اہل کراچی بھتہ خوری سے اچھی طرح واقف ہیں۔ آخر کار بیس سال سے زائد عرصہ ہوگیا ہے انہیں بھتہ دیتے ہوئے۔ بھتہ خوری کی وبا پہلے بہت محدود پیمانے پر ہوتی تھی یعنی پہلے صرف کراچی پولیس پتھارے داروں سے بھتہ وصول کیا کرتی تھی اور یہ بھتہ بھی بہت معمولی ہوتا تھا یعنی دس روپے یا پندرہ روپے فی پتھارہ یا ٹھیلہ وصول کیا جاتا تھا۔ پارٹی یا تنظیم کی سطح پر سب سے پہلے متحدہ قومی موومنٹ نے بھتہ وصولی شروع کی۔ ابتداء میں مہاجر کاز کے نام پر مہاجر دکان داروں اور مہاجروں کے گھروں سے چندے کے نام پر رقم وصول کی جاتی تھی اس کے بعد متحدہ قومی موومنٹ نے بھتے کو ایک صنعت کو درجہ دیدیا اور اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے اس کو فروغ دیا۔ پولیس والے صرف پتھارے داروں اور فٹ پاٹھ پر ٹھیلہ یا اسٹال لگانے والوں سے بھتے لیتے تھے لیکن متحدہ قومی موومنٹ نے پوری پوی مارکیٹوں سے بھتہ وصول کرنا شروع کیا۔ جو دکان دار بھتہ دینے سے انکار کرتا اس کو نشانِ عبرت بنا دیا جاتا۔ مرتا کیا نہ کرتا؟ دکانداروں نے اس صورتحال سے سمجھوتہ کرلیا۔
بھتے کے ساتھ ساتھ متحدہ قومی موومنٹ نے شہر کی قبضہ گیری کی ابتدا بھی کی۔ آج سے بیس سال پہلے تک شہر کی ہر یوسی میں دو تین پبلک پارک ہوا کرتے تھے لیکن متحدہ قومی موومنٹ نے اپنے یونٹ اور سیکٹر آفسز کے لئے ان پبلک پارکس پر قبضے شروع کیے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت شہر میں پبلک پارکس اب برائے نام ہی رہ گئے ہیں اور جو چند ایک بڑے بڑے فیملی پارکس شہر میں موجود ہیں ان کو الخدمت گروپ کے ناظم شہر نعمت اللہ خان نے دوبارہ آباد کیا اور ان کی تزئین و آرائش کرکے ان کو دوبارہ قابل استعمال بنایا وگرنہ ان پارکوں میں دھول اڑا کرتی تھی۔
1986ءسے لیکر 1992ءتک متحدہ قومی موومنٹ بلا شرکت غیرے شہر سے بھتہ وصول کرتی رہی اور اس کا کوئی مقابل نہ تھا لیکن 1992ء میں ایم کیو ایم حقیقی کی تشکیل کے بعد ان لوگوں نے بھی اپنے زیر اثر علاقوں میں بھتہ وصولی شروع کردی۔ 1992ء سے 1997ء تک شہر کراچی کے باسیوں نے ایک نیا منظر یہ دیکھا کہ مہاجروں کے حقوق کے دعوے داروں نے ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کیا۔ اگر ایک دن حقیقی کے کسی آفس میں حملہ ہوتا تو ا سکے چند دن بعد متحدہ کے کسی آفس میں حملہ کرکے اس کا حساب برابر کردیا جاتا۔ ایک دن متحدہ کا کوئی کارکن یا کارکنان قتل ہوتے تو کچھ دنوں کے بعد حقیقی کے کچھ لوگ قتل ہوجاتے تھے. اس دوران یہ ہوا کہ پی پی پی کی حکومت کی برطرفی کے بعد میاں نواز شریف برسرِاقتدار آئے اور انہوں نے پی پی پی کی مخالفت کی بناء پر ایک بار پھر ایم کیو ایم سے اتحاد کیا ( حالانکہ ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میاں صاحب کی پہلی حکومت میں ہی شروع کیا گیا تھا) متحدہ کی حکومت میں شمولیت کے بعد حقیقی کے لئے مشکل دور کا آغاز ہوا۔ حقیقی کے بیشتر کارکنان روپوش ہوگئے، کئی ایک نے دوبارہ متحدہ میں شمولیت اختیار کی اور اسی دوران حقیقی کے بیشتر کارکنان نے ایک نسبتاً نئی مذہبی سیاسی جماعت سنی تحریک میں شمولیت اختیار کرلی۔
سنی تحریک اپنے آغاز سے ہی ایک انتہا پسند جماعت رہی ہے۔ دعوت ِ اسلامی اور جمعیت علما پاکستان کا تعلق بھی مسلک اہل سنت ولجماعت سے ہے لیکن یہ دونوں بہت پرامن جماعتیں ہیں ان کے برعکس سنی تحریک نے تشدد اور قبضے کے ذریعے اپنی تحریک کا آغا ز کیا۔ سنی تحریک کا نعرہ تھا اور اب بھی ہے، جوانیاں لٹائیں گے، مسجدیں بچائیں گے۔ اس نعرے کے تحت اہلیان کراچی نے ایک نئی قسم کی جنگ کا منظر دیکھا اور منظر یہ تھا کہ سنی ہی سنی سے بر سرِ پیکار ہوئے۔ سنی تحریک نے مسجدوں پر قبضوں کا سلسلہ شروع کیا جو آج بھی جاری ہے. آئے دن آپ کی نظروں سے یہ خبریں گزرتی ہونگی کہ فلاں علاقے میں دو مذہبی گروہوں میں تصادم کے بعد فلاں مسجد کو سیل کردیا گیا۔ یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ نیو کراچی گودھرا کیمپ میں آئے روز ہونے والے فسادات کی وجہ بھی بھتہ خوری اور یہی مسجدوں پر قبضے کی جنگ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ قربانی کی کھالیں اگرچہ اہل سنت والجماعت کے کئی گروپ جمع کرتے ہیں لیکن وہ پر امن طریقے سے لوگوں سے اپیل کرتے ہیں اس کے بر عکس متحدہ قومی موومنٹ کی طرح سنی تحریک نے بھی زور زبر دستی کھالیں چھیننے کا کام شروع کردیا ۔
متحدہ قومی موومنٹ اور حقیقی کے بعد یہ سنی تحریک وہ تیسرا گروپ ہے جس نے شہر میں بھتہ خوری اور قبضے گیری کا سلسلہ شروع کیا، اب یہاں متحدہ کو ایک اور حریف کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ سنی تحریک کی بھتہ خوری کے باعث اس کے حصے میں کمی آنے شروع ہوئی، ابتدا میں تو سنی تحریک کا نوٹس نہیں لیا گیا لیکن جب سنی تحریک نے اپنے ہاتھ پاﺅں پھیلانے شروع کئے تو پھر متحدہ نے اس کے خلاف ایکشن لینا شروع کیا۔ کھارادر، چاکیواڑہ، نیوکراچی وغیرہ میں سنی تحریک نے اپنے قدم جما لئے، اس کے ساتھ ساتھ سنی تحریک نے بھتے کا دائرہ کار بولٹن مارکیٹ، پیپر مارکیٹ، جامع کلاتھ وغیرہ تک پھیلادیا۔ اسی وجہ سے متحدہ اور سنی تحریک کے درمیان مسلح تصادم کا سلسلہ شروع ہوا جوکہ ایک دو ماہ کے وقفے کے بعد دوبارہ جاری ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد بھی اہلیان کراچی کی آزمائش ختم نہیں ہوئی.
