مصنف: اطہر ہاشمی
میں طالب علمی کے زمانے ہی سے اسلامی جمعیت طلبہ سے کتراتا رہا ہوں۔ ظالم پکنک پر بھی لے جائیں تو نمازیں پڑھوا دیتے ہیں۔ پھر سب کے سامنے ریکارڈ بھی چیک کرتے تھے کہ آج کتنی نمازیں پڑھیں، نہیں پڑھیں تو کیوں؟ اب بندہ کہاں تک جھوٹ بولے گا!
اسلام آباد یونیورسٹی، جو اب قائداعظم یونیورسٹی کہلاتی ہے، وہاں ہوسٹل میں قیام تھا، ایک دن نمازوں کا حساب ہونے لگا تو عذر کیا کہ میں راولپنڈی چلاگیا تھا۔ فوراً کوئی بولا: “ہاں، وہاں تو مساجد نہیں ہیں۔” اب بھلا بتائیے اس کا کیا جواب! ان دونوں جاوید اقبال غوری جمعیت کے ناظم ہوا کرتے تھے۔ ہنس کر ٹال گئے۔ اب تو بڑے سرکاری افسر ہیں لیکن جمعیت ان کے اندر سے نکلی نہیں۔ اس میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ جڑوں میں بیٹھ جاتی ہے۔ دنیاوی ماحول میں گم ہونے کے باوجود کوئی بھی غلط کام کرتے ہوئے ایک کھٹک سی ضرور ہوتی ہے۔ اب دیکھیے ناں، جمعیت کے دوستوں کے درمیان بیٹھ کر تو نماز نہ پڑھنے یا کسی اور کوتاہی کا جواز پیش کرکے ٹال مٹول کی جاسکتی ہے، مگر جب بڑا حساب کتاب ہوگا تو وہاں کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔
ہم ایک دفعہ جمعیت کی یونین کے ساتھ کاغان کی سیر کو چلے گئے۔ برف جیسا پانی۔۔۔۔ لیکن جمعیت والے ہیں کہ دھڑا دھڑ اسی پانی سے وضو کیے جارہے ہیں۔ اور پھر یوں ہوا کہ چہرے کی کھال ادھڑ گئی۔ علامہ اقبال نے تو یوں اکسایا ہے کہ “دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیسائوں میں۔۔۔۔۔ کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحرائوں میں۔” اب اذانیں دینے تک تو ٹھیک ہے مگر علامہ نے نمازیں پڑھنے کا ذکر کیا نہ یخ بستہ وادیوں میں انتہائی ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے کی بات کی۔ وہ کبھی کاغان گئے نہیں۔ انہیں کیا پتا دریائ کنہار یا جھیل سیف الملوک کا پانی کیسا ہوتا ہے۔ اب انسان اندر سے تھوڑا بہت مسلمان تو ہوتا ہی ہے۔ جب سب اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوں تو شرم آہی جاتی ہے۔ پتا نہی، یہ بندوں کی شرم ہے یا بندوں کے رب کی۔
جمعیت کے قریب آنا بھی مشکل اور دور رہنا بھی دشوار۔ ان کے گھیرے میں آئو تو بہت سی لذتوں سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ طالبات کے قریب بیٹھ کر گپ شپ بھی نہیں کرسکتے۔ جامعہ کراچی میں تو طلبہ یونین کے صدر شفیع نقی جامعی کے دور میں یہ ہدایات جاری ہوگئی تھیں کہ لڑکا، لڑکی اپنے درمیان کم از کم تین فٹ کا فاصلہ رکھیں۔ اس کا مذاق بھی اڑایا گیا۔ پہلے تین فٹ فاصلہ ناپا جاتا۔ لیکن یہ وہ دور تھا جب جامعہ کراچی میں اختلاط اپنی حدوں سے باہر نکل گیا تھا۔ جس تھنڈر اسکواڈ کا آج بھی مذاق بنایا جاتا ہے اس کے نتیجے میں جامعہ میں بے حیائی ک مناظر بہت حد تک کم ہوگئے تھے۔ جوڑوں کو آئی بی اے جانا پڑتا تھا۔ ہماری کلاس میں ایک خاتون تھیں جو باجی کہلاتی تھیں۔ بائیں بازو کے معروف سیاسی خاندان سے تعلق تھا اور جامعہ کراچی میں ان کی وابستگی پی ایس ایف سے تھی، لیکن اندر سے وہ بھی کٹر مسلمان تھیں، پرانی تہذیب و شرافت کا نمونہ۔ انہوں نے اپنی کلاس کی ایک لڑکی کو، جس کا فکری تعلق پی ایس ایف سے ہی تھا، دھمکی دی کی فلاں کے ساتھ جڑ کر بیٹھی رہتی ہو، ہم شفیع نقی جامعی سے شکایت کردیں گے۔ جمعیت کے یونین نے جو اخلاقی اقدار متعارف کرائی تھیں ان کے اثرات مرتب ہورہے تھے۔ والدین اپنی لڑکیوں کو اس اطمینان کے ساتھ جامعہ کراچی بھیجتے تھے کہ وہاں اسلامی جمعیت طلبہ ہے جو کسی بدمعاشی نہیں چلنے دے گی، اوباشوں کو لگام ڈالے گی اور طالبات محفوظ رہیں گی۔ اب تو پتا نہیں کیا حال ہے۔ طلبہ تنظیموں پر پابندی ہے اور سگ آزاد ہیں۔
ہم کبھی کبھی سوچتے ہیں کہ اگر اسلامی جمعیت طلبہ ملک کے بیشتر تعلیمی اداروں میں فعال نہ ہوتی اور محتسب کا کردار ادا نہ کرتی تو نوجوان نسل کا آج نجانے کیا حال ہوتا۔ جب سید مودودی کی دوررس نگاہ نے پاکستان کے تعلیمی اداروں پر الحاد کی یلغار کے نتائج کا ادراک کیا تو انہوں نے اس کے مقابلے کے لیے ایسے طلبہ کی تنظیم سازی کا عزم کیا جو الحاد اور اشتراکیت کے سامنے دیوار بن جائے اور نئی نسل کو تباہ ہونے سے بچالے۔ اب اس کے نام کا مسئلہ تھا۔ معروف ادیب اور صحافی مولانا نصراللہ خان عزیز نے اس کا نام اسلامی جمعیت طلبہ تجویز کیا اور پھر چند سرپھرے نوجوانوں کے دم قدم سے یہ کارواں بڑھتا اور پھیلتا چلا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ علامہ اقبال کی اس دعا کو سید مودودی کی برکت سے اسلامی جمعیت طلبہ نے حقیقت کی شکل دی کہ “جوانوں کو پیروں کا استاد کر” یہ اور بات کہ بعض پیر اب بھی بڑے استاد ہیں۔ ہم بھی پیری میں قدم رکھ چکے ہیں کہ اس پر ہمارا کوئی بس بھی نہ تھا، مگر جب جمعیت کے نوجوانوں کو دیکھتے ہیں تو دل یہی چاہتا ہے کہ انہیں پیر و مرشد بنالیں۔ اصل چیز کردار ہے۔ یہی شدید مخالفین کو بھی موم کردیتا ہے۔ ایک زمانے میں جب جامعہ کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کی یونین تھی اور عبدالمالک مجاہد اس کے صدر تھے تو ہم نے بڑی ماڈرن قسم کی لڑکیوں کو بھی جمعیت کی تعریف کرتے اور اسے ووٹ دینے کا اعلان کرتے ہوئے سنا۔ ہم نے تین فٹ کا فاصلہ رکھتے ہوئے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ جمعیت کی مداح کیسے ہوگئیں؟ ان کا جواب تھا کہ یہ لوگ انتہائی شریف اور مہذب ہیں، ہر لڑکی کا احترام کرتے ہیں اور بلاامتیاز ہر ایک کا مسئلہ حل کرانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ایک صاحبہ بولیں: یہ تو ہم سے کبھی آنکھ اٹھا کر بھی بات نہیں کرتے، آنکھیں نیچے ہی رہتی ہیں۔ یہ تو ہم ن یونین کے صدر عبدالمالک مجاہد کو بھی کرتے دیکھا تھا۔ صدر کی حیثیت سے لڑکیاں ان سے رابطہ کرتی ہی تھیں مگر وہ نظریں نیچی کیے ان کی باتیں ستنے تھے اور شرماتے بھی جاتے تھے۔ حسی حقانی کے دور صدارت میں منظر بدل گیا تھا۔ اس سے ایک بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ ہماری لڑکیاں بظاہر کتنی ہی ماڈرن ہوں اُن کے اندر موجود مشرقیت اور حیا زندہ رہتی ہے اور وہ ضرور چاہتی ہیں کہ ان کا احترام کیا جائے۔
دراصل یہ جمعیت کے لڑکوں کا ذاتی کردار ہے جس کی کشش لوگوں کو کھینچ لاتی ہے۔ زوال ہر طرف آیا ہے اور شاید جمعیت کے کارکنوں میں بھی فرق آیا ہو، لیکن دوسروں کے مقابلے میں اس کی شرح بہت کم ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ ان کو جو لٹریچر پڑھوایا جاتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی تلقین کی جاتی ہے وہ ان کو بھٹکنے نہیں دیتی نماز کی پابندی نوجوان چہروں پر سنت رسول اور بھلائی کے کاموں میں مصروفیت اخلاق میں بگاڑ نہیں آنے دیتی۔ یہ صحیح ہے کہ مجبور ہوکر نوجوان مشتعل بھی ہوجاتے ہیں مگر صرف کراچی میں اس کا حساب کرلیجیے کہ جمعیت کے کتنے قیمتی جوان شہید کردیے گئے، صرف اس جرم میں کہ نیکی کی تلقین کرتے تھے اور برائیوں سے روکتے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ عمران خان کو طلبہ کی مخالفت کے باوجود جامعہ پنجاب میں لایا گیا۔ اس موقع پر کچھ مشتعل لڑکوں نے عمران خان کو دھکے بھی دیے، ان کی نکسیر تک نہیں پھوٹی، جن لڑکوں نے یہ حرکت کی تھی ان کے خلاف جمعیت نے انضبابی کاروائی کی۔ عمران خان اس واقعہ کو بھول بھی چکے ہوں گے مگر ان کے ممدوح ایک صحافی اب تک یہ واقعہ نہیں بھولے اور وہ موقع بے موقع یاددہانی کراتے رہتے ہیں جیسے یہ معاملہ ان کی ذات کا ہو۔ اسی جامعہ پنجاب میں ایک گروہ نے سب کے سامنے جمعیت کے کئی لڑکوں کو شہید کردیا تھا اور دندناتے ہوئے نکل کر ملتان روڈ پر ٹھوکر نیاز بیگ کی ایک بستی میں روپوش ہوگئے تھے۔ ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ موصوف نے اس پر بھی کچھ لکھا ہو۔ جمعیت کے نوجوانوں کا خون کتنا سستا ہے۔ کراچی میں گورنمنٹ کامرس کالج میں بھی ایسا ہی واقعہ ہوا جب ایک لسانی گروہ کے قاتلوں نے کلاسوں میں گھس کر قتل کیا اور باہر کھڑی پولیس کے سامنے سے ایسے نکل گئے جیسے سلیمانی ٹوپی پہنی ہوئی ہوں۔ جمعیت کے ایسے بے شمار مقتول ہیں جن کا خون آج بھی انصاف کا منتظر ہے، لیکن یہ انصاف شاید بروز جزا ہی مل سکے۔ اس دہشت گردی کے باوجود یہ قافلہ حق رکا نہیں، تھما نہیں، آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے۔
