کبھی آپ نے سوچا ہے کہ سائیکل اور سیاست میں کیا قدرِ مشترک ہے؟ نہیں سوچا نا! ہم نے بھی نہیں کبھی نہیں سوچا تھا لیکن گذشتہ دنوں جب کئی برسوں بعد سائیکل کی سواری کا موقع ملا تو محترم مشتاق یوسفی صاحب کا یہ فقرہ یاد آیا کہ ’’سیاست اور سائیکل کی سواری میں ہوا ہمیشہ مخالف ہی ملتی ہے‘‘ جب یہ بات ذہن میں آئی تو پھر ہم نے ذرا سا سوچا کہ سائیکل کی سواری اور سیاست کیا کیا چیزیں مشترک ہیں تو پھر کئی باتیں ایسی نظر آئیں جو کہ دونوں میں مشترکہ طور پر پائی جاتی ہیں۔
سب سے پہلی بات تو یہی کہ سائیکل کی سواری اور سیاست میں ہوا ہمیشہ مخالف ہی ملتی ہے۔ ہم نے ذاتی طور پر یہ تجربہ بھی کیا کہ ہم سائیکل چلاتے ہوئے مشرق سے مغرب کی جانب رواں دواں ہیں اور بادِ مخالف ہمارا راستہ روک رہی ہے۔ خیر منزل پر پہنچ کر ہم نے اپنا کام نمٹایا اور تھوڑی ہی دیر بعد واپسی کا ارادہ کیا، اب ہم مغرب سے مشرق کی جانب چلے جارہے ہیں لیکن ہوا اب بھی مخالف ہی تھی۔ اسی طرح سیاست میں ہوتا ہے اگر کوئی سیاست دان بالخصوص برسراقتدار پارٹی سے تعلق رکھنے والا سیاست دان آج اگر یہ اعلان کرے کہ کالا باغ ڈیم بننا چاہئے تو ساری اپوزیشن اس کی مخالف ہوجائے گی اور کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں اتنے دلائل دیئے جائیں گے کہ بندہ سوچے گا پتا نہیں میں نے کتنی خطرناک بات کہہ دی ہے لیکن اگر وہی لیڈر کچھ دنوں بعد کہے کہ کالا باغ ڈیم نہیں بننا چاہئے اور یہ ملک کے لئے نقصان دہ ہے تو پھر وہی مخالف لیڈر اس دفعہ کالا باغ ڈیم کے حق میں اتنے دلائل لائیں گے کہ بندہ سوچے گا کہ شائد ملک کے تمام مسائل کی جڑ کالا باغ ڈیم نہ بننا ہے۔
سائیکل کی سواری اور سیاست میں ایک اور قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں میں انسان کو اپنے بل بوتے اور قوت پر بھروسہ کرنا ہوتا ہے سائیکل کی سواری میں بھی ایک کمزور سائیکل سوار ایک طاقتور سائیکل سوار سے مات کھاجائے گا ،اسی طرح سیاست میں بھی ایک کم حیثیت اور کمزور مالی پوزیشن والا سیاست دان طاقتور سیاست دان سے مات کھا جائے گا۔ کمزور سائیکل سوار کی سائیکل خواہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو لیکن چونکہ وہ سائیکل کو تیز رفتاری سے چلانے کے لئے مطلوبہ قوت نہیں رکھتا اس لئے ہار جاتا ہے اس کے برعکس ایک طاقتور سائیکل سوار نسبتاً پرانی اور کمزور سائیکل پر بھی تیز رفتاری سے سفر کرتے ہوئے کمزور کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح کمزور سیاست دان کی پالیسیاں اور طرزِ سیاست خواہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، وہ کمزور مالی پوزیشن کے باعث اپنی پی آر نہیں بنا سکتا، پریس کانفرنس کے خرچے نہیں برداشت کرسکتا، الیکشن کے اخراجات اس کے بس سے باہر ہوتے ہیں نتیجہ یہ کہ اول تو اتخابات میں حصہ ہی نہیں لیتا اگر حصہ لے بھی تو اپنی انتخابی مہم اچھے انداز میں نہیں چلا سکتا اور ہار جاتا ہے۔ جبکہ ایک سرمایہ دار اور طاقتور سیاست دان اپنے سرمائے کے زور پر اپنی پی آر بناتا ہے، انتخابات میں حصہ لینے کا حوصلہ رکھتا ہے اور انتخابی مہم میں دل کھول کر پیسہ خرچ کرتا ہے جس کا نتیجہ یہ کہ وہ کمزور اور عوام دشمن پالیسز کے باجود انتخابات میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