ان تینوں گروپس کے بعد اے این پی نے بھی متحدہ اور سنی تحریک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھتہ خوری اور قبضہ گیری میں اپنا نام پیدا کیا۔ اے این پی اگرچہ ایک ملک گیر جماعت تھی اور کراچی کے لوگ پہلے بھی اس سے واقف تھے لیکن کراچی میں اس کا اثر رسوخ اور قوت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اگر چہ پختونوں کی کراچی میں آمد عرصہ دراز سے جاری تھی اور ان کی آبادیاں بھی یہاں موجود تھیں لیکن سیاسی طور پر یہ لوگ زیادہ منظم نہ تھے۔ شاہی سید کی اے این پی میں شمولیت(1999) اور پھر چند سالوں بعد سندھ کا صدر بننے کے بعد کراچی میں پختون منظم ہونا شروع ہوئے۔ غالباً 2006میں ہم نے پہلی بار شاہی سید کے پوسٹرز اور بل بورڈز شہر میں لگے ہوئے دیکھے۔ اس کے بعد اے این پی نے بھی اپنے زیر اثر پختون علاقوں میں بھتہ وصولی کا کام شروع کیا۔ ابتداء میں یہ کام صرف بنارس، اورنگی وغیرہ میں ہوتا تھا۔ اے این پی کی بد قسمتی کہہ لیجئے یا پھر شائد منصوبہ بندی کے تحت قبضہ گروپس، منشیات فروش اس میں شامل ہوتے گئے۔ شہر کی زمینیوں پر قبضے کی جنگ میں اے این پی بھی شامل ہوگئی۔ اے این پی اور متحدہ کے درمیان تعلقات کی خرابی یا تصادم کی وجہ یہ بنی کہ بلدیہ ٹاﺅن (اتحاد ٹاﺅن) جہاں پختونوں کی اکثریت ہے وہاں انہوں نے زمینوں پر قبضے کا سلسلہ شروع کیا (یہ بات واضح رہے کہ اورنگی ٹاﺅن کی پہاڑیوں اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں میں پہلے ہی پختون قبضہ گروپس نے اپنی بستیاں بنا لی تھی) قبضے کا سلسلہ بڑھتا گیا یہاں تک اورنگی ٹاﺅن تک پہنچ گیا۔ دوسری جانب اے این پی نے اپنی بھتہ خوری کے دائرے کو وسیع کیا اور اورنگی وغیرہ کے ساتھ ساتھ گلستان جوہر اور گلشن اقبال کے کئی علاقوں میں بھی بھتہ وصولی شروع کی۔ جب کہ ان علاقوں سے متحدہ قومی موومنٹ بھتہ وصول کرتی تھی۔ زمینوں پر قبضے اور بھتہ خوری کے بڑھتے ہوئے سلسلے کے باعث متحدہ کو ایک اور حریف کا سامنا کرنا پڑا، البتہ یہ حریف اس کے دیگر حریفوں کے مقابلے میں طاقتور بھی تھا اور اسلحے میں خود کفیل بھی اس لئے شہر میں مہاجر پٹھان فسادات کا سلسلہ شروع ہوا۔ ابتداء میں چھوٹے چھوٹے تصادم ہوتے رہے لیکن 12مئی 2007 کو قائد آباد، ناظم آباد، پاپوش نگر اور کچھ دیگر علاقوں میں پختونوں کو خاص طور پر ٹارگٹ کیا گیا۔ جبکہ واٹر پمپ، ایف بی ایریا کے سگنل کے قریب واقع پختونوں کی دکانوں کو نذر آتش کردیا گیا۔
اس کے بعد نومبر2008میں ایک بار پھر مہاجر پٹھان فسادات ہوئے جس میں درجنوں لوگ اپنی جانوں سے گئے۔ ان میں بےگناہ مہاجر بھی تھے اور پختون بھی۔ ان فسادات کے دوران مہاجر آبادیوں میں واقع پختونوں کے ہوٹل بند کرائے گئے۔ ان کی دکانوں کو لوٹا گیا، کئی جگہوں پر پٹھانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ مفاہمتی سیاست کے تحت رحمان ملک اور صدر زرداری نے دونوں گروپوں میں صلح کرادی لیکن چھوٹے چھوٹے تصادم کا سلسلہ جاری رہا۔ 2009 میں ایک بار پھر شہر فسادات کی زد میں آیا۔ اس دفعہ بھی متحدہ اور اے این پی آمنے سامنے تھے۔ ایک بار پھر درجنوں بے گناہ لوگ مارے گئے اور متحدہ نے ایک بار پھر بےگناہ پختونوں کو ٹارگٹ کرنا شروع کیا۔ ایک بار پھر پختونوں کے ہوٹلز اور دکانوں کو خالی کرانے کی کوششیں کی گئیں۔ اسی سال سانحہ عاشورہ ہوا جس کی آڑ میں لائٹ ہاﺅس کی مارکیٹ میں پختونوں کی دکانوں کو جلایا گیا۔ اگرچہ اس کو مشتعل عوام کے ردعمل کا نام دیا گیا لیکن حیرت انگیز بات یہ تھی کہ مظاہرین نے صرف سیدھے ہاتھ پر واقع پختونوں کی مارکیٹوں کو نقصان پہنچایا جبکہ الٹے ہاتھ پر واقع دکانوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔ بعد میں یہ معلوم ہوا کہ اس جلاﺅ گھیراﺅ میں متحدہ قومی موومنٹ ملوث تھی لیکن مفاہمتی سیاست کے تحت اس جلاﺅ گھیراﺅ میں ملوث عناصر کے خلاف کاروائی نہیں کی گئی۔ آج متحدہ کے انہی کارناموں کا خمیازہ اورنگی ٹاﺅن کے عوام بھگت رہے ہیں. وہ نشانہ بن رہے ہیں۔ بنارس چوک، ولیکا اور اورنگی ٹاﺅن میں اردو بولنے والوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن یہ آگ تو خود متحدہ کی لگائی ہوئی تھی۔ اس نے نفرتوں کی جو فصل بوئی تھی اب وہی فصل کاٹ رہی ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اس کا نشانہ عام افراد بن رہے ہیں۔
لیاری گینگز کراچی میں کم و بیش پچیس تیس سالوں سے موجود ہیں۔ ابتداء میں یہ بابو ڈکیت اور حاجی لالوگروپ کے نام سے مشہور تھے اور ان کا دائرہ کار ڈکیتیاں یا پھر منشیات فروشی تک محدود تھا۔ جبکہ رحمان ڈکیت کا باپ دادل محمد عرف دادل بھی ان کے گروپ میں شامل تھا۔ نوّے کی دہائی کے آغاز میں انہوں نے منشیات فروشی کا بھی دھنداہ شروع کردیا دادل اور حاجی لالو آپس میں دوست تھے اور دادل اکثر و بیشتر حاجی لالو کے گھر میں بھی آتا جاتا رہتا تھا۔ بعض اختلافات کے باعث ان کے گروپ الگ ہوگئے اور بابو ڈکیت نے اختلافات کے باعث رحمان ڈکیت کے چچا اور دادل کے بھائی کو قتل کردیا، رحمان ڈکیت نے اپنا ایک نیا گروپ تشکیل دیا۔ اسی دوران بابو ڈکیت کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔ عدالت میں پیشی کے دوران رحمان ڈکیت نے بابو ڈکیت کو قتل کردیااور فرار ہوگیا۔ کہا جاتا ہے کہ رحمان ڈکیت نے پولیس کو مخبری کرنے کے شبہہ میں اپنی ماں خدیجہ کو بھی قتل کیا تھا۔ ادھر دونوں گروپس کے اختلافات بڑھتے رہے اور چھوٹے موٹے تصادم ہوتے رہے لیکن 2001میں رحمان ڈکیت نے حاجی لالو کے ایک فرد مہران کولیاری کی ایک ٹرانسورٹ یونین کی صدارت سے ہٹا دیا، ارشد پپو نے رحمان ڈکیت سے مہران کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا جو کہ رحمان نے نہیں مانا، جس کے رد عمل میں ارشد پپو نے رحمان ڈکیت کے ایک فرد فیض محمد عرف فیضو کو قتل کردیا جبکہ حاجی لالو نے اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ رحمان ڈکیت کے لوگوں کو قتل کریں۔ جس کے بعد لیاری میں اس بدترین گینگ وار کا آغاز ہوا جوکہ ابھی تک جاری ہے. ارشد پپو اور رحمان ڈکیت گروپ۔ یہ دونوں گروپس پرانا گولیمار، لیاری، لی مارکیٹ اور گارڈن کے علاقوں میں وارداتیں کرتے تھے اور ایک دوسرے کے علاقوں میں قبضے کی کوششیں کرتے تھے۔ پھر ان گروپوں نے محدود بھتہ خوری کا آغاز کیا، ابتداء میں یہ گروپس اپنے زیر اثر علاقوں میں موجود بلڈرز اور ٹرانسپورٹرز سے بھتہ وصول کرتے تھے۔ جبکہ اس دوران ان کی آپس کی جنگ چلتی رہی جو کہ لیاری گینگ وار کے نام سے مشہور ہوئی۔ رحمان ڈکیت گروپ نے ارشد پپو گروپ کو پسپا کردیا اور اس کے کئی علاقوں میں قبضہ کرلیا۔ گینگ وار کے کارندے انتہائی سفاک اور ظالم ہیں. یہ لوگ ایک دوسرے کے علاقوں میں قبضے کے دوران مخالفین کے مرحومین کی قبریں تک اکھاڑ دیتے تھے۔ جبکہ مخالفین کے لوگوں کو اغواء کرکے انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا جاتا تھا۔ (اس حوالے سے گزشتہ ماہ ایک نجی چینل پر ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی جس میں ایک گروپ کے لوگ دوسرے گروپ کے فرد پر تشدد کررہے ہیں اور اس پر کتے چھوڑ رہے ہیں۔)
