آئیے اس رمضان میں ایک نیا اپنا آپ دریافت کریں:
ہمارے مالک اور پروردگا نے ہمارے لیے رمضان کو دنیا میں تعمیر سیرت کرنے اور ڈھیروں خیرو برکت سمیٹنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ آخرت میں جنت روزہ داروں کی ضیافت کے لیے سال بھر سے سجائی جاتی ہے (جتنے اہم مہمان ہوں اتنے دن قبل تیاری شروع ہوتی ہے)۔
آئیے اس رمضان کو کچھ اس طرح گزارنے کی منصوبہ بندی کریں کہ اپنے اندر کی چھپی ہوئی صالحیت کو دریافت کریں۔ اس کو قرآن کے ذریعے پروان چڑھائیں اور نیا صالح، پاکیزہ، اﷲ کا پیارا انسان بن کر دکھائیں۔ آئیے آنے والے رمضان کا استقبال کریں۔ جیسا کہ اس معزز مہمان کا حق ہے۔
ایک تیاری آسمانوں پر ہو تی ہے استقبال رمضان کی، روزہ داروں کے لیے جنت سال بھر سے سجائی جا تی ہے۔ یہ کونسا مو قع ہے کہ جنت کے سارے دروازے کھول دیے گئے ہیں اور فر شتے پکار پکار کر بندوں کو اللہ کی طرف بُلا رہے ہیں۔
زمین پر کتنے روزہ دار ایسے ہونگے جو سال بھر سے رمضان کی تیاری کرتے ہوں؟ چلیں مہینہ بھر قبل ہی اس کے بارے میں سوچیں رمضان میں (جسمانی ضروریات کی اشیاء بیسن، کھجور، گھی تو ہم پہلے خرید ہی لیتے ہیں) روح کی ضروریات کیا ہیں؟ ایک چارٹ اور لسٹ اس کی بھی بننی چاہیے۔
1- روزے کے مقاصد سمجھیں۔ قرآن، تفاسیر و احا دیث میں رمضان کی اور روزے کی تفصیلات کا مطالعہ کریں۔ اچھی اچھی کتابوں سے رمضان کی تفصیل پڑھیں۔ روزہ کن چیزوں سے تقویت پاتا ہے، کن باتوں سے خراب ہوتا ہے۔ رحمتیں اور برکتیں سمیٹنے کے مسنون طریقے کیا ہیں؟
2- اگر ہمارے اردگرد مسجدوں میں، گھرو ں میں استقبال رمضان کے پروگرام ہوتے ہیں تو ان میں شامل ہو کر راہنمائی حاصل کریں انٹرنیٹ سے رمضان کے بارے میں مواد (مستند) حا صل کر یں۔
3- حفاظِ قرآن رمضان سے قبل دورہ قرآن کی تیاری کے لیے دھرائی شروع کردیتے ہیں۔ باقی افراد کو بھی قرآن کا جتنا حصہ یا د ہے اس کو خوب دہرالیں تاکہ نمازوں میں پڑھ سکیں اور تدبر کرسکیں۔
4- 15 شعبان سے قبل کچھ نفلی روزے رکھیں تا کہ اندازہ ہو سکے کہ جسم کے اندر کتنی قوت برداشت ہے اور اس کو بڑھانے کی تدابیر سوچی جاسکیں۔
’’میں نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ حضور ؐ نے کسی پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں، سوائے رمضان کے۔ اور میں نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ شعبان سے زیادہ کسی مہینے کے روزے رکھے ہوں‘‘ ( مروی حضرت عائشہ ؓ : متفق علیہ)
5- جن کو اللہ تعالیٰ توفیق دے تو وہ نبی کریم ؐ کی سنت کے مطا بق شعبان کے آخری عشرے میں اہل خا ندان، اہل محلہ اور دیگر متعلقین کے لیے خطبات اور دروس کا اہتمام کریں اور سب کو اس ماہ مبارک کی فضیلتوں اور بر کتوں سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہو نے کے طریقے بتائیں۔
6- سحر سے لے کر افطار تک اور افطار سے لے کر اگلی رات سحری تک کے نظام الاوقات طے کریں۔ نوافل، تلاوت، اذکار، دیگر کاموں میں کس وقت کون سا کام کرنا ہے اور کون سا ترک کرنا ہے؟ اور رمضان کے معمولات میں سے نکال دینا ہے تاکہ کوئی گھڑی ضائع نہ ہو۔
