عشرہ صفائی:
ہمارے ہاں ایک اور اہم اور غلط روایت ہے کہ آخری عشرہ عبادت کی بجائے گھر کی صفائیوں اور دھلائیوں کا عشرہ بن جاتا ہے. خواتین تمام کپڑے، فرش، ٹیبل اور صوفہ کور اور دیگر اشیاء کی دھلائی عید سے قبل (ظاہر ہے آخری عشرے میں) کرتی ہیں اور اس میں خوب محنت کی جاتی ہے. گھروں کو سجانے میں بعض اوقات غلو سے کام لیا جاتا ہے اور یوں عشرہ عبادت و ریاضت، تھکن کی نذر ہوجاتا ہے. یہ بھی جہالت کا فعل ہے۔ خواتین کو بھی اس عشرے میں گھر کی صفائی دھلائی سے زیادہ روحانی صفائی اور طہارت پر توجہ دینی چاہیے. (صفائی سے منع نہیں کررہے لیکن غلو سے پرہیز ہونا چاہیے). غیرضروری کاموں سے توجہ ہٹا کر وقت اعتکاف اور ذکرودعا میں لگانا چاہیے۔
جن خواتین کے لیے ممکن ہو دس دن کا اعتکاف کریں (اس دوران اٹھ کر کھانا وغیرہ پکا سکتی ہیں اگر کوئی اور انتظام نہ ہو تو)۔ جن کے بچے چھوٹے ہوں اور پورا اعتکاف ممکن نہ ہو تو چند دنوں اور چند گھنٹوں کا اعتکاف بھی ہوسکتا ہے اور گھر کا کام کرنے والی خواتین تو دہرا اجر سمیٹ سکتی ہیں اپنے نیک اور نمازی شوہر اور اولاد کی خدمت اور ان کے کھانے پینے کا بندوبست کرنا باعث اجر ہے اور یہ کام کرتے ہوئے وہ مسلسل تلاوت اور ذکر کرتی رہیں اور اپنا نامہ اعمال دونوں طرح سے بھرتی رہیں یعنی اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دل کو اﷲ کی یاد میں اٹکا ئے رکھنا. ہماری ایک بہن نے گھریلو کام کاج کے دوران سورہ بقرہ حفظ کر لی، ایک نے اس کے ساتھ سورہ آل عمران بھی کرلی اور ایک بہن نے اسی طرح گھر کی مصروفیات کے ساتھ چند سال میں قرآن پاک حفظ کر لیا۔ لہذا رمضان میں غیر ضروری مصروفیات ترک کر کے اس طرح کا کوئی منصوبہ بنانا مشکل نہیں۔ جہاں چاہ وہاں راہ ان شاء اﷲ.
عید کی تیاری اور خریداری:
رمضان میں بازاروں میں پھرنا، انتہائی نقصان دہ ہے. اس لیے کہ دنیا میں اﷲ کی سب سے زیادہ نا پسندیدہ جگہ بازار ہے. بازار میں جا کر انسان کی نیکیاں ایسے جھڑتی ہیں جیسے درخت کے پتے کیونکہ ایک تو وہاں ہر طرف سامان دنیا ہوتا ہے جو انسان کو غافل کردیتا ہے اور دوسری جانب عورتیں ہوں یا مرد کثرت سے نا محرموں کے درمیان ہوتے ہیں اور نظریں بچانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بد نصیبی سے رمضان میں بازاروں میں چلت پھرت کم ہونے کی بجائے بڑھ جاتی ہے اور آخری عشرے میں دیر تک بازار کھلے رہتے ہیں۔ حتیٰ کے جمعہ کے دن بھی اور طاق راتوں میں بھی انا ﷲ و انا الیہ راجعون اور چوڑیوں وغیرہ کے بازاروں میں آخری راتوں میں کھوئے سے کھوا چھلتا ہے. یہ ناممکن ہے کہ سڑکوں اور بازاروں میں پھرا جائے اور پھر نمازوں میں خشوع برقرار رہے۔ اور انسان، عبادت، تلاوت اور اذکار یکسوئی سے کر سکے. کتنے بد نصیب ہیں وہ مسلمان معاشرے، جہاں رمضان میں بھی بازار آباد ہوں اور مسجدیں ویران، اولئک الذین اشتروالحیوۃ الدنیا بالاخرۃ ( سورہ البقرہ)’’ان لوگوں نے آخرت کے بدلے حیوۃ دنیا خرید لی ہے‘‘ انہیں معلوم نہیں ہے کہ یہ سرمایہ آخرت میں بہت ہی تھوڑا نکلے گا! ’’کاش انہیں معلوم ہو جائے یہ کتنی بری تجارت ہے‘‘
کوشش یہ ہونی چاہیے کہ تمام اہم خریداری رمضان سے قبل کر لی جائے اور خواتین بازاروں میں جانے سے حتی ٰ الامکان گریز کریں اور اپنے مردوں کی خریداری پرقناعت کریں کہ یہ نیکیوں کی حفاظت کا ذریعہ ہوگا ان شاء اﷲ ا