جمعیت کا ایک اور احسان تعلیمی اداروں پر ہے۔ بعض لوگ استاد کا بھیس بدل کر تعلیمی اداروں میں گھس آتے ہیں اور بے حیائی کے فروغ میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے چہروں سے نقاب اتارنا بھی جمعیت ہی کا کام ہے۔ اسی جامعہ پنجاب میں ایک استاد کی حرکتوں کا بھانڈا بھی جمعیت ہی نے پھوڑا۔ مذکورہ استاد نے اپنے دفتر میں مسند عیش سجارکھی تھی۔ واقعہ سامنے آیا تو کئی چینلز سے استاد کے حق میں اور جمعیت کے خلاف پروپگینڈا شروع ہوگیا، لیکن تحقیقات سے ثابت ہوا کہ جمعیت حق پر تھی اور استاد کے نام پر عزتوں کا لٹیرا جامعہ سے نکالا گیا۔ بات صرف اتنی نہیں ہے کہ آپ خود نیک ہوں، برائیوں سے اجتناب کرتے ہوں، بلکہ حکم یہ ہے کہ “تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو نیکی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے۔” ماشرے کو برائی میں مبتلا دیکھ کر آنکھیں بند کرلینا اور اپنی روش پر چلتے رہنا بدترین جرم ہے اور ایسے لوگ بھی پکڑ میں آتے ہیں جو اپنی خانقاہوں میں یا اپنے گھرو میں بند ہوکر بیٹھ رہتے ہیں۔ جمعیت کو یہ درس نہیں دیا گیا۔
جمعیت اپنے سالانہ اجتماعات بھی بڑے اہتمام سے کرتی ہے جس میں ہر ایک کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے تاکہ دوسروں تک بھی پیغام پہنچے۔ اس بار یہ اجتماع 8 سال بعد ایک بار پھر جامعہ پنجاب میں ہورہا ہے۔ تیاریاں دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ سارے پرانے ریکارڈ توڑ دے گا۔ ویسے تو پنجاب بالخصوص لاہور میں ڈینگی وائرس بھی ریکارڈ توڑ رہا ہے، لیکن جمعیت کے لڑکے تو اپنے مقصد کی خاطر آتش نمرود میں بھی کودنے کو تیار رہتے ہیں۔ وقت کے نمرودوں نے جگہ جگہ آگ کے گڑھے کھودے ہوئے تو ہیں۔ اس بار جمعیت کا سلوگن ہے: “امید بنو، تعمیر کرو سب مل کر پاکستان کی”۔ جمعیت کے نعرے اور سلوگن ہمیشہ سے اچھوتے اور مقبول عام رہے ہیں۔ ایسے نعرے نہیں کہ “ہم کو منزل نہیں رہنما چاہیے”۔ ذرا نہیں سوچا کہ رہنما منزل ہی کی راہ تو دکھاتا ہے۔ اور جب منزل ہی درکار نہیں تو رہنمائی کس کام کی اور کس کے لیے! اسلام کے متوالوں کے لیے تو منزل کا تعین آج سے ساڑھے چودہ سوبرس پہلے ہی ہوگیا تھا اور یہ منزل کسی دھند میں چھپی ہوئی نہیں ہے، واضح ہے۔ رہنما بھی موجود ہے اور اس کی ہدایات بھی۔ جمعیت کا قافلہ اسی سمت بڑھ رہا ہے اور اب تو پورے عالم اسلام میں بیداری اور امید کی نئی لہر پیدا ہوگئی ہے۔ عرب ممالک کے غاصب حکمرانوں کے خلاف لاکھوں کی تعداد میں مظاہرہ کرنے والوں کے لبوں پر اللہ اکبر کا نعرہ ہے، رہبر و رہنما، مصطفیٰ مصطفٰی کی صدائیں ہیں۔ کوئی شبہ نہیں کہ اسلامی جمعیت طلبہ امید کا سورج ہے۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں دیگر ممالک میں بھی یہ امید مختلف ناموں سے کام کررہی ہے اور ظلم و استبداد کا مقابلہ کررہی ہے۔ امید تو ویسے بھی ایک مسلمان کا سرمایہءحیات ہے۔ حکم ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یعنی امید کا دامن تھامے رہو کہ ناامیدی کفر ہے۔ علامہ اقبال تو اپنی کشت ویراں سے بھی مایوس نہیں تھے۔ انہیں یقین تھا کہ “ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی”۔ اس وقت پاکستان جن بحرانوں سے گزر رہا ہے اور تخریبی قوتیں ہرطرف سرگرم ہیں، ایسے میں مل کر تمیر پاکستان کی ضرورت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے، اور جب تعمیر کا کام نوجوانوں کے ہاتھ میں ہو تو امید بڑھ جاتی ہے۔ شاہین بچوں کے بال و پر کب کے نکل چکے۔ خدا ان کے عزائم میں برکت دے کہ یہ اس دور کے یاجوج، ماجوج کے سامنے “سد سکندری” ہیں جس کو چاٹ چاٹ کر یاجوج، ماجوج بے حال ہوئے جارہے ہیں۔
ہم سمجھت ہیں کہ جمعیت جو کچھ کرتی رہی ہے، جو کچھ کررہی ہے اس کا اظہار اس شعر میں بھرپور طریقے سے ہورہا ہے:
دلوں کو مرکز مہر و وفا کر
حریم کبریا سے آشنا کر
علامہ اقبال نے اس سے آگے یہ دعا بھی کی تھی کہ:
جنہیں نان جویں بخشا ہے تو نے
انہیں بازوئے حیدر بھی عطا کر
ستم یہ ہے کہ حکمرانوں نے نان جویں سے بھی محروم کردیا ہے پھر بھی ہمیں یقین ہے کہ جمعیت کا ایک ایک کارکن بازوئے حیدر کی صفت سے متصف ہے۔
بشکریہ: روزنامہ جسارت
جناب یہ بات آپ ان دنوں کی کر رہے ہیں جب واقعی ہی جمعیت کی بنیاد اسلام تھی. ابھی تو جمعیت صرف ایک سیاسی طرز کی جماعت نظر آتی ہے. میں اپنے کالج کے زمانے میں جمعیت میں نہیں رہا لیکن میری ساری ہمدردیاں جمعیت کے ساتھ رہی ہیں. الیکشن میں بھی جماعت اور کتاب کو ووٹ دیا،لیکن حاصل حصول کچھ بھی نہیں آخر میں جن کو ووٹ دیا وہ صاحب کسی دوسرے کے ساتھ جا ملے میرا تو ووٹ بھی ضایع ہی گیا.
جب کوئی دوسری جماعت ایسا کرتی ہے تو کچھ خاص دکھ نہیں ہوتا کیوں کہ ان لوگوں سے تو اچھائی کی توقع کرنا ہی بیواقوفی ہے، لیکن جب سے جماعت کی پالیسی میں سیاہ سیات (معذرت کے ساتھ) کا عنصر نظر آنے لگا ہے تو جماعت کو بھی اسی تناظر دیکھا جاتا ہے یعنی جس دریا میں سب ننگے ہیں.
افسوس یہ ہے کہ اس ملک کو اللہ اور رسول کے نام پر بنا کر، اس کا مقصد تو پورا کرنا دور کی بات بلکہ اسلامی اقدار کی پامالی غیر مسلموں سے زیادہ کی جا رہی ہے.
امید ہے کہ میری اس ٹوٹی پھوٹی تنقید کو آپ جماعت کے لوگوں تک بھی پہنچائیں گے.
