حقوق میں برابری: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے عورت کو اعزاز دیا اُسے برابری کے ساتھ آدم ؑ کے ساتھ جنتّ میں رکھا’’پھر ہم نے آدم سے کہا تم اور تمہاری بیوی جنتّ میں رہو‘‘ (البقرۃ ۴۳) یہاں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو برابری کے حقوق دیے آج کا مغرب انسانوں کے بنائے ہوئے قانون کے تحت عورتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے جو قرآن کی رو سے جہالت کے سواکچھ بھی نہیں. قرآن شریف میں کئی جگہ عورتوں کے حقوق اوراُن کی اہمیت کے بارے میں ذکر ہے۔’’ عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں‘‘ (البقراۃ ۸۲۲) اِس آیت سے یہ ثابت ہوتا کہ ربِ کریم نے خود قرآن شریف میں شروع ہی سے عورتوں کے حقوق کا حکم دے دیا تھاجسے دنیا کی کوئی طاقت صلب نہیں کر سکتی۔ یہ عورتوں کے لیے بڑا اعزاز ہے ان کے ربّ کی طرف سے۔ دوسری جگہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’اس طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی یہ انھیں بھی کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کریں یہ حق ہے متقی لوگوں پر‘‘( البقرۃ۱۲۲) غو ر فرمایے جب کسی کو کوئی فارغ کرتا تو کون کسی کو کچھ دیتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر بھی عورتوں کے حقوق کا خیال رکھا عورتوں کے حقوق کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا ’’عور توں کے لیے بھی اُس مال میں حصّہ ہے جو مال باپ اور رشتہ دارں نے چھوڑا ہو‘‘ (البقرا۴۳) اللہ نے رشتہ داروں کے مال میں عورتوں کا حصّہ رکھا یہ ہیں حقوق اللہ تعالیٰ کی طرف سے عورتوں کے لیے۔ اسی طرح حدیث شریف میں بہت سی جگہوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کے حقوق کی بات کی ہے۔حضرت عبداللہ ابن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول ؐ نے فرمایہ ساری دنیا سرمایا ہے اور دنیا کا بہترین سرمایہ نیک عورت ہے (مسلم)
عدل وانصاف : حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے رسول ؐ جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے جس کا نام قرعہ میں نکلتا آپ اس کو سفر میں لے جاتے کتنا انصاف ہے عورت کے ساتھ کہ کسی کو کسی سے کم یا زیادہ حق نہیں دیا گیا۔ حضرت ابن عمر ؐ سے روایت ہے رسول ؐ نے فرمایا حلال کاموں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ کام خدا کے نزدیک طلاق ہے۔ (ابوداود) طلاق بعض صورتوں میں ناگزیں ہوجاتی ہے مگر یہاں بھی عورتوں کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے۔ حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے رسول ؐ نے فرمایا جب خدا تعالیٰ تم میں سے کسی کو مال عطا فرماے تو اس کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنی ذات پر خرچ کرے پھر اپنے گھر والوں پر۔(مسلم) اس میں بھی عورت جو گھر والوں میں شریک ہوتی ہے گھر کا ایک حصّہ ہوتی ہے کا خیال رکھا گیا ہے۔ یہ ہیں اسلام میں عورتوں کے حقوق کتنی عظمت ہے عورتوں کے حقوق کے بارے میں۔ دنیا کے کسی بھی مذہب میں اتنے حقوق نہیں دہیے گئے ہیں جتنے اسلام نے دیے ہیں کسی مذہب میں عورت کو شوہر کی موت کے وقت ستی کر دیاجاتا تھااور کسی مذہب میں عورت کو حیض کے دنوں میں ناپاک سمجھا جاتا ہے۔اور نہ جانے کیسے کیسے حقوق سلب کئے گئے۔ مغرب کے معاشرے میں عورت طرح طرح کے مصائب سے دوچار ہے آج عیسائی مغرب، مسلمان معاشرے، جس کی عورت ایک انمنٹ اکائی ہے،میں آ آ کر اس کے ابدی خاندانی نظام کے متعلق تحقیق کرتا ہے کہ کس طرح اس کو ختم کرے۔ اس طرح وہ اپنے نام نہاد جدید شیطانی نظام میں مسلمان معاشرے کو ضم کرنا چاہتاہے۔ عورت اور مرد ایک حقیقت ہے۔ حضرت آدم ؑ کے ساتھ حضرت حوا کا ذکر اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ اللہ تعالی نے مرد و زن کے ملاپ سے اپنی مخلوق کو جنم دیا۔ اللہ تعالیٰ اس کے علاوہ بھی جو چاہتا کر سکتا تھا لیکن اُس کی مشیت تھی کہ ایک جوڑا پیدا کیا جائے جس سے انسانی نسل کو آگے پھولنا پھلنا ہے لہذا عورت اسلام میں ایک خاص حقیقت ہے اور اس کے بغیر نظامِ دنیا نہیں چل سکتا۔ ہر دور کے انسان نے عورت کے ساتھ ظلم کیا۔ قبل اسلام کوئی اس کو زندہ دفن کر دیتا اور طرح طرح کے ظلم کرتا اور کوئی آج جدید دور میں اسے رونقِ محفل اور کوئی اسے شمعِ محفل بناتا ہے اور اپنی جنسی تسکین کرتا ہے اور اس کا اتحصال کرتا ہے مغرب اور مشرق کے قدیم وجدید جہلا نے عورت کے ساتھ طرح طرح کے ظلم ڈھائے ہیں۔ مگر اسلام نے اس کو عظمت عطا فرمائی اس کے ساتھ برابری کا سلوک سکھایا اِس کو احترام کی نظر سے دیکھنے کا حکم دیا کیوں کہ اِس سے آ یندہ نسل نے چلنا ہوتا ہے۔اس کی گود سے فرشتہ صفت انسان پیدا ہو سکتا ہے اور اس کی گود سے شیطان صفت انسان پیدا ہو سکتا ہے دنیا کے نامور اشخاص نے نیک سیرت خواتین کی گود وں میں پرورش پائی۔ دنیا کی کسی قوم نے عورت کو وہ حقوق نہیں دیے جو اسلام نے د یے ہیں۔اسلام نے عورتوں کو جو رسول ؐ کی زوجیت میں تھیں کو اُم ا لمومنین کا خطاب دیا۔ عورت ماں کے روپ میں دنیا کی عظیم ہستی ہے۔عورت بیوی کے روپ میں ایک مقام رکھتی ہے۔ عورت بیٹی، بہن اور دوسرے رشتوں میں خاص مقام رکھتی ہے، توحید کے بعد اللہ نے والدین کے حقوق کا قرآن میں ذکر کیا ہے اگر وہ انہیں بڑھاپے کی حالت میں ملیں تو اُن کے سامنے اُف تک نہ کرنے کا حکم اور اُن کے ساتھ بہترین سلوک کی ہدایت کی۔اِس میں عورت شریک ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص رسول ؐ کے پاس حاضر ہوا اور ہدایت کے لیے درخواست کی رسول ؐ نے فرمایا کہ تیری ماں ہے کہنے لگا نہیں رسول ؐ نے فرمایا تیری خالہ ہے کہنے لگا ہاں ہے آپ ؐ نے فرمایا جائو اُن کی خدمت کرو یہی ہدایت ہے اور بہت سے واقعات حدیث کی کتابوں کے اندر موجود ہیں جس میں رسول ؐ نے ماں باپ کے ساتھ بہتر سلوک کی ہدایت فرمائی۔ یہ بھی فرمایا ماں کے پائوں کے نیچے جنت ہے۔
عورت پہلی شہیدِاسلام: اسلام کے راستے میں سب سے پہلے ایک خاتون نے قربانی دی۔ حضرت سمّیہٰ ؓ شہید اوّل ہیں۔ خواتینِ اِسلام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے ایک خاتون شہید ہوئیں۔ حضرت سمّیٰہ ؓ یاسر خاندان کی خاتون تھیں۔ دوسرے لوگوں کے ساتھ اِن پر سرداران قریش ظلم زیاتی کرتے تھے مگر یہ خاتون اللہ کے دین پر قائم رہیں۔ایک ایسا وقت آیا کے ابوجہل یعنی جاہلوں کے باپ نے اِس نیک سیرت خاتون کو برچھی مار کر شہید کر دیا۔ یہ تھے قریش کے سورما جو عورتوں پر ہا تھ اٹھاتے تھے۔ حضرت آسیہ ؓ جو کہ فرعون کی بیوی تھی مسلمان تھی اللہ کے پاس بُہت اجر والی تھی حضرت موسیٰ ؑ جسے اللہ نے اپنی مشیت کے تحت قتل ہونے سے بچایا۔فرعون کے گھر اُس کی پرورش کے اسباب مہیّا کیے وہ اِسی گھر میں جوان ہو ئے۔ حضرت آسیہ ؓ نے فرعون کو راضی کیا کہ اس ننھے منے بچے کو اپنا بیٹا بنا لیتے ہیں اسطرح حضرت موسیٰ ؑ حضرت آسیہ ؓ کے گھر میں اِن کی نگرانی میں پرورش پاتے رہے۔
