آزمودن جہل است

مسلم دنیا کی پہلی وزیر خارجہ کی تقرری پاکستانی قوم کے لئے جہاں باعث افتخار ہے وہیں حکومت پاکستان کا ہمیشہ کا آزمائے ہوئے ناقابل اعتبار ہمسایہ ہندوستان کو پسندیدہ ترین قوم قرار دینا اہل وطن کے لیے مایوس کن اور اشتعال انگیز ہے۔ تاریخ کا سبق ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں لیا جاتا۔ یہ بات ہمارے حکمرانوں پر سو فیصد صادق آتی ہے۔ ایوب خان سے مشرف تک، عوامی فیصلوں پر شب خون مارنے والے آمر ہوں یا نحیف و نزار جمہوری حکمراں، ہندوستان سے مرعوبیت بلکہ خائف رہنا سب کا وطیرہ تھا۔ لیکن عوام کے نزدیک دوستی کی پینگیں کل بھی ایک مذاق تھیں اور آج بھی اس اعلان کی حیثیت لطیف طنز کی سی ہے۔

ہندوپاک تعلقات گذشتہ64 برسوں میں انتہائی کمزور اور نمائشی رہے ہیں۔ چانکیہ کے پیروکار ’’بغل میں چھری منہ پہ رام رام ‘‘ پر عمل پیرا ہیں۔ معرض وجود میں آتے ہی نوزائیدہ مملکت پاکستان پر ترغیب و تحریص کا ہر حربہ آزمایا گیا۔ قدرتی آفات ہو یا آزمائش کی کوئی اور گھڑی، ہمسائیگی اور نام نہاد دوستی میں طویل سرحدیں مشترک ہونے کے علاوہ کچھ بھی مشترک نہیں۔ ہندوستان نے خطے میں ہمیشہ من مانی کا رویہ اپنایا اور اگر پاکستان نے لگام نہ دی ہوتی تو دنیا کے نقشہ پر حدنگاہ تک ہندو بالادستی نظر آتی۔

پاکستان دولخت کرنے میں بھارت کا واضح شرمناک کردار، تین بار فوج کشی اور جنگ، صوبہ سندھ اور بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر کو وسائل، تربیت، ٹھکانے فراہم کرنا، کشمیر میں استصواب رائے سے انکار اور انسانی المیہ کی صورتحال، آبی وسائل کے ذخیرے پر کبھی چوری چھپے اور کبھی ببانگ دہل ڈیم کی تعمیر، سرکریک اور کارگل جیسے حساس موضوعات سے گریز، دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین بنیادی مباحث ہیں۔ لیکن مذاکرات کی درخواست کو اوّل تو بھارتی حکمران ٹال مٹول اور سرد مہری سے برتتے ہیں۔ اور اگر عالمی دباؤ کے تحت مذاکرات کا انعقاد ہو بھی جائے تو سنجیدگی کے بجائے ذرائع ابلاغ کی تفریح کے لئے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ اور تعلقات جوں کے توں سے آگے بڑھنے نہیں پاتے۔ جیسا کہ حالیہ مذاکرات میں 80 سالہ گھاگ بھارتی سفارتکار کے مقابل حنا ربانی کھر کی آرائش و زیبائش موضوع بحث رہی۔ ماضی میں ایوب شاستری، ضیاء اندرا گاندھی، مشرف واجپائی ملاقاتیں ہوئیں۔ مذاکرات کے دور چلے مگر وہ حل طلب مسائل جو کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو متاثر کر رہے ہیں صرف نظر کا شکار رہے مزید پیچیدگیاں بڑھیں۔

ہندوستان کے مقتدر طبقے کے گھاس نہ ڈالنے کے باوجود ہمارے حکمرانوں کا مملکت کی بقا کو داؤ پر لگانے کا عمل نہ تو متعصب، کینہ پرور ہندو ذہنیت کے بنیادی سانچوں میں کوئی تبدیلی لاسکے گا۔ نہ ہی حکومت کی روزبروز گرتی ہوئی ساکھ کو عوام میں بحال کر سکتا ہے۔ دراصل خارجہ پالیسی کا 180 درجے زاویے پر یوں گھوم جانا do more کا تسلسل ہے۔ لیکن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے داغدار جارح چہرہ کو سپر پاور کی حمایت بھی پاکستانی غیور عوام اور عالمی دنیا میں رسوا ہونے سے نہیں بچا سکتی۔
الغرض عصبیت اور جنگی جنون میں مبتلا ہندوستان کو پسندیدہ ترین قوم کا اعزاز دینے کا نہ کوئی جواز ہے اور نہ ہی موقع۔ بھارتی فلموں کی نمائش ہی ہماری اقدار، نظریات کے لئے سم قاتل سے کم نہیں کہ کجا آزمائے ہوئے دشمن پر التفات کے جام لنڈھائے جائیں۔ خاکم بدہن آج کا اعلان التفات صدیوں کی غلامی میں نہ بدل جائے۔

انتہائی تلخ تاریخی حقائق، تمام تصفیہ طلب امور کے باوجود خارجہ پالیسی کا یوٹرن ایک طرف ڈوبتی ہوئی عالمی طاقت کے دباؤ کی نشاندہی کرتا ہے تو دوسری جانب ہمارے حکمرانوں کی نفسیاتی گرہیں کھولتا ہے۔ یعنی سہل کوشی اور چشم کوری میں مبتلا اہل اقتدار نہتے عوام پر شیر ہونے کے بجائے سرحد پار موجود کائیاں ہندو بنیے کے مقابلے پر اتریں۔ اس مقابلے کے لئے زادراہ یعنی اسلاف کا علم، انصاف کا نمونہ اور عوام الناس کی رائے جمع کریں جس کی انہیں اشد ضرورت ہے۔ شیر شاہ سوری، ٹیپو سلطان کی ہمت و جرات، فہم و فراست کی داستانیں آج بھی نشان راہ ہیں۔ بس درست فیصلے کرنے کی دیر ہے۔اقوام عالم میں با عزت قومیں یوں ہی جیا کرتی ہیں۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply