انٹرویو ڈاکٹر رخسانہ جبیں

ڈاکٹر رخسانہ جبین صاحبہ حلقہ خواتین جماعت اسلامی کی قیم(جنرل سیکرٹری ) ہیں ۔ ہم نے ان سے ،اسلام میں عورتوں کے حقوق، اسلام میں عورت کا مقام ،جماعت اسلامی حلقہ خواتین اور موجودہ دور میں خواتین جن مسائل کا شکار ہیں اس حوالے سے ایک گفتگو کی ہے قارئین و بالخصوص خواتین کی دلچسپی کے لئے ہم یہ گفتگو یہاں پیش کررہے ہیں۔

ڈاکٹر صاحبہ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ! سب سے پہلے تو آپ کا شکریہ کہ آپ نے اپنے قیمتی وقت میں سے ہمیں بھی کچھ وقت دیا،اور آپ کے پاس وقت کی کمی کے باعث ہم مزید کوئی تمہید باندھے بغیر اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔
س۔ سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی تاریخ ، پس منظر نمایاں خصوصیات کیا ہیں ؟ اور یہ حقوق نسواں کی دیگر این جی اوز سے کس طرح مختلف ہے ؟
ج: جماعت اسلامی حلقہ خواتین کا باقاعدہ آغاز 28فروری1948کو ہوا ۔اس سے پہلے اس حلقے کی بنیادوں کو استوار کرنے میں محترمہ بیگم مودودیؒ صاحبہ کی کوششوں کابڑا حصہ ہے ۔ان کا گھر خواتین کا پہلا مرکز تھا ۔ان دنوں لاہور میں ارکان خواتین کی تعداد 7اور متفق خواتین کی تعداد 50تھی۔پہلا اجتماع 28فروری کو مولانا مودودی ؒ کی رہائش ،اچھرہ میں منعقد ہوا جس میں خواتین کی تعداد 200تھی۔مئی 1948ء میں حلقہ خواتین نے آپا جی حمیدہ بیگم مرحومہ کو باقاعدہ قیمّہ کی حیثیت سے منتخب کیا ۔جماعت کی پہلی مہم پاکستان میں اسلامی نفاذ کے مطالبے سے متعلق تھی ۔ اس میں خواتین نے بھی بھر پور حصہ لیا۔اس کا فیصلہ 1948ء کو اچھرہ میں ایک اجتماع میں کیا گیا یہ نو نکاتی مطالبہ تھا بعد میں یہ نکات مولانا مودوی ؒ کی کوششوں سے قرار داد کی صورت میں ملک کے آئین کا حصہ بنا ۔1978ء میں صوبہ سرحد میں خواتین کا باقاعدہ نظم قائم ہوا جب کہ 1979ء میں بلوچستان کا نظم قائم ہوا ۔پہلی منتخب شوریٰ1974ء میں چنی گئی ۔جماعت اسلامی کی مفصل تاریخ کے لیے ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کا مضمون ملاحظہ کرلیں ۔
جماعت اسلامی حقوق نسواں کی دیگر این جی اوز سے بالکل مختلف ہے جومغرب سے متاثر ہیں ، مادی ترقی کے جنون میں مبتلا یہ تنظیمیں عورت کو وہی نا م نہاد آزادی دلانے کی خواہاں ہیں جس پر مغربی عورت خود چیخ رہی ہے جبکہ ہم اللہ اور اس کے رسول ؐ کی تعلیمات اور عورت کو دیئے گئے حقوق و مرتبہ کو لے کر اٹھے ہیں اور یہی ہماری جدوجہد کا مرکز ہیں۔
س :۔ اسلام میں عورت کا کیا مقام ہے ؟