شکریہ
ميں اسلامی جميت طلباء ميں تو کبھی نہيں رہا ليکن سکول اور کالج ميں ايسے لڑکوں کے حلقہ ميں رہا کہ اس حلقے کے ہر لڑکے کو نماز اور دوسرے عوامل کا حساب ہر ہفتہ دينا ہوتا تھا ۔ ميرا خيال ہے کہ ايسے لڑکوں کی صحبت نے مجھے دين کو سمجھنے کی طرف اُس دور ميں راغب کيا جس دور ميں ميرے اکثر ہمجماعت گلی ڈنڈا کھيلتے يا پتنگ اُڑاتے رہے ۔ ميں نے ايک درجن سے زيادہ بار گلی ڈنڈا نہيں کھيلا اور صرف ايک بار پتنگ اُڑائی اور انجنيئرنگ کالج ميں تعليم کے دوران قرآن ترجمہ کے ساتھ خود پڑھا اور تفسير ايک عالِم سے پڑھی
يہ ميں لکھنا بھول گيا کہ ميں پتلون پہنتا تھا نَيک ٹائی لگاتا تھا اور سرديوں ميں فيلٹ ہَيٹ بھی پہنتا تھا ۔ ميں نے 1962ء ميں بی ايس سی انجنيئر لاہور ميں پاس کی اور داڑھی ميں نے اکتوبر 2004ء ميں رکھی
I like IJT.
ALLAH KARE TUJH KU ATA JADDAT E KIRDAR
Pingback: حریم کبریا سے آشنائی | Tea Break
مسٹر مودودی کے لٹریچر کا مطالعہ کرنے والا کیسے یہ بات نہیں جان سکتا کہ انھوں نے جا بجا انبیائے کرام ، صحابہ کرام اور علمائے سلف کی گستاخیوں سے اپنا دامن داغدار کیا ہے.
صرف ایک بات جو سچ کی تلاش والے کو کفایت کر سکتی ہے.کہ
مسٹر مودودی نے اپنی کتاب پردہ میں اللہ عزوجل کے پیارے حبیب علیہ السلام کے بارے میں زبان درازی کرتے ہوئے نعوذباللہ عرب کا ان پڑھ چرواہا لکھھ کر جو گستاخی کی ہے اس کے باوجود حیرت کا مقام ہے کہ لوگ اسلام کا دعویٰ بھی کریں اور مودودیت کے گن بھی گائیں اللہ عزوجل ایسی گستاخوں سے تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے ..
یار کیا بات ہے آپ کی. لٹریچر کا مطالعہ کرنے کا بات کررہے ہیں اور میں داعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے خود کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی ہوگی مولانا مودودی کی سوائے چند جاہلانہ ٹوٹوں کے. یہ وہ بچکانہ بلکہ جاہلانہ الزامات ہیں جو جاہل لوگ لگایا کرتے رہے ہیں سادہ لوح لوگوں کو مولانا مودودی اور جماعت اسلامی سے بدظن کرنے کےلیے تاکہ اپنا دھندہ جاری رکھ سکیں. حالانکہ اس طرح کے الزامات تو کٹر مخالفین بھی نہیں لگاتے کہ انہیں پتہ ہے کہ بات بنے گی نہیں.
عرب و عجم جن کی عظمت کے گن گاتے ہیں. دنیا بھر کی اسلامی تحریکیں جنہیں اپنا مرشد و مربی مانتی ہیں. جنہوں نے نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم پر بہترین کتابیں لکھ ڈالیں ہیں ان پر یہ بیچارے سادل لوح لوگ اپنی کم علمی اور فرقہ وارانہ تعصب کے زیر اثر بھونڈے الزامات لگاتے ہیں. اب تو اگر کوئی اس طرح کی باتیں کرے تو ہنسی آتی ہے. بہت خوب بھئی آفتاب اسلام احمد صاحب بہت خوب. کاش کچھ مطالعہ ہی کرلیا ہوتا.
جناب مودودی (رح) نے دین کو آسان فھم بنانے کے لےء بھت کام کیا اور آج کل کے لوگ ان کے بارے میں بکواسات کرتے رھتے ھیں .اللھ ان کے خدمات کو قبول فرما یں اور ان کی کتابوں کے ذریعے لوگوں کو دین سمجھنے کی توفیق عطا فرمایں.
آمین.