بے شک شکست ایک بڑا تلخ تجربہ ہوتا ہے لیکن زندہ قوموں کی تاریخ میں بارہا ایسا ہوا کہ ایک شکست ان کے لیے بڑی فتح کا پیش خیمہ بن گئی اور وہ قومیں پہلے سے زیادہ معزز اور مضبوط بن کر ابھریں۔ لیکن ہمارے یہاں شکست کی تلخی اس حد تک بڑھی کہ اہل وطن ان جانثاروں کو بھی بھول گئے جنہوں نے اپنی کڑیل اور بے داغ جوانیاں مکتی باہنی کے تخریب کاروں اور بھارتی فوجیوں کے مقابلے میں دفاع پاکستان کی خاطر قربان کریں اور اب تو یہ عالم ہے کہ 1971ء کے ان شہیدوں اور غازیوں کا نام تک پاکستان میں لینا گورا نہیں کیا جاتا۔ وہ لوگ بھی ہمارے ہی تھے۔ جو مشرقی پاکستان کے سبزہ زاروں اور دریائوں کے پانیوں کو اپنے لہو کی سوغات دے گئے۔ وہ نوجوان ہمارے جسد ملّی کا حصہ ہی تو تھے جنہوں ے بنگالی ہوتے ہوئے بنگلہ قوم پرستی کے بُت پر البدر کی صورت تیشہ چلایا اور قائداعظم کے متحدہ مشرقی و مغربی پاکستان کا سبز ہلالی پرچم اٹھایا، مگر ہمارے اندر احساس کی چنگاری اس طرح بجھ گئی کہ ہم ان غریب الوطن جوانوں، شہیدوں اور غازیوں کو یکسر بھول گئے یا بھلادیے گئے۔
طرفہ تماشہ یہ کہ جن موقع پرست سیاستدانوں اور بزدل بادہ مست جرنیلوں نے اس گھر کو آگ لگائی اور اس مملکت کو دولخت کردیا، جو جنوبی ایشیا میں امت کی امیدوں کا واحد مرکز تھی انکی شان میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ حیف!! اب وقت کے غدّار بھی رستم ٹھہرے اور جن کے لہو سے دو قومی نظریہ منور ہوگیا انہیں کوئی یاد نہیں کرتا۔
البدر کیا تھی؟ جماعت اسلامی و سید مودودی کے افکار و خیالات سے متاثر اسلامی جمعیت طلبہ (اسلامی چھاترو شنگھو) مشرقی پاکستان کی ایک ذیلی تنظیم جو مئی 1971 کے اواخر میں علیحدگی پسند مکتی باہنی اور مشرقی پاکستان کی سرحدوں پر یلغار میں مصروف بھارتی افواج کے مقابلے کے لیے قائم کی گئی۔
جماعت اسلامی نے اپنے ہی عوام کے خلاف کبھی کسی فوجی آپریشن کی حمایت نہیں کی۔ 1970 کے انتخابات کے بعد جماعت اسلامی ہی وہ پہلی تنظیم تھی جس نے ان انتخابات میں اپنی بدترین شکست کو کھلے دل سے تسلیم کیا اور اقتدار منتخب عوامی نمائندوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔
جنوری 1971 سے رفتہ رفتہ عوامی لیگ و پیپلز پارٹی اور برسراقتدار مارشل لاء حکومت کے درمیان اقتدار کی کشمکش عروج کو پہنچی اور ملکی اتحاد کی بنیادیں ہل گئیں۔ ملک آہستہ آہستہ خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ مشرقی پاکستان میں ایک مخصوص طبقے کی جانب سے بغاوت کے آچار حقیقت کا روپ دھارنے لگے۔ آخر کار یکم مارچ سے غیر بنگالیوں اور فعال محب وطن بنگالیوں کا قتل عام شروع ہوا۔ اتنظامیہ معطل ہوگئی یا بیشتر جگہوں پر تخریب کاروں سے مل گئی۔ شرپسند پوری طرح فضا پر چھاگئے۔ مارشل لاء شل ہوگیا۔ اس بارودی فضا میں سیاسی حل تلاش کرنے کے بجائے حکومت حماقتوں پر، پیپلز پارٹی شرارتوں پر اور عوامی لیگ بغاوت پر تل گئی۔
