’’ …..سنو!……‘‘ پکارنے والی بچی نے اپنی پر جوش آ واز کو بلند ترین سطح پر لے جاکر کہا ’’…….اسکول کی آ ج چھٹی ہے !!!‘‘ بریکنگ نیوز کا نشہ ہمیشہ سے انسان کے ساتھ ہے ۔ ہاں موجودہ میڈیا نے اسے دو آ تشہ بنا دیا ہے ۔کچھ ایسی ہی فتح مندی بھرا لہجہ اس بچی کا تھا جس نے سب سے پہلے اس خبر کو عام کیا تھا۔
یہ ایک گر لز اسکول کا منظر تھا۔طالبات اس وقت اپنا بیگ ڈیسک پر رکھ کر اسمبلی کی گھنٹی کا انتظار کر رہی تھیں ۔ تھوڑی دیر بعد سارے بچو ں کو قطار بنا کر گیٹ کی طرف چلنے کو کہا گیا ۔ ’’….ہم کہیں جا رہے ہیں ….‘‘ ایک طالبہ نے سر گو شی کی اور اگلے لمحے سب کو یہ بات پتہ چل چکی تھی ۔کچھ کے خیال میں جب اسکول آ ہی چکے تو چھٹی کا کیا فائدہ ؟ جبکہ دیگر طالبات آؤ ٹنگ کے خیال سے بڑی مسرور تھیں ۔’’…زبر دست !!..‘‘
خیر سارے بچے اسکول سے نکل کر مارچ کر تے ہو ئے مرکزی سڑک پر رواں دواں ہو گئے۔ آگے ایک جگہ پہنچ کر سب بچوں کو دورویہ کھڑا کر دیا گیا اور ہا تھوں میں گلاب کی پتیاں دے دی گئیں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا مگر پھر ایک طرف سے ایک کھلی جیپ آ تی دکھا ئی دی توانہیں
اس پر سوار افرادپر پھول نچھاور کرنے کو کہا گیا ۔ بچوں نے خوشی خوشی استقبالیہ نعرے لگائے اور جیپ پر سوار افراد ہاتھ ہلاتے ہوئے مسکراتے ہوئے آ گے بڑ ھ گئے ۔سب ان کو پہچان رہے تھے۔یہ قذافی، یاسر عرفات اور بھٹو تھے!!!!
حیران نہ ہو ں قارئین ! یہ آ ج کی نہیں بلکہ تین عشرے قبل کی منظر کشی ہے جب لاہور میں منعقدہ اسلامی سربراہی کانفرنس کے بعد یہ رہنماء قائداعظم کے مزار پر فاتحہ پڑ ھ کر لوٹ رہے تھے۔آ ج بھی مزار قائد کے پاس سے گزرتے ہوئے وہ پر جو ش منظر آ نکھوں میں جھلملا اٹھتا ہے۔ ان دنوں کو یا د کر تے ہوئے وہ جذباتی ترانہ یاد آرہا ہے جو اسلامی سر براہی کانفرنس منعقد ہ لاہور میں زبان زد و عام ہوا تھا
ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں ، ہم مصطفوی ، مصطفوی ہیں !
……………………………………………………
امن کی دعوت کل عالم میں ، مسلک عام ہمارا
داغ شجاعت ،جورو ستم میں، یہ بھی کام ہمارا
حق آئے ، باطل مٹ جائے یہ پیغام ہمارا
اﷲ اکبر ! اﷲ اکبر !
( پورا ترانہ یو ٹیوب پر سناجا سکتا ہے جسے مہدی ظہیر صاحب نے اپنی ولولہ انگیز آواز میں ریکارڈ کروایا تھا او ر یہ وا حد ترانہ ان کی پہچان ہے )
اس وقت کے حکمرا نوں نے پو ری امہ کومہمیز کیا ہوا تھا ۔ حتٰی کہ ڈرا مائی طور پر پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کر کے شیخ مجیب الر حمان کو گلے لگا کر نہ جانے کتنے آنسوؤ ں کو بہنے پر مجبور کر دیا تھا۔ مگر شاید یہ سوچ کرکہ اتحاد ملت کی اس فیصلہ کن گھڑی میں اپنے ذاتی نقصانات کو بھلا دینا ہی بہتر ہو گا اس فیصلے سے چشم پوشی کی اور اس قاتل کا خیرمقدم کیا جو کچھ ہی عر صے بعد اپنے ہی لوگوں کے ہاتھ مارا گیا۔
اس تاریخی اجتماع کی یادیں آج بھی لوگوں کے دلوں میں محفوظ ہیں ۔ امت کے تمام حکمران ہاتھ میں ہاتھ ڈالے لا شر قیہ لا غربیہ کا نعرہ لگارہے ہیں اور عوام بھی اپنی محرو میاں اور پریشانیاں بھول کر ایک نئے خواب آنکھوں میں بسابیٹھے۔جو بچے اور نو جوا ن اتحاد امت کے سپنے اپنی آ نکھوں میں بسا رہے تھے وہ بہت جلد اسکی الٹ تعبیر دیکھ رہے تھے ۔ تھوڑی ہی دنوں بعد شاہ فیصل قتل ہو گئے۔
اور وہ بچے جنہوں نے ان تین حکمرانوں کو انتہائی قریب سے دیکھا تھا جن میں ہم بھی شا مل تھے مستقبل میں کچھ یو ں دیکھتے ہیں کہ بھٹو بہت جلد اپنے انجام سے دو چار ہو گئے مگر اس کے ساتھ جو آ غاز ہوا وہ آج تک پاکستانی عوام پر بلا کی طرح مسلط ہے ۔ بھٹو کی اولا دیں فنا فی الوجود ہو ئیں تو روحانی اولاد نے جینا دوبھر کر دیا اور اب ان کی اولادیں اس انتظار میں ہیں کہ حکمرانی سنبھالیں ۔
عرفات بھی کچھ عرصے بعد ہی اپنے موقف اور مقام دونوں سے ہٹ کر ایک مہرہ بن کر موت سے ہمکنار ہو گئے۔ ہاں البتہ قذافی نے ایک طویل اننگز کھیلی مگر قوم کی فلاح کے بجائے اپنے اور اپنی نسلوں کے لیے عیش کا سا مان کر تے رہے۔ قلابازیاں کھا تا ایک حکمران جو اپنے عوام کو جبر کی سنہری زنجیروں میں باندھ کر رکھتا تھا بالآ خر چالیس سال بعد اپنے انجام کو پہنچا مگر اسکے لیے کوئی آنکھ اشکبار نہ تھی.
