گزشتہ ایک ماہ کے دوران معروف نجی ٹی وی چینل جیو نیوز پر ایک ہی موضوع پر چارپروگرامات تین مختلف فورمز پر پیش کئے گئے اور موضوع تھا ’’ پاکستانی فلموں کا زوال‘‘ یا ’’پاکستان میں بھارتی فلموں کی مقبولیت کی وجہ‘‘۔اب اس کو کوئی بھی عنوان دیں لیکن بنیادی بحث یہی تھی کہ پاکستانی سینما زوال کا شکار کیوں ہے؟ اور پاکستانی فلموں کی نسبت بھارتی فلمیں زیادہ مقبول کیوں ہیں؟اس موضوع پر سب سے پہلے کامران خان صاحب نے اپنے پروگرام ’’آج کامران خان کے ساتھ ‘ میں لگاتار دو پروگرام پیش کئے،پھر عبد الرؤف صاحب نے ’’پچاس منٹ ‘‘ میں اسی موضوع پر بات کی۔ اور اس کے بعد حامد میر صاحب نے ’’کیپٹل ٹاک‘ ‘ میں اس موضوع کو زیر بحث رکھا۔
ہمارے لئے یہ بڑی حیرت انگیز بات تھی کیوں کہ اگر دیکھا جائے تو اس وقت بھارتی فلموں اور کلچر کو سب سے زیادہ جنگ گروپ ہی سپورٹ کرتا آرہا ہے۔ جیو نیوز کی مختلف خبروں اور ویڈیو کلپس کے درمیان انڈین گانوں کی مکسنگ ہوتی ہے۔زیادہ دور نہ جائیں بلکہ ابھی حال ہی میں میر پور کے ایک انوکھے جوڑے یعنی ڈھائی فٹ کے سردار عارف اور ساڑھے پانچ فٹ کی شمائلہ کی شادی کی خبر چلائی گئی،شادی کے دوسرے روز کی جو خبر بلیٹن میں نشر کی گئی اس ڈھائی تین منٹ کی رپورٹ میں شائد چھے یا سات انڈین فلموں کے ٹوٹے شامل کئے گئے تھے۔ اسی طرح آج کامران خان میں اس موضوع کے پروگرام کے بعد جو نیوز بلیٹن جاری کیا گیا اس کے آخر میں انڈین فلم اسٹار کرینہ کپور کا گانا دکھاتے ہوئے انکشاف کیا گیا کہ یو گا کے ذریعے خود کو فِٹ رکھتی ہیں۔اسی طرح ساحر شو بھی جیو نیوز کا ہی ایک پروگرام ہے ۔اس شو میں جب تک میزبان انڈین گانے پر رقص نہ کرلیں اس وقت تک یہ شو مکمل نہیں ہوتا۔ بالی ووڈ کی دو یا تین خبریں باقاعدگی کے ساتھ ہر نیوز بلیٹن میں چلانا بھی چینل کا وطیرہ ہے۔ اور امن کی آشا کے نام پر بھارتی کلچر کو پروان چڑھانے کا بیڑا بھی جیو نیوز نے اٹھایا ہے۔ اس کے علاوہ نجی چینلز پر سب سے پہلے بھارتی فلمیں چلانے کا اعزاز بھی غالباً مذکورہ چینل کے پاس ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف تو یہ ساری صورتحال ,دوسری جانب بھارتی فلموں کی نمائش اور مقبولیت پر مذاکرے کئے جارہے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا ملک میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہی رہ گیا ہے کہ اس پر ڈسکس کیا جائے؟ کیا وجہ تھی کہ کراچی میں قتل و غارت گری، امریکہ کی افغانستان سے واپسی کا آغاز، متحدہ کی حکومت سے علیحدگی اور واپسی، مہنگائی، لوٹ شیڈنگ جیسے مسائل کو ایک طرف رکھ کر اس غیر ضروری مسئلہ کو چھیڑا گیا؟ کیا اس وقت ملک کا سب سے سلگتا ہوا مسئلہ یہی رہ گیا تھا۔ جب کہ دوسری جانب بھارتی فلموں اور ثقافت کو بھی یہی چینل پروان چڑھا رہا ہے۔
جب ہم نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ اصل مسئلہ پاکستانی فلموں کا زوال یا بھارتی فلموں کی مقبولیت نہیں ہے اور نہ ہی مذکورہ چینل کو بھارتی تہذیب و ثقافت کے اثر و نفوذ پر کوئی تشویش ہے بلکہ اصل مسئلہ جیو فلمز کے بینر تلے بننے والی نئی فلم ہے جس کا نام ہے ’’ بول ‘‘ بول جیوفلمز اور شعیب منصور کی دوسری فلم ہے۔ اس سے قبل خدا کے لئے بھی پیش کی جاچکی ہے۔ بول فلم کو وہ مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی جس کی توقع کی جارہی تھی۔ فلم کے غیر مقبول ہونے کی وجہ اس کا متنازع موضوع اور غیر اخلاقی مناظر ہیں۔ معاصر جرائد کے مطابق بول فلم کی کہانی ایک مذہبی گھرانے کے گرد گھومتی ہے جس کے سربراہ کو مولوی اور ایک خاص مکتبہء فکر سے تعلق رکھنے والا دکھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ فلم کی کہانی میں بازار حسن کے مناظر بھی ہیں اور معروف اداکار شفقت چیمہ بازار حسن میں پائے جانے والے ایک مخصوص کردار کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ اس کردار کو ایک دوسرے مذہبی مکتبہ فکر سے منسلک دکھایا گیا ہے جبکہ فلم کی کہانی کے مطابق اگر ان دونوں کرداروں کے مسالک کو اجاگر نہ کیا جاتا تو بھی کوئی حرج نہیں تھا لیکن مذہبی منافرت کو بڑھاوا دینے اور دین بیزاری کو فروغ دینے کے لئے ایسا کیا گیا۔ جبکہ فلم میں بد فعلی کا منظر بھی شامل کیا گیا۔ اس کے علاوہ فلم کی کہانی کا مرکزی خیال بہبود آبادی (برتھ کنٹرول ) ہے اور فلم میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اولا د کو قتل کرنے کے ساتھ ساتھ اولاد پیدا کرنا بھی جرم اور گناہ ہے اور سارا زور اس بات پر دیا گیا ہے کہ بچے پیدا نہ کیئے جائیں۔
