میرا کراچی ایک بار پھر لہو لہو ہے۔صورتحال یہ ہے کہ پہلے ہم لوگ بارہ مئی 2007 کو روتے تھے لیکن اب تو یہاں روز ہی ایک بارہ مئی برپا ہوتا ہے، روز درجنوں بے گناہوں کے لاشے گرتے ہیں۔ روزانہ کئی مائیں ابنے جوان بیٹوں کی، بہنیں گھبرو اور محبت کرنے والے بھائیوں کی، سہاگنیں اپنے سہاگ کی لاشوں پر بین کرتی ہیں۔ بوڑھے باپ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ ان کی عمر بھر کی کمائی، ان کی بڑھاپے کا سہارا قبر میں اتارا جارہاہے۔گھر اجاڑے جارہے ہیں اور ایک منظم سازش کے تحت یہاں لسانیت کو فروغ دیکر اپنے مذموم مقاصد پورے کئے جارہے ہیں۔ پہلے کراچی کا ہر علاقہ ہر ایک کا تھا یعنی لسانی و قومیت کے لحاظ سے لیکن اب ایسا نہیں ہے اب کوئی علاقہ بلوچوں کا ہے، کوئی مہاجروں کا اور کوئی پٹھانوں کا، عید سر پر ہے لیکن مارکیٹیں ویران ہیں لوگ خوفزدہ ہیں کیوں کہ پہلے فسادات ہوتے تھے تو اندھا دھند واردات میں کوئی فرد ہلاک ہوجاتا تھا تو اور بات تھی یا کسی فائرنگ وغیرہ کی زد میں آتا تھا لیکن اب تو حد ہوگئی ہے کہ مسافروں سے بھری بسوں کو آگ لگائی جارہی ہے، مسافروں کو بس سمیت اغواء کیا جارہا ہے اور پھر بوری بند، تشدد زدہ، مسخ لاشوں کی صورت میں یہ مغوی برآمد ہوتے ہیں۔ امن و امان کی ابتر صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس دن دس یا بارہ بے گناہ افراد جاں بحق ہوں تو لوگ کہتے ہیں کہ آج کچھ امن تھا کہ صرف دس لاشیں ملی ہیں ورنہ اب تو 20اور 30لاشوں کا اوسط چل رہا ہے۔
ایک طرف یہ ساری صورتحال ہے دوسری جانب ارباب اختیار ابھی تک کسی قسم کے ایکشن کے بجائے پوائنٹ اسکورنگ کرنے اور مفاہمتی سیاست کی وجہ سے خاموش ہیں۔ حکومت اور اس کے اتحادی اس صورتحال میں بھی عوام کو بیوقوف بنانے سے باز نہیں آتے ہیں، امن و امان کی صورتحال میں بہتری کا دعویٰ کیا جاتا ہے، ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کی جاتی ہیں، چینلز پر آکر اپنی اپنی مظلومیت کا رونا رویا جاتا ہے اور بے گناہوں کا خون بہتا رہتا ہے۔ کراچی میں فوج کو بلانے کی بات ساری پارٹیاں کرتی ہیں لیکن عملاً کیا صورتحال ہے؟ عملاً صورتحال یہ ہے کہ اربابِ اختیار کو مفاہمتی سیاست اور اقتدار کی ہوس نے بے بس کررکھا ہے کیوں کہ اگر وہ متحدہ کے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرتی ہے تومتحدہ ناراض ہوتی ہے،اگر ANP کے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کی جائے تو وہ اس کو امتیازی سلوک کہہ کر واویلا مچاتے ہیں اور رہے ’’گینگ وار ‘‘ المعروف امن کمیٹی والے، وہ تو انوکھے لاڈلے ہیں ان کو خود پی پی پی نے ہی پروان چڑھایا ہے، اس لئے اول تو ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی لیکن اگر کبھی اعلان بھی کردیا جائے تو یہ لوگ فوراً قوم پرستی کا علم تھام کر بلوچوں کی نسل کشی کا شور مچانا شروع کردیتے ہیں۔ اور اس ساری صورتحال کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ خون ریزی، یہ جلاؤ گھیراؤ، یہ نفرتیں کیوں فروغ پارہی ہیں؟ کراچی تو ایک غریب پرور شہر تھا جس نے پورے ملک کے لوگوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا، یہاں سندھی، مہاجر، بلوچ، پٹھان، پنجابی امن و چین سے رہ رہے تھے پھر یہ نفرتیں کیوں؟ اس کا جواب بہت سیدھا سادہ ہے کہ نہ تو مہاجر دہشت گرد ہے اور نفرتیں پھیلا رہا ہے اور نہ ہی سندھی، بلوچ، پٹھان یا کوئی اور اس طرح کی وارداتیں کررہا ہے بلکہ دراصل یہ غنڈے اور دہشت گرد ہیں جو اپنے مذموم مقاصد کے لئے یہ سارے کام کررہے ہیں اور ان کی جماعتیں اور لیڈرز ان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ یہ سارا کھیل تو بھتہ اور قبضے کا تھا جس کو بڑی ہوشیاری سے لسانیت کا رنگ دیدیا گیا۔ دیکھیں اور غور کریں کہ میرے آپ کے آفس میں، محلے میں، فیکٹری میں، کمپنی میں ہر زبان بولنے والے افراد ہیں۔ کیا ہمارے دلوں میں اپنے ساتھیوں کے لئے نفرت ہے؟ کیا ہم اپنے ساتھ کام کرنے والے ساتھیوں کے دکھ درد میں شریک نہیں ہوتے؟ کیا دکھ سب کا سانجھا نہیں ہے؟ گذشتہ ہفتے میرے ایک ساتھی نے ایدھی مردہ خانے کی ایک تصویر دکھائی۔ وہ تصویر بہت کچھ کہہ رہی تھی۔
تصویر میں ایک طرف پینٹ شرٹ پہنے ہوئے اردو بولنے والے نوجوان اپنی کسی پیارے کی لاش لینے کے لئے گیٹ پر کھڑے ہیں۔ان کے چہروں پر اداسی کا ڈیرہ ہے اور ان کے بالکل ساتھ ہی دو بلوچ عورتیں اور ایک بلوچ نوجوان بھی اپنی کسی عزیز کی لاش لینے کے لئے کھڑے ہیں عورتوں کی آنکھوں میں آنسو ہیں اور ہاتھ آسمان کی جانب اٹھے ہوئے ہیں، جبکہ بلوچ نوجوان بھی غم و اندوہ کی تصویر بنا ہوا ہے۔ یہ تصویر ہمیں بتا رہی ہے کہ مہاجر ہو یا بلوچ یا پٹھان سب ہی مظلوم ہیں۔ سارے ہی ظلم کا شکار ہیں۔ اسی طرح اخبارات میں اگر جاں بحق ہونے کے گھر والوں کی تصاویر یا ویڈیو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ مہاجر ہو یا پٹھان یا سندھی، بلوچ، مرنے کے بعد سب کے گھروں میں یکساں کہرام مچتا ہے، سب کی مائیں جھولی پھیلا پھیلا کر ظالموں کو بد دعائیں دیتی ہیں۔ ایک پٹھان لڑکی بھی اپنے محبت کرنے والے بھائی پر اتنی ہی جان چھڑکتی ہے جتنی محبت ایک اردو بولنے والی لڑکی اپنے بھائی سے کرتی ہے۔ اور اردو بولنے والے کی ماں بھی اپنے بچے سے اتنی ہی محبت کرتی ہے جتنی کہ ایک بلوچ ماں اپنے بچے سے کرتی ہے۔ سب سے خاص بات جو کہ شائد کسی نے نوٹ نہیں کی ہوگی۔ ہر ماں جو ہاتھ اٹھا اٹھا کر، دامن پھیلا پھیلا کر اپنی جوان اولاد کو قتل کرنے والوں کوبد دعائیں دیتی ہے تو وہ کبھی کسی قومیت کو بددعا نہیں دیتی، کبھی کسی خاص زبان والے کو بددعا نہیں دیتی، وہ تو ایک ہی بات کہتی ہے کہ اللہ ظالموں کو غارت کرے، اللہ ظالموں کو نیست و نابود کرے، شائد اس لئے کہ ایک ماں دوسری ماں کا دکھ سمجھتی ہے۔ اسے شدید ترین غم اور دکھ میں بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی ایک لغزش کتنی ماؤں کی گود اجاڑ سکتی ہے۔
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس صورتحال کو بہتر بنانے میں اپنا کردار کس طرح ادا کرسکتے ہیں؟ دیکھیں ہم دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے، ہم بندوق کے جواب میں بندوق نہیں اٹھا سکتے لیکن نفرتوں کو کم کرنے میں تو ہم اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ میں اور آپ ! چاہے ہم مہاجر ہیں، سندھی ہیں، بلوچ ہیں، پٹھان ہیں، پنجابی وغیرہ سب سے پہلے تو ہم یہ کریں کہ جو شر انگیز اور افواہوں پر مبنی ایس ایم ایس آج کل لوگوں کو موصول ہوتے ہیں کہ فلاں جگہ مہاجروں نے پٹھان کو مار دیا ہے یا فلاں علاقے میں پٹھانوں نے حملہ کردیا وغیرہ وغیرہ تو ایسے ایس ایم ایس بغیر تصدیق آگے نہ بڑھائیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ بھی قرآن میں فرماتا ہے کہ ’’ اے لوگو !جو ایمان لائے ہوے، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لیکر آئے تو تحقیق کرلیا کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اورپھر اپنے کئے پر پشیمان ہو (سورہ الحجرات آیت نمبر 6)۔
