مریض کے سینے میں درد تھا۔ وہ چیخ رہا تھا۔ پتا چلا کہ اس نے بہت سے کھٹے کینو کھائے تھے جن کی تعداد 50تھی۔ اس مریض نے زندگی میں پہلی مرتبہ کینو کا باغ دیکھا تھا۔ میٹھے کینو تو لوگ کھا گئے تھے اسے کھٹے کینو ملے۔ مریض کو انجکشن لگایا، دوا دی، وہ بہتر ہوگیا۔ یہ کلینک پیما نے افغان مہاجرین کے لیے قائم کیا تھا۔ یہ 1989ء کا واقعہ ہے۔ ہم کلینک سے قریب باغ دیکھنے گئے۔ باغ کئی کلو میٹر لمبا اور چوڑا تھا۔ باغ میں ایک بہت بڑی مشین لگی ہوئی تھی۔ مقامی افراد نے بتایا کہ یہ مشین کینو کا جوس بنانے کی ہے۔ یہ باغ افغانستان کے حکمران ظاہر شاہ نے اپنی بیٹی کے لیے بنایا تھا۔ مشین میں شہزادی پسند کے کینو ڈالے گی اور کینو کے جوس کا ڈبہ پیک ہوکر دوسری طرف سے نکل آئے گا۔ لیکن شہزادی یہ باغ استعمال نہ کرسکی اور افغانستان میں ’’انقلاب ثور‘‘ فوجی انقلاب، کمیونسٹ جنرل آگئے۔ ببرک کارمل، حفیظ اللہ امین، نوراللہ ترہ کئی، ڈاکٹر نجیب۔ انقلاب آتے رہے اور غیر ملکی فوجیں آگئیں لیکن فاریسی کے مقام پر، طورخم، جلال آباد روڈ پر یہ باغ شہزادی استعمال نہ کرسکی۔ بادشاہ نے عوام کو بھوک و افلاس کے اس درجہ پر پہنچا دیا کہ ملک میں انقلابات شروع ہوگئے۔ جس ملک میں کھانے کے لیے عوام کو روٹی میسر نہ ہو وہاں حکمرانوں کی فیملی کی تفریح کے لیے اتنے اقدامات۔ فلپین میں مارکوس کی بیوی کے پہننے کے 40 ہزار جوڑی جوتے برآمد ہوئے، ایک ہزار کھانے کے کمرے، یہی حال مصر میں تھا… حکمرانوں کو وہاں سے بھاگنا پڑا، صدام حسین کے خاندان نے یہی انداز جاری رکھا اور ملک میں غیر ملکی مداخلت ہوئی۔ حکمران طبقے کا اپنے خاندان کے لیے سب کچھ کرنا اور عوام کو لوٹنا شیطانی رویہ ہے۔ جو ہزاروں سال سے جاری ہے۔ اس کے ساتھ حکمران خود کو مرنے کے بعد بھی شان والد بنانے کے اقدامات کرتے ہیں۔
دنیا کے عجوبات میں قدیم ترین اور مشہور عجوبہ اہرام مصر ہیں۔ یہ اہرام مخروطی شکل کے ہیں۔ سینکڑوں فٹ بلند اور بڑے بڑے پتھروں سے بنائے گئے ہیں۔ ان اہرام کو بنانے کے لیے پتھر دور پہاڑوں سے لائے گئے۔ ان بڑے پتھروں کو لانے میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں غلام استعمال کیے گئے اور سینکڑوں غلام ان کو لانے اور اوپر تلے رکھنے میں دب کر مرگئے۔ ان مجبوروں اور مظلوموں کے پسینہ اور خون سے تعمیر ہونے والے اہراموں میں بادشاہ اور شاہی خاندان مدفون ہیں۔ ان بادشاہوں نے اپنے اور اپنے خاندان کو مرنے کے بعد عالیشان محل نما اہراموں میں رکھوانے کے لیے حکومت کے تمام وسائل، مال و دولت اور انسانی وسائل بے دردی سے خرچ کردیے۔ مصر کے ان فرعونوں کے طرز پر کراچی کے نواحی علاقے میمن گوٹھ کے قریب اور چوکنڈی میں بھی بڑے بڑے پتھروں پر مشتمل نقش و نگار کے ساتھ کئی منزلہ قبریں ہیں۔ وہی سوچ کہ مرنے کے بعد شاندار اور منفرد نظر آنا۔ حکمران خاندانوں کی یہ قبریں ان کی سوچ کی عکاس ہیں۔ یہ قبریں 800-900سال پہلے کی ہیں۔ آگرہ کا تاج محل، دنیا کا ایک عجوبہ ہے جو بادشاہ نے اپنی بیوی کی قبر کے لیے بنوایا۔ بادشاہ نے زندگی میں بیوی کی صحت کا خیال نہیں رکھا اور مرنے کے بعد عوام کے ٹیکس سے بیوی کی قبر پر قومی خزانہ خرچ کرڈالا۔
