کس قدر قابل مبارکباد ہیں آپ کہ اللہ نے آپکو نیکیوں کا موسم بہار عطا فرمایا. جس ایمانی کیفیت اور احتساب کے ساتھ آپ نے رمضان کے مبارک شب و روز بسر کئے اس نے آپ کے اندر ضرور ایک نیا انسان پیدا کیا ہوگا، آپکی عبادت و ریاضت سے گیارہ مہینے کی کثافتیں دھل گئی ہوں گی اور رمضان جاتے جاتے آپکو “عید الفطر” کا عظیم الشان تحفہ بھی دے گیا تو لیجئے آج اپ کے جشن کا دن ہے. 30 روزہ تربیتی کورس سے کامیابی سے گزرنے پر آپکے اعزاز میں “تقسیم اسناد” کی تقریب بھی رکھی گئی ہے. زمین تو زمین آسمان پر بھی اسکی تیاریاں جاری ہیں اور اللہ عزو جل اپنے فرشتوں کو مخاطب کر کے پوچھ رہے ہیں “میرے فرشتو! اس مزدور کا صلہ یہ ہے کہ اسے بھرپور مزدوری دی جائے جس نے اپنے حصے کا کام پورا کیا ؟؟ فرشتے کہتے ہیں “اے ہمارے معبود، ہمارے آقا اس مزدور کا صلہ یہ ہے کہ اسے بھرپور مزدوری دی جائے” اس پر اللہ تعالٰی فرماتے ہیں “فرشتو تم گواہ ہوجاؤ کہ میں نے اپنے بندوں کو جنھوں نے رمضان بھر روزے رکھے اور تراویح پڑھتے رہے اسکے صلے میں اپنی خوشنودی سے نواز دیا اور انکی مغفرت فرمادی اور اس رات کو آسمان دنیا پر “لیلۃ الجائزہ” یعنی انعام کی رات کہا جاتا ہے اور عید کی صبح جب نمودار ہوتی ہے تو اللہ تعالٰی اپنے فرشتوں کو ہر شہر اور بستی کی طرف روانہ کر دیتے ہیں اور فرشتے زمین پر اتر کر گلیوں اور چوراہوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور مبارک باد دیتے ہیں اور سوائے انسان کے تمام مخلوق انکی آواز سنتی ہے.
سو مبارک ہو آپکو رب کی خوشنودی اور مغفرت کا یہ تحفہ اور یہ سالانہ جشن اور تہوار. آج آپ عمدہ لباس زیب تن کیجئے، خوشبو لگائیے اور ایک راستے سے عیدگاہ جائیے اور دوسرے سے واپس آئیے تاکہ پوری بستی میں چہل پہل ہوجائے، رونق ہوجائے، آپکے زرق برق لباس اور ایمان کی خوشبو سے!!! شوکت اسلام کا یہ مظاہرہ رب کو کس قدر محبوب ہے آج. جان رکھئے کہ ایک عظیم الشان مشن کی حامل امت کے جشن بھی بہت عظیم ہوتے ہیں اور بامقصد ہوتے ہیں. مقصد یہ نہیں کہ دوسروں قوموں کی نقالی میں تہواروں کے دن مختص کر کے انکی طرح لہولعب کو “جشن” کا نام دیا جائے اور تہوار منانے کے فطری جذبے کی تسکیں کا کسی درجہ میں سامان کر لیا جائے. یہاں تو جشن کا انداز ہی جدا ہے. رمضان کی شبانہ روز عبادتوں کے بعد اس توفیق پر رب کی کبریائی بیان کی جا رہی ہے. مسلمانوں کو حکم ہے کہ بلند آواز میں تکبیر کہتے ہوئے عید گاہوں کی طرف آئیں اور وہاں آکر دو گانہ نماز شکرانہ ادا کریں کہ زندگی میں ایک بار پھر رمضان کی عظیم سعادت حصے میں آئی، نماز کی توفیق ملی یا روزے کی، تلاوت کی توفیق ملی یا ذکر کی، انفاق کی توفیق ملی یا لیلۃ القدر میں شب بیداری کی یہ سب رب کی توفیق کے بغیر بھلا ممکن کب تھا؟
آج رب کا شکر ادا کرنے کا دن ہے. اس سے رمضان کی مشقتوں کی قبولیت کی التجا کا دن ہے. کیا شان ہے اسلامی تہواروں کی. حقیقت تو یہ ہے کہ میں اپنے تہواروں سے ہی پہچانی جاتی ہوں کوئی لہو لعب نہیں، کہیں حیا سوز نظارے نہیں، کہیں مخلوط مجالس اور رقص و سرور نہیں بلکہ خوشی کے اظہار کے لئیے ذکر ہے، تسبیح ہے اور تحلیل ہے جو اسکی فکر کی بلند پروازی کا غماز ہے. یہ دنیا اسکا گھر نہیں اسلئے اسکو یہاں کے لہولعب سے بھی کوئی سروکار نہیں اور دنیاپرستوں کی مصنوعی لذتوں میں بندہ مومن کے لئے کوئی حقیقی لذت نہیں. حضرت انس بن مالک نے مومن کی عید کو بہت خوبصورت پیرائے میں بیان فرمایا ہے. فرماتے ہیں کہ “مومن کی پانچ عیدیں ہیں”
