگلہ دیش آزادی کا جشن مناتا ہے تو وہ لوگ کیمپوں میں سوگ مناتے ہیں اور 1971ء کے اذیت ناک واقعات ان کے ذہنوں میں تازہ ہوجاتے ہیں،دوسرا عذاب جسمانی ہوتا ہے جبکہ آزادی کے متوالے ان کیمپوں کا گھیراؤ کرتے ہیں،ان محب وطن بہاریوں کو گالیاں دی جاتی ہیں،ان کے کیمپوں پر پتھراؤ کے واقعات بھی پیش آتے ہیں اور بہت پہلے جنگ اخبار کے میگزین میں اس حوالے سے ایک فیچر شائع ہوا تھا جس میں ایک بزرگ نے بڑے کرب سے یہ کہا تھا کہ ’’ سولہ دسمبر کو ہم لوگ ان کے لئے حلا ل ہوجاتے ہیں‘‘ یعنی اس دن محصورین کو مارنا پیٹنا، عزت آبرو لوٹنا، قتل کردینا ان لوگوں کے نزدیک کوئی بڑی بات نہیں ہے۔( شائد اب ایسا نہ ہوتا ہو)
ہم نے تو قائد کے فرمودات کو بھلا دیا،محصورین بنگلہ دیش کو بھلا دیا،اور البدر و الشمس کے رضاکاروں کو بھلا دیا لیکن بنگلہ دیش پر حکمران عوامی لیگی ٹولے نے پاکستان سے محبت کا جرم نہیں بھلایا ہے، اور آج چالیس سال بعد وہاں کی عدالتوں میں جماعت اسلامی کے قائدین پر پاکستان کی حمایت کرنے پر جنگی جرائم کا مقدمہ کیا گیا ہے، جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے اکہتر سالہ امیر مطیع الرحمان نظامی ،جو کہ 1971ء میں اسلامی جمعیت طلبہ(اسلامی چھاترو شنگھو) ڈھاکہ کے ناظم تھے آج اس بوڑھے کو عدالتوں میں گھسیٹا جارہا ہے، صرف پاکستان سے محبت کے جرم میں ،اپنے وطن کو دولخت ہونے سے بچانے کے جرم،لسانیت اور قوم پرستی کے مقابلے میں اسلام پسندی کے جرم میں۔ یعنی پاکستان سے محبت اتنا بڑا ہے جو کبی معاف نہیں کیاجاسکتا۔
البدر اور الشمس ہماری تاریخ کا ایک درخشاں باب ہیں،اسی طرح محصورین بنگلہ دیش(بہاری) بھی ہمارے ہی وجود کا حصہ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مشکلات سہیں ، دکھ جھیلے، لیکن آج بھی پاکستان کا پرچم تھامے ہوئے ہیں۔وہ آج بھی اپنے وطن کی راہ تک رہے ہیں لیکن
لیکن وطن والوں کا تو معاملہ ہی کچھ اور ہے یہاں بہاریوں کو بوجھ اور البدر و الشمس کو غدار اور قاتل سمجھا جاتا ہے۔ پتا نہیں محصورین بنگلہ دیش کب وطن آئیں گے کیوں کہ ان کے نام پر سیاست کرنے والوں نے بھی ان کو بھلا دیا ہے اور پتا نہیں ہم لوگ کب البدر و الشمس کے شہداء کی قربانیوں کی قدر کریں گے۔
ان سب تصویروں سے زیادہ اہم وہ ہے جو پی ٹی وی کی ٹیم نے بنای تھی اور کہیں دستیاب نہیں شاید ان کے ریکارڈ میں کہیں موجود ہو اس فلم کو صرف اہم لوگ ہی دیکھ پاے اور انہی کے ذریعے اس کی اطلاع باہر آی- یہ فلم اسلم اظہر کی ٹیم نے بنای تھی-
اس ویڈیو میں ایک منظر اس طرح کا ہے کہ دور سے پاکستان کے جھنڈے کا چاند تارا دکھای دے رہا ہے جیسے جیسے کیمرہ اس زوم کرتا ہے تب پتہ چلتا ہے کہ یہ سینکڑوں بچوں کی لاشیں ہیں جنہیں اس ترتیب سے رکھا گیا ہے
بہت عمدہ پوسٹ ہے۔ کچھ تصویریں تو سلیم منصور خالد کی کتاب البدر میں دیکھی ہیں ۔اگر پاکستان کی جگہ کوئی اور ملک ہوتا تو اس موضوع پر کتابوں اور ریسرچ پیپرز کی بھرمار ہوتی ،کتنے ہی جنرلز کا کورٹ مارشل ہوتا، ذوالفقار علی بھٹو اور اس جیسے دوسرے لیڈروں کی سیاسی موت واقع ہوجاتی، مگر کیا کریں یہ پاکستان ہے جہاں کے لوگوں کو اللہ سبحانہ تعالیٰ کی رحمانیت کا امتحان لینے کا شوق ہے۔
jazakAllah Saleem bhai ! for such emotional and motivational article.! I wish soon two brothers meet together because similar ideology never dies. There is need of more writing on this subject,novels, dramas, films etc. we have to remind this tragedy of our history.
روزنامہ جنگ کراچی کی سولہ دسمبر کی اشاعت اسی حوالے سے ایک خبر بھی شائع ہوئی ہے جس کا لنک نیچے دیا جارہا ہے
http://e.jang.com.pk/12-16-2011/Karachi/pic.asp?picname=96.gif
I love Bungladesh brthr..But I’m Pakistani hmare pakistan me kabhi b kisi bungali ko yes mukam nhi diya gya jo aj ek pakistani ka bungladesh me hy…humne is pakistan ko india c hasil kya un hinduon c wo indian b hmare pakistan me rehty hen..pr humne kabhi b un k sath esa salook nhi kiya sab ekathy khaty pity or khelty hen…pr wahan esa kyn is zameen k name pe farak kiya ja raha hy sab c bari bat ap b musalman ho hum b yes sab duniya ek ALLAH PAK ki hy tu kyn dilon me itni nafrat yaa…I love bungladekh I love pakistan.