حکمرانوں کے شیطانی رویوں کے مقابلے میں رحمانی رویے بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ بت پرست، ستارہ پرست، سورج پرست معاشرے میں رہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے یہ طریقہ اپنایا کہ وہ پرستش کرنے والوں کے ساتھ رہے ان کی باتوں کو برداشت کرتے رہے۔ انہوں نے کہا ہم ستارے کو مانتے ہیں۔ زبان سے فوری رد عمل ظاہر نہیں کیا بلکہ Observation مشاہدہ کرایا، ستاروں کے بعد چاند نکلا وہ بڑا تھا۔ اس کا بھی مشاہدہ کروایا، وہ غائب ہوگیا، سورج نکلا اس کے مشاہدہ میں شریک رہے اور جب یہ سب مشاہدہ میں غائب ہوگئے تو انہیں بتایا کہ ایسی اشیاء جو غائب ہوجائیں رب نہیں ہوسکتیں۔ پھر بت تراشنے والوں کو مشاہدہ کرایا اور چھوٹے بتوں کو توڑ کر بڑے بت کے کندھے پر کلہاڑی رکھ دی اور ان کو ذہنی طور پر اس مقام پر لاکھڑا کیا کہ وہ خود یہ کہنے لگے کہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ یہ بت تو خود اپنی حفاظت نہیں کرسکتے اور نہ ہی کسی دوسرے کا کوئی کام کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے سامنے حقیقت بیان کی۔ نمرود کے سامنے بھی بہت عرصے تک برداشت کرنے کے بعد حکمت کے ساتھ اسے لاجواب کیا۔ حضرت ابراہیمؑ کا رویہ قرآن میں بار بار بیان ہوا ہے۔ انہوں نے کسی بھی مرحلہ پر مخالفین سے اپنی رائے پر اصرار نہیں کیا۔ بلکہ انہیں شیطانی خیالات سے نکالنے کا وقت دیا اور جب وہ خود مطمئن ہوگئے اور انہیں اپنی غلطی کا احساس اپنے ذاتی مشاہدے میں ہوا پھر حضرت ابراہیم ؑ نے سچ بات بتائی۔ حضرت ابراہیمؑ نے کہیں بھی اپنے اور شیطان کے حامیوں کے درمیان میں گرمی پیدا نہیں ہونے دی۔ آپؑ کا گرم رویے سے اعراض اور دلوں کو ٹھنڈک پہنچانے والا رویہ ایسا عظیم تھا کہ اس ٹھنڈک نے نمرود کی لگائی ہوئی آگ کو بھی ٹھنڈا کردیا۔
حضرت موسیٰ ؑ فرعون نے گھر میں ہی پرورش پائی۔ لیکن صبر و تحمل سے رہتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں وہاں سے نکال لیا۔ وہ شعیبؑ کے ساتھ رہے، حضرت خضرؑ کے ساتھ رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں فرعون کی طرف بھیجا لیکن نرمی کا رویہ اختیار کرنے کا حکم دیا۔ فرمایا (مفہوم) ’’نرمی سے بات کرو شاید کہ اس کا دل نرم ہوجائے‘‘ فرعون جیسے انسانوں کے دشمن کے ساتھ بھی پیغمبر ؑ کو نرم رویہ رکھنے کا حکم ہوا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جادوگروں سے مقابلے کے لیے موسیٰؑ کا ساتھ دیا اور وہ سحر ٹوٹ گیا۔
دنیا میں اس زمانے کے فرعون ہوں، بعد کے فرعون ہوں یا موجودہ دور کے، وہ جادو اور سحر کا سہارا لیتے ہیں، اس کے لیے وہ معاشرے میں جھوٹے پروپیگنڈے اور عاملوں کا سہارا لیتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں شیطان کے ایجنٹ سحر کا سہارا لے کر غریبوں پر ظلم کیا کرتے تھے۔ ہندوستان میں ہندو مت کے پجاری بادشاہوں، راجوں اور عوام پر جادو کے زور پر ظلم کرتے تھے۔ ہندوستان میں راجستھان کے پہاڑوں میں واقع علامہ اجمیر اس کا گڑھ تھا۔ آپ ایران افغانستان بخارا سے ہوتے ہوئے اجمیر پہنچے اور اللہ کی مدد سے ان ظالم جادوگروں سے نجات دلائی۔ جادوگروں کے ستائے ہوئے ہر مذہب کے افراد یہاں آتے اور جادوگروں کے چکر سے نکل آتے۔ خواجہ معین الدین لوگوں کی مدد کرتے، وہ ہر غریب کی مدد کرتے، بھوکوں کو کھانا کھلاتے، ہر آنے والے کا استقبال کرتے، اونچے پہاڑوں کے اس دور دراز مقام کی وجہ سے اجمیر اب اجمیر شریف کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور آپ کو غریب نواز کے نام سے۔ خواجہ غریب نواز نے کوئی کتاب نہیں لکھی لیکن انسانوں کی تربیت کی، ان کے یہ شاگرد برصغیر پاک و ہند میں پھیل گئے اور انسانوں کے مسائل حل کرنے، انہیں کھانا کھلانے اور روز مرہ کے مسائل سے نکالنے میں مدد کرتے۔ یہ اسٹائل چشتیہ سلسلہ کہلایا۔ اس سلسلے کے ایک بزرگ حضرت امیر خسروؒ تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ہندو تہذیب ہر طرح غالب تھی۔ امیر خسرو نے ایک جامع پلان بنایا اور ہندو کلچر کی غیر شائستہ چیزوں کے مقابلے میں میڈیا کی یلغار کردی۔ جس طرح آج اسٹار پلس، سونی ٹی وی اور دیگر انڈین چینل ہم پر تہذیبی یلغار کررہے ہیں۔ بچوں کے کارٹون، خواتین، شادی بیاہ کی رسمیں، خواتین کا ڈریس، زیور، فیشن سب ان ٹی وی چینلز سے متاثر ہیں۔ اپنی تہذیب کو اچھا کہنے والے، مذہبی غیرمذہبی سب گھرانے ان کے اثرات سے متاثر ہورہے ہیں۔ اسی طرح امیر خسرو نے ہندو کلچر پر یلغار کی۔ انہوں نے شادی کے گیت لکھے، جن میں سے بہت سے اب بھی معروف ہیں۔ ہندوئوں کی بچیاں ان کے لکھے ہوئے گیت گاتیں۔ انہوں نے قوالی کا فن متعارف کرایا اسے پروان چڑھایا۔ ہندوئوں کے جذباتی نوجوان اور بوڑھے بھی نعتیہ اشعار پر مشتمل قوالیاں سنتے۔ انہوں نے شاعری سے معاشرے کے ہر فرد کو متاثر کیا۔ انہوں نے 2 میوزیکل انسٹرومنٹ طبلہ اور ستار ایجاد کیے جو ہندو نوجوانوں میں پاپولر ہوگئے۔ ہندو معاشرے پر میڈیا کی اس یلغار نے معاشرے کو ہلاکر رکھ دیا۔ چشتیہ سلسلے کے بزرگوں نے انسانوں کی مدد کی اور ہندو بہت بڑی تعداد میں مسلمان ہونے لگے۔ بزرگان دین نے عوام کو اللہ کی طرف اپنے عمل سے راغب کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور حکمرانوں کو بھی مخلوق خدا سے حسن سلوک کی طرف راغب کرتے رہے۔
چشتیہ سلسلے کے ایک بزرگ حضرت مودود مشہور ہیں۔ ان کے خاندان سے اللہ تعالیٰ نے ایک ہونہار بچہ پیدا کیا جس کا نام چشتیہ سلسلے کے بزرگ حضرت مودود کے نام پر مودودی رکھا گیا۔ مولانا مودودی نے اپنی تحریروں کے ذریعے وقت کے فرعونوں کو، ان کے نظریات کو بہت شائستہ انداز میں غلط ثابت کیا اور نوجوانوں کو منظم کیا۔ موجودہ دور میں شیطان کے پیروکار اور ان کے ایجنٹ منظم ہو کر دنیا کے انسانوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ موجودہ دور میں شیطان کے ایجنٹوں کے طریقہ کار کو سمجھنا ضروری ہے۔
