اسلام دین فطرت ہے، اﷲ نے مرد عورت دونوں کو پیدا کر کے معاشرے میں ان کو الگ الگ دائرہ کار دیا ہے کہ جس میں وہ اپنی ذمہ داریاں کماحقہ انجام دے کر اﷲ کے یہاں اجر و ثواب پا سکیں. ارشاد ربانی ہے:
جس چیز میں اﷲ نے ایک کو دوسرے پر تر جیح دی ہے اسکی تمنا نہ کرو۔ مردوں کو حصہ ملے گا اسی میں سے جو انھوں نے کمایا اور عورتوں کو حصہ ملے گا اسی میں سے جو انھوں نے کمایا۔اﷲ سے اسکا فضل مانگو بے شک اﷲ تعالی ہر چیز کا جاننے والا ہے. (سورہ النساء :۲۳)
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ:
رسول اکرم ؐ نے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشا بہت اختیار کریں لعنت فر ما ئی ہے. (ابو داؤد)
مو جو دہ دور میں ماڈرن ازم کے نام پر کثرت سے ایسے پہناوے نظر آئیں گے جو اپنی صنف اور حکم الہی سے بغاوت کرتے ہیں۔ مردوں کے بدن پر ریشمی کڑھے ہو ئے لباس، کانوںمیں بالے، گلے میں چین، ہاتھوں میں کڑی، لمبے بال، غرض مرد عورت کے بھیس میں ملبوس ہیں اور عورتوں نے جینز، ٹی شرٹ، بوائے کٹ اسٹائل بال رکھ کر مردوں کاروپ دھارا ہوا ہے. مخلوط محافل پر مشتمل مو جودہ معاشرہ شرم و حیاء سے عاری ہے.
فرمان نبوی ہے: حیاء نصف ایمان ہے۔ جب تجھ میں حیاء نہیں تو پھر جو تیرا دل چاہے کر. (بخاری)
آپ ؐ نے مزید فرمایا: عورت پوشیدہ چیز ہے جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسکی تاک جھانک میں لگا رہتا ہے. (تر مذی)
حیاء ایک وصف اور ایمان کا جزو ہے۔ دونوں خیر کے داعی اور شر سے انسان کو دور کرتے ہیں۔ ایمان اطاعت الہی کرنے اور گناہ میں ملوث ہو نے سے روکتا ہے جب کہ حیاء انسان کو برے کام نہ کرنے پر ابھارتی ہے اور اہل حق کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے سے، فحش و بے حیائی سے روکتی ہے۔ اسی لیے صالح عورت کو حجاب کی تاکید کی گئی ہے۔
ارشاد ربانی ہے: اے نبی اپنی بیویوں، بیٹیوں، مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر چادر کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں، اس تدبیر سے توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور انہیں ستایا نہ جائے. (سورہ احزاب:۹۵)
عربی زبان میں بڑی چادر کو حجاب کہا جاتا ہے جو سر تا پاوں ڈھانکنے کے کام آتی ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی عورتیں چادر اوڑھا کرتیں تھیں مگر اس طرح کہ انکی پشت توڈھک جاتی تھی مگرسینہ کھلا رہتا تھا. اس آیت کریمہ کے ذریعے اﷲ تعالی نے عورت کو چادر اوڑھنے کا شرعی طریقہ بتا کر پردہ لازمی قرار دے دیا گیا۔
حجاب امت مسلمہ کا تشخص اور شعائر اسلام ہے اور حجاب کا مقصد ستر حاصل کرنا اور اپنے آپ کو فتنے سے بچانا ہے. زمانہ جا ہلیت میں پردے کا کوئی تصور نہ تھا، اشراف کی عورتیں اور لونڈیاں کھلی پھرتی تھیں اور بدکار لوگ انکا پیچھا کرتے تھے۔ اسلام کے بعد جوں جوں مسلمان معاشرے کی بنیاد پڑتی چلی گئی پردے و حجاب کے متعلق احکام نازل ہو تے چلے گئے حتی کہ شریعت نے مسلمانوں کی شرم و حیاء کی پوری حد بندی کر دی۔ زمانہ جاہلیت میں عورتیں بے حجاب، زیب و زینت سے آراستہ ہو کر باہر نکلتی تھی جس کی ممانعت کر تے ہو ئے اﷲ نے فر مایا: وقرن فی بیو تکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃالاولی۔۔۔(سورہ الاحزاب:۳۳)
اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج دیکھاتی نہ پھرو.