اس افسوسناک صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے اسلامی چھاتروشنگھو (اسلامی جمعیت طلبہ) مشرقی پاکستان کا اجلاس 10 مارچ 1971 کو طلب کیا گیا جس میں صوبے کی عمومی صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد تین ممکنہ راستوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے پر غور ہوا کہ اس وقت صرف یہ تین ہی راستے تھے
1- حالات کے رخ پر بہتے ہوئے کُھل کر علیحدگی پسندوں کا ساتھ دیا جائے۔
2- حالات کو اپنے رخ پر بہنے دیا جائے اور غیر جانبدار رہا جائے۔
3- حالات کا رخ موڑنے، پاکستان کی سالمیت اور مظلوم عوام کے تحفظ کے لیے میدان عمل میں اُتر کر اپنی ذمہ داری کو ادا کیا جائے۔
10 تا 14 مارچ تک جاری رہنے والے جمعیت کے صوبائی شوریٰ کے اجلاس میں طویل غور و خوض اور بحث و مباحثے کے بعد جمعیت نے تیسرے آپشن کو اپنانے اور اس ملک کو بچانے کے لیے عظیم الشان قربانیاں دینے کا فیصلہ کیا۔ جس کو بنانے کے لیے صرف 24 سال قبل ان کے آباء و اجداد نے قربانیاں دی تھیں۔ اسی اجلاس میں ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس فوری طلب کیا جائے اور منتخب نمائندوں کو اقتدار منتقل کیا جائے۔ (روزنامہ اتفاق ڈھاکہ 15 مارچ 1971)
اس فیصلے کے دو ماہ بعد تک البدر نامی تنظیم وجود میں نہیں آئی تھی۔ البدر اس وقت تشکیل دی گئی جب مشرقی پاکستان کی سرحدوں پر بھارت کی یلغار شروع ہوچکی تھی۔ اور پاکستانی فوج کی رجمنٹیں بغاوت پر اُتر آئی تھیں۔ اس صورت حال میں مشرقی پاکستان کی حفاظت کے لیے پاکستانی فوج کو قابل اعتماد اور محب وطن فورس کی ضرورت تھی۔ اسلامی چھاترو شنگھو کے اسی فیصلے کے نتیجے میں البدر کا قیام عمل میں آیا۔
میجر ریاض حسین البدر کی تاسیس کا احوال ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ دشمن تعداد میں بہت زیادہ تھا اور تخریبی عناصر بھی کچھ کم نہ تھے۔ ہمارے ذرائع معلومات نہ ہونے کے برابر اور ذرائع مواصلات غیر مربوط تھے۔ ہمارے جوان بنگلہ زبان اور بنگال کی طبعی فضا سے قطعی ناواقف تھے کیونکہ ہماری تربیت کے دوران کبھی اس صورت کے امکان پر سوچا بھی نہ گیا تھا۔ ان حالات میں دفاع وطن کا فریضہ انجام دینا بڑا مشکل ہوگیا تھا۔ ہمیں ایک مخلص اور قابل اعتماد بنگالی گروہ کی ضرورت تھی جو سالمیت پاکستان کے لیے ہمارے شانہ بشانہ کام کرسکتا ہو۔ ابتدائی ڈیڑھ ماہ میں ہمارا رضاکار فورس کا تجربہ ناکام ہوچکا تھا۔ تاہم میں نے دیکھا کہ میرے علاقے میں اسلامی چھاترو شنگھو کے بنگالی طلبہ بڑے اخلاص کے ساتھ دفاع راہنمائی اور حفظ راز کی ذمہ داری ادا کررہے ہیں۔ اس لیے میں نے ہائی کمان سے کوئی باقاعدہ اجازت لیے بغیر قدرے جھجھکتے ہوئے ان طلبہ کو الگ کیا۔ یہ تعداد میں 47 تھے اور سب اسلامی چھاترو شنگھو کے کارکن تھے۔ 16 مئی 1971 کو شیر پور ضلع میمن سنگھ کے مقام پر انہیں مختصر فوجی تربیت دینے کا آغاز کیا گیا۔ ان کارکنان کی محنت، لگن اور تکنیک کو سمجھنے میں کمال ذہانت کو دیکھ کر میں نے 21 مئی 1971 کی صبح ان سے خطاب کیا۔ تقریر کے دوران بے ساختہ میرے منہ سے یہ بات نکلی کہ آپ جیسے سیرت و کردار اور مجاہدانہ جذبہ رکھنے والے فرزندان اسلام کو “البدر” کے نام سے پکارا جانا چاہیے۔ (میجر ریاض حسین ملک سے سلیم منصور خالد کا انٹرویو 10 جون 1975).