شیطان کے ایجنٹ دنیا پرستی کا شکار ہیں، ان کی حرکتیں تو فرعونوں والی ہیں۔ آج شیطان کا علمبردار امریکا دنیا پر قبضہ کے لیے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم مار دیتا ہے۔ عراق کو ایران سے لڑوا دیتا ہے۔ پھر عراق سے کویت پر حملہ کرادیتا ہے۔ سعودی عرب پر اور پھر عراق پر جھوٹا الزام لگا کر تباہ کردیتا ہے۔ سینٹرل ایشیا سے توانائی کی لائن کا راستہ صاف کرنے کے لیے افغانستان میں لاکھوں افراد کو قتل اور ہزاروں بچوں کو معذور بنا دیتا ہے۔ فرعون کے جانشینوں کو موجودہ دور کی مادی ترقی کا سہارا مل گیا ہے۔ اس طرح انسانوں کی تباہی کے لیے وہ اتنے بڑے کام کرجاتے ہیں، جن کا فرعون اور نمرود سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ سکندر اعظم کو دنیا فتح کرنے کی سوجھی لیکن اس وقت سفر کے ذرائع بہت سستے تھے لیکن اب تیز رفتار جہازوں نے، سیٹلائٹ ٹیکنالوجی نے دنیا کو بہت قریب کردیا ہے۔ شیطان کے ایجنٹ ان ٹیکنالوجی اور میڈیا کا بھرپور استعمال کررہے ہیں۔ شیطان کے مخالف اور انسانوں کے حامی افراد کو منظم کرنا اس وقت اہم ترین ضرورت ہے۔ شیطان دنیا میں اپنے ایجنٹ کئی طرح بنا رہا ہے۔
(1) مال و دولت خرچ کرکے افراد کو خریدنا۔
(2) مسلمان ممالک اور دوسرے ظالمانہ حکمرانوں کو سپورٹ کرنا، یہ کوشش کرنا کہ نا اہل لوگ ہی مسلمان ممالک میں حکمران ہوں اور یہ نااہل کرپشن میں بھی ملوث ہوں۔
(3) مسلمان ممالک اور دیگر ممالک کے قابل لوگوں کو اپنے ملک میں بہت اچھی تنخواہ دے کر، وظائف دے کر پڑھوانا اور برین واشنگ کرکے اسکالر بنا کر مسلمان ممالک میں بھیج دینا۔
(4) ایسے افراد کو جن کا ذہن جذباتیت کو، مارپیٹ ہنگامے کو پسند کرتا ہو، تلاش کرنا۔ ان افراد کو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مذہب کا غلط تصور دینا، اور دھماکے کروانا، انتشار پھیلانے کے لیے استعمال کرنا۔
(5) مسلمانوں میں ایسے افراد پیدا کرنا جو نبیؐ کی ذات بابرکت کے حوالے سے شک پیدا کریں۔
6)شیطان کے ایجنٹ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس مسلمانوں کی ہر چیز کا جواب ہے۔ سوائے عشق مصطفیؐ کے۔ اس لیے وہ پریشان ہیں، غصے میں آکر وہ آپؐ کی شان میں گستاخی کرنے یا چاند پر تھوکنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے اپنے ہی اوپر آتا ہے۔ آپؐ کی ذات وہ واحد شے ہے جس کا عشق مسلمانوں کا اثاثہ ہے۔ اس لیے عشق مصطفیؐ کے حوالے سے کوئی بھی منفی بات کرنے والے شیطان کے ایجنٹ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ عشق مصطفیؐ کو بنیاد بنا کر اگر رحمان کے بندے آپس میں مل جل کر کام کریں اور ایک دوسرے سے نرم خوئی کا رویہ اختیار کریں تو شیطانی چالیں کمزور پڑ جائیں گی۔
حضرت ابراہیم ؑ کا اسوۂ حسنہ سامنے رکھیں اور اپنی بات کہنے کے لیے مناسب وقت کا انتظار کریں، تلخ بات کہنے سے اور ایسی بات کہنے سے پرہیز کریں جس سے گرمی پیدا ہو، باہمی تلخی ہو، دنیا کے تمام جادو اور شیطان کی چالیں فیل ہوجائیں گی۔
آج دنیا میں انسان پریشان ہیں، خوف و غم نے ان کو گھیرا ہے۔ خود امریکا میں عام انسان پریشان ہے۔ ہر فرد انگزائٹی اور ڈپریشن کا شکار ہے۔ سب رات کو نیند کے لیے خواب آور دوائیں استعمال کررہے ہیں۔ دنیا بھر میں نفسیاتی امراض کی دوائوں کا بزنس عروج پر ہے۔ دنیا بھر کے انسانوں کو شیطان کے ایجنٹوں سے نجات دلانے اور امن، چین و سکون حاصل کرنے کے لیے رحمان کے بندوں کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا ہوگا۔
ماشاءاللہ اچھا کالم لکھا ہے۔