بعض اطلاعات کے مطابق متحدہ نے لیاری میں انٹری کے چکر میں ارشد پپوگروپ کو سپورٹ کرنا شروع کیا۔ ان اطلاعات میں کتنی صداقت ہے یہ تو ہم نہیں کہہ سکتے ہیں یہ ضرور ہوا کہ متحدہ کی جانب سے ارشد پپو گروپ کی سرپرستی کے بعد پی پی پی نے اس کے مقابلے کے لئے رحمان ڈکیت کو باقاعدہ سپورٹ کرنا شروع کردیا اور اس کو ایک سماجی کارکن، ایک رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، ہوسکتا ہے کہ اس کے پس پردہ یہ مقاصد ہوں کہ لیاری کے بے روزگار اور معمولی جرائم پیشہ افراد کو جرم کا رستہ چھوڑ کر باعزت زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے۔ واللہ اعلم. اسی وجہ سے پیپلز امن کمیٹی کا قیام عمل میں آیا اور ماضی کا رحمان ڈکیت اب سردار عبدالرحمٰن بلوچ عرف خان بھائی بن گیا۔ آغاز میں امن کمیٹی نے لیاری کے لوگوں کی خدمت کے ذریعے ان کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران امن کمیٹی نے لیاری میں کئی فلاحی سرگرمیاں کی، غریبوں اور بیواﺅں کی مدد، ڈسپنسری وغیرہ قائم کرکے ایک سماجی خدمات کا آغاز کیا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ پی پی پی اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتی اگر پی پی پی کی حکومت میں ہی رحمان ڈکیت کی پولیس مقابلے میں ہلاکت نہ ہوتی۔ رحمان ڈکیت کی ہلاکت کے بعد امن کمیٹی پی پی پی سے دور ہوتی گئی اگرچہ اس کے ہمدرد اور کارکنان کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہی ہے لیکن وہ پی پی پی کی موجودہ قیادت سے متنفر ہیں۔ اس سارے پس منظر میں یہ ہوا کہ ارشد پپو گروپ تقریباً ختم ہوگیا اور ارشد پپو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے بعد ایم کیو ایم نے کچھی برادری کو سپورٹ کرکے لیاری میں انٹری کی کوششیں شروع کردی۔ جبکہ دوسری جانب امن کمیٹی نے باقاعدہ بھتہ خوری اور کھالوں کے چھیننے کا سلسلہ شروع کردیا جس کے باعث گذشتہ سال نیا آباد میں عید الاضحیٰ پر نیازی برادری اور امن کمیٹی کے درمیان مسلح تصادم ہوا جس میں امن کمیٹی کے کارندوں کی فائرنگ سے چار یا پانچ لوگ جاں بحق ہوگئے (جبکہ متحدہ کی لیاری میں انٹری کی کوششوں کے باعث امن کمیٹی اور متحدہ کے درمیان تصادم کی بھی ابتدا ہوگئی۔ اس دوران متحدہ کے دباﺅ پر امن کمیٹی کو تحلیل کردیا گیا اور اس وقت آن دی ریکارڈ پیپلز امن کمیٹی کا وجود نہیں ہے۔)
امن کمیٹی کی تحلیل کے بعد لیاری گینگ وار کے کاندے اپنے رہنماﺅں کی برائے نام نگرانی اور گرفت سے بھی آزاد ہوگئے اور انہو ں نے لوٹ مار کا سلسلہ گرم کردیا۔ اسی سلسلہ میں گذشتہ سال شیر شاہ کی کباڑی مارکیٹ کا سانحہ پیش آیا جبکہ گینگ وارنے لیاری ، پرانا گولیمار، گارڈن وغیرہ کے علاقوں سے نکل کر کھارادر، بولٹن، پیپر مارکیٹ، برنس روڈ تک اپنے پاﺅں پھیلانے کی کوشش کی جس پر متحدہ اور لیاری گینگ وار کے درمیان تصادم کا آغاز ہوا اور اس تصادم نے باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار کرلی، حالیہ افسوس ناک حالات کی وجہ بھی انہی دونوں پارٹیوں کی آپس کی چپقلش اور لڑائی کا نتیجہ ہے جس کا خمیازہ ایک بار پھر بےگناہ عوام کو بھگتنا پڑا۔ حالیہ فسادت کی ابتداء پانچ بلوچ نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد ہوئی، ان نوجوانوں کو طارق روڈ اور دیگر علاقوں سے اغواء کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر قتل کرکے پھینک دیاگیا جس کے بعد شہر مقتل بن گیا، لیاری اور کھارادر سے اردو بولنے والوں کو اغواء کرکے بدترین تشدد کانشانہ بنا کر قتل کیا گیا اور لاشیں بوری میں بند کرکے پھینک دی گئی۔ البتہ یہاں بات ذہن نشین رہے کہ حالیہ فسادت میں صرف لیاری گینگ وار نے لوگوں کو قتل نہیں کیا بلکہ متحدہ کے زیر اثر علاقوں سے بھی لوگوں کو اغواء کرکے انہیں قتل کے بعد بوری میں بند کرکے پھینک دیا گیا۔ ناظم آباد اور نیو کراچی جیسے علاقوں سے بوری بند لاشیں اس کا ثبوت ہیں۔ جبکہ اسی دوران چکرا گوٹھ کا واقعہ پیش آیا جس میں دہشت گردوں نے سادہ لباس میں ملبوس مروت کوچ میں سوارپولیس اہلکاروں پر حملہ کردیا، جس کے نتیجے میں چھ پولیس اہلکارجاں بحق ہوگئے جبکہ پولیس کی جوابی فائرنگ سے دو دہشت گرد موقع پر ہی ہلاک ہوگئے جبکہ کچھ زخمی ہوگئے۔ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کی شناخت شاہد برگر اور شاہد چمن کے نام سے ہوئی اور ان کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے تھا جبکہ زخمی ہونے والے ایک دہشت گرد کو جناح ہسپتال سے گرفتار کیا گیا جس کی شاخت کامران عرف مادھوری کے نام سے ہوئی ہے۔ جبکہ رینجرز کے آپریشن کے دوان گینگ وار کے چار کارندے بھی گرفتار کئے گئے۔ جبکہ بلدیہ ٹاﺅن سے متحدہ کے ایک دہشت گرد اعجاز عرف چھوٹو کو بھی گرفتار کیا گیا۔
اس وقت کراچی میں امن ہے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ امن کا یہ وقفہ کتنے دن کاہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی ایک گروپ یا گروہ کے خلاف کاروائی کرنے کے بجائے مکمل غیرجانبدارانہ آپریشن کرکے شہر کو اسلحے سے پاک کیا جائے۔ بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے. سب سے بڑی بات یہ کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کو سیاسی جماعتوں کی مداخلت سے پاک رکھا جائے۔اس کے بعد ہی شہر میں مکمل امن وامان قائم ہوسکتا ہے بصورتِ دیگر وقتی امن کے بعد شہر میں فسادات برپا ہوتے رہیں گے، بے گناہ افراد مرتے رہیں گے، بھتہ خوری اور پرچی مافیا اپنا کام کرتی رہے گی۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے شہر کو ایک بار پھر امن کا گہوارہ بنائے ۔آمین.
آپکی پیش کردہ معلومات پر کس قدر بھروسہ ممکن ہے ؟ اور ان حقائق کا کوئی ماخذ موجود ہے ؟
براہ مہربانی اس لنک کو چیک کرلیں۔ لیاری گینگ کے حوالے سے اس تحریر سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔دیگر باتوں کے لئے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اول تو میں خود کراچی کا رہائشی ہوں اور میری پیدائش بھی کراچی کی ہے۔ جبکہ میں اس حوالے سے لیاری،اور بنارس کے رہائشی افراد سے بھی معلومات لی ہیں۔
http://www.thenews.com.pk/TodaysPrintDetail.aspx?ID=192493&Cat=4&dt=8/11/2009
آپ کی باتیں بالکل درست ہیں۔میںخود کراچی میں رہتا ہوں۔
Well done brother.
کراچی کے سنگین حالات کا پس منظر اس سے زایدہ بہتر انداز میں نہیں بتایا جا سکتا تھا۔ اللہ اپکو جزائے خیر دے اور کراچی کو امن کا گہوارہ بنائے۔
حکومت کی سیاسی مصلحتیں مجرموں کو کس طرح بچاتی ہیں اجکل خوب پتہ چل رہا ہے۔ ٹارگٹ کلرز کو پکڑ کر کارنامہ نہیں بلکہ ایم کیو ایم پر حکومت میں شمولیت کے دباؤ کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یا لطیف یا رب۔
یہ سب اس دور کے فرعون اور سفاک درندے ہیں۔