(1) جس دن گناہ سے محفوظ رہے (2) جس دن دنیا سے اپنا ایمان سلامت لے جائے. (3) پل صراط سے سلامتی کے ساتھ گزر جائے۔ (4) دوزخ سے بچ کر جنت داخلہ مل جائے۔ (5) اپنے رب کی رضا کو پالے اور اسکے دیدار سے آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں وہ عید کا دن ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ عید کی خوشیوں میں اس بد نصیب کا کیا حصہ جس پر رحمتوں کے ڈول کے ڈول انڈیلے جاتے رہے، مغفرت کے لئے پکارا جاتا رہا، لیکن اس نے توجہ ہی نہ کی، دنیا اور اسکی فکروں میں ہی دل اسکا منہمک رہا۔ توبہ استغفار اور تراویح کی توفیق ہی نہ مل سکی کہ کاروبار دنیا اتنا پھیل چکا ہے. رمضان جیسا مہمان جو اپنے دامن میں خزانے بھر کر لایا تھا پکارتا رہا خزانے لٹاتا رہا لیکن کتنے غافل ان خزانوں سے بھی حصہ نہ پا سکے!!! یقیناً عید انکے لئے وعید کا دن ہے اور وہ “مبارکباد ” کے نہیں “تعزیت” کے مستحق ہیں کیونکہ اس شخص کی ہلاکت اور محرومی میں بھلا کسے شک ہو سکتا ہے جسکی ہلاکت کی دعا جبریل امین کریں اور رحمت اللعالمیں اس بد دعا پر آمیں کہیں. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب میں منبر پر خطبہ دینے چڑھنے لگا اور منبر کے پہلے زینے پر قدم رکھا تو جبریل امین نمودار ہوئے اور انھوں نے کہا “خدا اس شخص کو ہلاک کر ےد ے جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اپنی بخشش نہ اور مغفرت کا سامان نہ کیا ” اس پر میں نے کہا ” آمین.
اللہ کے نبی کی اس ” آمیں” کے مصداق آج بھی کتنے لوگ ہیں جن کو ہمیں تلاش کرنے کے لئے کہیں دور نہیں جانا پڑتا رمضان کے آخری عشرے اور قدر والی راتیں ایک طرف ختم قرآن کی روح پرور مجالس دوسری طرف ان سب سے بے نیازوہ ہزاروں لوگ جو بازاروں کی رونق ہوتے ہیں جہاں تیز آوازوں میں بے ہنگم موسیقی رمضان کے تقدس کو پامال کر رہی ہوتی ہیں. ساری رات بازار کھلے رہتے ہیں اور لوگ نمازوں سے غافل عید کی تیاریوں اور تجارت میں مصروف رہتے ہیں. عید کے مقدس اسلامی تہوار کو بھی اغیار کی نقالی میں لہو لعب کے فروغ کا ذریعہ بنالیا جاتا ہے اور میڈیا اس پر جس طرح عریانی اور فحاشی کی تبلیغ کرتا ہے اسمیں تو کہیں اس پاکیزہ تہوار کی جھلک بھی نظر نہیں آتی. اگر عید کی صبح آپ ٹی وی اور ریڈیو کھولیں تو ہرگز دل یقین نہیںکرتا کہ اس قوم کا تہوار ہے جس نے پچھلا عشرہ طاق راتون میں مغفرت طلب کرتے گزارا ہے جنھوں نے رمضان کو نزول قرآن کے جشن کے طور پر منایا ہے. یہ ہم اغیار کی نقالی کر کے اپنے روشن خیال ہونے کا ثبوت دیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ محضپہلی شوال کے سورج کا طلوع ہونا عید نہیں. عیدصرف اس کے لئے ہے جس نے رمضان کا شعوری طور پر حق ادا کر کے اپنے رب کو راضی کیا. جس نے پورا رمضان اپنے رب کے غضب کوبھڑکانے والے کام کئے اور غفلت اور محرومی میں پڑا رہا وہ کس منہ سے عید کی صبح تکبیر کہتا ہوا عیدگاہ جائے گا جس نے بغیر کسی عذر کے رمضان کے روزے رکھنے کی زحمت ہی نہ کی۔ رب کی ناراضگی سے بچنے اور اسکو راضی کرنے سے بے نیاز رہا۔ وہ کس چیز کی خوشی منائے گا۔ حقیقت یہی ہے کہ معاشرے میں عید کا جشن اور عید کی تیاری کی جو مروجہ رسومات ہیں انھوں نے حقیقی عید کے تصور کو بہت دھندلادیا ہے عید کی تیاری رمضان کے تقاضوں سے بے نیاز کردے، عید کا جشن تمام حدود الہی کو توڑ دے۔ مزدوروں کو مزدوری دی جارہی ہو ، ہر گھر اور در سے موسیقی کی مضائیں بلند ہورہی ہوں، عورتیں بازاروں کی زینت ہوں۔ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ نے عید کی حقیقی تصویر بڑے دل سوز انداز میں کھنچی ہے، فرماتے ہیں:
— عید انکی نہیں جو دنیاوی زینت میں لگے رہے، عید تو انکی ہے جنھوں نے تقویٰ و پرہیزگاری کو رادراہ بنایا۔
— عید انکی نہیں جنھوں نے اپنے گھروں کو اعلیٰ قالینوں سے سجایا، عید تو انکی ہے جو پل صراط سے گزرگئے۔
— عید انکی نہیں جو عمدہ سواریوں پر سوار ہوئے، عید تو انکی ہے جنھوں نے گناہوں کو ترک کردیا۔
— عید انکی نہیں جو کھانے پینے میں مشغول رہے، عید تو لوگوں کی ہے جنھوں نے اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کرلیا۔
اس عید الفطر کے جشن کی ایک امتیازی خصوصیت یہ کہ جو چیز (فطرہ) حقوق العباد سے متعلق ہے وہ حقوق اللہ (دوگانہ نماز) پر مقدم ہے۔ فطرے کی ادائیگی، نماز کی ادائیگی سے پہلے کی جائیگی جسکی سخت تاکید اور اصرار ہے۔ مقصد یہ کہ آج اپنی عسرت کے باعث کوئی بھی اس خوشی میں شریک ہونے سے نہ رہ جائے۔ آج کوئی بھی محروم نہ رہ جائے۔ فطرے کی ادائیگی کے بعد نماز دوگانہ ہے جسمیں عورتیں، مرد، بچے سب شریک ہونگے۔ عورتوں کے لیے مساجد میں خصوصی اہتمام کیے جائیں گے۔ یہ دوگانہ نماز اسلام کی تہزیب کی عکاس ہے۔ اسمیں ہر نسل، ہر رنگ، ہر طبقہ کے لوگ بلا کے تخصیص کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونگے۔ آج جشن کے دن کوئی بڑا اور چھوٹا نہیں رہا۔ سب صف بنائے اس درگاہ میں حاضر ہیں جہان کے پیمانے دنیا کے پیمانوں سے یکسر مختلف ہیں۔ کیسا عظیم الشان منظر ہے یہ۔ حکم ہے کہ نماز عید کھلی جگہوں اور میدانوں میں ادا کی جائے تاکہ اسلام کی شوکت کا یہ نظارہ باطل پر دھاک بیٹھا دے اور اس عالمگیر برادری کو کوئی کمزور نہ سمجھے! شرق و غرب میں چند گھنٹوں کے فرق سے جسن منایا جارہا ہے۔ جو دنیا بھر میں اس عالمگیر برادری کو متعارف کرا رہا ہے۔ اسکے اتحاد اور شوکت کا مظہر ہے۔ تو یہ ہے مومنین کی عید کا پاکیزہ تہوار جسکی اقوام عالم کوئی نظیر پیش نہیں کرسکتی۔
شکوہ عید کا منکر نہیں ہوں میں لیکن
قبول حق ہیں فقط مرد حُر کی تکبیریں
میں نے چاہا اس عید پر
اک ایسا تحفہ تیری نظر کروں
اک ایسی دعا تیرے لئے مانگوں
جو آج تک کسی نے کسی کے لئے نہ مانگی ہو
جس دعا کو سوچ کر ہی
دل خوشی سے بھر جائے
جسے تو کبھی بھولا نہ سکے
کہ کسی اپنے نےیہ دعا کی تھی
کہ آنے والے دنوں میں
غم تیری زندگی میں کبھی نہ آئے
تیرا دامن خوشیوں سے
ہمیشہ بھرا رہے
پر چیز مانگنے سے پہلے
تیری جھولی میں ہو
ہر دل میں تیرے لیے پیار ہو
ہر آنکھ میں تیرے لیے احترام ہو
ہر کوئی بانہیں پھیلائے تجھے
اپنے پاس بلاتا ہو
ہر کوئی تجھے اپنانا چاہتا ہو
تیری عید واقعی عید ہوجائے
کیوں کہ کسی اپنے کی دعا تمہارے ساتھ ہے