کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں ایک بے گناہ نوجوان سرفراز شاہ کا قتل ،ظلم سے بڑھ کر بربریت ہے اس پر جتنا بھی غم و غصہ کیا جائے کم ہے بے شک سارا ملک سوگوار ہے قانون کا نفاذ اوراپنے شہریوں کی حفاظت کرنے والے اداروں کے اندر ایسے سانڈھوں کو احتساب کے کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا ملنی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی ایسی سفاک بربریت نہ کر سکے۔جن اداروں نے قوم کی حفاظت کرنی ہوتی ہے اگر وہ ہی قوم کے نوجوانوں سے ایسی بربریت کریں تو اللہ کی زمین دکھوں سے بھر جائے گی اورپھر اللہ کے عذاب کو آنے سے کوئی نہیں روک سکے گا ۔سرفراز شاہ کو دکھوں اور سسکیوں کے درمیان سپرد خاک کر دیا گیا والدین رشتہ دار اہل محلہ غموں سے نڈھال ہیں انصاف مانگ رہے ہیں۔
قارئین یہ تو ہم سب کو معلوم ہے کہ ملک میں بے انصافی کا دور دورہ ہے لوگوں کے مال اور جان محفوظ نہیں ہیں یہ وہ دور آ گیا ہے کہ مرنے والے کو پتہ نہیں کہ مجھے کیوں مارا جار ہا ہے اور مارنے والے کو بھی پتہ نہیں کہ میں اس کو کیوں مارر ہا ہوں آئے دن لوگوں کی بوری بند لاشیں مل رہی ہیں تشدد سے مار کے لاشیں نالوں میں ڈال دی جاتیں ہیں ویرانوں میں ڈال دی جاتیں ہیں ایک وزیر کے قتل پر سو محنت کشوں کو مار دیا جاتا ہے اپنی ہی تنظیموں سے اختلاف کرنے والوں کو ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے شہریوں کی حفاظت پر معمور اداروں کے سانڈ ھ بے گناہوں کو مار رہے ہیں ابھی کچھ دن پہلے لیاری میں رینجرز نے دو بے گناہ نوجوانوں کوقتل کیا تھا، ابھی خروٹ آباد واقعے کی بربریت کا انصاف نہیں ملا۔ابھی شہزاد صحافی کے ساتھ کی جانے والی بربریت کا انصاف نہیں ملا کہ یہ سرفرازشاہ کا واقع یش آ گیا۔ جب تک غلامی کے دور کے پولیس کلچر اور تھانہ کلچرکو تبدیل نہیں کیا جاتا ایسے واقعات رونماء ہوتے رہیں گے۔ اس ظم اور بربریت کی سپریم کورٹ کو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ سزا دینی چاہیے تاکہ آئندہ قانون اور عوام کی حفاظت کرنے والے اداروں کے اندر ایسے سانڈ ھ خوف میں مبتلا ہوں اور آئندہ ایسی حرکت نہ کریں۔
شاید اللہ نے مظلوموں کی فریاد سن لی ہے کہ اپنے ایک بہادر بندے کو عین موقعے پر بھیج دیا۔ وزیر کے آنے کا تو بہانہ بن گیا جناب عبدالسلام سومر وایک سندھی ٹی وی چینل کے فوٹو گرافرنے کمال بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کے سامنے آنے والی فوٹیج بنائی ورنہ سرفرازشاہ کے کیس کو بھی پولیس مقابلہ بنا کر دفتر داخل کر دیا جاتافوٹو گرافر کو بھی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ایک فوٹیج میں مقتول سرفراز شاہ کھڑے ہوئے ر یجنرز سے زندگی کی بھیک مانگ رہاہے۔ دوسری تصویر میں خون میں لت پت دونوں گھٹنوں پر ہاتھ رکھے ہوئے زمین پر بیٹھا ہے۔ تیسری تصویر میں لہولہان ہو کر زمین پر گر گیا ہے اورچوتھی تصویر میں سامنے زمین میں خون ہے اور بے گناہ کی لاش پڑی ہوئی ہے۔ ایسی فوٹیج بنانے اور متعلقہ لوگوں تک پہنچانے پر اس بہادر فوٹو گرافر کو ضرور بہادری کا انعام ملنا چاہیے یہ ایک سرفراز شاہ کا معاملہ نہیں ہے آئندہ مظلوں کے لیے بھی ایک بہت بڑا کام ہے جس پر میں گزارش کروں گا میڈیا کی فوٹو گرافروں کی تنظیم سے کہ بہادر عبدالاسلام سومرو کو اس بہا دری پر خصوصی انعام کا اعلان کرنا چاہیے۔
قومی اسمبلی میں قوم کے نمائندوں نے بھرپور انداز میں قوم کی حفاظت پر معمور اداروں کے اندر ایسے سفاک سانڈھوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ایسے افراد ہی اداروں کی تباہی کا باعث بن جاتے ہیں خدارا ملک میں ایک اور بنگلہ دیش کا میدان نہ سجائو پوائنٹ آف آڈر پر فرنڈلی اپوزیشن رہنماء نے اپنی تقریر میں زور دیا۔ وزیر اعظم صاحب نے بھی ذمہ داروں کو قانون کے کہٹرے میں لانے کی بات کی۔وردی میں دہشت گردی نا منظور ایسے لوگوں کو چوک میں گولی مار دینا چاہیے۔ قومی اسمبلی میں جوڈیشنل انکواری کا مطا لبہ بھی کیا گیا۔ نوجوان کے قتل پر عالمی میڈیااور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اظہار مذمت کیا۔ ملکی ٹی وی چینلزپر غیر مسلح شخص پرفائرنگ کے بعد سکیورٹی ادارے شرمندگی میں مبتلا ہیں۔ اپنے آپ کو قانون سے بالا سمجھتے ہیں ایشین ہیومن رائٹ کمیشن کا بیان۔ ملک کے اندر تمام لوگوں نے بھرپور احتجاج ریکارڈ کرایا۔ پرنٹ میڈیا،الیٹرونک میڈیا ٹی وی اینکر پرسن کالم نگاروں اور مختلف مکتبہ فکر اور سیاسی نقطہ نظرر کھنے والے لوگوں نے اس بربریت پر آواز اُٹھائی ہمارے ملک کی سپریم کورٹ نے ازخود سومو ٹو نوٹس لے کر کارروائی شروع کر دی۔ کورٹ نے حکم جاری کیا ہے کہ تیس دن کے اندر فیصلہ سنایا جائے گا سات دن میں چالان پیش کرنے کا حکم۔ روزانہ کی بنیاد پر کارروائی ہو گی تین دن میں ڈی جی ریجنرز کے ہٹانے کا حکم دے دیا گیا ہے رینجرز کے دو اہلکار وں کو جو قتل میں ملوث ہیں گرفتار کیے گئے ہیں۔ عبداللہ شاہ غازی رینجرز کو واپس بیرکوں میں بلا لیا گیا ہے۔ قوم کو اپنی سپریم کورٹ سے انصاف کی امید ہے۔ نوجوان کے قتل پر عدالتی فیصلہ خوش آئند ہے ماہریں قانون۔