سائیکل کی سواری میں چڑھائی یا بلندی کے سفر طے کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ چڑھائی کے سفر میں سائیکل سوار کو بہت تگ و دو کرنی پڑتی ہے، بہت طاقت صرف کرنی پڑتی ہے اور اس کے باوجود سائیکل بہت کم رفتار میں کے ساتھ چڑھائی کا سفر طے کرپاتی ہے۔ اس کے برعکس ڈھلوان کا سفر نہایت آسان ہوتا ہے کیوں کہ اس میں سائیکل سوار کو کچھ کرنا نہیں پڑتا بلکہ ڈھلوان کے سفر میں سائیکل کی رفتار کو کم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ پیڈل نہ مارے جائیں تب بھی سائیکل پوری رفتار سے بھاگی جاتی ہے، بریک دبا کر رکھیں تو بھی سائیکل رکتی نہیں ہے بلکہ کم رفتار کے ساتھ نیچے چلتی چلی جاتی ہے اور ذرا سے غلطی سے سائیکل کا سوار سمیت گرنے کا امکان ہوتا ہے۔ اسی طرح سیاست میں عروج حاصل کرنا، بلندی پر پہنچنا اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ اس کام کے لئے بہت محنت کرنی پڑتی ہے، جان لڑانی پڑتی ہے۔ دن رات ایک کرنا پڑتا ہے تب کہیں جاکرکوئی سیاست دان آہستہ آہستہ، ایک ایک کرکے بلندی کے زینے پر چڑھتا ہے اور کئی سالوں بعد بام عروج پر پہنچتا ہے۔ اس کے برعکس پستی کا سفر نہایت آسان ہوتا ہے، اس میں کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی بلکہ کوئی ایک غلطی، کوئی چھوٹا سا اسکینڈل، مخالفین کا موٗثر پروپیگنڈا اس کام کے لئے کافی ہوتا ہے، پھر انسان کو پستی کے سفر کو روکنے کے لئے بہت محنت کرنی پڑتی ہے لیکن جب ایک دفعہ پستی کا سفر شروع ہوجائے تو پھر بہت مشکل ہی سے رکتا ہے۔
سائیکل سوار اگر نیا ہو تو اسے سائیکل کی سواری دنیا کا مشکل ترین کام لگتی ہے، وہ سوچتا ہے کہ جو کام میں کررہا ہوں شائد ہی اس سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ کام کوئی اور ہوگا، پیڈل ماروں یا ہینڈل سیدھا رکھوں؟ ہینڈل کو سیدھا رکھنے کے چکر میں سامنے دیکھتا ہے اور پاؤں پیڈل سے ہٹ جاتے ہیں۔ پیڈل کو دیکھنے کے لئے نظریں نیچی کرتا ہے تو تصادم کا خدشہ، یہ دونوں کام کرلے تو اب سائیکل کو توازن قائم رکھنا اس کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے۔ ابتدا میں سائیکل چند قدم چل کر ڈگمگائے گی اور سوار کو نیچے پٹخ دے گی، کبھی اتنی تیز رفتاری سے چلے گی کہ ا سے روکنا مشکل ہوجائے گا اور بالآخر وہ کسی کھمبے یا درخت سے ٹکرا کر ہی اس کو روک پائے گا یا ہماری طرح کسی بزرگ کی ٹانگوں کے بیچ سے سائیکل گزارنے کی کوشش کرے گا، الغرض نئے سائیکل چلانے والے کو سائیکل سواری سے مشکل کام کوئی نہیں لگتا۔ بالکل اسی طرح نئے سیاست دان کو سیاست بہت مشکل کام لگتا ہے۔ سوچتا ہے کہ کیا کروں کیا نہ کروں، اگر فلاں کام کرتا ہوں تو مذہبی جماعتیں اور عوام ناراض ہوتے ہیں۔اگر اس کے برعکس کام کروں تو دوسرے طبقات کو راضی کرنا مشکل ہوجائے گا۔ دین پر عمل کرتے ہوئے صراطِ مستیقم کی جانب دیکھتا ہے تو بظاہر دنیا ہاتھ سے نکلتی محسوس ہوتی ہے، اور اگر سارا دھیان دنیا کی طرف لگا دے تو آخرت کے اجر ثواب سے محروم ہونے کا ڈر! اب اگر دین اور دنیا کو ساتھ لیکر چلتا ہے پھر ان کے درمیان توازن قائم کرنا مشکل ہوجا ئے گا۔ یا تو اس قدر دنیا پرستی کہ سیکولر ازم اور کمیونزم تک بات پہنچ جائے یا پھر مذہب کی جانب انتہاپسندانہ حد تک جھکاؤ، شدت پسندی، اور متشدد مزاجی تک بات پہنچ جاتی ہے۔