ج: اسلام نے عورت کو انسانیت کا شرف عطا کیا ۔ نبی کریم ﷺکا لایا ہوا نظام عورت کو وہ مقام و مرتبہ دے گیا جس سے وہ صدیوں سے محروم تھی۔ اسلام نے مردو عورت کو ایک اکائی اور وحدت تصور کیا، انہیں حقوق و اجر و ثواب اور عذاب و پاداش میں یکساں قرار دیا مگر ان کی فطرت کے موافق ان کے میدان کا رالگ الگ رکھے ۔مغرب نے عورت کو ’’مرد‘‘ بنا دیا ،بکاؤ مال اور شمع محفل بنا کر پیش کیا اور اس سے گھر اوراصول معاش کی دوھری ذمہ داریوں میں الجھا دیایا سیکس ورکر اور کال گرل بنا دیا،اسلام نے ماں کی صورت میں وہ بلند ترین مقام دیا کہ اولاد کی جنت ہی اس کے قدموں اور اس کی خدمت میں رکھ دی ۔نیک بیوی کی صورت میں دنیا کی بہترین متاع قرار دیا اور گھر کی ملکہ بنایا اس کے معاش کی ساری ذمہ داریاں مرد پر عائد کیں ۔بہن اور بیٹی کو تقدس عطا کیا ۔ہر روپ میں اس کو ’’محصنہ‘‘ قراردیا اور عزت و اکرام سے رکھنے کا حکم دیا۔
س۔ اسلام عورت کو پسند کی شادی کا حق دیتاہے لیکن ہمارے معاشرے میں اس کو اچھا نہیں سمجھا جاتا اور آپ لوگ بھی اسے پسند نہیں کرتے ، اس تضاد کی وجہ کیا ہے ؟ جبکہ حضور نبی کریمؐنے خود ایک لڑکی کا اس کی مرضی کے خلاف نکاح فسخ کردیاتھا؟
ج: اسے اگر عورت کو پسند کی شادی کے حق کی بجائے ، شادی میں عورت کی رائے کو اہم سمجھنا کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اسلام نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ اگر اس کے ولی اس کا کہیں نکاح کرنا چاہیں تو عورت کی رائے کے بغیر نکاح فسخ قرار پائے گا۔
اسلام نکاح کے معاملات میں اسی بنیادی اصول کو سامنے رکھتاہے۔ ہاں البتہ لڑکایا لڑکی اپنے ولی کی رائے کے بجائے ازخود کہیں نکاح کرنا چاہے تو یہ پسندیدہ نہیں ہے۔ دراصل اسلام ایسا خاندانی نظام قائم کرنا چاہتاہے کہ جہاں ہر فرد دوسرے کی رائے کو احترام کی نظر سے دیکھے ۔ نبی کریم ؐکے زمانے میں یہ واقعہ جس کی طرف آپ نے اشارہ کیاہے مشہور ہے کہ لڑکی کی رائے کو نکاح میں اہمیت نہیں دی گئی تو نبی ؐ نے اسے فسخ کردیا۔ ثابت کرتاہے کہ نکاح کرتے ہوئے ولی/سرپرست کو لڑکیوں کی رائے کو اہم ترین سمجھنا چاہیے ۔ ہم اس رائے کے خلاف نہیں بلکہ پیامبر ہیں۔

س: کیا شادی کے لیے ولی کی اجازت لازمی ہے ؟ اور نکاح فسخ کرنے والا کوئی حکم عمومی نہیں ہے ؟
ج: کنواری لڑکی کے لیے ولی کی اجازت لازمی ہے ۔ ہاں البتہ لڑکی کی رائے کو بھی اہمیت دی جانی چاہیے اور اگر کہیں ولی اور لڑکی کی رائے میں اختلاف آجائے تو اہمیت لڑکی
کی رائے کو دی گئی ہے ۔ البتہ بیوہ اور مطلقہ مسلمان عورت کو شریعت یہ حق دیتی ہے کہ وہ نکاح میں اپنی رائے میں آزاد ہے مگر خاندان کے یونٹ کو برقرار رکھنے کے لئے سب
کی رائے کا احترام ضروری ہے۔یاد رکھیں جس لڑکی کی پشت پر اس کے ولی نہیں ہوتے وہ کسی بھی معاشرے میں دست برد اور ظلم سے محفوظ نہیں رہ سکتی ۔آج کل خاندانوں
کے ٹوٹنے اور شرح طلاق میں اضافے کی بہت بڑی وجہ ولی کو نظر انداز کر کے خود سری کے فیصلے بھی ہیں۔
س: کیا کاروکاری ،غیرت کے نام پر قتل اسلام کی تعلیمات کے مطابق درست ہیں ؟
