بہار کا موسم آتے ہی چمن میں روح پرور ہوائیں چلنے لگتی ہیں اور سب کچھ سرسبزوشاداب ہوجاتا ہے۔ لیجئیے نیکیوں کا موسم بہار آپ کے دروازے پر دستک دے رہا ہے جب رحمتوں کی گھٹائیں جھوم جھوم کر برستی ہیں، جب انسان کے رگوں میں تازہ لہو کی گردش سے سوئی ہوئی امنگیں جاگ اٹھیں گی اور سال کے گیارہ مہینے جسم و روح میں جو فساد بپا ہوگیا تھا رحمت کاملہ پھر بیتاب ہے اس فساد کو دفع کرنے کے لئے۔ عشق و سرمستی کے اس موسم میں شوریدگی اور جنون کے جو آثار نمودار ہو نگے وہ ظاہر اور موجود سے بےزار کر کے اسی ایک در سے وابستہ کر دیں گے۔ حقیقی وصال کی آرزو میں تمام انسانی لذتون کو پامال کیا جائے گا اور روح لطافتوں کی جانب پرواز کرتی جائے گی اور صفائی وپاکیزگی کی جانب متوجہ ہوگی، قرب کی خواہش لئے طاق راتیں جو وصل وصال کا انتہائی لطف و سرور حاصل کرنے کے قیمتی لمحات ہیں، روح میں اعلٰی ترین صلاحیتیں پیدا کرنے، اسکے جوہر خالص نکھارنے اور ابدی سرور اور راحت حاصل کرنے کے لئے روزہ سے سہل، آسان اور کارآمد نسخہ بھلا کیا ہو سکتا ہے؟
رمضان کا اہم ترین تحفہ “دعا” ہے کہ عرش اٹھانے والے فرشتوں کو فارغ کرکے روئے زمیں کی جانب رواں کردیا جاتا ہے کہ روزہ داروں کی دعا پر “آمین” کہیں۔ دعا کے لئے اس سے قیمتی، اس سے نادر اور یاقوت و الماس سے گراں وہ نایاب لمحات اور کون سے ہونگے؟ قرآن مجید میں بھی رمضان المبارک کے احکام و فضائل کو بیان کرتے ہوئے درمیان میں دعا کا ذکر اچانک آجاتا ہے جو ان الفاظ میں ہے:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لِي وَلْيُؤْمِنُواْ بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ
جب میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں (تو ان سے کہدو ) میں قریب ہوں، دعا کرنے والے کی پکار کو میں سنتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، لوگوں کو چاہئے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں (ترجمہ)
اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رمضان اور دعا میں گہرا ربط پایا جاتا ہے۔ دعا کی مقبولیت کے لمحات اسی ماہ میں رکھے گئے ہیں۔ رمضان کا مبارک مہینہ عبادتوں کا موسم بہار ہے اور دعا کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ “عبادت کا مغز ہے” (ترمذی ) اسی بنا پر رمضان میں کثرت سے دعا مانگنےکی تلقین کی گئی ہے۔
بندہ مومن کی تو یہ شان ہے کہ وہ تنگی و فراخی ہر حال میں دست دعا دراز کئے رکھتا ہے۔ اپنے ضعف کے مقابلے میں اسکی قوت، اپنے فقرو عجز کے مقابلے میں اسکے خزانے اور اسکی عطا پر اسکی نظر رہتی ہے۔ رب کو بندے کی یہی ادا محبوب ہے اور ایک جگہ تو دعا نہ مانگنے کو کبر سے تعبیر کیا گیا ہے “اور تمہارارب یہ کہتا ہے کہ تم مجھے پکارو میں اسکا جواب دونگا بیشک وہ لوگ جو تکبر کرتے ہیں میری بندگی سے عنقریب ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہونگے (المومن 60)
سنن ترمذی میں آپ کا ارشاد ہے کہ “جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس پر غضبناک ہو جاتا ہے” اور سنن ابو دائود میں حضرت سلمان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ “آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا رب حیا کا پیکر ہے صاحب عزت و تکریم ہے اور وہ اس بات سے شرماتا ہے کہ بندے کے اٹھے ہوئے ہاتھ کو خالی لوٹا دے۔
البتہ قرآن مجید جہاں دعا مانگنے کی بار بار تاکید کرتا ہے وہیں دعا کی کچھ شرائط بھی بیان کرتا ہے “وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ اور پکارو اسکوخالص اسکے فرمانبردار ہو کر (الاعراف 29) اور ایک جگہ ارشاد ہے”پس اللہ ہی کو پکارو اپنے دین کو اسکے لئے خالص کر کے خواہ تمہارا یہ فعل کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو”
