مصنف: ڈاکٹر فرید احمد پراچہ
ملک بھر میں انتخابی فہرستوں کی جانچ پڑتال کا کام جاری ہے۔ اِس مرتبہ انتخابی فہرستیں نادرا کے ڈیٹابیس کی بنیاد پر تیار ہورہی ہیں۔ ان فہرستوں میں ووٹر کا شناختی کارڈ نمبر بھی درج ہوگا اور ممکنہ حد تک تصاویر بھی ہوں گی۔ اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ شفاف انتخابات کا آغاز انتخابی فہرستوں کی تیاری سے ہوتا ہے۔ اگر فہرستیں درست نہ ہوں، ان میں جعلی ووٹوں کی بھرمار ہو، یا ووٹ علاقائی ترتیب سے درج نہ ہوں تو اس سے پورا انتخابی عمل ہی مشکوک ہوجاتا ہے۔ اِس وقت انتخابی فہرستوں کی تیاری کا جو عمل ہورہا ہے اس میں کئی پہلو فوری توجہ کے طالب ہیں۔ اس سے پہلے ایک مرتبہ خانہ شماری ہوچکی ہے۔ اس طرح الیکشن کمیشن کی زیرنگرانی اس سے پہلے بھی گھر گھر جاکر انتخابی فہرستوں کی تیاری کا ایک عمل کیا گیا۔ اب جو کام ہورہا ہے اس کا پہلے سے ہونے والے کام سے ذرہ برابر بھی تعلق نہیں۔ اس وقت اساتذہ کرام مردم شماری کے بلاکس کے حوالے سے نادرا کے ڈیٹابیس کے مطابق تیار کردہ فہرستوں کو لے کر جانچ پڑتال کررہے ہیں۔
ان فہرستوں میں عام طور پر تین چار خامیاں نمایاں ہیں:
1- یہ فہرستیں خود اساتذہ کے لیے بھی ناقابلِ فہم ہیں اور بڑی حد تک اوٹ پٹانگ ہیں۔ کسی ترتیب کے بغیر ہیں۔ ایک بڑی تعداد ووٹرز کی ایسی ہے جن کے شناختی کارڈز ان کے آبائی گاوں یا سابقہ پتے پر تیار کیے گئے ہیں، جبکہ اب ان کا اس پتے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ وہ گاوں کے بجائے شہر میں رہتے ہیں یا سابقہ علاقہ چھوڑ چکے ہیں، لیکن ان کے نام ان کے شناختی کارڈز والے پتے کی فہرست میں ہیں۔ اس تضاد کی وجہ سے ووٹر کو اپنا ووٹ نہیں مل رہا، جبکہ عملہ کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ ووٹر کون اور کہاں ہیں؟
2- دوسری بڑی خامی لسٹوں میں پتوں کا الٹ پلٹ ہونا ہے۔ یہ گلیوں کی ترتیب کے بغیر ہیں۔ عملہ فہرست لے کر گھوم رہا ہے اور انہیں متعدد پتے سمجھ میں نہیں آتے۔
3- اس سارے عمل کے لیے جتنا وقت درکار ہے اتنا وقت نہیں دیا جارہا۔
4- ووٹ کے اندراج کی اہمیت اور تقاضوں کی جتنی تشہیر ضروری ہے وہ بھی نہیں کی جارہی، اس لیے عام آدمی اندراجِ ووٹ کی طرف زیادہ متوجہ نہیں۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ :
الف- فہرستوں کی جانچ پڑتال کے وقت میں کم از کم دو ہفتوں کا اضافہ کر دیا جائے۔
ب- ووٹ کے اندراج اور فہرستوں میں سے پڑتال کے طریقہ کار کی مناسب اور بھر پور تشہیر کی جائے۔
ج- پڑتال کے عملہ کے ناموں، فون نمبر اور مقامات کی پرنٹ میڈیا پر مکمل تشہیر کی جائے۔
د- سابقہ فہرستوں سے بھی مدد لی جائے تاکہ کسی بھی فرد کا نام اندراج سے نہ رہ جائے۔
ر- نادرا کے شناختی کارڈ سے ووٹ کے ازخود شاملِ فہرست ہونے کا نظام بنایا جائے تاکہ شناختی کارڈ کے حامل فرد کو اندراجِ ووٹ کے لیے بلاضرورت زحمت نہ ہو اور نہ ہی پیچیدہ طریقہ کار سے گزرنا پڑے۔
س- پولنگ اسکیم کو بھی انتخابی فہرست کا حصہ بنایا جائے یعنی اگر کوئی فرد کمپیوٹرائزڈفہرستوں سے اپنا ووٹ نمبر نکالے تو اس کے ساتھ اسے اس کا پولنگ اسٹیشن اور پولنگ بوتھ بھی معلوم ہوجائے۔
ہم 4 بھائی مع بيويوں بچوں کے 1990ء سے ايک چارديواری ميں بنے 4 مکانوں ميں اسلام آباد کے ايک سيکٹر ايف ايٹ ون گلی نمبر 31 ميں رہتے ہيں ۔ ہمارے سب کے نام پچھلے انتخابات تک انتخابی فہرست ميں ہمارے اسی پتہ کے ساتھ موجود تھے ۔ ہمارے سب کے شناختی کارڈ بھی اسی پتہ کے بنے ہوئے ہيں
ايک ماہ قبل ہمارے گھر پر ايک استاذ نادرا کی بنی فہرست لے کر آئے ۔ بيچارے استاذ اور ميرے بھائيوں نے 2 گھنٹے لگا کر سيکٹر ايف ايٹ ون کی تمام فہرست ديکھی مگر ہم ميں سے کسی کا نام موجود نہيں تھا ۔ خيال رہے کہ ہم 4 بھائيوں کے 21 نام پچھلے انتخابات کی فہرست ميں شامل تھے
ميں اليکشن کميشن کے ضلعی دفتر گيا ۔ وہاں بتايا گيا کہ وہ خود نادرا کی بنائی فہرستوں سے بہت پريشان ہيں ۔ مزيد بتايا کہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے نام کسی اور سيکٹر کی فہرست ميں ڈال ديئے گئے ہوں
ميں حيران ہوں کہ نادرا والے کمپيوٹر کا استعمال کيوں نہيں جانتے ؟
Pingback: انتخابی فہرستوں کی تیاری، فوری اقدامات | Tea Break
Me too, unable to understand, why do we need all dis entries for Upcoming elections, when the whole nation has been provided with computerized ID cards by NADRA. what is the use of those cards? Simply NADRA list shud be enough to use in election. WE all are living in global village BUT seems our government has not decided yet to update or they know the art of making fool to public n what i shud say to my PUBLIC, the real innocent n illiterate pp 😥 l