عورتوں کی جنگوں میں شرکت: خواتین اسلام بہادر تھیں۔ اسلام کی شروع کی جنگوں میں انہوں نے شرکت کی۔ جنگ اُحد میں خواتینِ اسلام شریک تھیں حضرت عائشہؓ ، حضرت ام سلیم ؓ جو حضرت انس ؓ کی ماں تھیں اور حضرت ام سلیط ؓ جو حضرت ابو سعید خدری ؓ کی ماں تھیں زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں۔ حضرت ام عمارۃ ؓ نے حضرت محمد ؐ کی جنگ اُحد میں حفاظت کی۔ (خاتونِ اُحد) کہلائیں۔ جنگ خندق کے موقعہ پر حضرت صفیہ ؓ جو کہ حضرت محمد ؐ کی پھوپھی تھیں قلعہ میں تھیں جو بنو قریظہ کی آبادی کے قریب تھا اس میں مسلمانوں نے خواتین کو ٹھہرایا ہوا تھا یہودیوں نے اس قلعے پر حملہ کر دیا۔ ایک یہودی قلعے کے پھاٹک تک آ گیا اور حملہ کرنے کا موقعہ ڈھونڈھ رہا تھا۔ کہ حضرت صفیہ ؓ نے دیکھ لیا۔ مستورات کی حفاظت کے لیے حضرت حسّان ؓ کو متعین کیا ہوا تھا۔ حضرت صفیہ ؓ نے ان سے کہا قلعے سے اُتر کر اس کو قتل کر دو تاکہ یہودی مرغوب ہو جائیں ورنہ یہ جا کر دشمنوں کوبتا دے گا۔ حضرت حسّان ؓ ایک عارضہ کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے۔ حضرت صفیہ ؓ نے خیمے کی ایک چوب اکھاڑی اور اس یہودی کے سر پر اس زور سے ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا پھر اس کی گردن کاٹ کرقلعے کے باہر پھینک دی۔ حضرت محمد ؐ نے جنگ کے خاتمے کے بعد مسجد کے صحن کے اندر ایک خیمہ لگایا تا کہ سیدّ الاوس حضرت سعد ؓ بن معاذ جو غزوہ احزاب میں زخمی ہو گے تھے کا علاج ہو سکے۔ اس لڑائی میں حضرت اُمِ رفیدہ ؓ ایک خاتون شریک تھیں جو کہ زخمیوں کا علاج کرتی تھیں اس کے پاس دوائیں تھیں، خیمہ ان ہی کا تھا۔
اس کے علاوہ اسلام کی نیک خواتین جنہوں نے اسلام میں مقام پایااور جنت کی مستحق ہوئیں لاتعداد صحابیات ؓ اور دوسری اسلامی دور کی خواتین اسلام جن کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ جن کی گود میں پرورش پا کر بڑے بڑے نامور مجاہدین اسلام پیدا ہوئے اور اُن کے کارنامے رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔ عورت ماں ہے جس کے پیروں کے نیچے جنتّ ہے۔ عورتوں کو فضلیت اسلام نے دی۔ عورتوں کو سب سے پہلے اسلام نے حقوق دیئے افضل مقام دیا عورتوں کے حقوق کی بابت آخری خطبہ میں رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ عورتوں کے بارے میں خدا سے ڈرو اور اُن کے حقو ق اد ا کرو۔ عورتوں کی عظمت کا آپ اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو ام المومنین کا درجہ دیا۔
قارئین ہماری خواتین کو خواتین اسلام کی سیرت کا مطالعہ کرنا چاہیے اور ان کی سیرت پر عمل کرنا چاہیے بڑے افسوس کا مقام ہے مسلمان گھرانوں کی عورتیں مغرب زدہ خواتین کی نقالی کرتیں ہیں جب کہ خواتین اسلام کو ام المومنینؓ ،صحابیات ؓ اور دوسری نام ور خواتین اسلام کی سیرت پر چلنا چاہیے، جوان کی آئیڈ یلز ہونی چاہیے۔
میں آپکے بیان کردہ مضمون سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم مسلمانوں میں یعنی آجکے مسلمانوں میں اور خصوصی طور پہ پاکستان کے مسلمانوں میں ہر قسم کے حقوق العباد کی نگہبانی اور یہ اوصاف حمیدہ بدستور موجود ہیں جن کے بارے قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔ اور ہم ہر قسم کے حقوق جو اسلام پہ فرض کرتا ہے کہیں پورے کر رہیں؟ جنہیں بنیاد بنا کر ہم ایک مادل کے طور پہ باقی دیگر غیر مسلم اقوام کے سامنے پیش کر سکیں؟۔
اور اگر بدقسمتی سے یوں نہیں ہو پارہا تو کیوں؟ آخر کیوں ہم مسلمان بہترین مذھب کے ماننے والے ہونے کے باوجود اپنے لوگوں کو انسانی حقوق برابر بہم نہ پہنچا کر باقی دنیا سے شرمندہ ہیں؟۔ کہاں کہاں ہم کوتاہی کرتے چلے جاتے ہیں۔ نہ ہمیں کوئی روک پاتا ہے نہ ہم خود کہیں رکنے اور سوچنے کا فہم و ادارہ رکھتے ہیں۔
آخر ایسا کیونکر نہیں ہورہا؟۔ اس پہ بحث ہونی چاہئیے۔ تانکہ لوگوں کو ان کے حقوق برابر ملنے چاہئیں۔ غیر مسلم ہم پہ انگلی نہ اٹھا سکیں۔
ہم اپنی کوتاہیاں نہیں تسلیم کریں گے تو انھیں درست کیسے کیا جاسکے گا؟۔
میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں۔ ہمیں اپنی کوتاہی تسلیم کرنی چاہیے اوربہتر مسلمان بننے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ تمام معاشرہ درست ہوجائے۔