روزے اور طاق راتوں کے لئے شرط بھی یہی لازمی کی گئی ہے یہ عمل” ایمان اور احتساب کے” ساتھ ادا کئے جائیں لہٰذا رمضان میں جب جب دست دعا دراز کریں تو قرآن کی اس شرط “دین خالص” کو ضرور یاد رکھیں اور اپنا احتساب کریں کہ کیا واقعی میں نے اپنے دیں کو اسکے لئے ” خالص” کر لیا؟ کہیں یہ “مکس پلیٹ تو نہیں ہے؟ دین ایک ضمیمہ کے طور پر میری شخصیت کا حصہ ہے؟ معاشرے کے مروجہ غیر اسلامی اقدار اور نفس کی ناجائز خواہشات کے لئے میرا ضمیر ہر وقت فتووں کی تلاش میں رہتا ہے؟ اور رعایتوں کا خوگر ہو گیا ہے۔ جب ہماری بندگی اور اطاعت اللہ کے لئے خالص ہوگی تب ہی دعاؤں میں بھی اثر پیدا ہوگا۔ ہم اکثر دعاؤں کی عدم قبولیت پر مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں ادر اس آیت پر غور کریں تو ہمیں رب کی ناراضگی کی وجہ سمجھ میں آجائے گی۔
قبولیت دعا کے لئے اہم ترین شرط “رزق حلال ” ہے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “اپنے مومن بندوں سے اس نے کہا کہ “اے ایمان والوں، تم میری روزی میں سے حلال اور پاک چیزیں کھاؤ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخصکا ذکر کیا جو کسی مقدس مقام پر لمبا سفر طے کر کے آتا ہے پریشان حال اور غبار آلود مگر حال یہ ہوتا ہے کہ اسکا کھانا حرام اور اسکا جسم حرام غذا سے پلا ہوا۔ پس اس شخصکی دعا کس طرح قبول ہو” (ترمذی )
قرآن دعا کا ایک ادب یہ بیان کرتا ہے ” ادعو ربکم تضرعاً (اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے ) یعنی دعا کے الفاظ میں ہی عجز و فقر نہ ہو بلکہ دعا کرنے والا اللہ کے سامنے اپنی ذلت، عاجزی، پستی اور ضعف کا زندہ شعور اور تازہ احساس رکھتا ہو اور خوف کے ساتھ ساتھ تمام امیدیں بھی اسی رحمٰں و رحیم سے وابستہ ہوں۔
وَادْعُوهُ و طمعاًو اعراف (ترجمہ) اسکو پکارو خوف اور امید کے ساتھ”۔ بلاشبہ اللہ کے عذاب کا خوف اور اسکی بخشش کی امید ہی مومن کو راہ اعتدال پر قائم رکھتی ہے۔ اگر صرف امید ہو تو وہ اسے نڈر اور بے پروا بنادیگی اور اگر صرف خوف ہوگا تو وہ دل کو شکستہ اور غمگین بنا دیگا۔ قرآن کریم اللہ کے خاص الخاس بندوں انبیائے کرام کی دعاؤں کی جو کیفیت بیان کرتا ہے اسمیں اس خوف اور رجا کا ذکر خاص طور پر ملتا ہے ” یہ لوگ نیکی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے اور ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے “(الانبیاء)
قرآن کتنی واضح کسوٹی ہمیں عطا کرتا ہے کہ ہمیں اپنی دعاؤں کو اور اپنی عبادات کو اسی کسوٹی پر پرکھنا چاہئیے کہ نیکی کے کاموں میں خلق خدا کی بھلائی کے لئے ہمارے اندر کتنی تڑپ ہے۔ نیکی کے کتنے مواقع ہم معمولی سمجھ کر ضائع کر دیتے ہیں۔ بندگان خدا کی گمراہی و بے عملی ہمارے ایمان کے لئے کبھی تازیانہ نہیں بنتی۔ نہ ہم خلق خدا کی اصلاح کے لئے اس درجہ بے چین ہوتے ہیں نہ یہ ہماری دوڑ دھوپ کے لئے قوت محرکہ بنتی ہے، نہ ہمیں اس مثالی انفاق پر مجبور کرتی ہے جسکی تعلیم ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب کے اسوہ سے ملتی ہے۔ سورۃ سجدہ کی 16ویں آیت میں ارشاد ہے کہ “انکی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اسمیں سے خرچ کرتے ہیں “یعنی اللہ کے بندوں اور اقامت دیں کے کاموں پر خرچ کرنا در حقیقت انکی دعاؤں کے اخلاص کا مظہر ہے۔ قرآن کی اس آیت کی رو سے لہٰذا اگر ہم اپنی دعاؤں کے نتائج اور ثمرات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اسکے لئے خالص تدبیر یہی اختیار کرنا ہوگی۔