7- رمضان سے مقصود تقوی پیدا کرناہے۔ آئیے ایک فہرست بنائیں کون سے کام تقوی کے خلاف ہیں۔ کون سی عادات ہیں جنہیں ترک کرنا ہے اور ان پر خصوصی توجہ دیں۔
8- کون کون سے اعمال صالحہ کرکے رمضان میں نیکیوں کو پروان چڑھانا ہے۔
رمضان کے شب وروز:
رمضان کا مبارک دن، بالکل فطرت انسانی کے مطابق علی الصبح شروع ہوجاتا ہے۔ جسے ہم سحری کا وقت کہتے ہیں۔ جو اﷲ کے بندوں کا محبوب وقت ہوتا ہے۔ رمضان کے علاوہ اس وقت میں اٹھنے والے اﷲ کے خاص بندے ہوتے ہیں جنہیں یہ توفیق ملتی ہے۔ لیکن رمضان میں یہ ہر مسلمان کی دسترس میں ہوتا ہے۔ سحری کے کھانے کو پیارے نبیؐ نے مبارک کھانا کہا ’’حضرت عریاض بن ساریہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رمضان میں رسول اﷲؐ نے مجھے اپنے ساتھ سحری کھانے کے لیے بلایا اور فرمایا کہ آئو مبارک ناشتے کے لیے‘‘(ابو دائود‘نسائی) سحری کا اٹھنا باعث خیر، کھانا باعث برکت، لیکن، کیا اسی پر بس؟ نہیں اس خیروبرکت اور ثواب کو بڑھانے کی منصوبہ بندی کریں۔ جب اٹھنا ہی ہے تو کچھ دیر پہلے اٹھ جائیں اور ان لوگوں میں شامل ہونے کی کوشش کریں جوبغیر حساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے۔ وہ کون خوش نصیب ہوتے ہیں جو راتوں کو اٹھ کر تہجد پڑھتے ہیں ’’مستغفرین بالاسحار‘‘ہیں۔ سحری کے وقت اٹھ کر استغفار کرنے والے ہیں۔ ’’وہ عبا دالرحمن ہیں(اﷲ انہیں اپنے بندے کہتا ہے۔ بندے تو سبھی اس کے ہیں۔ لیکن وہ اپنا کس کو بناتا ہے اور دور کن کو پھینکتا ہے؟ یہ فدویت اور محبوبیت کی بات) جن کی تعریف وہ کرتا ہے کہ وہ والذین یبیتون لربھم سجدا و قیاماہ (سورہ فرقان 64) ’’جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں‘‘ رمضان کے مہینے میں تو ہم کوشش کرسکتے ہیں کہ ہمارا شمار بھی ان خوش نصیبوں میں ہوجائے۔ کھانے سے قبل کچھ رکعت جتنی نصیب میں ہو ں جتنا ممکن ہو ادا کریں اور سحری کی برکات میں اضافہ کریں اور جی بھر کر اﷲ سے دعائیں مانگیں کہ اس وقت اﷲ آسمان دنیا پر آیا ہوتا ہے اور آواز لگاتا ہے۔ رسول کریم ؐ نے فرمایا:
’’اﷲ تعالی ہر رات کو جس وقت آخری تہائی رات باقی رہ جاتی ہے، آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے : میں بادشاہوں، میں بادشاہ ہوں، کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کروں، کون ہے جو مجھ سے مانگے، میں اس کو عطا کروں، کون ہے جو مجھ سے مغفرت اور بخشش چاہے، میں اس کو بخش دوں یہاں تک کہ فجر روشن ہو جاتی ہے‘‘(بخاری و مسلم)
اﷲ کی اس آواز کو دل کے کانوں سے سنیں وہ دینے کو بے تاب ہے! ہمارے اندر کچھ لینے کی تڑپ ہے یا نہیں؟ ہمارے دل زندہ ہیں یا نہیں؟ محض پیٹ پوجا ہی مقصود نہ بنائیں، روح کی پکار بھی سنیں اس کی صحت کی فکر بھی کریں۔ اس کی غذا کا اہتمام بھی کریں۔ اس کی غذا رجوع الی اﷲ ہے۔ اﷲ کا ذکر ہے۔ اﷲ کے آگے رکوع و سجود ہیں! رمضان روح کی پرورش کا مہینہ ہے اس کو کہیں نظر انداز نہ کریں۔
