سورۃالقدر میں جس رات کا ذکر ہے اس رات نے درحقیقت پوری کائنات کو خوشی اور سرشاری سے ہمکنار کیا ہے۔ یہ عرش و زمیں کے باہمی اتصال کی کتنی خوبصورت اور حیرت انگیز رات تھی، ایسی رات جسکا اس زمین اور آسمان نے آج تک مشاہدہ نہ کیا تھا۔ انسانی فہم و ادراک جتنا بھی ترقی کرجائے وہ اس عظیم رات کی عظمت کا ادراک کرنے سے قاصر رہے گا کہ وما ادرٰک ما لیلۃ القدر۔۔۔ تم ادراک نہیں کرسکتے کہ لیلۃ القدر کا۔ کیا حسین اور وجد میں لانے والا منظر قرآن پیش کرتا ہے کہ فرشتوں کے جھرمٹ میں روح الامیں زمین کی جانب روااں دواں ہیں۔ اہل زمیں کے لئے سوغات لیکر، کائنات کا سب سے عظیم تحفہ لیکر، آسمان دنیا سے زمین تک ہرطرف نور ہی نور ہے اور پوری کائنات سراپا نور ہے۔ نہ صرف یہ رات سلامتی ہے بلکہ یہ رات جو عظیم پیغام لیکر آئی ہے وہ پیغام رہتی انسانیت تک کے لئے سلامتی کا پیغام ہے۔ یہ کونسی رات ہے اسمیں بہت سی روایتیں ہیں لیکن اس پر سب متفق ہیں کہ یہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے اور قدر والی رات ہے اور قدر کا مفہوم کہیں علماء تدبیر امر بیان کرتے ہیں اور کہیں قدروقیمت، حقیقتاً دونوں ہی مفہوم اس لفظ ‘قدر’ میں مخفی ہیں کیونکہ وہ عظیم الشان فیصلہ اور تدبیر جو اس رات میں کی گئی اس نے واقعتاً رہتی دنیا تک کے بندوں کی تقدیر بدل کر رکھ دی۔ ہزاروں مہینوں اور ہزاروں سالوں میں انسانیت کی فلاح کے لئے وہ کام نہیں ہوا جو اس ایک رات میں انجام پایا۔ کہ قرآن کی شکل میں جو عقیدہ، جو قانون، جو آئین، جو اصول و ضوابط وضع کئے گئے وہ رہتی دنیاتک انسانوں کی سلامتی انہی پر عمل سے وابستہ ہے۔
اس قدر والی رات میں انسانیت کو نئی قدروں سے روشناس کرایا گیا۔ صدیوں سے رائج جاہلیت کے دور کی سب قدریں، سب پیمانے، کُل کی کُل تہذیب اور تمدن سب کو مسترد کردیا گیا۔ اب انسانیت کو ہمیشہ رہنے والی عظیم قدریں اور نئے پیمانے دئے گئے۔ نسلی، نصبی غرور خاک میں ملا دئے گئے۔ ایک دوسرے پر شرف اور اور برتری کے پیمانے یکلخت تبدیل کر دئے گئے۔ اس ایک رات کی عظمت رہتی دنیا تک ثبت کر دی گئی کہ انسانیت اس عظیم ترین یادگار واقعے کو فراموش نہ کر دے۔ اس سے غافل نہ ہو جائے۔ لہٰذا رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ ہر سال اس عظیم رات کے شایان شان اس کا استقبال کریں، اس عظیم واقعہ کی یاد کو زندہ کریں، اس رات کو تلاش کریں۔ صحیحین کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘جس کسی نے شب قدر میں اللہ کی عبادت ایمان اور احتساب کی حالت میں کی اس کے پچھلے گناہ معاف کردئے جائیں گے’۔