سائیکل سوار اگر پرانا اور گھاگ ہو تو پھر سائیکل سواری اس کے لئے بچوں کا کھیل ہوجاتی ہے، وہ سائیکل پر کرتب دکھاتا پھرتا ہے۔کبھی ہینڈل چھوڑ کر سائیکل چلائے گا، کبھی ایک پہیئے پر سائیکل کو چلاتا رہے گا۔ تیز رفتاری کے دوران اچانک بریک لگا کر سائیکل کو وہیں روک دے گا اور انتہائی سست رفتاری سے چلتے ہوئے اچانک رفتار کو تیز کردے گا۔ سیدھے رستے پر چلتے چلتے اچانک سائیکل کو بریک لگا کر واپس موڑے گا اور واپسی کا سفر شروع کردے گا۔ بالکل اسی طرح ایک پرانا اور آمودہ کار سیاست دان، سیاست کو ایک کھیل سمجھتا ہے۔ وہ سیاست کی بساط پر اپنی مرضی کی چالیں چلتا ہے اور مخالفین کو شہہ مات دیتا ہے۔ کبھی کسی ایشو کو اٹھا کراس کی مخالفت میں اتنی مہارت سے بیان بازی کرے گا کہ سیاسی میدان میں ہلچل مچا دے گا، اس کے بعدجب اس کا مقصد پورا ہوجائے گا تو اچانک پلٹا کھائے گا اور اسی ایشو کی حمایت میں سرگرم عمل ہوجائے گا۔ کبھی کسی معاملے پر پھونک پھونک کر اور سوچ سمجھ کربیان دے گا اور بالکل آہستہ آہستہ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے چلے گا اور جب دیکھے کا اب حالات موافق ہیں تو ایک رفتار تیز کردے گا، اس کی بیان بازی میں تیزی اور الفاظ میں سختی آتی جائے گی۔ لیکن کبھی کبھی یوں بھی ہوگا کہ وہ کسی معاملے پر تیز رفتاری سے بیان بازی کررہا ہوگا، روزانہ نت نئے بیانات دے رہا ہوگا اور لہجہ تلخ سے تلخ ہوتا جارہا ہوگا کہ اچانک وہ بیان بازی میں کمی کردے گا اور لہجے میں تلخی کی جگہ نرمی آجائے گی۔
قارئین سائیکل سواری اور سیاست میں جو چیزیں ہماری نظر میں مشترک تھیں وہ ہم نے آپ کے سامنے پیش کی۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو ہماری ان باتوں سے اتفا ق نہ ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے علاوہ بھی کئی قدرِ مشترک ہوں جو کہ ہم یہاں تحریر نہیں کرپائے ہیں۔ لیکن آخری بات یہ کہ یاد رکھیں سائیکل کی سواری ہو یا سیاست دونوں میں اگر احتیاط سے نہ چلا جائے تو بہت بری طرح گرنے کا اور چوٹ کھانے کا اندیشہ ہوتا ہے اور دونوں میں ایک بات اور بھی قدرِ مشترک ہے کہ اگر کوئی سائیکل سوار اپنے آپ کو ہوشیار سمجھتے ہوئے لوگوں کے درمیان سائیکل پر کرتب دکھا رہا ہو اور اس دوران اگر وہ غلطی سے گر جائے تو کوئی اس کی مدد کو نہیں آتا بلکہ لوگ اس پر ہنستے ہیں اور طنز کرتے ہیں کہ’’ بہت ہوشیار بن رہا تھانا! اب مزہ آیا‘‘ غور کریں تو یہی چیز سیاست میں بھی ہوتی ہے کہ اگر کوئی سیاست دان اپنے آپ کو انتہائی چالاک سمجھتے ہوئے ،عوام کو بیوقوف بنا کر سیاسی کرتب دکھا رہا ہو اور اس دوران اگر وہ حالات کی گرفت میں آکر پھنس جائے تو عوام اس سے ہمدردی نہیں کرتے بلکہ یہی کہتے ہیں کہ ’’ بہت ہوشیار بن رہا تھانا ! اب مزہ آیا‘‘….
فیس بک تبصرے