امت کی بے بسی ختم ہو نے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ صدام حسین سے لے کر حسنی مبارک تک ایک لمبی لسٹ ہے حکمرا نوں کی جوامت کو تعمیر کا منصوبہ لے کر اٹھے مگر اپنے دائروں میں سمٹتے سمٹتے بس اپنی ذات تک محدود ہوئے۔ حتٰی کہ شاہ فیصل جیسا حکمران بھی ایک وا ضح سوچ رکھنے کے با وجود ایک چھوٹے سے دائرے میں قید ہو گئے یہ کہہ کر کہ اگر پٹرول کی بدولت میں نے دنیا بھر کے بہترین دماغ یہاں جمع کر کے امت کو تقویت دے دی تو میری قوم کو صحرا نشین ہو نا پڑے گا ؟یوں ذاتی اور قومی تشخص کی بحالی اور بھلائی نے مسلم امۃ کو یکجان نہ ہو نے دیا۔ اور اپنے اپنے ملکوں میں یہ حکمران منصب کے نام پر ، کبھی استثناء کے نام پر عوام کو اپنے جبڑوں کے شکنجہ میں دبائے رہتے ہیں ۔ بھٹو ہوں یا مجیب، قذا فی ہو ں یا صدام ، عرفات ہوں یا الطاف سب ہی تبدیلی اور بہتری کے دعویدار بن کر اٹھے اور عوام سے زندہ رہنے کا حق چھین کر لے گئے۔
موجودہ منظر نامہ پھر تبدیلی کی لہر دکھا رہا ہے ۔ خود ہمارے ملک میں بنیادی تبدیلی کے بجائے مختلف ضمنی ایشوز کے حوالے سے بڑی سر گر می دیکھی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں 25 ؍ دسمبر کو ایک جلسہ مزار قائد میں منعقد کیا جا رہا ہے جسے سونامی کا نام دیا جا رہا ہے۔ یہ نام تو تباہی کی علامت ہے ! جی ہاں بڑی بڑ ی پارٹیوں کے لیے تو ہے ہی جن سے لوگ تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں ۔
اس موقع پر یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ بات اگر لوگوں کو جمع کرنے اور فتح کر نے کی ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں! اس سے پہلے بے نظیر بھی کر چکی ہیں ، ایم کیو ایم بھی لوگوں سے ووٹ اور نوٹ دونوں لیتی رہی ہے ۔ شاندار کا لفظ بھی ان کے جلسوں کے لیے کم پڑ تا رہا ہے مگر ………
قائد اعظم کی سالگرہ کے دن ان کی فاتحہ خوا نی کے لیے آ نے وا لا ہر شخص گویا اس جلسے کا شریک سمجھا جا ئے گا۔ کیا پا لیسی ہے! میڈیا اور ٹیکنالوجی کے سحر سے میلہ لوٹنے کی کو شش!قا ئد اعظم کے نام پر سیاست کرنے وا لوں کو علم ہو کہ اس عظیم الشان لیڈر نے دو روپے کے موزے یہ کہہ کر لوٹا دیے تھے کہ ایک غریب قوم کے حکمرانوں کو ذاتی حساب میں بھی محتاط رہنا چاہئیے۔ ایسے حکمران کو رول ماڈل کہنے والے کو اپنے لائف اسٹا ئل پر ضرور نظر ڈالنی چا ہئیے ۔
ہمیں ان لوگوں پر افسوس آ رہا ہے جن کو تبدیلی کے نام پرجمع کیا جا رہا ہے کہ یہ مجمع ایک مایوسی میں بدلنے والا ہے اور یہ وہ وقت ہو گا جب یہ بت بھی اسی طرح گرایا جائے گا جیسے اس سے پہلے بڑے بڑے بت تہہ تیغ ہو چکے ہیں کیونکہ کہ کوئی تبدیلی پائیدار اور دیرپا نہیں ہو سکتی اگراس کی بنیاد اسلام نہ ہو۔ اگر وہ نظام قائم ہو جائے تو وہ سارے مسائل حل ہوجائیں گے جن کے نام پر لوگوں کو جمع کیا جا رہا ہے۔
غلطى هو گى اب دوباره پاكستان نهـى بناين گى