پاکستانی اور اسلامی روایات سے متصادم متنازع موضوع کے باعث بول فلم ناکام ہوگئی ہے۔ اب جیو گروپ اس فلم کو کامیاب کرانے کے لئے میڈیا کو استعمال کررہا ہے۔ فلم کی ریلیز سے ایک ہفتہ قبل سے لیکر اب تک جیو نیوز کے ہر بلیٹن میں کسی نہ کسی حوالے سے ’’بول ‘‘ فلم کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اس کی کامیابی اور سپر ہٹ ہونے کی ویڈیو رپورٹس جاری کی جارہی ہیں۔ اور گذشتہ ماہ جنگ اخبار کو کوئی رنگین ایڈیشن ایسا نہیں ہے جس میں ایک یا آدھے صفحے کا فیچر اس فلم سے متعلق نہیں ہو۔ روزانہ کی بنیاد پر ایک یا دو خبریں بول فلم کی چلائی جاتی ہیں بلکہ آغاز میں تو تین اور چار کالمی خبر نما پبلسٹی مہم بھی چلائی گئی لیکن ان تمام باتوں کے باوجود عوام نے اس فلم کو مسترد کردیا ہے۔ اس لئے جیو گروپ اپنی اس ناکامی کو چھپانے کے لئے کبھی فلم کی کامیابی اور سپرہٹ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور کبھی بھارتی فلموں کی مقبولیت اور پاکستانی سینما کے زوال کا رونا روتا ہے لیکن اصل دکھ صرف اور صرف اپنی فلم کے پٹنے کا ہے۔ کیوں کہ اگر مذکورہ گروپ کو واقعی بھارتی فلموں کی آمد اوربھارتی ثقافت کے پھیلاؤ پر تشویش ہوتی تو سب سے پہلے اپنے چینل سے بالی ووڈ کی خبروں، بھارتی فلم فئیر ایوارڈ کی تقریبات کی نمائش، نیوز رپورٹس میں انڈین گانوں کی مکسگ کو ختم کرتا لیکن ایسا نہیں ہے یعنی بقول شاعر
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ ۔ دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا۔۔۔
جناب ابن ذکاء صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں جو اس موضوع پر قلم اٹھایا اور اس دجالی میڈیا کو ایکسپوز کرنے کی کوشش کی ہے۔
بہت خوب جناب.
یہ جیو گروپ کا بھی وہی حال ہوگا جو آج کل یورپ میں میں نیوز گروپ کا ہوا ہے.
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
آپ نے بہت عمدہ تحریر لکھی ہے
خالد حمید بھائی آپ نے ٹھیک کہا ان کا بھی وہی حال ہوگا
بندہ پوچھے کہ بھائی! اب کوئی نیا جال لاؤ ، کیونکہ تم تو پرانے شکاری ہو چکے اب!!!
لیکن اس قوم میں امن کی آشا جلانا اسان کام تو نہیں ہے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشتہارات، “کمرشلز” اور وغیرہ وغیرہ پر خرچہ بہت آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر پھر یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنا “سہارا” کون کون دیتا ہے اس اور اس جیسے دوسرے نیٹ ورکس کو؟؟
بہرحال یہ لوگ جو مرضی کر لیں، ایک “سلمان تاثیر” ٹائپ واقعہ کا اور “ظاہر” ہونا ہے اور اس قوم کی “انتہا پسندی” نے ان کی زبانیں گنگ کر دینی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
Geo is security risk for our ethics, values and economy,since its start. So, let we boycott it. this is the only solution to secure ourselves. Please ask your cable operator to close this channel. Montoring of this channel is useless ,as we know its agenda.
آپ کے خیالات سے سو فیصد متفق ہوں۔ جیو گروپ کسی اور ملک کی نمائندگی کرتا محسوس ہوتا ہے۔
آپ تمام کا مضمون کی پسندیدگی کے لیے شکریہ۔ میں آپ سب کا حق کی آواز میں آواز ملانے پر ممنون ہوں۔
ندیم مانڈوی والا کہتے ہیں کہ فلم اچھی ہوگی تو سینما مالک اسے خود لگانے پر مجبور ہوگا کیونکہ یہی کاروباری تقاضہ بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’سنیما گھروں میں ان دنوں پاکستانی فلم ’بول‘ چل رہی ہے اور بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کی فلموں کی موجودگی کے باوجود ریکارڈ توڑ بزنس کررہی ہے تو ثابت یہ ہوا کہ اصل معاملہ عوام کی پسند کا ہے وہ جس فلم کو پسند کریں گے سینما گھر مالک وہی فلم لگائے گا‘۔
کناب عبداللہ صاحب اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک کامیاب اور سپر ڈپر ہٹ فلم ہے تو بھائی جی آپ سمجھتے رہیں. ہمارا جو نقطہ نظر ہے وہ ہم نے لوگوں کے سامنے رکھا ہے. یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ اس پر بحث در بحث کی جائے
اap ki thrir bhot fikar angiz he waqi hm ko is p qlam uthany ki ashad zarorat he es ko pardh kar zahan kushada howa jazakallha