شب قدر میں ایمان اور احتساب کے ساتھ اللہ کی عبادت کہ اپنے گزرے ہوئے روز و شب کا تنہائی میں جائزہ لیا جائے اپنا بے لاگ احتساب کیا جائے۔ جو رعائتیں ہم نے اپنے نفس کو دیکر اسے گناہوں کا خوگر بنادیا ہے، آجکی رات وہ حقیقی آئینہ بن جائیں جسمیں ہم بے لاگ اور بے رحمانہ طریقہ سے بغیر خود کو رعائتیں دیتے ہوئے اپنا احتساب کرلیں کہ ابھی تو رجوع کا وقت ہے، ابھی تو تو بۃ النصوح کا دروازہ بند نہیں ہوا ہے۔ نہ معلوم آنے والے سال میں ہمیں یہ ایمان و احتساب کی قدر والی رات نصیب بھی ہو کہ نہ ہو، لہٰذااس بار ان گھڑیوں کو غنیمت جانتے ہوئے آئندہ کی بہتری کےجو امکانات ہو سکتے ہیں یہ قدر والی رات دراصل اسی بہتر زندگی کی طرف دعوت دینے والی رات ہے کہ سچی استغفار کریں، اپنا کڑا محاسبہ کریں، جو نافرمانیاں کرچکے ان پر ندامت کے آنسو بہائیں جو نیکیاں نہ کر سکے آج کی رات انکی توفیق طلب کر لیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بندہ خاکی اگر اس رات کی حقیقی قدر پہچان لے تو اس ایک رات میں وہ خدا کے قرب کی اتنی منزلیں طے کرسکتا ہے جتنی ہزار راتوں میں بھی ممکن نہیں کہ اس کے پردے میں جو خزانے چھپے ہیں آج کی رات کی تلاش میں جو گرم دم جستجو ہوگا وہی ان خزانوں کو پا سکے گا۔ حضرت ابن ابی حاتم نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک صحابی کا ذکر کیا ہے جو ایک ہزار مہینے تک مسلسل مشغول جہاد رہا اور اس نے کبھی ہتھیار نہیں اتارے۔ مسلمان یہ سنکر تعجب اور رشک کرتے تھے جس پر یہ سورہ قدر نازل ہوئی اور امت کے لئے صرف ایک رات کی عبادت کو اس مجاہد کی عمر بھر کی عبادت یعنی ایک ہزار مہینے سے بہتر قرار دیا۔ اللہ تعالٰی نے سورہ قدر نازل فرما کر اس امت کی فضیلت سب پر ثابت کردی۔ اس طرح شب قدر امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیازات میں سے ایک امتیاز ہے۔ یہ وہی عظیم رات ہے جسکا ذکر سورہ دخان میں اس طرح ہے:
بے شک ہم نے اس (قرآن) کو ایک بابرکت رات میں اتارا ہے۔ یقیناً ہم (قرآن کے ذریعے) لوگوں کو خبردار کرنے والے ہیں۔ اس رات میں تمام حکیمانہ امور ہمارے حکم سے طے ہوتے ہیں۔ ہم ہی رسول بھیجنے والے ہیں، یہ تمہارے رب کی رحمت کے باعث ہے، یقیناً وہ سب کچھ سننے والا ہے سب کچھ جاننے والا ہے (الدخان 44:6-3 )
یعنی رمضان المبارک کی اس رات میں قرآن مجید کے نزول کی ابتدا ہوئی تاکہ آپ اللہ کے بندوں تک اسکی تعلیمات پہنچادیں۔ ہم اہلیان پاکستان جو اس ماہ مبارک میں اپنی آزادی کا 64 واں جشن منانے جا رہے ہیں اور شب قدر کی کسی ایسی ہی عظیم رات کو ہمیں یہ لا الہ کی سر زمیں عطا ہوئی تھی۔ ہم اسکے وارث بنائے گئے تھے کہ یہاں ایک اللہ کی حکمرانی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کریں گے۔ جشن آزادی کی تیاریوں کے ساتھ جب ہم شب قدر کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف ہوں تو اس جائزے اور احتساب کا اس سے بہتر موقع اور کبھی ہمیں نصیب نہ ہوگا کہ ہم بے لاگ احتساب کریں کہ لا الہ کی وارث اس سر زمیں پر جن فتنوں نے آج سر اٹھایا ہوا ہے، آج روز و شب معصوم کلمہ گو مسلمانوں کا لہو اس مٹی میں جذب ہو رہا ہے، اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں کونسی آزمائش ہے جسکی بھٹی میں ہم اسوقت نہیں سلگ رہے؟ ہم اللہ کی حدود کو توڑتے رہے اور اسکی نعمتوں سے محروم ہوتے رہے۔
