اب سب کچھ تمہیں ہی کر نا ہے!!
وہ زرار و قطار رو رہی تھی اور میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اسے کس طرح تسلیاں دوں؟ ’’ ………وہ سب کچھ لے گئے! زیور، موبا ئیل، گھڑ یاں، لیپ ٹاپ…….‘‘
ایک عورت کے لیے زیور کی کیا اہمیت ہے ہم سب کو اندا زہ ہے اور پھر روز افزوں مہنگائی اور ممکنہ بے روز گاری کے لیے تو انسان کو گھر میں رکھے زیور کا ہی آ سرا ہو تا ہے۔ آہ اب کچھ نہ رہا! رزق کی فراہمی تو خالق کا ئنات نے اپنے ذمے لی ہے مگر زمینی مالک انسا ن کے منہ سے نوالے چھیننے پر تلا ہوا ہے۔
’’…….چارڈاکو تھے۔ منہ ڈھانکے تھے مگر پھر بھی ان کے لب و لہجہ سے پتہ چل رہا تھا کہ کون ہیں …….. پورے شہر میں بد معا شو ں کے علاقے بٹے ہو ئے ہیں۔ ہمارا علاقہ …….کے حصہ میں ہے ! ………‘‘ یہ بات تو بچے بچے کے علم میں ہے کہ شر کت اقتدار کن بنیا دوں پر ملتا ہے !!!
’’………میں تو رو زانہ آیت الکر سی اور دعا ئیں پڑ ھ کر گھر کا حصا ر کر تی ہو ں …. .کیا کلام اﷲبھی بے اثر ہو گیا ہے؟ ( نعوذ باﷲ)……. کیا غلط ہو گیا ہے مجھ سے اﷲ؟؟‘‘. اس نے پھر آنسو بہا نا شروع کر دیا. اس کی با تیں مجھے دہلا رہی تھیں مگر اس بات پر مجھے خاموشی توڑنی ہی پڑ ی ’’……..اﷲ نے تو حفاظت کا ذمہ لیا ہے مگر غلطی یہ کہ ہم حکمران غلط منتخب کر تے ہیں.‘‘
’’ …کیا مطلب ….؟‘‘ وہ رونا بھو ل کر مجھے دیکھنے لگی۔ سیاست ایسا مو ضو ع ہے کہ انسان ہروقت اور ہر حال میں اپنی گفتگو میں ضرور رکھتا ہے! ہر مسئلے کا تانا بانا وہیں جا کر ختم ہو تا ہے! پتہ نہیں وہ کون سے لوگ ہیں جو سیاست کو شجر ممنو عہ سمجھتے ہیں؟
’’……مطلب یہ کہ آپ نے مسند صدارت پر ایساشخص سجا دیا جس کی کرپشن ضر ب المثل ہے! جیسا راجا ویسی پر جا! یہ تو ہوگا ہی! ‘‘ میں نے کہا.
’’ …میں نے اسے کب ووٹ دیا تھا؟ ‘‘ وہ ایک دم ہتھے سے اکھڑ گئی۔
’’ تو چلیں آپ کے منتخب کر دہ ممبر نے تو دیا تھا ……‘‘ میں نے بحث کی
’’….جی ہماری مر ضی کون پو چھتا ہے؟؟ یہ تو سب طے ہوتا ہے۔ جو امریکہ چاہتا ہے ………‘‘ وہ بالغ نظری سے بو لی.
’’….اور آپ کو پتہ ہے امریکہ کی راہ میں سب سے بڑی رکا وٹ کون ہے؟؟ ‘‘
’’ کون؟؟ ‘‘ وہ پر تجسس تھی۔
’’……ہم سب! میں اور آ پ!! ‘‘
’’جی؟‘‘ اس نے کہا.
’’ ہاں !وہ عوامی رویہ دیکھتا ہے، عوام کے موڈ کے مطابق اپنی حکمت عملی متعین کر تا ہے! ہمیں تو اپنی طا قت کا اندا زہ ہی نہیں ہے۔ اگر ہم آ ج کندھے سے کندھا ملا کر امریکہ کو گھر واپسی پر تل جا ئیں تو وہ بھاگ کھڑا ہوگا…. اگر چڑ یاں متحد ہو جا ئیں تو شیر کی کھال اتار سکتی ہیں….‘‘
’’ یہ کیسے ہو سکتا ہے جی؟……‘‘ اسکی نا امیدی ختم نہیں ہو رہی۔ زخم تا زہ بھی ہے اور براہ راست بھی۔ پوری قوم ناامیدی کے گہرے بادلو ں میں ڈوبی ہو ئی ہے۔ امید کا سورج نکلے تو کہاں سے؟ روشنی کامنبع پھو ٹے تو کیسے؟؟ تاریکی کے غلا فو ں میں لپٹا ہے سارا منظرنامہ !!
’’ ….اب ایبٹ آباد کا وا قعہ ہی دیکھ لیں………..‘‘اس نے ذاتی حادثے کوقومی پس منظر میں سمجھانے کی کو شش کی.