پھر دوسری بات یہ کہ جب کسی محفل میں، خاندان میں، دوستو یاروں کی مجلس میں بیٹھیں اور کراچی کی صورتحال پر بات ہو تو کوشش کریں کہ لوگوں کو یہ بات سمجھائیں کہ جھگڑا لسانیت یا قومیت کا نہیں ہے بلکہ یہ کھلم کھلا ظلم دہشت گردی ہورہی ہے۔ اور اس ظلم کا شکار ہر قوم کے لوگ ہورہے ہیں۔ مہاجر بھی اس ظلم کا شکار ہیں، پٹھان بھی اور بلوچ بھی۔ حق کو صرف اپنی قوم یا مفادات کے تحت چھپانے کے بجائے ضمیر کی آواز پر لبیک کہیں اور لوگوں کو بتائیں کہ ہمارے رہنما، ہمارے لیڈرز چاہے وہ مہاجروں کے ہوں یا بلوچ اور پٹھانوں کے یا پی پی پی کے ان سب کے مفادات کے باعث کراچی بدامنی کا شکار ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری ان چھوٹی چھوٹی کاوشوں کا مجموعی اثر بہت مثبت اور نتیجہ خیز ہوگا اور ہم کم از کم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ہم نفرتوں کی آگ بھڑکانے والے نہیں بلکہ اس الاؤ کو ٹھنڈا کرنے والے گروہ میں سے ہیں۔ ہماری یہ نیکی اللہ کی بارگاہ میں رائیگاں نہیں جائے گی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ملک اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی پر اپنا کرم فرمائے، نفرتوں کو آگ کو ٹھنڈا کرے اور دہشت گردوں اور ان کے پشتیبانوں کو ہدایت عطا فرمائے اور اے اللہ اگر ان بد نصیبوں کی قسمت میں ہدایت نہیں لکھی تو پھر اے اللہ ان کو نیست و نابود کردے، ان کی رسی کومزید دراز نہ کر، اے اللہ ان کو اتنی مہلت نہ دے کہ یہ مزید گھروں کو اجاڑیں۔ آمین ثمہ آمین۔
امریکہ سے دوستی کسی کو راس نہیں آئی ابھی تک سوائے اسرائیل کے
جب محافظ ہی راہزن ہو تو بچائے کون ؟
یہ جماعت والے اپنے خلاف ایک لفظ نہیں سن سکتے ھیں، دوسروں پر تہمت لگانی ھو تو سب سے آگے ھوتے ھیں اور اپنے بارے میں سچ سننے کا حوصلہ بھی ان میں نہیں ھے، ھر کمنٹ ڈیلیٹ کردیتے ھیں اور باتیں کرتے ھیں حق اور سچ کی! میرے خیال سے دنیا کی سب سے بڑی بےغیرت و منافق مخلوق یہ جماعتی ھیں!
فالتو اور غیر ضروری باتوں کا جواب نہ دینا ہی بہتر ہے. یا تو آپ مضمون کے مندرجات پر تنقید کریں،اس کی خامیاں بیان کریں اور اگر پسند آیا ہے تو اس حوالے سے بات کریں. بلاوجہ کی باتوں کا جواب دینے کے ہم پابند نہیں ہیں. اگر آپ کو اس مضمون کی کسی بات سے اختلاف ہے تو آپ نشاندہی کریں ،ورنہ آج آپ کا یہ غیر متعلقہ تبصرہ شائع کردیا گیا ہے آئندہ ایسا کوئی غیر متعلقہ قسم کا تبصرہ شائع نہیں کیا جائے گا.
میری اس ویب سائٹ کے موڈریٹر صاحب سے بھی گزارش ہے کہ براہ مہربانی جو تبصرے مضمون سے متعلق نہ ہوں ان کو شائع نہ کیا جائے .
سلیم اللہ شیخ صاحب دراصل ہم چاہتے ہیں کہ حق اور سچ اور اس کا راستہ روکنے والوں کا چہرہ دنیا کے سامنے آجائے اس لیے وقتآ فوقتآ اس طرح کے جاہلانہ تبصرے کو منظور کردیتے ہیں کہ ان جہلا کا بغض و عناد سب پر واضح ہو.
غیر متعلقہ اور اخلاق باختہ تبصروں کے بارے میں ایک لائحہ عمل موجود ہے، آئندہ انشاءاللہ اس پر عمل ہوگا…