ان کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے،وہ آج بہت خوش تھے کیوں کہ آج ان کے اسکول کی جانب سے ان کے لئے پکنک کا اہتمام کیا گیا تھا اور یہ لوگ پورے دن سیر تفریح کرنے کے بعد اب اپنے گھروں کو واپس جارہے تھے۔ویسے تو سارے ہی بچے بہت خوش تھے لیکن چھوٹی کلاسز کے بچوں کی خوشی تو دیدنی تھی۔ان کے معصوم چہروں پر مسکراہٹیں تھیں،وہ دوستوں کے ساتھ خوش گپیاں کرتے،نعرے لگاتے ہنستے گاتے اس پکنک پر گئے تھے اور اب واپسی کے سفر میں یہ سوچتے ہوئے جارہے تھے کہ گھر جاکر اپنے والدین کو آج کی پکنک کا احوال سنائیں گے کہ انہوں نے پورا دن کیسے گزارا۔کئی بچے پورے دن کے سیرو تفریح کے بعد اب سیٹوں کی پشت پر ٹیک لگائے اونگھ رہے تھے۔جبکہ بڑی کلاسز کے بچے ابھی بھی مستعد تھے کیوں کہ سینئر ہونے کے ناطے ان کی ذمہ داری یہ بھی تھی کہ وہ اپنے ننھے ساتھیو ں کا خیال رکھیں گے۔ بس اپنی مخصوص رفتار سے منزل کی جانب رواں دواں تھی کہ اچانک بس کی رفتار غیر معمولی طور پر تیز ہوگئی اور پھر ڈرائیور نے کہا ’’ بریک فیل ہوگئے ہیں سب لوگ کلمہ پڑھ لیں‘‘ یہ کہتے ہیں اس نے چلتی بس سے چھلانگ لگا دی اور پھر بس گہری کھائی میں جاگری۔
چند لمحوں پہلے جن چہروں پر مسکراہٹیں اور گزرے دن کی یادوں کا عکس تھا ،اب وہ چہرے خوف سے مسخ ہوگئے تھے،جس گاڑی میں ابھی چند لمحوں پہلے ان معصوم طلبا کے نعرے اور نغمے گونج رہے تھے اب اس بس میں ان کی دردناک چیخیں تھیں۔رنگ برنگے لباسوں میں اب ایک نئے رنگ کا اضافہ ہوگیا تھا ۔لہو کے سرخ رنگ کا۔
پیر کی شام کلر کہار سالٹ رینج کے نزدیک ایک افسوسناک حادثے میں اسکول کے وائس پرنسپل اور اسٹاف سمیت41افراد جاں بحق ہوگئے،ہلاک شدگان میں 30 سے زائد اسکول کے طلباء شامل ہیں۔ تفصیلات اس سانحے کی یہ ہیں کہ فیصل آباد کے ایک نجی اسکول کے کلاس ششم تا دہم کے طلباء تفریحی دورے پر کلر کہار آئے،واپسی پر شام 6 بجے کے قریب یہ بس کلر کہار سالٹ رینج کے پاس حادثے کا شکار ہوگئی ۔ابتدائی رپورٹس کے مطابق یہ حادثہ بس کے بریک فیل ہوجانے کے باعث پیش آیا،حاثے میں زخمی ہونے والے ایک بچے کے مطابق اچانک بس کی رفتار تیز ہوگئی اور ڈرائیور نے بتایا کہ بریک فیل ہوگئے ہیں اور یہ کہہ کر ڈرائیور نے گاڑی سے چھلانگ لگا دی اورپھر یہ افسوس ناک سانحہ رونما ہوا۔ حادثے میں41جاں بحق ہونے کے ساتھ ساتھ 70طلباء شدید زخمی بھی ہیں۔
چونکہ ہمارا تعلق بھی ایک تعلیمی ادارے سے ہے اس لئے فطری طور پرہم نے اس حادثے کو محض ایک حادثہ نہیں سمجھا بلکہ کوشش کی کہ اس کی وجوہات پر غور کیا جائے۔یہاں کچھ باتیں قابل غور ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ دیکھا جانا چاہئے کہ ایک بس میں عموماً کتنے افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ بڑی بسیں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک عام پبلک بسیں جو کہ 52 سیٹر ہوتی ہیں اور دوسری نسبتاً بڑی بسیں جو کہ انٹر سٹی بسیں یا کوچز کہلاتی ہیں یہ بسیں 62 یا 65 سیٹر ہوتی ہیں ۔یہ تو ان بسوں کی سیٹوں کی تعداد ہے، لیکن جب گنجائش کی بات کی جائے تو وہ کچھ اور معاملہ ہے۔ دیکھیں اسکول میں بسیں جب بک کی جاتی ہیں تو بچوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ ان کی کلاس اور عمر کے مطابق بک کرائی جاتی ہیں۔اس بات کو یوں سمجھیں کہ اگر ہم کلاس نرسری، کے جی، کلاس ون اور کلاس ٹو کے بچوں کے لئے گاڑی بک کرانے جائیں اور بچوں کی تعداد 80 سے 90 ہو تو ان کے لئے ایک 62 سیٹر بس کافی ہوتی ہے،کیوں کہ چھوٹے بچے بہت کم جگہ گھیرتے ہیں اور بس کی ایک سیٹ پر دو بچے بہ آسانی بیٹھ جاتے ہیں لیکن اسکولز ایک سیٹ پر دو اور دو کی سیٹ پر چار بٹھانے کے بجائے دو کی سیٹ پر تین اور تین کی سیٹ پر پانچ بچوں کو بٹھاتے ہیں جس کے باعث بچوں کو بھی تنگی محسوس نہیں ہوتی اور ایک بس میں یہ سارے بچے بہ آسانی سفر کرسکتے ہیں،جبکہ ان90 بچوں کے درمیان ان کے اساتذہ کرام بھی بیٹھتے ہیں تاکہ بچوں کو سنبھالا جاسکے اور وہ دوران سفر بس کے اندر ہی کسی حادثے کا شکار نہ ہوں اور اس طرح مجموعی طور پر 100 افراد اس بس میں سفر کرسکتے ہیں.
اس کے بعد اگر ہم بات کریں کلاس سوم تا کلاس پنجم کی تو اس میں گنجاش کچھ کم ہوجاتی ہے اور اس میں 62 سیٹر بس میں مجموعی طور پر 75 تا 80 افراد سفر کرسکتے ہیں جبکہ اگر بات کی جائے کلاس ششم تا کلاس نہم یا دہم کی تو اس لیول پربچوں کو سیٹ ٹو سیٹ بٹھایا جاتا ہے یعنی 62 سیٹر بس میں کل 62 یا زیادہ سے زیادہ 65 افراد سفر کرسکتے ہیں۔ یہ ساری پوزیشن ہم نے اندرون شہر بچوں کی پکنک یا اسٹڈی ٹور کے بارے میں بتائی ہے۔ جبکہ اگر بچے اسٹڈی ٹور پر شہر سے باہر جائیں تو ان کے لئے انکی تعداد کے مطابق ایسی گاڑی کا انتخاب کیا جاتا ہے جس میں بچے صرف سیٹ ٹو سیٹ نہ بیٹھیں بلکہ کچھ سیٹیں خالی رہیں تاکہ دوران سفر اگر طلبہ لیٹنا یا آرام کرنا چاہیں تو ان کو پریشانی نہ ہو۔
یہ ساری باتیں ہم نے اس لئے آپ کے سامنے بیان کی ہیں تاکہ آپ کو اندازہ ہوسکے کہ اس سنگین حادثے میں کہاں کہاں کیا کیا کوتاہیاں ہوئی ہیں۔اگر جائزہ لیں تو سب سے پہلی بات یہ کہ حادثے کا شکار بس کی فوٹیج دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ 52 سیٹر بس تھی لیکن بفرض محال اگر وہ 62 سیٹر بھی تھی تو بھی اس میں کلاس ششم تا دہم کے زیادہ سے زیادہ 75 تا 80 افرادکی گنجائش تھی جبکہ اطلاعات کے مطابق بس میں اسکول کے ساتھ ساتھ وائس پرنسپل اور دیگر سٹاف سمیت 110 افراد سوار تھے ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسکول انتطامیہ نے اسکول کا خرچہ بچانے کے لئے دو کے بجائے ایک ہی بس سے کام چلانے کی کوشش کی اور بچوں کو اس بس میں ٹھونس دیا گیا،دیکھیں جب 65 سیٹوں والی بس میں آپ 110 افراد بٹھائیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ بچوں کو ٹھونس ٹھانس کر یہ کام کیا جائے گا۔یہ ایک صریحاً غلط حرکت ہے۔
اس کے بعد یہ دیکھیں کہ ایک نجی ٹی وی چینل پر فیصل آباد کے پرائیوٹ اسکول کی ایسوسی ایشن کے ایک ذمہ دار فرد سے جب یہ سوال کیا گیا کہ ’’110 طلبا کے لئے ایک ہی گاڑی کا انتطام کیا گیا اور کیا یہ بد انتظامی نہیں تھی؟