ہر دین کا ایک خا ص خلق ہوتاہے اور اسلام کا خلق حیا ہے ‘‘فرمان نبویؐ (موطا امام ما لک )
حیا ایک خاص فطری وصف ہے ۔جو انسان کے اندر بہت سی خو بیو ں کو پروان چڑھا تا ہے۔ مثلاً عفت و پا کبا زی، گنا ہوں سے بچنا، اللہ کی نافرمانیوں پر غیرت کھانا۔ کسی کے سا منے دست سوال دراز نہ کرنا اور سوال کر نے والے کو خالی ہاتھ نہ لوٹانا۔ احسان مندی کرنا، حق تلفی نہ کرنا۔ دوسروں کی غلطیوں پر چشم پو شی کر نا۔ سب اسی وصف کے مختلف مظا ہر ہیں۔
حیا کے با رے میں ایک عام تصور ہے کہ یہ عورتوں کا وصف ہے اور اس کو بدرجہ اتم عورتوں کے اندر ہونا چاہیے۔ یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ عورت کے اندر اللہ نے فطری طور پر شرم و حیا کا مادہ مرد سے زیا دہ رکھا ہے اور بہترین عورت یقیناً وہی ہے جو حیا کے زیورسے آ راستہ ہے۔ لیکن مردوں کے لیے حیا اتنی اہم ہے کہ معا شرتی اصلا ح اور تطہیر کے لیے مردوں کا باحیا ہونا کبھی کبھی عورتوں سے بھی زیا دہ اہم بن جا تا ہے ۔
حیا ایسا وصف ہے جسے خود ما لک و خا لق کا ئنات نے بھی اختیا ر فرمایا ہے۔ قرآن میں جا بجا اس کا تذکرہ ہے اور احا دیث میں بھی اللہ کے اس وصف کو بیا ن کیا گیا ہے ۔آپ ؐنے فر ما یا ’’ عزت اور جلال وا لے خدا کے آگے جب کو ئی بندہ ہا تھ پھیلا کر کچھ بھلا ئی ما نگتا ہے تو وہ اس کو نا مراد لو ٹا تے ہو ئے شر ما تا ہے ۔‘‘(بیہقی)
اللہ کے لیے حیا کے معنی
سید سلما ن ندوی ؒ، سیرت النبیؐ جلد ششم میں رقمطراز ہیں کہ’’ اللہ کے لیے حیا کے معنی وہی ہوں گے جو اس کی ذات اقدس کے لا ئق ہیں مثلاً یہ کہ وہ اپنے بدکار بندوں کو برائی کرتے دیکھتا ہے لیکن ان کو پکڑتا نہیں اور اس کے آ گے جو ہا تھ پھیلا تا ہے اس کو نا مراد لو ٹا تا نہیں۔‘‘(صفحہ 383)
—اللہ کی حیا مثبت حیا ہے اور اللہ حق با ت کہنے سے نہیں شرماتا
ان اللہ لا یستحیی ان یضرب مثلا ما بعوضۃ (البقرہ 26)
—اللہ حق کے اظہا ر سے نہیں شرما تا ۔فر ما ن نبوی ہے ان اللہ لا یستحیی من الحق (بخا ری )
—حدیث ہے کہ ۔’’اللہ سب سے زیا دہ غیرت مند ہے اور ااسی لیے اس نے بدکاریوں کو حرام کیا ہے‘‘(صحیح مسلم)
غور کیا جا ئے تو حیا کی یہی صفات مسلما نوں مردوں میں بدرجہ اتم موجود ہونا ضروری ہیں مثلاً اعلیٰ ظرفی، حق کے لیے جری و بے باک ہونا، بدکاریوں اور برائیوں کے سد باب کے لیے کمر بستہ ہو نے والے۔۔وغیرہ۔
حیا اور نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم
احا دیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ کنواری پردہ نشین لڑ کیوں سے زیا دہ حیا دار تھے۔(بخا ری : باب الحیا)
صحاح میں ہے کہ شرم و حیا کا اثر آپ ؐ کی ایک ایک ادا سے ظاہر ہوتا تھا۔ کبھی کسی کے سا تھ بد زبا نی نہیں کی، با زاروں میں جا تے تو چپ چاپ گزر جاتے۔ تبسم کے سوا کبھی لب مبا رک خندہ و قہقہ سے آشنا نہ ہو ئی۔
—بھری محفل میں کوئی با ت ناگوار ہوتی تو لحاظ کی وجہ سے زبان سے کچھ نہ فرماتے۔ چہرہ کے اثر سے ظاہر ہوتا اور صحابہ متنبہ ہوجاتے۔
—آپؐ کو کعبہ کے گرد برہنہ طواف سخت نا پسند تھا، حمام میں برہنہ نہا نے سے سختی سے منع فرمایا، عورتوں کے حمام میں جا نے پر پا بندی لگا ئی۔
—معمول تھا کہ رفع حاجت کے لیے اس قدر دورنکل جا تے کہ آنکھو ں سے اوجھل ہو جا تے۔ مکہ معظمہ میں جب تک قیام تھاحدود حرم سے باہر نکل جاتے جس کا فاصلہ مکہ معظمہ سے کم از کم تین میل تھا ۔(سیرت النبیؐجلد دوم سید سلمان ندوی صفحہ15 )
آپہؐ بچپن میں ہی بہت حیا دار تھے۔ مشہور وا قعہ ہے کہ تعمیر کعبہ کے وقت اینٹیں اٹھا اٹھا کر لا رہے تھے۔اپنے چچا عباس ؓکے کہنے پر تہبند اتا ر کر کندھے پر رکھنا چاہا تو حیا کی وجہ سے بے ہوش ہوگئے۔ ہوش آیا تو زبان پر تھا میرا تہبند، میرا تہبند۔ (بخاری)
بعض موا قع پر آپ ؐ کو صحا بہ کرام کے کسی عمل سے تکلیف ہوتی تھی لیکن آپ ؐ حیا کی وجہ سے خاموش رہتے۔ جیسے حضرت زینب ؓکے ولیمہ کے روز صحابہ دیر تک بیٹھے رہے، آپ ؐ کو نا گوار محسوس ہوتا رہا لیکن منع نہ فرمایا یہا ں تک کہ اللہ تعا لیٰ نے خصوصی حکم نا زل فرما کر ان امور سے منع فرما یا۔
حیا اور صحا بہ کرام ؓ
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ جلیل القدر بزرگ تھے جن کی تر بیت وحی الٰہی کی روشنی میں خود نبی کریم ؐ نے کی۔ ان کے فطری اوصا ف کو پروان چڑھایا، ان کی موروثی صفات کو صحیح رخ دیا اور تاریخ کے بہترین انسان بنا کر اٹھا کھڑا کیا۔
خلفا ئے راشدین میں حضرت عثمانؓ سب سے زیا دہ حیا دار تھے اور نبی کریم ؐ بھی ان کی اس صفت کا لحاظ رکھتے تھے۔ با قی صحا بہ کرام کے سامنے اگر کبھی پنڈلیاں کھول کر بیٹھ جاتے تھے تو حضرت عثمان کی آمد پر ڈھا نپ لیتے تھے کہ ان کی حیا پسند طبیعت پر یہ ناگوار نہ گز رے۔
حضرت عمرؓ کی حیا غیرت ِمردانہ کا روپ رکھتی تھی۔ اللہ کے دین کے با رے میں وہ بہت باغیرت تھے اور بے شما ر تا ریخی واقعات ہیں کہ جب انہوں نے چاہا کہ کسی دشمن خدا کی گردن تن سے جدا کر دیں اور رسول ؐ کے حلم نے اس سے روکا۔
پر دہ کے احکا م آ نے سے قبل حضرت عمر کئی مر تبہ نبی کریم ؐ سے اس با ت کا اظہا ر کرچکے تھے کہ آپ ؐ کے گھر میں ہر طرح کے لوگ آتے ہیں بہتر ہے کہ امہا ت المومنین پردہ کیا کریں۔ پردے کے بغیر کوئی عورت پہچان لی جا تی تو ان کو نا گوار ہوتا۔ سورہ نو ر میں جب زنا اور قذف کے احکام نا زل ہو ئے اور چار گواہوں کی پا بندی عائد کی گئی تو حضرت سعد بن عبادہ ؓنے اس پر قدر ے گرمجوشی کااظہا ر کیا کہ مرد اگر اپنی بیوی کو غلط کاری کرتے دیکھے تو چار گواہ لانے تک تو کام تمام ہوجائے گا۔ یہ کیسا قانون ہے؟ نبی کریمؐ نے اس تبصرے پر ناگواری کا اظہا ر فرمایا تو صحا بہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐسعد بن عبا دہ ؓکے با رے میں جلدی نہ فر مائیے یہ بہت غیرت مند ہیں۔
صحا بہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے حیا اور غیرت کا صحیح مفہوم سمجھا۔ ان کی حیا نے انہیں ہر طرح کی بے حیا ئی، فحا شی اور عریانی سے روکے رکھا۔ معاشرے کو پا کیزہ رکھا۔ حیا نے ان کو ایک دوسرے پر ہر طرح کی دست درازی سے روکے رکھا۔ وہ احسان کی قدر کرنے وا لے، سا ئلین کو نہ لوٹانے والے تھے۔ وہ اتنے غیرت مند تھے کہ معا شرے میں کسی کو کھلے عام گناہ کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ لیکن ان کی حیا اسلامی حیا تھی اس میں کمزوری اور بزدلی کا عنصر شامل نہ تھا کہ وہ حق با ت کر نے سے شرما جائیں۔ کا فروں کے سامنے کلمہ حق نہ کہہ سکیں۔ جابر و ظالم حکمرانوں کے سامنے اللہ کی کبریائی نہ بیان کرسکیں۔ ظالموں کو ظلم سے روکنے میں کوئی چیز مانع نہ ہوتی تھی۔ اللہ کے دین کے دفاع میں وہ بہت غیرت مند تھے۔ صحابہ کرام ؓ کو حیا نے ان مواقع پربھی دلیر بے جھجک اور آزاد بنادیا دیا تھا جہاں دین سیکھنے کی ضرورت ہوتی تھی۔ حتی کہ صحابیات بھی سوال کر نے سے نہ شرماتیں اور احسن طریقے سے سوال کرتیں۔