ج: کاروکاری ، غیرت کے نام پر قتل اسلام کی تعلیمات کے مطابق درست نہیں بلکہ یہ گھناؤنے جرم ہمارے معاشرے میں اسلامی تعلیمات سے دوری اور جہالت کی وجہ سے عام ہیں۔ اسلام جذباتِ انتقام یا غیرت کے نام پر فرد کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ جماعت اسلامی ایسی تمام رسومات جو غیر انسانی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر اسلامی بھی ہیں کی مخالف ہے اور ان کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہے۔ ایسی رسومات کی روک تھام کے لیے قانون سازی اور پھر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ ہماری خواتین ممبران اسمبلی نے ان رسومات کے خلاف سینٹ اور اسمبلیوں میں بل بھی پیش کیا ہے تاکہ سنجیدگی سے اس پر قانون سازی کی جائے۔ ہماری نظر میں قتل غیرت قتل عمدہی کی شکل ہے۔ کیونکہ لعان کا قانون قرآن کریم میں اسی لیے نازل ہوا کہ قتل کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔لیکن یہ تمام رسومات محض قانون سازی سے ختم نہیں ہو سکتیں ۔اس کے لیے اسلامی تعلیمات ضروری ہیں ۔فکر آخرت اور تقوی پیدا کرنا ضروری ہے۔
س: کیا مشرف دور میں بنایاگیا حقوق نسواں بل خواتین کے حقوق کا ضامن ہے؟
ج: روشن خیالی اور مغرب پرستی کے جنون میں مبتلا مشرف حکومت نے اسلامیان پاکستان کے ایمان، اخلاق اور معاشرت کو ہدف بنانے کے لیے جو متعدد اقدامات کئے حقوق نسواں بل کی منظوری اُن میں نمایاں ہے۔ یہ قانون اسلام سے بغاوت کے رویوں پر مبنی ہے جو عورتوں کے حقوق کا ضامن ہونے کی بجائے انہیں گمراہ کرنے کے مترادف ہے اور ہم نے اسے تحفظ نسواں کی بجائے تحفظ عصیاں بل کا نام دیا ہے۔ کیونکہ اس میں رضا مندی سے بدکاری کو تحفظ دیا گیا ہے اور اسلام کی مقرر کردہ سزاؤں سے بغاوت کرکے مغربی معاشرے کی سزاؤں کو رائج کیاگیاہے۔ اسلام میں سزا کے لیے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کا فرق رکھا گیاہے اور مغرب اس جرم کو رضا مندی سے اگر کیا گیا ہو تو جرم ہی نہیں مانتا۔چنانچہ حال ہی میں یہ خبریں آ رہی ہیں کہ اس بل کی منظوری سے خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ ہو گیا ہے ۔دراصل حدود اﷲ ہی جرائم کو روکنے والی ہیں ۔نفسانی خواہشات پر مبنی قوانین ظلم و ستم میں اضافے کا باعث ہی بنتے ہیں۔
س: کیا حجاب پردہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ؟
ج: حجاب مسلم عورت کا شعار ہے ، فخر بھی ہے اور حق بھی۔ یہ ایک تکریم ہے جو رب کریم نے عورت کو دی ہے ۔ نہ کہ نام نہاد پابندی ۔۔۔جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا باعث ہو ۔ سر جن جس وقت سرجری کررہاہو تا ہے تو وہ انسانی زندگی کا نازک ترین اور حساس ترین فریضہ سرانجام دے رہاہوتا ہے مگر وہ سر سے پاؤں تک حجاب میں ملبوس ہوتاہے اور اسے اُس کا حجاب اس بہت ہی نازک کام سے روکتا نہیں بلکہ Fascilitate کرتا ہے۔ بعض لوگوں کو یہ اعتراض ہے کہ نقاب میں گفتگو میں رکاوٹ کا باعث ہوتی ہے تو پھر آپ کمپیوٹر ،فون اور ریڈیو بھی نہ استعمال کریں کیونکہ اس میں بھی چہرہ نظر نہیں آتا۔ ہاں اگر ترقی سے مراد مغربی طرز کا معاشرہ ہے جہاں عورت کی ترقی کے معانی ہر طرح کی مادر پدر آزادی ہے اور عورت کے مرد بن جانے کا نام ہے تو اسلام ایسی ترقی پر ویسے ہی لعنت بھیجتا ہے۔
س: مغرب نے عورت کو آزادی دی ، اس کو حقوق دیئے اور مردوں کے شانہ بشانہ لا کھڑا کردیالیکن آپ کہتے ہیں کہ مغرب نے عورت کو جنس بازار بنادیا۔ایسا کہنے کی کیا وجہ ہے ؟
ج:شاید یہ سوال کرنے والے اس بات پر غور نہیں کرتے ۔جو چیخ چیخ کر اپنی سچائی ثابت کر رہی ہے ۔آج ہر چوک اور چوراہا ایسے بل بورڈز سے مزین ہے جس پر عورت کا ’جنس بازار ‘ ہونا عریاں طریقے سے ثبت ہے ۔اشتہار موٹر سائیکل کا ہو یا سگریٹ اور ماچس کا نیم برہنہ عورت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ۔کاروبار کی دنیا ہو یا بس اور جہاز کی میزبانی عورت کے بغیر یہ کامیاب نہیں ہو سکتا ۔کوئی پاؤڈر کا ڈبہ اٹھا کر دیکھیے یا شیمپو کی بوتل اس پر چھپی عورت دیکھ کر بتائیے یہ’’ جنس بازار‘‘ بنی ہے کہ نہیں ۔آزادی کے معنی اگر مرد کی ’قوامیت‘ سے آزادی ہے ،ولی کی اجازت سے آزادی ہے ،بھائی کی ’غیرت‘ سے آزادی ہے اور معاف کیجیے چادر اور چار دیواری سے آزادی ہے تو
بے شک یہ مغرب نے دی ہے ۔لیکن یہ کس مہذب معاشرے کو مطلوب ہوتی ہے ۔آج مغرب کے ہر نظام نے عورت سے اس کی آزادی سلب کر کے اسے کارخانے کی مزدور اور جہازوں کی میزبان بنا کریاموٹروے پولیس میں بھرتی کر کے گھنٹوں ڈیوٹی کرنے پر مجبور کیا ہے جو اس کی فطرت میں ہے نہ اس کے رب نے اس پر عائد کی ہے

۔اسلام نے تو اس کو ’’آبگینے‘‘(قواریر) قرار دیا اور اس صنف نازک کی ساری ضروریات گھر میں بہم پہنچانے کا حکم دیا ۔کیا برابری یہ ہے کہ عورت کئی کئی گھنٹے باہر مزدوری کر کے آئے اور پھر گھر آکر سارے گھر داری کے کام بھی کرے ۔بچے بھی پیدا کرے اور شوہر کی جملہ ضروریات کا خیال بھی رکھے یا آزادی یہ ہے کہ وہ صرف بچوں
اورگھریلو امور کی ذمہ دارہو اور باقی باہر کے تمام کام مرد کرے اور اس کو جسمانی اور ذہنی مشقت سے بچا کر رکھے ؟؟لیکن وما یذّکرالااولو الباب ’’ان باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں جو دانشمند ہوں‘‘ (سورۃ البقرہ269) آپ نے مغربی عورت کی جس آزادی ،حقوق اور مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا تذکرہ کیاہے وہ دراصل اس ذہن کی پیداوار ہے جومغربی استعمار نے ورثے میں چھوڑاہے جس نے Gender Raceکو بنیاد بنادیا۔ اس دوڑ میں شامل ہو کر عورت نے یہ بھلا دیا کہ وہ عورت ہے اس کے خالق نے اس کی فطرت اور ذمہ داریاں مرد سے مختلف رکھی ہیں۔ اس صنفی دوڑ کے آغاز ہی پر خرد مند مغربی عورت خود پکار اٹھی تھی (We do’nt want to be men)جس کی بازگشت آج بھی سنائی دے رہی ہے۔ آپ خود مغربی جریدوں میں ( عورت کے حوالے سے )شائع ہونے والی رپورٹس کا خود مطالعہ کریں ۔ جہاں ہر سیکنڈ پر جرم ہوتاہے کہ عورت اس آزادی سے تنگ آ چکی ہے جس نے اسے ارزاں ترین جنس بنادیا ہے ۔ اُسے حقوق ، مساوات اور آزادی کے پر فریب نعروں میں محبت اور حفاظت کے حصاروں سے نکال باہر کیا اور پاؤں کی ٹھوکر پر رکھ دیا ۔
س: اگر مغرب نے عورت کو جنس بازار بنادیا تو مشرق بالخصوص اسلامی ممالک میں عورتوں کو گھروں میں قید کردیا گیاہے۔ ایسا کیوں ہے ؟ کیا یہ طرز عمل درست ہے ؟
ج: آپ شاید کسی غلط فہمی کا شکار ہیں اسلام عورت کو گھر کی ملکہ بناتاہے وہ گھر اور خاندان کی وہ مضبوط ترین اکائی ہے جو خاندان کو جوڑنے اور مستحکم کرنے کا باعث بنتی ہے۔ اور جس کا کوئی گھر نہیں ہوتا وہ تو بہت مظلوم اور قابل رحم ہوتاہے۔ اگر چہ عورت کو حکم ہے وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولی ’’اپنے گھروں میں ٹک کر رہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو‘‘ (سورہ احزاب33 )
تا ہم عورت اپنی ضروریات کے لیے گھر سے نکل سکتی ہے اورپنے بچوں کی تعلیم و تربیت بھی کرتی ہے ۔ ماہر طبیبہ اور استاد بھی بنتی ہے ۔ اگر کہیں اسلام میں عورت کو دیئے گئے حقوق اور اس کے فرائض کی روح کو نہیں پہچانا گیا تو یہ پہچان کی غلطی ہے نہ کہ اسلامی تعلیمات کی ۔ البتہ اسلام اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ عورت سڑکوں اور گلیوں میں بے مقصد اور بے حجاب گھومتی رہے جیسا کہ مغرب میں ہے۔
س: آپ کہتی ہیں اسلام نے عورت کو مکمل تحفظ دیا لیکن مغرب اور حقوق نسواں این جی اوز کا خیال ہے کہ اسلامی قوانین خواتین کے حقوق کا تحفظ نہیں کرتے ؟
ج: اسلامی معاشرہ اور مغربی معاشرہ اپنی روح اور فکر کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ جن لوگوں کی یہ سوچ ہے انہیں چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کا بغور مطالعہ کریں ۔ قرآن پاک اور سیرت رسولﷺ ؐ کا مطالعہ ان کے اس تصور کو بدل دے گا۔اسلام عورت کو نہ صرف مکمل تحفظ دیتا ہے بلکہ اس کے لیے ’’محصنہ ‘‘ (محفوظ )عورت کا لقب ہی پسند کرتا ہے ۔شادی سے قبل اسلام، باپ اور بھائی اور سارے خاندان کا’حصار‘‘ اسے محرم بنا کر مہیا کرتا ہے ۔شادی کے بعد شوہر کو گھر کا سربراہ بنا کر عورت اور بچوں کی نگہبانی اور اس کے حقوق اور شخصیت کے تحفظ کا حکم دیتا ہے ۔اس کے ساتھ زیادتی کرنے والے کو تعزیر اور حدود کا سزاوار بناتا ہے ۔حتیٰ کے اس بات کو بھی نا پسند کرتا ہے کہ نا محرم مرد اس کی طرف سے میلی آنکھ سے دیکھیں ۔اسلام کا نظام کفالت اس کے معاشی حقوق کا تحفظ کرتا ہے جواسے ہر طرح کی معاشی فکروں سے تمام عمر آزاد رکھتا ہے ۔