آج کل ٹی وی کے تمام چینلز میں لائیو شوز لازمی تصور کیے جارہے ہیں۔ جن میں سیٹ کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ میزبان کے پُرکشش ظاہرکی نوک پلک بڑی محنت سے سنواری جاتی ہے۔ ان لائیو شوز میں فون کالز کو بڑی خوشی سے سنا جاتا ہے۔ جن میں کبھی سیاسی ایشوز کبھی گھریلو مسائل اورکبھی بچوں اور صحت کے مسائل پر بات چیت کی جاتی ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ فون کرنے والے میزبان کے لباس کے رنگ ڈیزائن اور خوبصورتی پر بھی تبصرے کرتے ہیں جن کو میزبان بڑی دلچسپی اور خوشی سے سنتے اور سنواتے ہیں مزید اپنے سیٹ پر موجود مہمانوں سے بھی اس بارے میں ان کے خیالات پوچھتے ہیں۔ مہمان ان کی حسب منشا تعریفوں کے ڈونگرے برساتے ہیں لیکن بعض دفعہ فون کرنے والے میزبان خواتین کو کچھ نصیحتوں کی کوششیں کرتے ہیں یہ عموماً ان کے برہنہ بازوں اور سروں کو ڈھکنے کے لیے ہوتی ہیں۔ کبھی شازو نادر ہی ایسی کال آن ایئر چلی جاتی ہے ورنہ یا تو انہیں انتظار کی سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے یا پھر فوراً ہی منقطع کردی جاتی ہے۔ جس کا اعتراف اپنے پروگرام میں وہ خود ہی کرتی ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ پچھلے ہفتے صبح کے ایک شو میں پیش آیا سعودی عرب سے کی جانے والے اس براہ راست کال میں ایک ہم وطن اس یقین دہانی پر کہ اس کی پوری بات سنی جائے گی میزبان خاتون کو سرڈھک کر آنے کی فرمائش کرتا ہے۔ کالر کے صرف ایک جملے کے بعد ہی کال کاٹ دی جاتی ہے۔ میزبان خاتون انتہائی ناراضگی کے عالم میں اس پریشانی کا اظہار کرتی ہیں کہ یہ کال کیسے آن ایئر چلی گئی؟ ورنہ تو ایسی کالزکو آن ایئر جانے نہیں دیا جاتا۔ ساتھ ہی پاکستان کے ایک آزاد اور جمہوری ملک ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے کہ یہاں اس بات کی ہر ایک کو آزادی ہے کہ وہ جیسا نظر آنا چاہتا ہے آئے اور اگر انہیں اتنی تکلیف ہے تو ٹی وی آف کردینا چاہیے۔ کالر کے ایک جملے کے جواب میں میزبان نے یہ کہہ تو دیا لیکن اسے کافی نہیں سمجھا گیا لہذا دوسرے دن اس کو دہرایا گیا کہ کال کے جواب میں آنے والی کئی کالز کو سنوایا گیا (ظاہر ہے یہ کالز دوسرے دن باقاعدہ پلاننگ کا حصہ تھیں) ان کالز میں ایک دن پہلے آنے والے سعودی عرب کے کالر کی اچھی طرح کھنچائی کی گئی۔
وہی سارے بوسیدہ دلائل‘ نگاہ کا پردہ ہوتا ہے‘ ٹی وی دیکھنا ہی نہیں چاہیے بلکہ گھر میں ہونا ہی نہیں چاہیے۔ انہوں نے نامحرم پر نظر ہی کیوں ڈالی‘ اپنی بیویوں اور بہنوں کو پردے میں رکھ کر دوسروں پر نظر رکھی جاتی ہے۔ زمانہ بدل چکاہے۔ میزبان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک آزاد اور جمہوری ملک ہے اگرچہ وہ پاکستان کے نام کے ساتھ جڑے پہلے لفظ (اسلامی) کو نظر انداز کردیتی ہیں لیکن عوام کی آزادی رائے اور جمہوری حق کو خود ہی پامال کردیتی ہیں کہ اپنے کالرکو پوری بات کہنے کا موقع دیے بغیر کاٹ دیا جاتا ہے۔ یہ غیر جمہوری رویہ کس چیزکی نشاندہی کرتا ہی؟ کون سا خوف ہے جو انہیں ایسی کالز کو آن ایئر جانے اور سنوانے سے روکنے پر مجبور کرتا ہے۔ حالانکہ آزادی اظہار کا حق تو ہر کالر کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔ آخر ان کی اور ان کے لباس کے خوبصورتی بھی تو موضوع سے ہٹ کر کی جاتی ہے جس کو انتہائی خوشدلی سے سنا اور سنوایا جاتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر قوم اور ملک کے لیے ان کی بقاءاور ترقی ان کے نظریات کی پختگی اور تہذیب ومعاشرت پر فخر کے لیے ان کے ذرائع ابلاغ فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کے پاکستان کے ایک اسلامی نظریاتی ملک ہونے کے باوجود ہمارے ذرائع ابلاغ اسلامی تہذیب وتمدن کو ایک اچھوت تہذیب کی طرح پیش کررہے ہوتے ہیں۔ ڈاڑھی برقعہ اور مولوی کا مذاق اڑانا ایک معمول کی بات ہوگئی ہے۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سیاست داں ایک دوسرے کو لعن طعن کرنے کے لیے ”جہادی“ اور ”مولوی“ کے الفاظ کا انتخاب کرنے لگے ہیں۔
اقتدار میں شریک ایک پارٹی کے راہنما نعوذباللہ اس بات کا اعلان کر گزرتے ہیں کہ ”اللہ اکبرکا دورگزرگیا ہے“۔ مسلمان کہلانے اور مسلمان ملک میں اقتدار کے مزے لوٹنے والے اسلام اور اسلامی تہذیب سے اس قدر خوفزدہ اور پریشان کیوں ہیں یہاں تک کہ اس بات کا احساس بھی نہیں کررہے کہ اس بحرانی اور پریشانی کی کیفیت میں منہ سے کیا کیا کچھ نکل رہاہے۔ دراصل مغربی تہذیب وثقافت کے دلدادہ مرعوب مسلمانوں کی مشکل یہ ہے کہ مسلمان رہتے ہوئے وہ سب کچھ کرنا چاہتے ہیں جو مغرب کرتا ہے اور کروانا چاہتا ہے۔ لیکن ذوق نظر کی تشنگی کبھی کم نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ کچھ اور تنوع کا تقاضا کرتی رہتی ہے لہٰذا ابتدا میں پُرکشش اور دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ ٹی وی پر نظر آنے کی شرط کے بعد اب مرحلہ دوپٹہ اتارنے تک آپہنچا ہے آگے مزید کیا اتارنے تک پہنچے گا؟ اس کا اندازہ خواتین کی فٹ بال ٹیم کا کھیل ٹی وی پر دکھانے سے بخوبی کیا جاسکتا ہے ”کچھ چینلز پر مغربی لباس کو خواتین کے لیے لازمی ڈریس کوڈ کے طور پر بھی متعارف کرایا جاچکا ہے۔ یہ ساری اختراعات روشن خیالی کی آڑ میں رائج کی گئیں۔ ایک مخصوص طبقہ جو مغربی روایات کو اثاثہ تسلیم کرچکا ہے۔ یہ صرف محسوس کررہا ہے کہیں اسلامی روایات کا احیاءان کی حیثیت تبدیل نہ کردے پھر معاشرے میں وہ کہاں اور کس مقام پر کھڑے ہوں گے ان تمام لبرل ازم اور آزادی اظہار کے علمبردار دوستوں کی ڈھارس کے لیے عرض ہے کہ خوفزدہ نہ ہوں اور نہ اسلامی احکامات روایات اور قدار کے لیے کفریہ کلمات منہ سے نکالیں قابلیت ظاہر میں نہیں باطن میں ہوتی ہے۔ مغربی تہذیب وتمدن کے طور طریقے اور مظاہر کے عکس اپنی زندگی میں اتار کر یہ سمجھنا کہ ہم نے ترقی کرلی ہے۔ محض خام خیالی ہے۔ یہ تو دراصل آپ کی ذہنی مرعوبیت اور غلامانہ خیالات کا اظہار ہے۔ بقول مولانا مودودی‘ اس بگڑی ہوئی ذہنیت کے ساتھ ترقی کا سہل ترین راستہ یہ سمجھا گیا کہ مغربی تہذیب وتمدن کے مظاہر کا عکس اپنی زندگی میں اتارلیں اور اس آئینہ کی طرح بن جائیں جس کے اندر باغ وبہار کے مناظر تو سب کے موجود ہوں مگر درحقیقت نہ باغ ہو نہ بہار…
فیس بک تبصرے