حضرت عا ئشہؓ فرماتی ہیں’’ انصار کی عورتیں کس قدر اچھی عورتیں تھیں کہ دین کا علم حاصل کر نے سے ان کو حیا نہیں رو کتی تھی۔‘‘ (مسلم کتاب الطہا رہ)
اس دور کی مسلمان عورتیں بھی حیا میں مثالی تھیں اور مسلمان مرد بھی بدرجہ اتم اس صفت سے متصف تھے۔سب اللہ سے بھی حیا کرتے تھے اور ہر طرح کی نافرمانی اور فحاشی سے اجتناب کرتے تھے اور آپس میں بھی حیا کر تے تھے۔ مردوں میں غیرت بدرجہ اتم تھی جو حیا کا مظہر ہے۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ مسلم معاشرے میں کو ئی بہن، بیٹی، بیوی اور کوئی عورت بے حیائی کے ساتھ باہر نکلنے کی جرات نہ کر سکتی تھی اور حضرت عمرؓ اور سعد بن عبا دہ ؓ جیسے جری اور غیرت مند انسان معاشرے میں حیا کی ترویج کے لیے موجود ہوتے تھے۔
روایتی مسلم معاشرے اور حیا
آج سے چند سال پیشتر تک ہمارے دیہا ت اور چھوٹے شہر اگرچہ مکمل دیندار معاشرے کی تصویر نہ تھے لیکن روایتی مسلم معاشرے ضرور تھے۔ مردانہ حیا اور
غیرت زندہ تھی۔ گھروں کے اندر بھی عورتیں دو پٹے اتارنے کا تصور نہ کرسکتی تھیں۔
مرد کھانس کر یا آواز دے کر اندر دا خل ہو تے اور گھر کی تما م خواتین اپنی چادریں اور دوپٹے درست کر لیتیں۔ بھائی غیرت مند تھے۔ بہنوں کو بے پردہ ساتھ با ہر لے جا نے پر معترض ہو تے تھے۔ شوہر بیوی کو دوستوں کے سامنے لانے میں جھجھک رکھتے تھے۔ گھروں میں زنان خانے اور مردان خانے الگ تھے۔ عموماً مردانہ بیٹھکیں باہر ہوتی تھیں۔
خا ندان میں ایک نہ ایک ایسا باکردار اور رعب دار مرد ضرور ہو تا تھا جس سے سب حیا کر تے تھے اور اس کے سا منے عورتیں تو کیا لڑکے بھی غلط کا م کر نے سے جھجکتے تھے. بڑوں کے سامنے حیا کی جا تی تھی، نگاہیں نیچی رہتی تھیں، اونچا نہیں بولا جاتا تھا۔ کھلے عام نافرمانی نہیں کی جاتی تھی۔ ناگوار باتوں کو بھی برداشت کیا جاتا تھا۔ شادی بیاہ میں مرد اور عورتیں الگ الگ ہوتے تھے۔ ’دلہن اور حیا ‘ لا زم و ملزوم تھے۔ دلہن کو رخصت کرتے وقت باپ اور بھا ئی ملتے تھے تو حیا کی وجہ سے اس اس کو پورا ڈھک دیا جاتا تھا وہ باغیرت باپ اور بھائی دلہن کے ننگے سر پر ہا تھ نہ پھیرتے تھے۔ بسوں میں سفر کرتے ہو ئے مرد کسی عورت کو کھڑا دیکھتے تو اسے جگہ دے دیتے اور خود کھڑے ہوجاتے۔ گھر کی عورتوں کے لباس پر بھی مردوں کی نظر رہتی تھی اور غلطی پر ٹوکا جاتا تھا۔ ہمیں یاد ہے کبھی بچپن میں بھی سر سے دوپٹہ اترا تو والداور چچا کی آنکھوں میں ناگواری کی جھلک نظر آئی۔ گویا مسلمان مرد کی حیا و غیرت، گھروں میں شرم و حیا کی قوت نا فذہ تھی۔ ایسے لڑکوں اور مردوں کو سخت نا پسند کیا جا تا تھا جو عورتوں میں گھسے رہتے تھے۔ جو بیویوں کو بے پردہ باہر لے جا نے میں کوئی باک نہ رکھتے تھے۔ بلکہ صاف کہا جا تا تھا کہ فلاں بہت بے غیرت ہے۔ اس کی بیوی اور بہن ایسے با زا روں میں گھو متی ہے۔
آج کیا ہوگیا ہے؟
اے مسلمان مردو۔ اے بھا ئیو! آج کیا ہوگیا ہے۔ کہاں گئی آج مسلمان مردوں کی حیا اورغیرت ۔۔۔؟