دشمنان دین و ملت البدر پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ معصوم بنگالیوں کے قتل عام، نسل کشی اور لوٹ مار میں ملوث رہی ہے۔ ایسا کہنے والے وہ عناصر ہیں جنہیں جماعت اسلامی سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ البدر کا قیام 16 مئی 1971 کو عمل میں آیا۔ ستمبر 1971 کے اختتام تک مشرقی پاکستان کی فوجی کمان نے اس تنظیم کو پورے مشرقی پاکستان میں منظم کیا۔ 16 دسمبر 1971 کو افواج پاکستان نے ہتھیار ڈال دیے اور البدر تحلیل ہوگئی۔ یعنی اپنے قیام سے لیکر اختتام جنگ تک البدر کو کل 8 ماہ کی زندگی ملی۔
بقول جنرل نیازی کے ان رضاکاروں کو جدید اسلحے سے لیس نہیں کیا گیا تھا۔ کیونکہ ہمارے پاس ہتھیاروں کی کمی تھی۔ تربیت بھی صرف 7 تا 12 روز کی دی جاتی تھی۔ بعض رضاکاروں کو تو ہم نے بہ امر مجبوری بارہ بور کی شارٹ گنیں دی تھیں۔ جو اشیاء ہمارے پاس تھیں وہ یا تو مطلوبہ تعداد میں نہ تھیں یا فرسودہ ہوچکی تھیں۔ جبکہ دشمن کے تمام یونٹ حتی کے پولیس اور مکتی باہنی کے پاس بھی جدید ہتھیار اور ٹرانسپورٹ تھی۔ (انٹرویو، جنرل نیازی، قومی ڈائجسٹ جولائی 1978)
جو لوگ 1971ء کے دوران مشرقی پاکستان میں موجود تھے اور حالات و واقعات کے عینی شاہد ہیں کہ مشرقی پاکستان میں قتل عام اور لوٹ مار کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
پہلا دور یکم مارچ سے 25 مارچ پر محیط ہے۔ اس دوران عوامی لیگ کے زیر اثر بنگالی قوم پرستوں، ہندوئوں اور بھاشانی کے زیر قیادت کمیونسٹ مسلح ہوکر نکلے اور غیر مسلح اور پر امن اردو، پنجابی اور پشتو بولنے والوں اور متحدہ پاکستان پر یقین رکھنے والے بنگالیوں کا بے دردی سے قتل عام کیا۔ صرف بچیس روز میں ایک لاکھ سے زائد مظلوم و بے کس پاکستانیوں کو قتل کردیا گیا۔ البدر اس وقت تک قائم نہیں ہوئی تھی۔
ہلاکت خیزی کا دوسرا دور آرمی ایکشن آپریشن سرچ لائیٹ کی صورت میں 25 مارچ کی رات سے وسط اپریل تک پھیلا ہوا ہے۔ اس ایکشن کی کمان لیفٹننٹ جنرل ٹکا خان (بعد ازاں پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما، ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے قریبی ساتھی) نے کی۔ اس دوران مکتی باہنی اور عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے سرگرم لوگوں کو قتل کیا گیا اور مورخین کے مطابق عام بنگالی بھی اس کی زد میں آئے جس کے نتیجے میں فوج کے خلاف شدید رد عمل ظاہر ہوا۔ اس دوران بھی البدر وجود میں نہیں آئی تھی۔
اس کے بعد عملاً جنگ کا آغاز ہوا لیکن تاریخ شاہد ہے کہ دوران جنگ پاکستانی فوج، البدر، الشمس کے رضاکاروں اور محب وطن پاکستانیوں کا جانی نقصان زیادہ ہوا جبکہ دشمن کا نقصان نہ ہونے کے برابر تھا۔
مشرقی پاکستان میں تیسرا اور سب سے بھیانک قتل عام 16 دسمبر 1971 کے بعد بھارتی فوج کی نگرانی میں ہوا جس میں مکتی باہنی، ہندوئوں اور کمیونسٹوں نے کھل کر حصہ لیا۔ اس قتل عام اور وحشیانہ لوٹ مار کا نشانہ البدر، الشمس، جماعت اسلامی کے کارکنان، پاکستان جمہوری پارٹی اور مسلم لیگ کے ثابت قدم رہنما بنے۔ جبکہ غیر بنگالی مسلمان اس موقع پر بھی بری طرح مارے گئے۔