‘‘ تو اس کے جواب میں انہوں نے عجیب ہی بات کی کہ ’’ہم والدین کو پہلے مطلع کرتے ہیں کہ جو والدین اپنے بچوں کو پکنک یا آؤٹنگ پر بھیجنا چاہیں تو پہلے سے اطلاع دیں لیکن کئی والدین عین پکنک والے دن ہی اپنے بچوں کی روانگی سے اسکول انتظامیہ کو مطلع کرتے ہیں جس کے باعث انتظامات میں مشکل ہوتی ہے‘‘ یہ بات بالکل درست ہے اور ایسا ہی ہوتا ہے کہ کئی والدین پہلے اطلاع نہیں دیتے اور آخری دن یا عین پکنک والے دن ہی بچوں کو جانے کی اجازت دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی بھی اسکول جب کسی پکنک یا آؤٹنگ کا پروگرام بناتا ہے تو پہلے یہ طے کیا جاتا ہے کہ کس کس کلاس کو لیکر جانا ہے، اس کے بعد ان کلاسز کے تمام طلبا کی تعداد کے مطابق انتظامات کئے جاتے ہیں یعنی کم از کم کے بجائے زیادہ سے زیادہ تعدا دکو مد نظر رکھ کر انتظامات کئے جاتے ہیں ۔اس لئے یہاں پرائیوٹ اسکولز کے نمائندے کا والدین کو مورودِ الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے۔
تیسری بات یہ کہ جب اس میں حادثے کا شکار بس کے مالکان اور ڈرائیور بھی اس سنگین حادثے کے ذمہ دار ہیں۔ایک سیدھی سی بات ہے کہ جب کوئی گاڑی کسی بکنگ وغیرہ پر جاتی ہے تو مالکان یا ڈرائیور اس کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرتے ہیں، اس کے کل پرزوں کا معائنہ کیا جاتا ہے اور اس کے نقائص کو دور کیا جاتا ہے تاکہ دوران سفر کسی قسم کی مشکل نہ پیش آئے۔ اب یہاں حادثہ کی وجہ بریک فیل ہونا بیان کی جارہی ہے لیکن سوچنے کی بات ہے کیا بریک اچانک اور ایک دم فیل ہوجاتے ہیں۔ بریک فیل ہونے کی دو وجوہات ہوتی ہیں اگر گاڑی آٹو میٹک (ہائیڈرالک سسٹم ) پر ہے تو اس میں یہ خرابی ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی بھی وجہ سے دوران سفر گاڑی کا انجن بند ہوجائے تو اس کے بریک اور اسٹئرنگ کام نہیں کرتا۔ پھر اس کو بڑی مشکل سے آہستہ آہستہ رفتار کم کرتے ہوئے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ جبکہ گاڑیوں میں بریک فیل ہونے کی دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ جب گاڑی چلنا شروع ہوتی ہے تو اس کا بریک آئل آہستہ آہستہ ختم ہوتاجاتا ہے اور وہ ایک مقررہ و مخصوص فاصلے کے بعد مکمل ختم ہوجاتا ہے اور بریک آئل ختم ہونے کی صورت میں بریک کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ جبکہ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ جیسے جیسے بریک آئل ختم ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے بریک کی کارکردگی میں فرق پڑتا جاتا ہے اور گاڑی کے بریکس بتدریج کم ہوتے جاتے ہیں اور بالاخر بریک کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اب یہ گاڑی چلانے والے کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی گاڑی کا بریک آئل چیک کرلیا کریں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گاڑی کے مالکان اور ڈرائیور نے اتنے سارے بچوں کو سفر پر لیجانے سے پہلے گاڑی کا معائنہ نہیں کیا جس کے باعث یہ سنگین سانحہ رونما ہوا۔
بہر حال یہاں یہ ساری باتیں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جوافراد اس سانحے میں جاں بحق ہوئے ہیں وہ تو اب واپس نہیں آسکتے لیکن کم از کم اس حادثے کی وجوہات کو سامنے لا کر آئندہ کے لئے ایسے حادثات کو روکا جاسکتا ہے۔
Pingback: کلر کہار بس حادثہ | Tea Break