تاروں بھرے آسمان کے نیچے استنبول کے ایک خوبصورت پارک میں شہر کے میئر لاکھوں افراد کے مجمع سے پرجوش خطاب کررہے تھے اور میرے آغا جان (قاضی حسین احمد ) اپنے عزیز دوست اُستاد نجم الدین اربکان ہوجہ کے پہلو میں بطور مہمان خصوصی بیٹھے اس نوجوان کا خطاب سن رہے تھے جس میں اپنے شاندار ماضی کا تذکرہ بھی تھا اور روشن مستقبل کا لائحہ عمل بھی۔ میں اس جلسے میں اپنی میزبان کے ساتھ مہمانوں کے لئے مخصوص پویلین میں جانے کے لئے راستہ تلاش کررہی تھی اور ناقابل فراموش مناظر میرے ذہن پر نقش ہوتے چلے جارہے تھے۔ چاروں طرف ترک اپنے پورے خاندانوں سمیت اُمڈتے چلے جارہے تھے۔ مائیں ایک یادو بچوں کو پرام میں بٹھا کر دوسرے کو اُنگلی سے پکڑ کر، تیسرے کو باپ کندھوں پر بٹھا کر اور چوتھے کو ہمراہ لئے ہوئے جوق در جوق چلے آ رہے تھے۔ میری میزبان کہہ رہی تھی کہ ہم نے یہاں پر اسلامی تحریک کو Family Affairبنادیا ہے۔ ہمارے خاندان ان جلسوں، جلوسوں اور پروگرامات کو اپنے لئے تربیت، تنظیم، تحریک اور یہاں تک کہ تفریح کا ذریعہ بھی بنائے ہوئے ہیں۔ ہم آج کی طرح عشاء کے بعد پروگرام کاآغاز کرتے ہیں اور اکثر فجر کی دلنواز اذانوں کے ساتھ ہی پروگرامات کا اختتام ہوتاہے اور ہم نئے عزم اور توانا جذبوں کی آنچ لئے معاشرے میں سرگرم عمل ہوجاتے ہیں۔
اسٹیج پر بیٹھے یہ ہمارے استنبول کے میئر ہیں اور ان کی فتح کی وجہ ڈبل روٹی ہے وہ مسکرائی اور بولی۔ انہوں نے مشکلوں سے ملنے والی مہنگی ڈبل روٹی استنبول کے ہر گھر تک پہنچادی ہے۔ یہ دراصل اُن کی رابطہ عوام مہم کی کامیابی تھی۔ مجھے بے ساختہ اپنا روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ یاد آگیا جو بدقسمتی سے آج زہر، کفن اور قبرستان بن چکاہے۔ یہی میئر تھے جن کو اس نظم پر کہ مسجدیں ہماری بیرکیں، ان کے مینار ہمارے نیزے اور ان کے گنبد ہماری ڈھال ہیں، قید کرلیا گیا تھا مگر قید اور اسیری بھی کسی کی راہ کھوٹی کرسکی ہیں۔ انہوں نے اپنے عظیم راہبر اُستاد نجم الدین اربکان ہوجہ کی قیادت میں پورے ترکی کو مسجد میں تبدیل کرکے اس کے عوام کو اپنے شاندار ماضی کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے تیار کردیا ہے۔
یہ 1995ء کے اگست کا مہینہ تھا جس میں آغا جان ہی کی تجویز پر مختلف ممالک میں بوسنیا کا نفرنسز منعقد ہوئی تھیں۔ اُنہوں نے اُمت مسلمہ کے حکمرانوں سے اپیل کی تھی کہ بوسنیا کے مسلمانوں کو یورپ اور امریکہ کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے اُمت مسلمہ کو خود کوئی اقدام کرنا چاہیے۔ ایران، ترکی اور برطانیہ کی مسلم تنظیموں نے اس کے لیے پروگرامات ترتیب دیئے اور آغا جان کو بطور مہمان خصوصی مدعو کرکے لائحہ عمل تجویز کرنے کے لیے کہاگیا۔ استنبول میں جناب طیب اُردغان ان پروگرامات کے منتظم اعلیٰ اور میزبان تھے۔ ان بوسنیا کانفرنسز میں اور بھی بہت سی حکمت عملیاں مرتب کی گئیں جن پر ترکی میں عمل درآمد کیاگیا اور کامیابی اُن کا مقدر ٹھہری ۔ استنبول کے پارک کا وہ جلسہ اور اُس میں اُردغان، اربکان اور آغا جان کے وہ خطابات آج بھی ایک خوبصورت یاد کی طرح دستک دے رہے ہیں، بہت پُرجوش خطابات تھے اور آغا جان نے اپنے خطاب کا آغاز اس شعر سے کیا تھاکہ ہمارے علامہ اقبالؒ نے آپ ہی کے لیے کہاتھاکہ جب خلافت ختم ہوئی:
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
ترک اُردو کو نہ سمجھتے ہوئے بھی والہانہ انداز سے اُن کی تقریر کا جواب دے رہے تھے۔ میں نے بعد میں اُن سے پوچھا کہ ترکوں کی پاکستانیوں سے قلبی محبت کا بنیادی سبب کیا ہے؟ اُنہوںنے جواب دیا کہ یہاں پر نسل در نسل یہ محبت منتقل ہوتی رہی ہے جو ہم نے ان سے تحریک خلافت کے دوران کی تھی۔ اِن کے بزرگوں نے ان کوورثے میں یہ محبت چھوڑی ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے انگریزوں کے مقابلے میں ترکوں کی حمایت کی تھی اور ہماری خواتین نے ان کے لیے اپنے زیور تک بیچ دیئے تھے۔ میرے اپنے آبائو اجداد بھی ترک النسل تھے۔ میرے جدِ امجد شیخ اخون ادین ایک سلجوق ترک تھے اور مجھے محسوس ہو رہاتھا کہ میرے آبائو اجداد کی روحیں بھی اس کامیابی سے سرشار ہو رہی ہوں گی۔ اسی کانفرنس کے دوران ہم نے ترک خواتین میں حجاب کی واپسی کے مناظر بھی دیکھے کہ حجاب جس پر سختی سے پابندی عائد تھی مگر نوجوان لڑکیاں اُس کو شوق سے اپنا رہی تھیں۔ اُنہی دنوں مشہور زمانہ خواتین کی عالمی کانفرنس بیجنگ کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں خواتین کو اپنی اقدار و روایات اور دین سے بغاوت کی راہ دکھائی گئی تھی۔ اس کانفرنس میں بد قسمتی سے مسلمان عورتوں کا کوئی مشترکہ پلیٹ فارم نہ تھا جس پر سوڈان کی مجاہد صفت خاتون راہنما اُستاذہ سعادالفاتح نے انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین (MWU) کی بنیاد رکھی اور اس کی ایک کانفرنس ہم نے استنبول میں بھی منعقد کی۔ ترکی سے ہماری بہن مروہ قواچی (جسے حجاب کی وجہ سے پارلیمنٹ کی رکنیت اور بعد میں اپنے ملک کی شہریت سے بھی محروم ہونا پڑا) ہمارے ساتھ تھیں۔ وہ اُردغان صاحب کے ساتھ ہی پارلیمنٹ کی ممبر منتخب ہوئی تھیں اور حجاب پر اُس وقت کی پابندی کے بعد تو ترک لڑکیوں میں حجاب اس طرح پھیل گیا جس طرح بغاوت پھیل جاتی ہے۔ اُنہوں نے حجاب کو بڑے فخر سے اپنا کر پوری دنیا کی فیشن انڈسٹری کو اپنے پائوں کی ٹھوکر پر رکھ دیا۔