عورت کا پردہ بلا شبہ ایک دینی امر ہے جس کا مقصد انسانی معاشرے کو خطرناک مرض( جسے قرآن پاک نے فحش کہا ہے) سے بچا نا ہے. پردہ کی اہمیت کو اجاگر کر تے ہو ئے آپ ؐ نے مزید فر مایا:
دیکھنے والے پر اور اس پر جس کی طرف نظر گئی اﷲ کی لعنت، یعنی دیکھنے والا جب بلا عذر شرعی قصدآ دیکھے اور دوسرا قصدا دیکھائے ۔(بیہیقی)
حجاب کا دوسرا حکم سورہ نور کی آیت ۱۲ ہے جو سابقہ آیت کے تسلسل میں ہے: اور اپنے گریبا نوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں. (نور:۱۲)
اوڑھنی/ دوپٹا چادر کی ہی ایک شکل ہے. چہرہ، سر، سینہ کو چھپانا ضروری ہے.
قرآن نے عورت کو اس کے جسم کے ساتھ بالخصوص ۳ اعضاء جسمانی چہرہ، سر، سینہ کو ڈھانکنا لازمی قرار دیا ہے اور ترک پردہ کی اجازت بلا ضرورت شریعہ ہر گز نہیں۔ سنن ابو دادد کتاب الجہاد میں ہے:
ایک خاتون صحابیہ ام خلاد کا بیٹا ایک جنگ میں شہید ہوگیا وہ اس کی بابت دریافت کر نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں مگر اس طرح کہ چہرے پرنقاب ڈالی ہو ئی تھی، بعض صحابہ نے حیرت سے کہا کہ اس وقت بھی تمھا رے چہرے پر نقاب ہے۔ ( یعنی بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر تو ایک ماں کو تو اپنا ہوش نہیں رہتا اور تم اس اطمینان کے ساتھ باپردہ آئی ہو) ان صحابیہ نے جوابا عرض کیا: میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے مگر اپنی حیاء تو نہیں کھوئی۔
حجاب عورت کی عزت و عصمت کی پہچان اور معاشرے کی پا کیزگی کا ذریعہ ہے. یہ محض سر پر ڈھکے جانے والے والا کپڑے کا ٹکڑا نہیں بلکہ مسلم و پاکیزہ عورت کی شناخت ہے مگر افسوسناک امر ہے کہ اسلام دشمن عناصر اسلامی تہذیب کے خدو خال کو پا مال کرنے میں سر گرم عمل ہیں. مغرب کی نقالی و غلامی نے اسلامی تعلیمات سے بغاوت کو فروغ دیا ہے۔
آج آزادی نسواں کے نام پر عورت کو چراغ خانہ کے بجائے شمع محفل بنا کر فحش ڈراموں، مخلوط محافلوں اور اشتہارات کے ذریعے عورت کو غیر ساترلباس میں پیش کر کے اس کی نسوانیت کو برسرعام رسوا کیا جارہا ہے. تجارتی منڈیوں میں عورت کا استعمال اخلاقی پستی و گراوٹ کی انتہا ہے۔ عورت کو ترقی کے نام پر بے حجاب کرنا شیطانی قوتوں کا شاخسانہ ہے. اسلام اولین مذہب ہے جس نے حجاب کے ذریعے مسلم عورت کی عزت و وقار کو سر بلند کیا ہے۔
آیات قرآنیہ کا اصل مفہوم عورتوں کو مرد کی ہوسناکی سے اور مردوں کو عورت کے فتنے سے بچانا ہے. مسلم معاشرے میں کبھی بھی مرد و زن کے اختلاط کی گنجائش نہیں ہے۔ صالح و پا کیزہ معاشرے کے قیام کے لیے ضروری امر ہے کہ اسلامی انقلاب و فطری حجاب کے ذریعے صالح معاشرے کی تشکیل کی جائے اور اھل مغرب کی ہر سازش کا مقابلہ کیا جائے جو انہوں نے فرانس و ترکی میں حجاب لے کرآنے والی مسلمان طالبات پر پابندی لگا کر دین اسلام سے اپنی منافرت اور ذہنی تعصب کا ثبوت دیا ہے۔
ميں اس بلاگ کی تحارير پڑپتا رہتا ہوں ۔ لکھتا کچھ نہيں کہ سوائے تعريف کے اور کيا لکھوں ؟ اور بار بار تعريف کئے جانے سے تعريف کا مقصد ہی گم ہو جاتا ہے
يہ قلمی جہاد جاری رکھيئے ۔ اللہ ہمت دے