دوسری طر ف موجودہ حکومت نے اپنی پرانی روش پر عمل کرتے ہوئے عدالت کے احکامات پر عمل کرنے کی بجائے لیت و لال کرنا شروع کر دیا ہے اور سندھ حکومت کہہ رہی ہے اس میں ہیڈ آف ڈیپارنمنٹ کا کیا قصور ہے یہ افراد کا کام ہے اس سے قبل بھی معزز عدلیہ کے فیصلوں پر عمل کرنے کے بجائے سڑکوں پر ریلیاں اور جلوس نکالے گئے اور عدالت کو اپنے فیصلے تبدیل کرنے کی غلط کوششیں کی گئیں۔ جبکہ خود اپنی پارٹی کے سابقہ لیڈر کے لیے انصاف حاصل کرنے کے لیے مقدمہ دائر کیا ہوا ہے ۔ یہ دورنگی نہیں تو کیا ہے؟ کیا پاکستان کے عوام نہیں دیکھ رہے ہیں؟اللہ کے لیے انصاف کے راستے میں رکاوٹیں ڈ النے سے اجتناب کریں اور اپنے ملک کی معزز عداتوں کو اپنا کام کرنے دیں۔ایک طرف تو وزیر داخلہ صاحب انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا کہہ رہے ہیں دوسری طرف مقتول کو ڈاکو بنانے کی کوششیں ہو رہیں ہیں۔
کاش رینجرز کا ادارہ خود اس کیس کی تحقیقات کرواتا اور مجرم کو قرار واقعی سزا دیتا تو اس ادارے پر قوم کا اعتماد بحال ہوتا اور ہم دنیا کی قوموں کو کہہ سکتے کہ ہم میں خود احتسابی موجود ہے دنیا بھی ہماری تحریف کرتی اور ہمیں معزز قوموں میں شمار کرتی لیکن اس واقعے نے ہمیں دنیا میں بدنام کر دیا ہے۔
جناب، کل ایک ریٹائرڈ فوجی افسر سے بات ہوئی۔۔۔ انہوں نے بتایا:
“چونکہ رینجرز “پیراملٹری فورس” میں ہیں۔۔۔ تو ان کی ویسی تربیت نہیں ہوتی جو “فوج” کی ہوتی ہے۔۔۔ یعنی اخلاقیات، ٹیکنکل انفارمیشن، سخت ٹریننگ اور دیگر کورسز کی ڈگریز وغیرہ۔۔۔ رینجرز کو صرف بندوق چلانا اور مختلف ہتھیاروں کا استعمال سکھایا جاتا ہے اور انکی ذہنی طور پر وہ تربیت نہیں ہوتی جو ہونی چاہیے۔۔۔ اس لیے رینجرز کے بارے میں ہم کئی خبریں سنتے رہتے ہیں جو دل دہلا دینے والی ہیں۔۔۔ کئی جرائم پیشہ لوگ بھی رینجرز کا حصہ ہیں اور بین الاقوامی سمگلنگ مافیا میں رینجرز کے کئی بڑے بڑے افسران شامل ہیں۔۔۔”
اب واللہ اعلم، یہ باتیں سچ ہیں یا جھوٹ۔۔۔ لیکن اگر سچ ہیں تو پھر لعنت بھیجنے کے علاوہ میں کچھ نہیں کر سکتا۔۔۔
اگر ایسی بات ہے تو ان کو عوام کی حفاظت کی ڈیوٹی سے ہٹا دینا چاہیے ورنہ ایسی بربریت ہوتی رہیگی یا ان کی صحیح تربیت ہونی چاہیے ورنہ یہ جن کے ٹیکس پر تنخواہ لیتے ہیں ان ہی کے ساتھ ظلم کرتے رہیں گے۔ ان کو صرف گرفتار کرنے کی اجازت ہے مارنے کی اجازت نہیں ہے۔
میر افسر امان صاحب۔۔۔ اسی بات کا تو رونا ہے۔۔۔ کہ بھیڑوں کی رکھوالی پر بھیڑیے بٹھا دیے گئے ہیں۔۔۔ اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن میرے جاننے والے ریٹائرڈ فوجی افسر نے یہ بھی زکر کیا کہ رینجرز “کمسن بچیوں” کی سمگلنگ میں بھی ملوث ہیں۔۔۔ ایک تازہ مثال تو کچھ عرصہ پہلے افغانستان سے آنے والے کنٹینر کا ہے جس میں اسی بندے لوڈ کیے گئے تھے۔۔۔ اور جو راستے میں ہی دم گھٹ کر مر گئے تھے۔۔۔ اب بارڈر پر ان کی کوئی جان پہچان تو ہوگی ہی۔۔۔ ورنہ یہ کنٹینر پاکستان میں داخل کیسے ہوا۔۔۔
اے اللہ یہ علاقہ دکھوں سے بھر گیا ہے۔ اے اللہ ہم پر رحم فرما، آمین۔۔۔