’’ہدایت ہے اُن پرہیزگار لوگوں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں‘‘(البقرۃ ۲۔۳) یہ مومنین کے ایمان کی نشانی ہے کہ وہ اپنے رب پر بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ انسان اللہ پر اس کی تمام صفتوں کے ساتھ ایمان لائے،اس کے فرشتوں پر ایمان لائے جو اس نے نظام دنیا چلانے کے لیے پیدا کئے ہیں، ا س نے جو کتابیں اپنے پیغمبروں کے ذریعے اپنے بندوں پر نازل کیں اس پر ایمان لائے، اسکے رسولوں پر ایمان لائے جنہوں نے اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچایا، اچھی بُری تقدیر پر ایمان لائے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے، کیوں کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا، موت کے بعد جی اٹھنے پر ایمان کہ اس زندگی کے بعد دوسری زندگی ہے اور یوم آخرت پر ایمان لائے کہ موجودہ زندگی کا حساب کتاب دینا ہے اسی پر دائمی زندگی کا فیصلہ ہونا ہے کہ انسان اللہ کی جنت میں جائے گا یا دوزخ میں جائے گا۔
غیب پر ایمان:.غیب پر ایمان یعنی بغیر دیکھے اللہ پر ایمان لانا۔ دِل سے اللہ پر ایما ن. اللہ کی صفات پر ایمان لانا. زبان سے اقرار کے معنی ہیں کے انسان کی زبان سے حق کے علاوہ کوئی اور بات نہ نکلے اللہ پر ایمان کہ و ہ ر بّ ہے موجود ہے رزق دے رہا ہے. اس نے انسان کوتخلیق کیا. اس نے زندگی دی وہ موت دے گا وہ پھر زندہ کرے گا وہ حساب لے گا.
ملائکہ پر ایمان:. ملائکہ پر ایمان کہ اُن کا وجود ہے وہ کائنات کا نظام اللہ کے حکم سے چلا رہے ہیں جبرائیل ؑ پر ایما ن کہ وہ وحی کے کام پرمعمور ہیں۔ اسرافیل ؑ پر ایمان،کہ صور پھونکنے کا کام ان کے ذمہ ہے۔ عزرائیل ؑ پر ایمان کہ اللہ کے حکم سے انسانوں کی روح قبض کرتا ہے۔ میکائیل ؑ پرایمان کہ بارشوں کا اور رزق کاانتظام اس کے پاس ہے۔ اور لاتعداد فر شتوں پر ایمان جو اللہ کے حکم سے اس کائنات کا انتظام چلا رہے ہیں.
انسان بحیثیت خلیفہ:۔بحیثیت خلیفہ ایمان، اس بات پر کہ اس نے انسان کو خلیفہ بنایا کہ وہ اُس کے بتائے ہوئے راستے پر چلے اور دوسروں کو بھی اس راستے پر چلانے کی پیہیم کوشش کرتا رہے۔ اس نے انسان کو دنیا میں کا م کرنے کی مہلت دی جو اسی کو معلوم ہے کتنی مدت کس انسان کو اس دنیا میں کام کرنا ہے. اللہ نے اس دنیا کے قائم رہنے کا ایک وقت مقررکیا جو اللہ کو معلوم ہے کہ اس کائنات کو کتنی مدت قائم رہنا ہے اور کب فنا ہونا ہے۔ اس نے انسان کے لئے دنیا کو بنایایہ دنیا انسان کے مصرف کے لیے ہے اور انسان اللہ کے لیے ہے.
زیست کا انتظام:. اس نے انسان کے زندہ رہنے کے لیے زیست کے ساما ن مہیاکئے یہ زمین، پانی، آسما ن ،ہوا،رات،دن،گرمی،سردی ،بارش، بادل، کھیت، کھلیان، غلے، پھل پھول وغیرہ سب انسان کی زیست کے سامان ہیں۔جن کو اللہ پیدا کرتا ہے اللہ کی کمال مہربانی ہے کہ یہ نعمت کافر اور مسلمان دونوں کے لیے ہے.