شب قدر میں ملنے والی سعادت ( پاکستان) کی ہم نے قدر نہ کی تو بد بختی ہمارے نصیب میں لکھ دی گئی۔ ہماری جہالت اور غفلت نے ہمیں آج یہاں لا کھڑا کیا کہ نہ سرحدیں محفوظ ہیں نہ گھر۔ نہ قومی حمیت باقی ہے، نہ انسانی جان کی کوئی قیمت ہے، یہ سلامتی والی رات یاد دہانی ہے ہمارے لئے کہ حقیقی سلامتی، ہمارے معاشرے کی سلامتی، ہمارے ایمان کی سلامتی، ہمارےکردار کی سلامتی، ہمارے گھروں کی سلامتی، ہمارے دلوں کا سکون اور سلامتی، سب اسی شب قدر کے پیغام میں مضمر ہیں جسے ہم بھلا کر حقیقیی محرومین کی صف میں شامل ہو گئے۔
یہ رمضان اور شب قدر ان محرومیوں کی تلافی کے لئے ہمیں پکار رہے ہیں جو تلافی اغیار کی غلامی اور ڈالروں کی گھن گرج نہیں کر سکتی۔ ہماری مادی ارتقاء، ہماری روحانی ارتقاء سے وابستہ ہے۔ اسی سے ہماری تہذیب و تمدن کا ارتقاء وابستہ ہے۔ یہ نورانی رات مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہمیں پھر اسی نور کی طرف دعوت دے رہی ہے جو 14 سو برس قبل انسانیت کی روح میں جب چمکا تھا تو عرب و عجم انکے غلام ہو گئے تھے۔ شرق و غرب میں انکا اقتدار کا غلبہ تھا۔ وہ عظیم رات جو ملاء اعلٰی سے ربط و تعلق کی رات ہے جسمیں جبریل امین کا نزول فرشتوں کے جھرمٹ میں اہل زمیں کی طرف ہوتا ہے۔ ہماری تمام تر محرومیوں اور شغادت کے باوجود ایک بار پھر یہ عظیم رات ہمیں نصیب ہو رہی ہے اور لازم ہے کہ ہم اپنی روح اور قلب پر اس کے اثرات کو محسوس کریں اور اسلامی عبادات محض ایک رسم یا وظائف میں اعداد و شمار کی ایک گنتی یا تعداد کے ساتھ کچھ نفلی نمازوں کا نام نہیں بلکہ اس رات کو ایمان اور احتساب کے ساتھ گزارنے کا حکم ہی اس لئے ہے کہ ہمارا قلب زندہ بیدار ہو. ہم اللہ اور قرآن سے اپنے حقیقی تعلق کا جائزہ لیں اور یہ عبادت کی راتیں ہمیں وہ شعور اور بصیرت دے جائیں کہ ہم حقائق پر غور و فکر کرنے کے عادی ہو جائیں اور صرف وہ چند راتوں کی عبادت اور چند گھنٹوں کی خشیت اور رجوع الی اللہ کی کیفیت نہ ہو بلکہ ہمارے دل کی دنیا اس انقلاب سے دو چار ہو کہ ہمارے عمل سے اسکے ثمرات ظاہر ہوں اور پوری معاشرتی زندگی کے لئے قوت محرکہ بن جائیں.
بلاشبہ یہ رات بہترین اسلامی نظام تربیت کا ایک جزو ہے. اگر ہم اسکو پورے شعور اور ادراک کے ساتھ گزارنے والے بن جائیں…
شب قدکی رات ہمارے لئے بھی دعا کیجئے
اللہ ہماری مغفرت فرمائے اور
عالم اسلام کو عروج مقدر فرمائے