حتیٰ کے بیوگی کی صورت میں ریاست کو اس کا ذمہ دار بنانے کے ساتھ ساتھ سارے معاشرے پر اس کا حق کفالت عائد کر دیتا ہے ۔وراثت میں اس کا حصہ مقرر کرتا ہے ۔ذاتی کارو بار کی نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ اس کو شوہر کی دست بر دسے محفوظ رکھتا ہے اور اس کی کمائی پر اسی کا حق قرار دیتا ہے ۔ماں بننے کے بعد باپ سے تین گنا زیادہ حقوق عطا کرتا ہے ۔اس کے قوانین شادی و طلاق عورت کے ہر حق کی حفاظت کرتے ہوئے اسے ہر طرح کی زیادتی سے محفوظ کرتے ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی معاشروں میں بھی اسلام کی روح نہیں ہے ۔کوئی مغرب سے متاثرہے اور کوئی جاہلانہ رسومات کا اسیر ہے اور نام کے مسلمان اسلام کی بد نامی کا باعث بنتے ہیں ۔البتہ مغرب کی آزادی نے عورت کی کیا خوب حفاظت کی ہے کہ ایک سروے کے مطابق ہر سات سیکنڈ بعد ایک عورت کی عزت لوٹی جاتی ہے اور ایک دن میں تقریباً تین سو عورتیں زیادتی کا شکار ہوتی ہیں اور مغربی دنیا میں 2.8ملین عورتیں طوائفوں کی صورت میں سڑکوں پر گھومتی گاھک ڈھونڈتی نظر آتی ہیں ۔حقوق نسواں کی NGOsیقیناًان سارے اعداو شمار سے بے خبر نہیں جن سے اس وقت انٹر نیٹ بھرا ہوا ہے لیکن یہ اصلاً مغرب کے وظیفہ خوروں کے فتوے ہیں جو شیطان کے آلہ کار ہیں اور عورت کے مادر پدر آزادی کے ذریعے نوع انسانی کو دوزخ میں جھونکنا چاہتے ہیں ۔جب کہ اﷲ کا فرمان ہے (ولا تتبعوا خطوات الشیطان انہ لکم عدو مبین ہ انما یا مرکم بالسوٓ ء والفحشاء وان تقولو علی اﷲ ما لا تعلمون )’’ ترجمہ :اورشیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو ،وہ تمھارا کھلا دشمن ہے ،تمھیں بدی اور فحش کا حکم دیتا ہے اور یہ سکھاتا ہے کہ تم اﷲ کے نام پر وہ باتیں کہو جن کے متعلق تمھیں علم نہیں(وہ اﷲ نے فرمائی ہیں)‘‘ (سورہ البقرہ167-168)

س: اسلامی تعلیمات کی روسے عورت کی اصل ذمہ داریاں کیا ہیں؟
ج: اسلامی معاشرہ حقوق و فرائض میں توازن سے وجود میں آتاہے ۔ حقوق کی آگہی کے ساتھ فرائض کا شعور اور جوابدہی کا احسا س ہی معاشرے کومثالی بنادیتاہے۔
اسلامی تعلیمات کی رو سے عورت کی بنیاد ی ذمہ داریاں اچھی تعلیم و تربیت کی ترویج ہے وہ ایک طرف نسل نو کی معمار ہے تو دوسری طرف معاشرے کی تہذیب و ترقی میں بھرپو ر حصہ دار ہے ۔ قرآن صالح عورتوں تو تعریف اس طرح کرتا ہے فالصلحت قٰنتٰت حٰفظٰت للغیب بما حفظ اﷲ ط’’پس جو صالح عورتیں ہیں
وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اﷲ کی حفاظت و نگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں‘‘(سورۃ النساء34 )
