جناب افتخار چو ہدری صا حب
چیف جسٹس ، پا کستان
جناب! سو مو ٹو کے ذریعے آپ اہم اور توجہ طلب باتوں پر ایکشن لیتے رہتے ہیں. یہ ادا روں پر چیک اینڈ بیلینس رکھنے میں کافی کار آ مد ثا بت ہو تا ہے. اسی سلسلے میں آ پ کی توجہ میں ایک نازک مسئلے کی طرف مبذول کرا نا چا ہتی ہوں جس کا تعلق شاید ہمارے حال سے زیا دہ مستقبل سے ہے. جی ہا ں ! میری مراد بچو ں سے ہے! جن کی تربیت میں والدین اور گھر ہی نہیں ماحول اور معاشرہ بھی برابر کا شریک ہے اور یقینآ حکو مت کی بھی یہ ذمہ داری ہے! اس دور میں جب میڈیا سب پر حا وی ہو گیا ہے دیگر عوامل کا فرض بہر حال سا قط نہیں ہواہے.
بچے آ ج کل چھٹیاں منا رہے ہیں. دو ماہ کی تعطیلات ان کا حق ہے تا کہ وہ دوبارہ تا زہ دم ہو کر اپنی تعلیم میں مصروف ہوجائیں. مگر کیا یہ مناسب ہے کہ وہ صرف اور صرف تفریح میں اتنا لمبا عر صہ گزار دیں؟ وہ سا را دن ٹی وی کے آ گے بیٹھے رہتے ہیں. ماں باپ پر تر بیت کا سا را ملبہ گرا کر معاشرہ اور حکومت بری الذمہ نہیں ہو سکتے کیو نکہ ہم سب کو اندا زہ ہے کہ اتنے طا قت ور میڈیم کے آگے سب بے بس ہیں؟؟ یا بنا دیے گئے ہیں! کیا چینل مالکان اور حکومت کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ اس معا ملے میں اپنا فرض ادا کریں؟
جناب عا لی!
ذرا ئع ابلاغ نظر یات کے پھیلاﺅ میں اہم کر دار ادا کر تے ہیں ۔ اسکے ذریعے سے تعلیم، تبلیغ، تر بیت اور تفریح کا کام لیا جا سکتا ہے لیکن فی الوقت ہمارا میڈیا صرف اور صرف تفریح کا کام کر رہا ہے. معلو مات یا خبریں ایک دھماکے کی طرح انسا نی ذہن و شخصیت کو متا ثر کر رہی ہیں. لیکن ایک اہم ترین کام یعنی تعلیم سے بے بہرہ ہے. کیا ہمارے جیسے غریب اور غیر تعلیم یافتہ معا شرے کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ اتنے اہم ذریعے کو محض تفریح کے لیے استعمال کیاجا ئے؟ اور وہ بھی بے لگام اور اخلاق سے گری ہو ئی! بجلی کے اتنے شدید بحران میں چوبیس گھنٹے تفریح کی نظر کرنا کسی جرم سے کم نہیں! کیا آپ اس پر کو ئی ایکشن نہیں لے سکتے؟؟
اس وقت صبح کے دس بجے جب یہ تحریر لکھی جا رہی ہے تو سا منے والے خالی پلاٹ پر بنی جھونپڑیوں میں دودرجن کے قریب بچے ٹی وی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، جن میں دینی اقدار کو تباہ کر نے وا لے انڈین ڈرامے بھی ہیں، احساس محرومی پیدا کر نے والے مارننگ شوز بھی ہیں، جرائم پر اکسا نے وا لے مہلک اور فحش اشتہارات بھی ہیں اورمایوسی پیدا کر نے وا لے ٹاک شوز بھی! مگر نہیں ہیں تو ان کو سکھانے وا لے اسباق اور آداب! نئی نسل اور اقدار میں پیدا ہونے والے خلاء کو دور کر نے کے لیے کیااتنے اہم ذریعہ کا کو ئی بہتراستعمال ممکن نہیں ؟؟؟
دنیا بھر میں home schooling کا رواج بڑھ رہا ہے اور ٹی وی یقینآ اس کا اہم ذریعہ ہے. تو کیا ہم اس پاور فل میڈیم کو اسکول کا نعم البدل نہیں بنا سکتے؟؟ ضرور بنا سکتے ہیں اور اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو آنے والی نسلو ں کے ذہنی اور معا شرتی قتل کے مر تکب ٹہریں گے جس کی سزا ایک ایسی موت ہے جس میں ذلت کے سوا کچھ نہیں !