حضرت ذکریا کی دعا کا قرآن ان الفاظ میں تذکرہ کرتا ہے “جب کہ انہوں نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا “(مریم 3) لفظ چپکے چپکےسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ جسے ہم پکار رہے ہیں وہ کس درجہ قریب ہے ہمارے۔ نہ صرف قریب ہے بلکہ ‘سمیع’ بھی ہے، ہر لمحہ سننے پر تیا ر، ہر وقت دینے پر تیار، ہر لمحہ منتظر کہ بندہ خاکی کب اسکی رحمتوں کی سمت پلٹے، کب اس سے مغفرت طلب کرے اور اللہ کے قرب کو محسوس کرنے کے لئے رمضان کی ان ساعتوں سے زیادہ قیمتی اور کوئی لمحات میسر نہیں ہو سکتے۔ نصف شب کے بعد بیداری اس سمیع اور قریب سے سرگوشیاں کرنے کا نادر موقع۔ جب ہم اس بات کی توفیق طلب کر رہے ہیں کہ ہم بہتریں دعا اور عبادت کرسکیں اور وہ دعا مستجاب بھی ہو تو اس امر کا بہر حآل ہمیں التزام کرنا ہوگا جسکو امام مسلم نے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “بندے کی دعا اس وقت تک قبول کی جاتی ہے جب تک وہ کسی گناہ یا قطع رحم کی دعا نہ کرے اور جب تک وہ جلدی نہ مچائے”۔
قطع رحمی اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ لہٰذا اگر ہمیں قبولیت دعا کی خواہش ہے تو کم از کم رمضان کے ان شب و روز میں ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ رحم کے رشتوں کے معاملے میں ہم نے کس درجہ اپنی ذمہ داریاں پوری کیں۔ رحم کے رشتوں کو جوڑنے کے لئے ہم نے کیا قربانیاں دیں؟ دجالی فتنوں کے اس دور میں صرف ہمارے بچے نہیں بلکہ بہن بھائی اور شوہر کے بہن بھائیوں کے بچے بھی ہماری توجہ کے محتاج ہیں۔ انکی تزکیہ اور تربیت بھی کسی درجہ میں ہماری ذمہ داری کا عنوان ہے۔ ایک موقع پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “جو چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں برکت ہو وہ رحم کے رشتوں کو جوڑے “آج ہم جس مہنگائی کا رونا روتے ہیں جس رزق کی کمی اور مال ہو یا اوقات برکت کی کمی کو محسوس کرتے ہیں ہمیں ضرور اس ماہ احتساب میں سوچنا چاہئے کہ کہیں نعمتوں کے چھن جانے کی وجہ اور برکت اٹھ جانے کی وجہ ہماری رحم کے رشتوں سے بے نیازی تو نہیں ہے؟ علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں یہ روایت نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” تین لوگوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں، حرام کھانے والا، غیبت کرنے والا اور وہ شخص جسکے دل میں اپنے مسلم بھائی کے لئے بغض یا حسد ہو”۔
اس ماہ مبارک میں دعا سے قبل اپنے شیشہ دل کو بغض اور حسد کے غبار سے ضرور پاک کرنے کی کوشش کریں اور ابراہعم بن ادھم کے درج ذیل قول کی روشنی میں اپنی دعاؤں کا جائزہ ضرور لیں:
تم نے خدا کو پہچانا مگر اسکا حق ادا نہ کیا۔ خدا کی کتاب پڑھی مگر اس پر عمل نہ کیا۔ ابلیس کے ساتھ دشمنی کا دعوٰی کیا مگر اسکے ساتھ دوستی قائم رکھی۔ رسول سے محبت کا دعوٰی کیا مگرسنت کو چھوڑ دیا۔ جنت کی خواہش کی مگر عمل نہ کیا۔ جہنم کا خوف کیا لیکن گناہوں سے باز نہ آئے۔ موت کو حق جانا مگر تیاری نہ کی۔ لوگوں کے عیب گنتے رہے مگر اپنے عیوب پر نظر نہ پڑی۔ خدا کا دیا ہوا رزق کھاتے رہے مگر شکر گزار نہ بنے۔ میتوں کو دفن کیا مگر عبرت نہ پکڑی تو پھر ہماری دعائیں کیسے قبول ہو سکتی ہیں؟
جزال ا؛؛ہ خیراً باحسن الجزاء فی الدارین۔ اتنا خوبصورت مضمون لکھنے پر شکریہ قبول فرمائیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ اًمین یا رب العالمین