ہدایت کا انتظام:. اس نے ہدایت کے لئے رسول بھیجے جن کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزارہے اس نے نیکی اور بدی کے راستے بتائے قرآن شریف نیکی اور بدی کے راستوں کی نشان دہی سے بھرا پڑا ہے۔ ہے کوئی جو اس سے فائدہ اُٹھائے؟انسان کو حیات دینے سے پہلے ان کی روحوں کو پیدا کر کے ان سے عہد لیا ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں تمام روحوں نے کیا آپ ہمارے رب ہیں ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں‘‘( الاعراف ۱۷۱۔۱۷۲)حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا تم یعنی لوگ مجھے اپنی زبان پر کنٹرول کی ضمانت دیں، میں انہیں جنتّ کی ضمانت دیتا ہوں یعنی نیک اعمال کے ساتھ زبان پر کنٹرول۔عمل سے ثبوت یعنی انسان اللہ کا بندہ بن کے رہے اور اس کا عمل نیک بندوں کی طرح ہو نہ کہ وہ بُرے عمل کرتا رہے اور پھر بھی کہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں.
حساب کتاب:. اس نے قیامت کے روز حساب کتاب کا نظام قائم کیا دو فرشتے ہر انسان کے ساتھ لگا دیے وہ ہر انسان کا حساب کتاب لکھ رہے ہیں پھر قیامت کے دن انسان کے تمام اجزا اس بات کی گوا ہی دیں گے کہ اس انسان نے کیا گناہ کیےٗ کیا نیکیاں کیں جو قیامت کے دن کھول کے رکھ دی جائیں گی.
جنّت:. اس نے نیک بندوں کے لئے جنّت بنائی۔ اس دنیا میں اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے والوں کو اپنی جنتّ میں داخل کرے گا۔جس کی وسعتیں زمین اور آسمان تک ہیں وہاں پانی کی نہریں بہہ رہی ہونگی، وہاں دودھ اور شہد کی نہریں ہونگی، وہاں فردوس کے بالا خانے ہوں گے، وہاں دنیا جہاں کی نعمتیں ہوں گی، وہاں اطلس ودیبا کا لباس ملے گا، وہاں کوئی مشقت نہیں کرنی پڑے گی، وہاں انسان جو چاہے گا اسے ملے گا، وہاں وہ شرابِ ملے گی جس میں کافور کی آمیزش ہو گی جس میں نشہ نہیں ہو گا. وہاں
حوریں ملیں گی. وہاں موت نہیں آئے گی وہاں انسان ہمیشہ زندہ رہے گا۔ انسان جس چیز کا بھی تصور کر سکتا ہے وہاں وہ ملے گی۔ سب سے بڑی بات کہ وہاں انسان کا رب انسان سے راضی ہو گا جو سب سے بڑی کامیابی ہے۔
دوزخ:. اس نے اس دنیا میں بُرے کام کرنے والوں اور کافروں کے لیے دوزخ بنائی جس میں وہ اُن کو ڈالے گا جس کا ایدھن پتھر اور انسان ہو گے دوزخ میں ڈالے جانے والے ہمیشہ اُسی میں رہیں گے اس میں آگ ہو گی جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہو نگے. زقوم کاد رخت دوزخیوں کاکھانا ہو گازخموں کی دھوون ان کو پینے کے لیے ملے گی۔ معافی کے دروازے بند ہو جائیں گے ان کی سزا میں کمی نہیں کی جائے گی۔
کامیابی:. موجودہ زندگی ایک مہلت عمل ہے اس مہلت میں اگر ہم نے کامیابی حاصل کر لی تو آخرت کی اصل زندگی کی کامیابی ہو گی جو اللہ کو مطلوب ہے کیونکہ اللہ نے اصلی فلاح آخرت کی کامیابی کو قرار دیا۔ اللہ پردے کے پیچھے ہے اور آخرت کے قائم ہونے تک پردے کے پیچھے ہی رہے گا۔ آخرت میں اپنے پسندیدہ اور نیک بندوں کودیدار کرائے گا۔اپنے کامیاب بندوں کو انعام دے گا جنتِ فردوس میں داخل کرے گا جو ہمیشہ کی زندگے ہے.
فیس بک تبصرے