حجاب پر پابندی کا ایک بڑا فائدہ اسلام پسند طبقوں کو یہ ہواکہ اُنہوں نے اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے پر توجہ مرکوز کردی جس کے سبب ترکی میں دینی و دنیاوی تعلیم کے امتزاج کے علمی ادارے قائم ہوئے جس کے سبب معاشرے میں اِن کاپیغام وسیع پیمانے پر پہنچا۔ گذشتہ سال جب فتح استنبول کی عظیم الشان تقریبات میں شرکت کا موقع ملا تو یہ محسوس ہوا کہ اب اس نسل میں اپنی عظمت رفتہ کو بازیاب کرانے کا عزم بہت شدت سے پروان چڑ ھ رہاہے۔ ہر جگہ پر خلافت عثمانیہ کا تذکرہ، اپنی فروزاں تاریخ کو دہراتے رہنا اور اپنی صفوں کو نئی ترتیب دینے کا ولولہ نمایاں طور پر محسوس ہو رہاتھا۔ اور ہم وہیں پر تھے کہ سفینۂ حریت (فریڈم فلوٹیلا) پر حملے کا سانحہ رونما ہوا مگر بقول اقبال ؒ
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے ترک قوم کی غیرت کو للکارا تھا اور اگرچہ اس حملے میں صرف 8 افراد شہید ہوئے تھے مگر اُنہوں نے اس کا ایک غیرت مند قوم کی طرح جواب دیا اور اسرائیل کے وزیراعظم کو اپنی قوم کے لیے قابل نفرت بنادیا۔ اُردغان ڈیواس کی مجلس سے اسرائیل کے وزیراعظم کو خوب سناکر اُٹھ آئے تھے اور اپنی قوم کے محبوب بن گئے۔ عرب و عجم میں اس واقعے کے بعد اُنہوں نے ہر جگہ اسرائیل کا پیچھا کرکے اپنی دھاک بٹھا دی اور دنیا کے مظلوم عوام کی اُمیدوں کا مرکز بن گئے۔ اس واقعے پر اُن کے ترجمان کا ایک جملہ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ’’اسرائیل کا پالا ابھی تک نہتے فلسطینیوں اور ان کی عرب حکومتوں سے پڑا ہے۔ ابھی ہم اُنہیں جواب دیں گے کہ اُنہوں نے کس شیروں کی قوم کو للکارا ہے۔‘‘
آج جب رجب طیب اُردغان کو تیسری مرتبہ اپنی قوم نے قیادت کا تاج پہنایا ہے اور اُنہوں نے اعلان کیا ہے کہ ہماری قوم نے ہم پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے، ہم کبھی اُن کی اُمنگوں اور آرزوئوں کا سودا نہیں کریں گے اور اُنہیں ایسا آئین دیں گے جو جمہوری روایتوں کا امین اور پاسبان ہوگا تو ہماری اُن کے لیے بھی دعا ہے کہ وہ اپنی عظمت رفتہ کو بازیاب کرانے کے سفر میں کامیاب و کامران رہیں اور اپنی پاکستانی قوم کے لیے بھی دعا گو ہیں کہ اُردغان کی کامیابی جو ہم سب جمہوریت پسند، امن اور ترقی کے راستوں پر خواہاں طبقوں کے لیے اُمید، حوصلے اور زندگی کا پیام لائی ہے، ہم بھی اپنے لیے اس سے عزم کثیر کریں اور اپنے شاندار ماضی سے روشن مستقبل کی طرف سفر کے لیے گامزن ہوجائیں۔
دیئے بہر سو جلا چلے ہم تم اِن کو آگے جلائے رکھنا۔
ماشاءاللہ کیا خوب منظر کشی کی ہے آپ نے۔ اس طرح کی تحاریر اسلامی انقلاب کی منزل کی طرف پیشقدمی میں ہمارے حوصلوں کو مزید جلا بخشتی ہیں۔