اجرت لینے کی رات:
لیجئے مہمان کے رخصت ہونے کا وقت آگیا۔ رحمت، مغفرت اور آتش دوزخ سے رہائی حاصل کرنے کی فکر میں مومنین نے مہینہ بھر محنت اور مشقت میں گزارا، دن بھر بھوک پیاس برداشت کی، زبان، آنکھ کان، دیگر اعضاء کو ہر طرح کے گناہوں سے روکے رکھا، قرآن و اذکار ورد زبان رہے اور راتیں اپنے رب ذولجلال والاکرام اﷲ کے حضور قیام و سجود میں گزاریں۔ اس کا پاک کلام سنا۔ غفلت کی نیند سے بچ بچ کر راتیں گزارنے کی سعی کرتے رہے۔ سحروافطار رب کے حضور گڑگڑاتے رہے اور الرحمان والرحیم اور الودودو المجیب اﷲ سب کچھ محبت سے دیکھتا رہا۔ سحر کے وقت اور طاق راتوں میں فرشتے اترتے رہے، مومنین کو دیکھتے رہے، ان کی دعائوں پر آمین کہتے رہے اور جبرائیل خوش نصیبوں سے مصافحہ کرتے رہے۔ اﷲ فرشتوں سے مومنین کے تنافس پر فخر کرتا رہا۔ یہاں تک کہ رمضان گزر گیا اور اجر کی رات آگئی۔
وہ رات بھی عجیب رات ہوتی ہے جو آخری رات ہوتی ہے۔ جب صبح عید ہوتی ہے۔ ایک جانب غافلین ہوتے ہیں اور دوسری جانب محنت کرنے والے مومنین ہوتے ہیں جو کچھ اور ہی کیفیات سے گزرے ہوتے ہیں. رمضان کی رحمتوں کے بادل چھٹ جانے کا ایک عجیب افسردہ کرنے والا احساس طاری ہوتا ہے. اپنی کم مائیگی کا بہت زیادہ احساس کہ نہ جانے کچھ کر پائے یا نہیں، نہ جانے اﷲ کے حضور قبولیت کا کیاعالم ہے؟ ایسے میں پیارے نبی ؐ کا یہ فرمان ٹھنڈک بن کر ان کے اعصاب میں اترتا ہے کہ ’’ رمضان کی آخری رات کو میری امت کی مغفرت ہو جاتی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: کیا یہی وہ لیلۃ القدر ہے حضور ؐ نے ارشاد فرمایا، ’’نہیں بلکہ مزدور کو اس کی مزدوری اس وقت دی جاتی ہے، جب وہ اپنا کام مکمل کر لیتا ہے‘‘ (احمد) اس رات کو آسمان پر لیلۃ الجائزہ کا نام دیا گیا اور یقینا جس نے جتنا کمایا ہوگا اتنا ہی اجر اور مزدوری پائے گا۔
واتقوا یوماََ ترجعون فیہ الی ﷲ ثم توفی کل نفس ما کسبت وھم لا یظلمون ہ(سورۃ البقرہ81)
’’ اس دن سے ڈرو، جب کہ تم اﷲ کی طرف واپس ہو گے، وہاں ہر شحض کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا‘‘
اﷲ ہرگز ظلم نہیں کرتا لیکن بہت سے بدنصیب ہوتے ہیں جو اس مغفرت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ وہ جنہوں نے نہ اﷲ کی رحمت کی قدر کی، نہ رمضان کا حق ادا کیا، نہ روزے کی حفاظت کی اور جو کبائر سے بھی نہ باز آئے ان کے بارے میں بہت سخت وعید ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: لیلۃ القدر میں فرشتے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھتے ہیں کہ ’’ اﷲ تعالی نے محمد ؐ کی امت کے مومنوں کی حاجتوں اور ضرورتوں میں کیا معاملہ کیا؟ وہ کہتے ہیں، اﷲ نے ان پر توجہ فرمائی اور چار شخصوں کے علاوہ سب کو معاف فرما دیا ! صحابہؓ نے پوچھا ،’’ یا رسول اﷲ وہ چار شحض کون ہیں؟ ارشاد ہوا، ایک وہ جو شراب کا عادی ہو، دوسرا وہ جو والدین کی نافرمانی کرنے والا ہو، تیسرا وہ جو قطع رحمی کرنے والا اور ناطہ توڑنے والا ہو، چوتھا وہ جو کینہ رکھنے والا اور آپس میں قطع تعلق کرنے والا ہو‘‘ (ترغیب۔بہیقی) اسی طرح کی احادیث پڑھتے ہوئے یہ واضح رہنا چاہیےکہ مخاطب کون سے مسلمان ہیں۔ صحابہ کرام ؓ جو اس طرح کی نمازوں اور روزوں کا تصور بھی نہیں کر سکتے ہوں گے جیسے کے آج کے مسلمانوں نے ان عبادات کا مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ اﷲ تعالی ہمیں انعام لینے والوں میں سے کرے ’’صراط الذین انعمت علیھم ہ غیر المغضوب علیھم والضالین‘‘ اور یہ رات ہم عید کی خریداری کی نذر کرنے کی بجائے عبادت میں گزاریں تا کہ اﷲ سے اپنی پوری پوری مزدوری وصول کر سکیں۔آمین۔
عید الفطر:
جب عید الفطر کی صبح ہوتی ہے تو حق شانہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں۔ وہ زمین سے اتر کر تمام، گلیوں، راستوں کی سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جس کو جنات اور انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے، پکارتے ہیں کہ محمد ؐ کی امت اس کریم رب کی (درگاہ) کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف کرنے والا ہے۔ پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں کہ کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ ہمارے معبود اور ہمارے مالک اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دی جائے تو حق تعالی شانہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اے فرشتو! میں تمھیں گواہ بناتا ہوں میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کردی اور بندوں سے خطاب فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ اے میرے بندو! مجھ سے مانگو میری عزت کی قسم، میرے جلال کی قسم، آج کے دن اپنے اس اجتماع میں مجھ سے آخرت کے بارے میں جو سوال کروگے عطا کروں گا اور دنیا کے بارے میں جو سوال کروگے، اس میں تمھاری مصلحت پر نظر رکھوں گا۔ میری عزت کی قسم کہ جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمھاری لغزشوں پر ستاری کرتا رہوں گا (اور ان کو چھپاتا رہوں گا) میری عزت کی قسم اور میرے جلال کی قسم میں تمھیں مجرموں ( کافروں) کے سامنے رسوا اور فضیحت نہ کروں گا۔ بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جائو۔ تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔ پس فرشتے اس اجر و ثواب کو دیکھ کر جو اس امت کو افطار کے دن ملتا ہے، خوشیاں مناتے ہیں اور کھل جاتے ہیں۔ (ترغیب۔بہیقی)۔ اللھم اجعلنا منھم.
ہم نے رمضان سے کیا حاصل کیا؟
اس کا بہت اچھا اندازہ روزِ عید ہی ہوجاتا ہے. کیا عید کے دن خوشیاں مناتے ہوئے ہمیں حدود اﷲ کا خیال رہتا ہے؟ مہینہ بھر ضبط نفس کی جو مشق کی تھی وہ بر قرار رہتی ہے؟ یا عید کا مطلب ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ آج ساری پابندی ختم. خوب کھل کھلیں، خوب فلمیں دیکھیں، مخلوط پارٹیاں کریں،گھومیں پھریں، نمازیں قضا کریں اور نہ جانے کیا کیا غلط اعمال کیے جاتے ہیں۔ نہیں، عید کا دن ہمارے جائزے کا دن ہے۔ ایک ٹیسٹ کا دن ہوتا ہے کہ ہم نے رمضان سے کیا پایا؟ کتنی تربیت حاصل کی؟ کتنی پابندیوں پر قائم رہے اور عید کے بعد ۔۔سارا سال ہمارے اس کردار کا آئینہ ہوتا جو ہم نے رمضان میں تعمیر کیا ہوتا ہے! جس نے دوران رمضان ایک نیا اپنا آپ دریافت کیا اور اپنی تعمیر نو کر لی، ایسا رمضان مبارک ہو…
لاجواب تحریر ہے۔ بہت خوب۔۔۔
جزاک اللہ۔