اس سے پہلے ایک قصہ گوش گذار کر لیں …….ایک نئی ٹیچر پرنسپل کے کمرے میں داخل ہو ئی تو دیکھا وہ سر پکڑے بیٹھی ہیں۔ وجہ یہ بتائی کہ مونٹیسوری کے ایک بچے کو اس کی دادی کلاس میں سے بغیر اجا زت یہ کہتی ہو ئے لے گئیں کہ دیکھو اس اسکول کی سیکو رٹی! میں بچے کو لے جا رہی ہو ں اور کوئی پوچھنے والا نہیں …… اور اب اس بچے کی ماں انتظامیہ کو لتا ڑ کر گئی ہے۔ ٹیچر تھی تو بہت جونئیرمگر اپنے حقوق سے آشنا اور اس کے لیے ڈٹ جا نے والی! اس نے میڈم کو تسلی دی، یہ کہہ کر کہ آ پ ہر گز نہ دبیں بلکہ اس کے گھر والوں کو نوٹس دیں کہ انہو ں نے اسکو ل کے اصول کو violate کیا ہے لہذا ان پر جرمانہ کیا جاتاہے۔ میڈم نے ایسا ہی کیا۔ اگلے ہی دن والدین معذرت کرنے آ گئے۔
یہ واقعہ اس رویے کا اظہار ہے کہ جارح کو اسکی جارحیت سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا احساس تو دلایا جا ئے ورنہ غلامانہ ذہنیت کی کو ئی حد نہیں رہتی۔ کیاامریکی غلامی سے نکلنا ہمارے اپنے ہا تھو ں میں ہے؟
’’…جی ہا ں !مگرہمارے صرف چاہنے سے اس کا کچھ نہیں بگڑ سکتا الا یہ کہ ہم اس پرڈٹ جا ئیں! وہ ہمیں پتھر کے دور میں واپس بھیجنا چاہتا ہے تو کوئی بات نہیں۔ خود اس کا کھاتہ بھی تو بند ہو جا ئے گا! اگراس کی تہذیب ہمارے گھرو ں سے اٹھ جا ئے تو وہ کس کو ڈکٹیشن دے سکے گا؟ ’’ آ پ کو پتہ ہے نا کہ شہر میں ہنگامہ یا گڑ بڑ کی اگر افواہ بھی اڑجا ئے تو لوگ کیا کر تے ہیں؟ …..موبائیل کارڈز، پمپرز اور انڈے ڈبل رو ٹی جمع کر لیتے ہیں تاکہ ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر اچا نک ملنے وا لی چھٹی کو enjoy کر سکیں ……..‘‘
’’ تو اور کیا کریں؟ کیا کر سکتے ہیں ؟؟ ‘‘
’’ گھر گھر استغفار کی مجلسیں تو بپا کر سکتے ہیں؟ وہ جو یو نس ؑ کو مچھلی کے پیٹ سے نکال سکتا ہے ہماری بے بسی پر ایکشن نہیں لے سکتا؟ اور جب اس سے مدد کے لیے لوگ سجدہ ریز ہو جاتے ہیں تو وہ ہمت اور وسیلہ سب عطا کر دیتا ہے! ………….‘‘
’’….ہاں اﷲ ہی کچھ کرے تو ہو سکتا ہے۔ ہمارا تو کو ئی اختیار ہی نہیں …. بے بسی بھی تو دیکھیں …….‘‘ ہر گفتگو کی طرح اس کا اختتام بھی معا ملہ اﷲ کے حوالے کر نے پر ہوا۔
’’لیکن اگر ہم اپنا عیش، آرام، سہو لیات اور تفریح سے دستبردار نہیں ہو سکتے تو پھر صرف دعا ئیں کام نہیں کر تیں۔ اﷲ بھی اونٹ باندھ کر توکل کر نے کو کہتا ہے۔ پھر ابابیلیں بھی آ جاتی ہیں لشکر کو تباہ کر نے کے لیے! فرشتے بھی قطار درقطار اتر تے ہیں شکست کو فتح میں بدلنے کے لیے۔ جراءت اورقر بانی کا کوڈ لگانا پڑ تا ہے پھر سگنل ملتا ہے …….. پہلا قدم تواٹھانا ہی پڑ تا ہے……….‘‘ میں نے لوہا گرم دیکھ کر اپنا لیکچر شروع کیا…
’’ اور بے بسی کیسی؟ کوئی نہ کوئی را ستہ تو ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ اگراسمبلی، میڈیا، ادارے سب ہماری پہنچ سے باہر ہیں تو سڑ کیں توکھلی ہیں۔ ان کو تو روکا جا سکتا ہے۔ دھر نے کے ذ ریعے! street power………..‘‘
’’ …….دھرنا۔ احتجاج ! امریکی غلامی سے نجات کے لیے! مرگ بر امریکہ کے صرف ایک نعرے سے ایران نے اپنی سمت بدلی ۔سڑ کیں انسا نی سروں سے سجیں اورلوگ جوق در جوق اس میں داخل ہو ئے تو کچھ بھی ناممکن نہ رہا؟……‘‘
’’ ……..جی وہ تو یکسو ہوگئے تھے! ہم تو ابھی حیص بیص میں ہی ہیں ………‘‘
’’….غلامی سے نجات حا صل کر نے پر تو سب یکجان ہیں! ذرا سروے تو دیکھیں! لوگوں سے را ئے تو لیں! سب کا ایک ہی نعرہ! گو امریکہ گو..‘‘
اور جو اس کے چند ایجنٹ یہاں وسوسو ں کے بیج بونے کی کو شش کر رہے ہیں ان کی آواز میں صرف ڈا لرز کی کھنک ہے کوئی جان نہیں! …… اور پھر ہر ایک کو اپنا بدلہ لینا ہے …. بجھتے چو لہے، بہتے خون، ڈوبتی اقدار، …………سب کو حساب لینا ہے تو دیر کیسی؟ حجت کیوں؟……… بس دھرنا ہی علاج ہے!!! عوام کو سڑ کو ں پرنکل کر ہی اپنے حقوق حاصل کرنے ہوں گے!!!
فیس بک تبصرے