ٍٍ گویا ایک اچھی عورت وہ ہے جو نیک ہے ،اﷲ اور اپنے شوہر کی فرمانبردار ہے (حدوداﷲ کے اندر رہتے ہوئے)اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر کی اچھی نگہبان ہے یعنی نیکی کے ساتھ ساتھ شوہر کے ساتھ بہت اچھا تعاون ،محبت اور فرمانبرداری اس کی بنیادی ذمہ داری ہے اور اس میں اس کی جنت کی ضمانت نبی کریمﷺ نے دی ہے ۔پھر اس کی بڑی ذمہ داری اپنے گھریلو فرائض کو احسن طریقے سے ادا کرنا اس کو اﷲ کے بعد شوہر کی امانت سمجھنا ۔کسی طرح کی خیانت نہ کرنا اور اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرنا اور انہیں دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ کرنا اس کے بعد اس کے پاس وقت ہو تو شرعی حدود میں رہتے ہوئے وہ دیگر سماجی ذمہ داریاں بھی ادا کر سکتی ہے ۔لیکن اس کی بنیادی ذمہ داری اس کا گھر ہے اور بچے ہیں جس کے لیے وہ عند اﷲ جوابدہ ہے۔
س: بچوں اور خواتین سے زیادتی کے واقعات میں اضافہ کیا وجہ ہے؟
ج: دین سے دوری ،مغرب کی بھونڈی نقالی کی وجہ سے معاشرہ اخلاقی زوال کا شکارہو چکا ہے ۔ جہالت اور دینی تعلیمات سے لاعلمی کے ساتھ ساتھ میڈیا نے معاشرے کو گلیمرائز کردیا ہے جس کی وجہ سے آدمی اپنی خواہشات کا غلام بن چکاہے اور جائزوناجائز کی تمیز سے بے گانہ ہوتاجارہاہے اور یاد رکھیے جب عورت شیطان کی پیروی کرتے ہوئے بے پردہ اور سج سنور کر باہر آئے گی تو مردوں کی ہوسناکی کاشکار ہو جائے گی ۔جہاں جہاں اﷲ کے قوانین کو توڑیں گے وہاں زیادتیاں اور ظلم ضرور ہو گا ۔
س: آپ خواتین پر پابندیاں عائد کرتی ہیں اور ان کے حقوق کی بجائے سیاسی ایشوز پر دکان چمکاتے ہیں؟
ج: لگتا ہے کہ اس طرح کے الزامات لگانے والوں نے بھی مغرب کے ہر اعتراض پر آمناّ و صدقنا کہا ہوا ہے ۔ہم خود خواتین ہیں اور خواتین ہونے کی حیثیت سے ہی دینی و معاشرتی فرائض ادا کر رہی ہیں اور عورت کو شعور دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس کے رب نے اسے کتنی عزت اور تکریم دی ہے اس کو سمجھے اور مغرب نے اسے کتنا ذلیل و خوار کر دیا ہے اور دوہری ذمہ داریوں میں کتنا تھکا دیا ہے اس کا شعور حاصل کرے ہمارے سیاسی ایشوز ہر گز عورت کے حقوق سے متصادم نہیں ہیں یہ عین اسلام ہیں اور اسلام دین فطرت ہے اور ہر صنف کو اس کے مقام پر رکھ کر صحیح آزادی عطا کرتا ہے ۔ نیزمغرب میں بڑھتے ہوا اسلام اور قبولیت اسلام کے اس رحجان میں عورت کا پیش پیش ہونا اس کا ثبوت ہے کہ عورتوں میں اسلام پسندیدگی کی بنیادی وجہ اسلام کے دئیے گئے حقوق ہیں جس سے مغربی عورت محروم ہے ۔ اگر عورت کو دیئے گئے اسلامی حقوق و فرائض ’’بے جا پابندیاں ‘‘ہوتے تو مغربی معاشرے میں عورتوں میں بڑھتی ہوئی اسلام پسندی نظر نہ آتی ۔
س: آپ کی جماعت نے پاکستان کی عام عورت اور اس کے حقوق کے لیے کیا جدوجہد کی ہے ؟