بعد سحری تا افطاری:
ایک معمول ایک چارٹ اپنی اپنی مصروفیات، ذمہ داریوں کے حوالے سے بنالیں۔ ملازمت پیشہ افراد، تاجر حضرات، مزدور حضرات، خواتین خانہ، ملازمت پیشہ خواتین، سب اپنے اپنے اوقات کار کے لحاظ سے اپنے اذکار کار و عبادت کا چارٹ بنائیں۔ جن کے پاس اوقات کی جتنی گنجائش ہو اس کے مطابق تلاوت کلام پاک، اذکار، نوافل کے نظام الاوقات طے کیے جاسکتے ہیں، جو اشراق چاشت پڑھنے کی گنجائش پائیں، رمضان میں اس سے محروم نہ رہیں، اس لیے کہ ایک ایک نفل کا اجر فرض کے برابر ہے اور فرض کا ستر فرضوں کے برابر، جیسا کہ ہم نے اس سے قبل دیکھا، کوشش یہ ہو کہ مضان کا کوئی لمحہ ضائع نہ ہو۔ غفلت میں نہ گزرے۔ بس سارا دن یہ ذہن میں رہے کہ مجھے حصول ثواب میں دوسروں سے آگے نکلنا ہے کہ اﷲ تو تنافس کو دیکھ رہا ہے، باہمی مقابلہ دیکھ رہا ہے ۔
ثواب کیسے بڑھانا ہے:
عبادت کو اس کی روح کے ساتھ ادا کر کے خواہ نماز ہو، ذکر ہو، تلاوت کلام پاک ہو، کوئی چیز جسمانی حرکات، زبان اور حلق تک نہ رہ جائے، وہ قلب میں اترے، وہ عمل میں نظر آئے، وہ میزان میں بھاری ہوجائے۔ جتنا اخلاص ہوگا، جتنی قلب کی لگن ہوگی، جتنی دل کی تڑپ ہوگی، جتنی اﷲ کی محبت اور رضا بنیاد میں ہوگی، عبادت اتنی ہی بھاری اور باعث اجر ہونگی، ورنہ نماز محض جسمانی ورزش بن کر رہ جائے گی اور روزہ بھوک پیاس بن کر، معاملہ جس رب کے ساتھ ہے وہ ’’علیم بذات الصدور‘‘ ہے۔ ’’روئوف بالعباد‘‘ بھی ہے۔ اپنے بندوں سے بے انتہا محبت کرنے والا ہے۔ فرماتا ہے:
وما کان اﷲ لیضیع ایمانکم ط ان اﷲ بالناس لرء ُوف رحیم (البقرہ43)
’’اﷲ تمھارے اس ایمان کو ہرگز ضائع نہ کرے گا، یقین جانو وہ لوگو ں کے حق میں نہایت شفیق و رحیم ہے‘‘
اس روح، اس جذبے سے رمضان کی عبادت کریں، ذکر سے زبان تر رکھیں، دل کو حاضر رکھیں، بکثرت استغفار کریں، فرمان نبویؐ کو یاد رکھیں۔
’’چار چیزوں کی رمضان میں کثرت رکھو جن میں سے دو چیزیں ایسی ہیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور آگ سے پناہ مانگو‘‘(فضائل رمضان)
ذکر میں خاص طور پر کلمہ طیبہ کا ورد کرنے کا حکم دیا۔ احادیث میں کلمہ طیبہ کو افضل الذکر قرار دیا۔ کلمہ طیبہ اور استغفار دونوں پر غور کریں۔ایک جانب اﷲ شانہ کی واحدانیت اور کبریائی کا اقرار اور دوسری جانب اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا اعتراف دونوں احساسات مل کر تقوی کی کیسی کیفیت پیدا کرتے ہوں گے۔ ایک مومن کی خود سپردگی، عبدیت اور تعلق باﷲ کی کیفیت کتنی پروان چڑھتی ہوگی، اس کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں جنہوں نے اس روح کے ساتھ یہ اعمال کیے ہوں۔ دل اﷲ کی طرف متوجہ ہے، اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر شرمندہ ہے۔ زبان اس کی توحید مسلسل بیان کر رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اﷲ سے مغفرت اور جنت کی دعا مانگی جا رہی ہے اور اس کے عذاب اور دوزخ سے پناہ مانگی جا رہی ہے اور یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے، چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے، کام کرتے، گھر کے اندر ہیں یا گھر کے باہر، جس حال میں ہیں قلب منیب، قطب نما کی طرح اﷲ کے ساتھ اٹکا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ روزہ ڈھال بنا ہوا ہے۔ ہر طرح کے لغویات، گناہوں سے انسان کو روکے ہوئے ہے۔ سچ بتائیے، کیا شان ہو گی ایسے عبد الرحمن کی اور اﷲ کتنا اس کی طرف متوجہ ہوگا اور جنت کے کتنے دروازے اس کے لیے کھلیں گی۔۔اللھم جعلنا منھم۔۔
عملی ذکر کی بہترین صورت نماز ہے ’’اقیم الصلوۃ لذکری‘‘ نماز ذکر بھی ہے، رجوع الی اﷲ کی بہترین مثال بھی اور اﷲ کے قرب کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ فرض نمازیں اہتمام سے ادا کریں۔ شوق سے ادا کریں، ایسا نہ ہو روزے کی بھوک پیاس نمازوں کو کھا جائے۔ اﷲ جوشوق والتفات بندوں کے ساتھ رکھتا ہے۔ رمضان میں اس کو نگاہ میں رکھ کر نمازیں ادا کریں اوراس سے نمازوں کا لطف اٹھائیں۔ اپنے درجات بڑھائیں، کتنی؟ جتنے بڑھا سکتے ہیں۔۔۔! رمضان میں اوپر جانے کی کوئی حد نہیں ہے یہ تو بندے اور اﷲ کا معاملہ ہے۔
دوسری اہم بات اس ضمن میں یہ ہے کہ عبادت کا اصل مفہوم اور روح ہمارے سامنے واضح ہو تو ہر ہر عمل عبادت بن جاتا ہے۔ اسلام میں عبادت کا تصور محض پوجا پاٹ کا نہیں ہے کہ صرف تسبیح، مصلیٰ اور خانقاہ تک محدود ہو بلکہ اس کی ساری کی ساری زندگی عبادت ہی عبادت ہے. اگر وہ مصلے سے اتر کر اور مسجد سے نکل کہ بھی اسی خالق و مالک کی اطاعت کرتا ہے اور زندگی کے تمام میدانوں میں، اسی کے بتائے ہوئے قوانین پر چلتا ہے۔
رمضان کے مہینے میں کلمہ طیبہ اور ذکرکے بعد دوسری چیز لازم پکڑنے کا حکم نبی کریم ؐ نے دیا ہے۔وہ استغفار ہے۔ استغفارکیا ہے؟ محض استغفراﷲ کی تسبیح کرنے کا نام نہیں یہ تو ندامت و توبہ کی قلبی کیفیت ہے جس کا اظہار انسان زبان سے، اﷲ سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگ کر کرتا ہے استغفار کا مقصد یہ ہے کہ جو گناہ ہو چکے ہیں ان کو یاد کر کے اﷲ کے حضور گریہ و زاری کریں۔ اس سے معافی مانگیں تاکہ وہ ہم سے راضی ہو جائے اور ہمیں ان گناہوں پر نہ پکڑے۔ فرمان نبویؐ ہے’’ خطا کار تو سبھی ہوتے ہیں لیکن بہترین خطا کار وہ ہیں جو بہت زیادہ توبہ کرنے والے ہیں‘‘( ترمذی) اور ہمارے حضورؐ تو خطائوں سے پاک تھے پھر بھی دن میں ستر مرتبہ استغفار کرتے تھی۔ رمضان تو ہے ہی توبہ استغفار کا مہینہ۔اس ماہ میں اﷲ کی رحمت اورمغفرت اس کی دیگر تمام صفات پر حاوی ہوتی ہے۔ اگر چہ استغفار ہماری ضرورت ہے، پوری قوم کی ضرورت ہے، امت مسلمہ کی ضرورت ہے۔ امت مسلمہ کئی سو سال سے معتوب اور مغلوب ہے۔ اﷲ بندوں پر ظلم نہیں کرتا، یہ ہمارے گناہوں پر ہی اﷲ کی طرف سے پکڑ ہے۔ ہم نے رخ اﷲ کی طرف سے پھیرلیا اور دوسری اقوام کے پیچھے دوڑنا شروع کر دیا، اور اﷲ نے ہمیں طرح طرح کی آزمائشوں میں ڈال دیا، ہم خسارے میں پڑ گئے۔ لیکن اﷲ تو بار بار یاد دلاتا ہے، آجائو میری طرف پلٹ آئو۔ مجھ سے استغفار کرو۔