آج دنیا بھر میں اسلام مظلوم اور اجنبی ہے۔ مسلمان ہونا ایک جرم بن گیا ہے۔ ہر ائیر پورٹ، ہر پبلک مقام پر مسلمان کی عزت نفس پامال کی جا رہی ہے۔ جہاں خون بہہ رہا ہے مسلمان کا بہہ رہا ہے۔ عرب سے لے کر ایشیا، افریقہ اور یورپ تک۔۔۔ کوئی جان ارزاں ہے تو مسلمان کی۔ وائٹ ہائوس میں ایک مکھی کے مر نے پر این جی اوزحر کت میں آجاتی ہیں لیکن افغا نستا ن، کشمیر، عراق، پاکستان میں ڈرون حملوں اور بم دھماکوں اور میزائل حملوں میں مارے جانے والے انسان شاید کیڑے مکو ڑوں سے بھی کم اہم ہیں۔ کیوں؟
فیس بک اور انٹر نیٹ پر آ ئے دن رسول اللہ ؐ اور قرآن پاک کی بے حر متی کی جاتی ہے۔ لیکن ایک وقتی جوش کے بعد سب ٹھنڈے ہوجاتے ہیں۔کیوں؟ اس لیے کہ مسلما نوں کے اندروہ ایمانی غیرت اور حیا نہیں رہی جو کفر کو چیلنج کر سکے۔ جو ظالموں کے بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو پکڑ کر کیفر کردار تک پہنچا سکے. آج امت کے سپوتوں کی آنکھوں پر ما دیت کی پٹی بندھ گئی ہے۔ حکمران ڈالروں کے عوض یہودو نصا ری کے با جگزار بن چکے ہیں۔ بے دین سیا ست دان اقتدار کی ہوس میں ایمان و حیا فروخت کر چکے ہیں اور وہی اس وقت سیا ست کے میدانوں پر قابض ہیں۔
تاجر مالی منفعت کے عوض ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اسیر ہوچکے ہیں۔ انہیں اس سے غرض ہے کہ لا محدود منا فع ملے۔ بھلے قوم کا اخلاق و کردار تباہ ہوتا ہے یا ایمان غارت ہوتا ہے۔
تعلیم بے حیا کارپردازوں کی وجہ سے تجا رت بن چکی ہے اور اپنے معنی کھو چکی ہے۔ اب تعلیم صرف روٹی کمانے کے گر سیکھنے کا نا م ہے اور استاد اور طبیب جو معا شرے کے معزز ترین منصب تھے، آج اپنا مقام کھوچکے ہیں۔ اس لیے کہ ٹیوشن اور فیس نے علم اور ہمدردی کی جگہ لے لی ہے۔
عدلیہ اور مقننہ میں، معدود ے چند کے سوا، رشوت کے بندے اور غلا م ہیں۔ سچ بتا ئیں اللہ سے حیا کر نے وا لے آج کدھر گئے ہیں؟ بندوں سے تو بندے بہت ڈرتے ہیں۔ ہر ہر کام کر نے سے قبل یہ ضرورسوچا جاتا ہے کہ ’’لوگ کیاکہیں گے؟‘‘ یہ کتنے لوگ سوچتے ہیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے، فرشتے دیکھ رہے ہیں۔۔ان سے حیا کریں۔ ان سے ڈر کر اپنے رویے اور اعمال بدلیں اور اپنے ارد گرد کے معا شرے اور ماحول کو بدلنے کی کوشش کریں۔
اے بھا ئیو!اسلامی جمہوریہ پا کستان کی سڑکیں، چوک اور چوراہوں پر لگے شیطا ن کی فحاشی کو مات دیتے ہوئے سا ئن بورڈ آج کسی عمرؓ کو آواز دیتے ہیں۔
اسکولوں، کالجوں میں بے پردہ نوجوان لڑکیوں کے جم غفیر کسی سعد بن عبادہ ؓ کی غیرت کے منتظر ہیں۔
مال روڈ اور ڈیفنس کی دکانوں پر لگے بورڈ بے حیائی کی حدود پھلانگ رہے ہیں۔
اشتہا رات کی بے باک اور فحش دنیا ہے۔ مسلمان قحبہ گر۔ مسلمان طوائفیں۔ مسلمان ہم جنس پرست ہیں اور غیرت مندوں کی غیرتیں نہ جانے کہاں چلی گئی ہیں۔
سکوّں کے عوض حافظہ عافیہ صدیقی جیسی قوم کی بیٹیوں کو فروخت کردینے والے بے غیرت حکمران ہیں۔ کہنے کو بہا در، غیور قوم ہے اور روزانہ ڈرون طیارے درجنوں بےگناہوں پر بم برسا کر چلے جاتے ہیں اور قوم کے مردوں کی اجتماعی حیا اور بے حسی نہ جا نے کس پاتال تک جا پہنچی ہے۔