16 دسمبر 1971 البدر اور الشمس تحلیل ہوچکی تھی اور مکتی باہنی کے ہرکارے ان کے خون کے پیاسے ہورہے تھے۔ حالات و واقعات سے ثابت ہے کہ البدر پر قتل و غارت گری کا الزام عائد کرنا تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ اس طرح کے بے سروپا الزام پیپلز پارٹی سمیت سکیولر اور لادین طبقہ البدر اور جماعت اسلامی پر لگاتا رہا ہے۔ ان کی البدر دشمنی جماعت اسلامی سے نظریاتی اختلاف کی وجہ سے تھی اور اب بھی ہے۔ پیپلز پارٹی کے اس بغض و عناد کی طرح جنرل یحییٰ خان نے ہائی کورٹ میں داخل کردہ تحریری بیان میں اشارہ کیا تھا کہ:
مسٹر بھٹو نے ہمیشہ البدر اور الشمس کی پاکستان بچانے کی تحاریک کی مخالفت کی۔ کیونکہ ان کے خیال میں اگر یہ تحاریک قوت حاصل کرلیتیں تو مسٹر بھٹو کے اقتدار میں آنے کے امکانات ختم ہوجاتے۔ تحریک میں شامل لوگ انتہائی محب وطن تھے جو مسٹر بھٹو کو کسی طور گوارا نہ تھا۔ (حمود الرحمن کمیشن رپورٹ جلد اول ترجمہ اشفاق خان، سید فضل ہاشمی صفحہ نمبر 170)
سقوط مشرقی پاکستان کے آٹھ سال بعد جب میں اپنے ایک بنگالی دوست کے ہمراہ سائیکل رکشا پر ڈھاکہ یونیورسٹی اور ریس کورس گرائونڈ کی درمیانی شاہراہ سے گزررہا تھا تو اپنے رفیق سفر سے پوچھا:
آپ سے البدر میں شامل شہید دوستوں کے بارے میں تفصیل سے جاننا چاہوں گا”۔ اس سوال پر اُس کا ہشاش بشاش چہروہ اُداس ہوگیا، آنکھیں اشک آلُود ہوگئیں، ریس کورس کی جانب اُس نے درد بھری نظر ڈالی اور دھیرے دھیرے کہنے لگا:
اگر تم البدر کے شہیدوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہو تو یہ بتانے کی مجھ میں سکت نہیں۔۔۔ میں جب اس ظلم و استبداد کے بارے میں سوچتا ہوں، جس کا نشانہ وہ بنائے گئے تو میرا دل چھلنی ہوجاتا ہے اور روح لرز جاتی ہے۔ میں اس موضوع سے انصاف نہ کرسکوں گا اس لیے تم ریس کورس گرائونڈ اور ڈھاکہ یونیورسٹی کی خاموش دیواروں سے پوچھو، ان کی بے زبانی اس داستان رنج و الم کو بہتر انداز میں بیان کرسکے گی۔۔۔ میں تصور کرتا ہوں تو اپنے آنسو ضبط نہیں کرسکتا کہ اس سرزمین کا چپّہ چپّہ ہماری محبوب ہستیوں کے خون سے لہو رنگ ہے مگر دکھ تو یہ ہے کہ ہم اس المیے کا اظہار بھی نہیں کرسکتے۔ قوم ان قربانیوں کی معترف بھی نہیں اور امت مسلمہ نے اس کی قدر نہیں پہچانی۔ ہم گھر (بنگلہ دیش) میں اجنبی ہیں اور پاکستان میں غیر ملکی۔۔۔
اس کی آواز میں لمحوں کے جبر، قربانیوں کی ناقدری اور سکیولر سیاست کی چنگیزیت کے خلاف مجبوروں کا احتجاج پنہاں تھا۔ یہ آشوب تاریخ ہے کہ قوموں نے اپنے محسنوں کی ناقدری کی ہے۔ لیکن مسلمانوں میں ناقدری کی روایت بڑی پرانی اور دردناک ہے۔ جو قومیں اپنے محسنوں کو بھلادیتی ہیں، وہ کسی وقت بھی اپنی آزادی کی زندگی سے محروم ہوسکتی ہیں۔
نوٹ:- یہ تحریر پروفیسر سلیم منصور خالد کی کتاب ‘البدر’ اور ڈاکٹر فیاض عالم کی تحاریر کے اقتباسات پر مبنی ہے۔
Al Badar & Al shams were terrorist organizations who killed the innocent Bengali’s with Na Pak Army.For bangalis Mukti bahni are freedomk fighters
Dear Mr.
Kindly check this link.
facts about Albadr and alshams and BIHARIS with pics
http://www.qalamkarwan.com/2011/12/dhaka-fall-albadar-alshams.html
البدر اور الشمس پرجھوٹے الزامات لگانے والے مکتی باہنی اور بھارتی فوج کی جانب سے محب وطن پاکستانیوں کے قتل و غارت پر کیوں خاموش ہیں؟