کیا یہ ممکن نہیں کہ بچوں کے لیے خصو صی پرو گرام نشر کیے جا ئیں؟ تلاوت، دعا ئیں، آداب زندگی کے علاوہ اسباق مختلف درسی کتب کے حوا لے سے تیار کر کے پیش کیے جاسکتے ہیں ۔ یعنی ٹی وی کا وا حد مقصد تفریح کے بجائے دیگر مقاصد یعنی تعلیم education اور معلو مات information کا تصور عام کیا جائے۔
1- اس سلسلے میں چینلز کو پا بند کیا جا ئے کہ وہ اپنی نشریات میں سے چند گھنٹے اس کام کے لیے مختص کریں ورنہ ان کے لا ئسنس منسوخ کیے جا سکتے ہیں.
2- متعلقہ اسباق اور آ داب کی تیاری کے لیے اسکو ل اور دیگر پرا ئیوٹ ادارے سے تعاون لیا جا ئے.
اس سلسلے میں پہلے قدم کے طور پر PEMRA کے قوا نین کی سختی سے پا بندی کی جا ئے کیو نکہ ایک ایسے معا شرے میں جہا ں 98 فیصد مسلمان آباد ہوں اور جن میں نوجوانوں کی تعداد امید افزا ہو کس طرح اس بات کی اجا زت دی جاسکتی ہے کہ اقدار کے لیے چیلنج بننے والی لامحدود اور مہلک سرگرمیوں کو کھلی چھو ٹ دے دی جائے؟
جناب عالی! یقینا یہ کام آپ کے منصب کے شایان شان نہیں کیو نکہ اس کے لیے باقاعدہ ادارے موجود ہیں مگر جب وہ اپنا کام نہیں کر رہے تو لامحالہ آپ کی طرف امید بھری نظرو ں سے دیکھنا پڑ تا ہے کہ اپنی نسلوں کو آزادی اور تفریح کے نام پرمحض چند ڈالرز کی کمائی کے لیے تباہ ہوتے دیکھنا کسی بھی باشعور فرد کے لیے ممکن نہیں ! امید ہے کہ آپ اپنا فریضہ ادا کر نے کی کوشش کریں گے !!!! اﷲ ہمارا حامی و ناصر ہو آ مین.
بات تو آپ نے درست لکھی ہے مگر ايک بيچارے ثيف جسٹس آف پاکستان کيا کيا کريں ۔ جو فيصلے وہ سُنا چکے ہيں اُن پر عملدرآمد کيلئے اُن کے پاس نہ پوليس ہے نہ فوج نہ توپ نہ ميزائل ۔ اس پر ايک جان اور لاکھ غم ۔ اللہ اپنا کرم فرمائے
کیا آپ کو معلوم نہیں ان مہینوں میں پاکستان کا موسم کیسا ہوتا ہے؟ کبھی وقت نکال کر پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقوں کی سیر کیجیے آپ کے علم میں اضافہ ہو گا۔ آپ نے کبھی چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو بھاری بھر کم بستے اٹھائے کئی کلومیٹر دور سکول پیدل جاتے دیکھا ہے؟ اگر اس موسم میں حکومت رحم کر کے ان معصوموں کو بخش ہی دیتی ہے تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟
آپکی باتیں بے جا نہیں ہیں ۔لیکن میرے خیال مین اس سے بڑے بڑے مسائل وہ حل کرنے کی کوشش میں ناکام رہا، اور افتخار صاحب والی بات کہ اسکے پاس صرف زبان اور قلم ہے باقی کوئی قوت اسکے ساتھ نہین بلکہ درپردہ وہ اسکی پاؤں مار رہے ہیں۔
ok, but we have only power of writing , so it is used.