اکبر الہ آبادی مرحوم چند بے پردہ عورتوں کو دیکھ کر غیرت قومی سے زمین میں گڑ گئے تھے۔ آج بے اختیار ان کے شعر یا د آتے ہیں جو مردانہ غیرت کی صحیح تصویر کشی کرتے ہیں ۔
بے پردہ نظر آئیں مجھ کو چند بیبیاں اکبر وہیں غیرت قو می سے گڑ گیا
پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ کیا ہوا کہنے لگیں عقل پر مردوں کی پڑ گیا
شادی ہالوں میں عورتوں کا حد سے نکلنا، دلہن کا نیم برہنہ لباس، نامحرم مردوں کا عورتوں کو مختلف زاویوں سے فوکس کر کر کے فلمیں بنانا اور باپوں، بھائیوں کی غیرت کے کان پر جوں تک نہ رینگنا، ہاں اکثر دیندار گھرانوں میں اس موقع پر حیا کا جنازہ اٹھتا نظر آتا ہے تو دل خوف سے کانپ جاتا ہے کہ اے بہت حیا اور غیرت والے اﷲ! تیری یہ چشم پوشی ہمارے لیے عذاب بن کر نہ نازل ہو جائے ( اور شاید ہو بھی رہی ہے)۔
بے پردگی تو ایک طرف۔۔ آج ساتر اور باحیا لباس ہی معاشرے سے عنقا ہوگیا ہے۔ (الا ماشاء اللہ) نہ کپڑا بنانے والے مرد یہ دیکھتے ہیں کہ کتنا باریک کپڑا بنا رہے ہیں نہ بیچنے والے اس بات پر غور کرتے ہیں کہ کتنا گناہ کما رہے ہیں۔ بلکہ جب باپردہ و باحیا عورت کپڑا خریدنے جا تی ہے اور باریک کپڑے لینے سے انکار کرتی ہے تو بہت سے باریش دکا ندار بھی کہتے ہیں باجی لے جا ئیں یہ دھونے سے گف (موٹا) ہوجائے گا۔ ایسے ہی ایک مو قع پر ہما ری ایک بہن نے تنگ آکر دکاندار کو ڈانٹ دیا کہ یہ کپڑا بنانے والے، بیچنے والے اور پہننے والے سب گنہگار ہیں۔ آپ داڑھی رکھ کر ایسا کپڑا بیچنے پر اصرار نہ کریں جو ہمیں بھی اور آپ کو بھی دوزخ میں لے جا ئے۔ (اس ضمن میں بہت سے دیندار مرد کو تا ہی کا شکار ہوتے ہیں اور بعض نامور دکا نوں پر بکنے وا لے branded سوٹ اور کپڑے بھی حیا کے بنیا دی تقا ضے ہی پورے نہیں کرتے۔ یہ بہت تشویشناک بات ہے ۔)
چند سا ل قبل خوا تین نے ایسے وفود تشکیل دیے جنہوں نے چند فیکٹریوں میں جا کر مالکا ن سے ملاقات کر کے اس طرف متوجہ کر نے کی کو شش کی۔ لیکن سچ بتائیں کیا یہ باحیا مردوں کے کرنے کا کام نہیں کہ وہ مل مالکان اور کپڑا بنا نے والوں کو ان کا ایمانی فریضہ یاد دلا ئیں اور ملی غیرت کے تقاضے سمجھا ئیں؟
حیا کی ترویج
ایمانی زوال کے اس دور میں ہمیں قر آن و سنت رسول ؐ کی طرف رجو ع کرنا ہے اور اپنے مردوں اور عورتوں میں حیا کے وہ بیج بونے کی کوشش کرنا ہے جو معاشرے کو وا پس پا کیزگی کے اس معیار کے قریب لے آئیں جو صحابہ کرام کے دور کے خا صہ تھا۔
آئیے مختصراً دیکھیں قرآن و سنت میں اس با رے میں کیا احکا مات ہیں ۔
“اللہ نور السموات والارض” اللہ زمین وآسمان کا نورہے ۔ تمام علم اس رب کا ئنات کے نور اور جلوئوں کا پرتو ہیں۔ اللہ کے نور کا مظہر قرآن کریم ہے اور اس کی تعلیم دینے والے رسول ؐ فرمان با ری تعالیٰ ہے کہ:
فا منوا با للہ و رسولہ ونور الذی انزلنا واللہ بما تعملون خبیر
’’پس ایمان لا ئو اللہ اور اس کے رسولؐ اوراس نور پر جو ہم نے نا زل کیا ہے اور اﷲ تمہارے اعمال سے باخبر ہے‘‘۔(تغا بن:)
گو یا ایمان کی آبیا ری ہو، اسلام کی نشاہ ثانیہ یا حیا کی ترویج۔ اس کا ماخذ قرآن کریم اور سنت رسول ؐ ہیں۔ لہذا ہمیں آکسفورڈ اور ہا رورڈ کے بجا ئے قرآن و سنت کو تعلیم کا مرکز و محور بنانا ہوگا۔ خا ندان کے گہوارے سے لے کر کا لج اور یو نیورسٹی تک جب تک تعلیم و تدریس کی یہ بنیا دیں درست نہیں ہو تیں انسانوں کا سدھا ر بھی مشکل ہے۔
گھر کے اندر مردنگران ہے، راعی ہے اس کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اور گھر والوں کے لیے صحیح تعلیم کا بندوبست کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ تقدیس نسواں کا محا فظ دراصل مرد ہی ہے۔ اگر مرد اپنی ذمہ داری سے آگاہ ہوجائیں تو معا شرے سے ان برائیوں کا خاتمہ ہوجائے جو عورتوں کی بے مہا ری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
اے مسلمان مردو! اپنی ذمہ داریوں کو پہچا نو۔ ’’ آپ پر باپ، بھائی یا خاوند ہو نے کے اعتبا ر سے فرض عا ئد ہو تا ہے کہ اپنی عورتوں پر پا بندی عا ئد کریں اور انہیں بے راہ روی سے روکیں۔ بخاری و مسلم میں آنحضرتؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ تم میں سے ہر آدمی حا کم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے متعلق باز پرس ہو گی۔‘‘ مرد اس با ت کے لیے بھی مامور ہیں کہ وہ عورتوں کو تہذیب، اخلا ق، دین، دنیا اور آخرت کی با تیں سکھلا ئیں۔ مرد اگر قوامیت کی اس ذمہ داری کو سمجھ لیں اور اپنے اندر تمام مطلوبہ صفات پیدا کریں تو ان شاءاللہ اس کے نتیجے میں گھر کا نظام درست ہوگا اور بہت ساری معاشرتی برائیاں جس میں بے حجابی اور بے حیا ئی کلیدی حیثیت رکھتی ہیں از خود کم ہو جا ئیں گی۔
معاشرے کو نورانی، پاکیزہ اور حیا دار بنا نے کے لیے مردوں کو دیے گئے مزید احکام
سورہ بقرہ، سورہ نساء، سورہ نوراورسورہ احزاب وہ سورتیں جن میں زیا دہ ترمعاشرتی احکا مات دیے گئے ہیں۔ خصوصاً سورہ نور میں جو بقول سید قطب شہیدؒ
’یہ سورۃ ہے جس میں اللہ نور السموٰت والارض کا ذکر ہوا ہے۔ اس سورۃ کے مضامین قلب ونظر اور ضمیر و اخلا ق کے لیے نور ہیں اور اس کے نتیجے میں انسانوں میں نورانی آداب پیدا ہو تے ہیں۔ اس سورۃ میں جو نفسیاتی، اخلا قی، عا ئلی ضوابط اور اجتماعی قوانین وضع کیے گئے ہیں وہ معا شرے کے لیے نور ہی نور ہیں اور یہ نور پھر کائناتی نور ہی سے مر بوط ہے اور وہ نور روح کا نور ہے، دلوں کے لیے روشنی ہے اور ضمیر کے لیے صیقل ہے اور یہ سب اللہ کے نور کا پرتو ہے۔‘ ( فی ظلا ل القرآن تفسیر سورہ نور ،جلد چہا رم )
اس سورہ میں نبی کریم ؐ کے ذریعے اللہ تعا لیٰ عورتوں سے قبل مردوں کو حکم دیتے ہیں کہ:
قل للمومنین یغضوا من ابصارہم و یحفظوا فروجھم ذلک ازکی لھم ان اللہ خببر بما یصنعون (سورہ النور0)
اے نبی ؐ مومن مردوں سے کہ دو کہ اپنی نظر یں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگا ہوں کی حفاظت کریں، یہ طریقہ ان کے لیے زیادہ پا کیزہ ہے۔ بے شک اللہ جا نتا ہے جو وہ کر رہے ہیں ۔
یہ حکم اگر چہ عورتو ں کے لیے بھی ویسے ہی اہم ہیں جیسے مردوں کے لیے لیکن اللہ تعا لیٰ اس با ت سے بخو بی وا قف ہے کہ مردوں کے اندر یہ جذبہ حیا بدرجہ اولی کتنا ضروری ہے جو دل کے چور بھی پکڑ لیتا ہے اور نگاہ کو بھی بھٹکنے سے بچا تا ہے۔ اس لیے کہ مرداگر اپنی نگا ہوں کی حفا ظت کر نے وا لاہے او رچونکہ وہ قوام ہے تو گھر میں اس کی بہو بیٹیا ں بھی پا کیزہ اور مکمل لبا س میں ملبوس ہوں گی اور بیٹے بھی۔ ٹی وی اخبارات بھی گھر میں وہ آئیں گے جو حیا میں نقب لگا نے والے نہ ہوں گے۔ گویا ایسے منا ظر ممنوع قرار دے گا جو شریعت نے ممنوع کیے ہیں۔ وہ اگر حکمران ہے تو سڑکیں، چوک، سینیما ہا ل، ٹی وی، اخبارات رسائل۔ ہر چیز کو ان تمام فحشاء سے پا ک کرے گا جس کی طرف نگاہ اٹھا نے سے اس کے ایمان کو خطرہ ہوگا۔ وہ اسلام کا نظام عفت و عصمت نا فذ کر نے کی کو شش کرے گا اور اگر معا شرے کے مردوں کی اکثریت نگاہوں کو پاکیزہ رکھنا چا ہے گی تو دکا نداروں کی دکانوں کے سا ئن بورڈ، اشتہارسازوں کے اشتہا ر اور بے حیا ئی کے تما م مناظرتبدیل ہو جا ئیں گے اور کسی ملٹی نیشنل اورنیشنل کمپنی کو جرات نہ ہو سکے گی کہ ہما رے ایمان کی قیمت پر اپنی مصنوعات فروخت کر سکے۔ کاش مسلمان مردوں میں اس درجے کی حیا بیدار ہو جا ئے ۔
دوسروں کے گھروں میں داخل ہو نے سے قبل اجازت لے کر داخل ہونے کا حکم بھی اللہ نے دیایعنی استیذان کا طریقہ بھی حیا کا ایک جزو ہے اور اس کے پہلے مخاطب بھی مرد ہی ہیں حتیٰ کہ آپؐ کی تعلیمات کے مطا بق اپنے گھر میں بھی اجا زت لے کر داخل ہونے کی ضرورت ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ گھرکی خواتین پرایسی حالت میں نظر نہ پڑے جو حیا کے منا فی ہو، کتنے مرد حیا کا یہ تقاضا پورا کرتے ہیں؟اور اسی میں یہ حکم بھی شا مل ہے کہ جب اور جسے چاہیں گھر آنے کی اجازت دیں اور جسے چاہیں منع کر دیں۔
آج مسلمانوں کے گھرا نے محرم اور نا محرم سب کے لیے کھلے ہیں۔ بلکہ بہت کم شوہروں، باپوں اور بھا ئیوں کی نظر اس بات پر ہوتی ہے کہ شریعت نے کس کس پر گھرکے اندر بلا جھجک داخل ہو نے پر پا بندی لگا ئی ہے تا کہ گھر کی فضا کوشکوک و شبہات سے پا ک رکھا جا سکے۔ ازدواجی تعلقات کو پا ئیدار بنایاجا سکے۔ بچوں اور بچیوں کے اخلا ق و کردار کو پا کیزہ رکھا جا سکے اور چوری چھپے آشنائیوں سے بچایا جاسکے۔
مردوں کے لیے اس علم کا ہونا کتنا ضروری ہے جس کے نہ ہو نے کی وجہ سے آج شرح طلا ق مسلمان مما لک میں بھی دن بدن بڑھ رہی ہے۔گھروں کے اندر لڑائیاں جھگڑے اور شکوک و شبہا ت معمول کا حصہ بن گئے ہیں اور پا کیزگی رخصت ہو رہی ہے۔ اور تو اور میڈیا کی ساری بے با کی اور بے حیا ئی سب دیواریں پھلانگ کر بغیر اجا زت گھر تو کیا بیڈ روم میں داخل ہو کر تبا ہیاں پھیلا رہی ہے اور مسلما ن مردوں کی غیرت اور حیا نہ جا نے کہا ں سو رہی ہے۔
سورہ احزاب میں آیت حجاب اتری ہی مردوں کے لیے اور حکم دیا کہ:
واذا سا لتموھن متعا فسئلوھن من وراء حجاب ذلکم اطھر لقلوبکم و قلوبھن(الاحزاب3)
عورتوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔ یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔
یعنی عورتوں کو تو پردے کا حکم ہے ہی، لیکن مردوں کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ بے حجابانہ عورتوں سے میل جول نہ رکھیں۔ ان سے کوئی ضرورت پیش آئے تو پردے کی اوٹ درمیان میں ہونی چاہیے۔ دین دار اور باحیا مسلمان مرد ان اصولوں کی پابندی کرتے ہیں الحمد ﷲ۔ لیکن افسوس! وہ کتنی تعداد میں ہیں؟ اور ان میں سے بھی بعض کو دیکھا ہے کہ ان عورتوں کے بارے میں تو بہت احتیاط سے کام لیتے ہیں جو پردہ دار ہیں، لیکن جو عورتیں پردہ نہیں کرتیں، ان سے بات کرنے میں یہ بھی تمام احتیاطیں بالائے طاق رکھ دیتے ہیں کہ جب وہ پردہ نہیں کرتیں تو ہم کیا کریں۔ حالانکہ یہ حکم عام ہے اور اسی جگہ اس کے نفاذ کی ضرورت زیادہ ہے جہاں عورتیں پردہ نہیں کرتیں تا کہ دل پاکیزہ رہیں۔
اگر عمومی مسلمان مرد اس اصول کی پابندی کریں تو گھروں ہی کے نہیں بلکہ دفاتر کے ماحول بھی بدل جائیں۔ دفتروں میں خاتون سیکرٹری/ اداروں میں خاتون اسسٹنٹ کی اوّل تو گنجائش ہی نہ رہے گی اور اگر ضروری بھی ہوگا تو ماحول بالکل جدا گانہ ہوگا اور عورتوں کی مجبوری کی ملازمتیں بھی آسان ہوجائیں گی۔ تقویٰ، حیا، غضّ بصر اور حجاب کے ماحول میں پاکیزگی نشوونما پائے گی اور آج کی دنیا کے بہت سے مسائل (مثلاً جنسی تشدّد، قتلِ غیرت وغیرہ) بغیر کسی قانون سازی اور پولیس کے دباؤ کے از خود ختم ہوجائیں گے۔ کیونکہ حیا کے یہ دونوں مظہر۔ غضّ بصر اور حجاب کے خیال رکھنے کا عمل، دلوں کی پاکیزگی کو جنم دیتے ہیں۔
قوا انفسکم و اھلیکم ناراً۔ کا حکم بنیادی طور پر نبی کریم ؐ کو دیا گیا اور ان کی وساطت سے تمام امتِ مسلمہ مخاطب ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آتش دوزخ سے بچاؤ۔ لیکن ظاہر ہے ابتدائی حکم مرد ہی کی ذات کو دیا گیا، کیونکہ قوّام مرد ہے۔ مردوں کو ایک درجہ فوقیت حاصل ہے ( وللرجال علیھن درجہ)۔ اور مرد اپنے گھر والوں کا راعی اور نگران ہے۔
آتش دوزخ ۔۔وہ آگ ہے ۔۔وہ سزا ہے جس سے اللہ نے خود اپنے بندوں کوڈرا یا ہے اور فرمایا ہے ’یا عبادفا تقون‘ اے میرے بندو ڈر جا ئو۔
لہذا مردوں اور خواتین میں تقویٰ اور حیا کا وصف بیدار کر نے کے لیے اس سے موثر چیز اور کو ئی نہیں ہو سکتی کہ ایک جا نب وہ اللہ تعا لیٰ کی ان صفات پر غور کریں جو اس کے سمیع، بصیر، رقیب ہو نے، اس کے ہمہ وقت نگرانی کے احساس کو تا زہ کریں۔ احساس جوابدہی انسان کے اندر پختہ کریں۔ فکر آخرت کو بیدار کریں اور دوسری جا نب آتش دوزخ سے ڈرا ئیں۔ بار با ر قرآن پا ک کے ان حصوں کا مطا لعہ کیا جا ئے اور گھر والوں کو کرایا جائے جس میں اللہ تعا لیٰ نے بے حیا ئی، فحاشی و عریانی اور دیگر گناہوں کا انجام بتایا ہے تا کہ ان سے بچنے کی تحریک پیدا ہو۔ اللہ کے حضور حاضری کے مناظر جیسے قرآن و حدیث میں کھینچے گئے ہیں ان کو ویسے ہی بیان کیا جا ئے تا کہ پرتاثیر ہوں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ طاغوت کی پیروی سے نکل کر اللہ کی عبادت میں داخل ہو نے اور معاشرے کی پاکیزگی کے دور رس اثرات، جو کہ دنیوی زندگی میں حیات طیبہ سے لے کر آخرت میں جنت تک جاتے ہیں، بھی وا ضح کیے جا ئیں۔ حیا اور حجاب کی برکات جو صحا بہ کرام ؓ کے زما نے میں تھیں مثالوں سے سمجھائی جائیں اور مرد بھی اپنی قوامیت کی ذمہ دا ری پوری کریں اور عورتیں بھی مثالی مائیں بن کر پاکیزہ نسلیں پروان چڑھا ئیں اور بالاخر حیا اور تقویٰ سے مزین اسلام کا نظام عصمت و عفت ملک میں نافذ کر نے کی عملی جدوجہد کی جا ئے تو کو ئی وجہ نہیں کہ آج کا معاشرہ بھی پا کیزگی کا اعلیٰ نمونہ نہ پیش کر سکے اور کفار بھی کوئی ناپاک جسارت کرنے سے قبل سو مرتبہ نہ سوچیں کی ان کا واسطہ انسانیت کے پاکباز گروہ سے ہے۔ ان شاءاﷲ.
Pingback: حیا اور مسلمان مرد | Tea Break
جزاک اللہ ڈاکٹر صاحبہ…اللہ پاک آپکوبھی دونوں جہاں میں کامیاب و کامران کرے اور آپ جیسی حیا والیوں کے صدقے مجھے بھی باحیا کردے…آمین ثم آمین!
jazakallah khair