بطور امت مسلمہ بھی ہمارا عہد لا الہ الا اﷲ محمد الرسول اﷲ تھا۔ اور قیام پاکستان کے وقت بھی ہم نے یہی نعرہ لگا کر الگ ملک حاصل کیا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ۔ اور آزاد ملک حاصل کرنے کے بعد ہم نے اسے امریکہ، کے پاس گروی رکھ دیا اور لگے ان کی چاکری کرنے اور اﷲ اور رسول ؐ کو چھوڑ کر ان کے احکامات کی پیروی کرنے لگے۔
یایھا الذین امنوا ان تطیعوا الذین کفرو ا یردوکم علی اعقابکم فتنقلبوا خسرین
’’ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اگر تم ان لوگوں کے اشارون پر چلو گے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تو وہ تم کو الٹا پھیر لے جائیں گے اور تم نامراد ہوجائو گے‘‘ (سورہ ال عمران49)
ہم نے کتنا خسارہ اٹھایا! کاش ہم اس کا حساب لگا سکیں۔ ہماری نسلیں یہودونصاریٰ اور ہندوئوں کے رنگ میں رنگ گئیں، برکتیں اٹھ گئیں، غربت بڑھ گئی، دشمنوں نے غلبہ پالیا۔ آتش و آھن کی بارش دن رات جاری ہے اور دریائوں کے سوتے خشک ہوگئے ہیں۔ ڈیم سوکھ رہے ہیں۔ ظالم و جابر حکمران مسلط ہوگئے ہیں۔ ہم نے اﷲ کی طرف سے منہ موڑا تو اﷲ نے بھی بارشیں روک دیں، اپنی رحمتیں روک دیں، ہم آٹے اور ضروریات زندگی کو ترس رہے ہیں! کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ یہ قوم انفرادی اور اجتماعی طور پر اﷲ سے استغفار کرے؟
اے قوم آئو! ہم سب مل کر اجتماعی طور پر اﷲ سے استغفار کریں۔ اپنے پچھلے گناہوں کی معافی مانگیں۔ قوم یونس کی طرح مانگیں تو چاروں طرف منڈلاتے ہوئے اﷲ کے عذاب ٹل جائیں گے۔ اﷲ کی رحمتیں نازل ہوں گی، بارشیں برسیں گی اور رزق میں برکت ہوگی۔ جان لو کہ رزق اور برکات آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور مغربی اقوام کے پاس نہیں ہیں۔ زمین اور آسمان کے خزانوں کا مالک اﷲ ہے۔ جن مسائل میں ہم اس وقت گھر چکے ہیں۔ ان کا حل اﷲ کی طرف پلٹنے اور اس سے استغفار میں پوشیدہ ہے۔ رمضان میں قرآن کے ان حصوں کا خصوصی مطالعہ کرنا چاہیے جن میں جنت اور دوزخ کا ذکر ہے تا کہ جنت کا شوق پیدا ہو اور اس کے لیے دعا مانگی جائے، اور دوزخ کا خوف پیدا ہو اور اﷲ سے پناہ مانگی جائے۔ آج وقت ہے کہ ہم دوزخ کے عذاب سے بچنے کی محنت کریں.
آئیے قرآن سے فہرست بنائیں کہ دوزخ میں جانے والوں کے کیا اعمال ہوتے ہیں اور رمضان میں ان سے پرہیز کرنے کی مشق اور عہد کریں اور بار بار اﷲ سے دعا مانگیں ۔ ’’اللھم اجرنی من النار‘‘ اور ’’ رب اغفر و ارحم وانت خیر راحمین‘‘ اور جتنی دعائیں اس ضمن میں یاد ہیں بکثرت پڑھیں نہیں یاد تو اپنی زبان میں دعائیں مانگیں اور مسنون دعائیں یاد کرنے کی محنت کریں اور اس رمضان میں ضرور ہی آتش دوزخ سے رہائی حاصل کریں اور جنت میں داخل ہونے والوں میں شامل ہو جائیں ۔آمین۔
فیس بک تبصرے