ج: ہماری ساٹھ سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مولانا مودودیؒ نے جب یہ جماعت بنائی تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا اتباع کرتے ہوئے حلقہ خواتین کی تنظیم بھی بنائی ۔ہماری سب سے بڑی جدوجہد عورت کو اس کے حقیقی مقام کا شعور دلانا وہ نہیں جو مغرب کے استحصالی معاشرے دیتے ہیں بلکہ وہ جو اس کے پیدا کرنے والے مالک نے دیا ہے ۔اس کے بعد اسکے اندر فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس پیدا کرنا ہے تا کہ اس معاشرے کو اچھی مائیں میسر آ سکیں اور ایک بہترین نسل پروان چڑ سکے جو اس قوم کو ہر طرح کی غلامی سے نکال کر عزت اور سر بلندی کے راستے پر گامزن کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو جو اﷲ کے آگے جوابدہی کا احساس بھی رکھتی ہو اور اپنے حقیقی دوستوں اور دشمنوں کی پہچان بھی ۔اس کے علاوہ بھی ہم نے پاکستانی عورت کے لیے ہر میدان میں نشان راہ بنائے ہیں۔ چاہے وہ قدرتی آفات کی ماری عورت ہو تو آپ کو جماعت اسلامی ہی تعریف و توصیف سے بے نیاز اور میڈیا میں تشہیر سے لا تعلق رہتے ہوئے الخدمت کے میدان میں سرگرم عمل نظرآتی ہے ۔ طالبات کے محاذ پر آپ کو مولانا مودودی ؒ کی تربیت یافتہ اور ان کے لٹریچر کے فہم اور علم کی بنیاد پر بااعتماد طالبات ہر محاذ پر سرگرم عمل نظر آتی ہیں۔ امور خارجہ کے میدان میں انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین جو مسلمان عورتوں کی سب سے بڑی عالمی تنظیم ہے کی صدارت اور ایشیا کی ذمہ داری ہمارے پاس ہے۔ ورکنگ ویمن کا میدان ہو یا جیلوں میں قانونی امدادکا حوالہ ہو۔ عورت کے کردار پر پالیسی کے لیے کمیشن تشکیل دینے کا معاملہ ہو یا خاندان کو استحکام دینے کے لیے فلاح خاندان سنٹر کا اجراء ، سیاست کے میدان کارزار میں قدم رکھنے

کا معاملہ ہو یا ایوانوں کے اندر کارکردگی کا تو ہماری خواتین ارکان اسمبلی کوہماری مخالف این جی اوز نے بھی اُن کی کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے سرفہرست رکھا ۔ ادبی محاذ ہو یا یا بچوں کی تربیت کا معاملہ یا میڈیا پر اپنے موقف کو پیش کرنے کا ہنر ہو ، ہماری جماعت نے ہر میدان میں اللہ کے فضل و کرم سے اپنی کارکردگی کا لوہا منوایا ہے پاکستان معاشرے کی عام خواتین ہماری کارکنان ہیں اور ہمارا کارکن ہمارا اثاثہ اور ہماری تنظیم ہماری قوت اور اسی کے بل بوتے پر اللہ تعالیٰ نے ہم سے کام لیا ہے اور بہتری کی بہت گنجائش ہے۔ زندہ تحریکیں ہر لمحہ اپنی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے پیش قدمی کی منصوبہ بندی کرتی ہیں اور ہم بھی اس محاذ پر عورت کے حقوق و فرائض میں بہترکارکردگی کے لیے جدوجہد کے لیے تیار ہیں۔
بہت شکریہ ڈاکٹر صاحبہ۔ ہم آپ کے مشکور ہیں کہ آپ نے ہمیں وقت دیا۔اس کے ساتھ ہی آپ سے اجازت چاہیں گے۔ اللہ حافظ

نوٹ: یہ انٹرویو چند ماہ قبل ڈاکٹر صاحبہ کے دورہ ء کراچی کے موقع پر لیا گیا تھا۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply