ڈاکٹر صاحب یہ کہتا ہے کہ میں صرف عید کی نماز پڑھوں گا، ہم نے اس سے بہت کہا لیکن یہ مسجد جانے کو راضی نہیں۔ رونے لگتا ہے‘ کانپتا ہے۔ ہم نے تو بہت پوچھ لیا لیکن یہ نہیں بتاتا۔ رمضان کے سارے روزے اس نے رکھے ہیں۔ قرآن بھی رمضان میں ختم کیا۔ ہمارے والد صاحب یعنی بچے کے دادا سختی کرتے ہیں کہ گھر پر نماز نہ ادا کرو، تم VII کلاس میں آگئے ہو… مسجد جایا کرو۔ یہ نہیں جاتا۔ دادا کا پیارا ہے لیکن ان کا کہنا نہیں مانتا۔
بچے کے والد صاحب سے علیحدگی میں بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ بچپن میں ہم نے اسے ایک دوسرے اسکول میں پڑھایا، یہ بالکل ٹھیک تھا۔ دوسری کلاس سے ہم نے اسے ایسے اسکول میں داخل کرایا جہاں یہ حفظ کرلے، لیکن اس نے کچھ نہ کیا۔ مجبوراً دوسرے اسکول میں داخل کرایا ہی۔ اب VI کلاس سے یہاں ہے، پہلے سے پڑھائی میں بہتر ہے۔ مسجد جانے کے معاملے میں پہلے تو ہم درگزر کرتے تھے، اب بڑا ہوگیا ہے تو ذرا سختی کی، لیکن یہ جانے کو تیار نہیں۔
بچے سے علیحدگی میں بات کی تو اس نے بتایا کہ اس کے ذہن میں خوف ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے تو صرف ایک مرتبہ… لیکن میرے سامنے ایک انکل نے بچے کو نماز کے دوران شکایت کرنے پر اس طرح مارا کہ اس کی زبان دانت کے نیچے آگئی۔ مجھے بہت خوف آیا۔ میرا وہ دوست گرپڑا، اس کے منہ سے خون نکلا، اور پھر ہم کئی دوستوں نے طے کرلیا کہ آئندہ ایسی جگہ نہیں جائیں گے جہاں بچوں کے ساتھ برا سلوک ہوتا ہو۔ اس سے پہلے میں جب حفظ میں تھا تو اکثر پریشان رہتا تھا۔ مجھ پر عجیب طرح کے دبائو تھے۔ وہ روتے ہوئے بتانے لگا کہ کلاس 3 سے 5 تک تین سال جن استاد سے میں پڑھتا تھا ان کی نصحیتیں بہت ہوتی تھیں۔ وہ ایسی باتیں کرتے جو میں نہیں کرسکتا تھا۔ وہ مجھے پینٹ پہننے سے منع کرتے اور پینٹ پہننے والوں کو ہر وقت برا بھلا کہتے۔ میرے سارے بھائی‘ کزن پینٹ پہنتے تھے۔ میرے پاس بھی کئی پتلونیں تھیں۔ اب گھر آتا تو جس لباس کو برے لوگوں کا لباس سنتا‘ اسی کو پہننا پڑتا۔ استاد پوچھتے کہ تم پینٹ شرٹ پہنتے ہو؟ قرآن سامنے رکھا ہوتا، لیکن مجھے جھوٹ بولنا پڑتا کہ نہیں پہنتا۔ میں سچ بولنے والے ایک بچے کا حشر دیکھ چکا تھا۔ ہمارے ایک کلاس فیلو نے سچ بتادیا تھا کہ استاد جی میں تو گھر میں پینٹ شرٹ پہنتا ہوں۔ اس کو بہت برا بھلا کہا‘ پٹائی کی اور بات بات پر اس کو سنایا جاتا رہا۔ کئی ماہ تک اسے پینٹ پہننے کے طعنے بھی ملتے رہے۔ اس کے بعد میں نے اس طرح کا سچ بولنے سے توبہ کرلی تھی۔ استاد صاحب بتاتے کہ سالگرہ غیر اسلامی ہے۔ ہمارے بھائی‘ بہنوں‘ کزن سب کی سالگرہ ہوتی۔ میں بھی شریک ہوتا کیوں کہ جب سب گھر والے جارہے ہوں تو مجھے بھی جانا پڑتا، بلکہ میری بھی سالگرہ منائی جاتی۔ اب میں دو کشتیوں میں سوار تھا۔ گھر میں ہونے والی باتیں مدرسہ میں چھپاتا اور مدرسہ کی باتیں گھر میں چھپاتا۔ ٹی وی کے بارے میں اتنا برا سنتا۔ انٹرنیٹ تو کفر تھا۔ لیکن میں ٹی وی کے ڈرامے گھر والوں کے ساتھ دیکھتا۔ انٹرنیٹ پر گیم کھیلتا۔ اس طرح میری پڑھائی متاثر ہونے لگی۔ سارا وقت یہ بات سوچتے گزرتا کہ کون سی بات کس سے کہنی ہے‘ کون سی بات کس سے چھپانی ہے۔
اب اس اسکول میں آکر سکون ملا ہے کہ اسکول اور گھر کی کوئی بات نہیں چھپانی پڑتی۔ لیکن اس چانٹے والے واقعہ نے تو مجھے ہلاکر رکھ دیا ہے۔ مجھے پہلے بھی مسجد میں مسئلے ہوتے تھے۔ ٹی شرٹ ہی میرے پاس تھیں۔ کئی لوگوں نے اعتراض کیا۔ میں نے اپنے چچا کو بتایا۔ چچا نے کہا کہ فکر کی کوئی بات نہیں، میرے ساتھ بھی بچپن میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ میرے چچا نے مجھے بہت سمجھایا‘ انہوں نے مجھے اپنے واقعات بتائے۔ کہنے لگے: ہمیں تو یہ کہا جاتا تھا کہ اگر کہنیاں کھلی ہیں تو شیطان ان پر ڈنڈیاں مارتا ہے۔ کبھی ننگے سر نماز پڑھ لیں تو بتایا جاتا کہ شیطان سر پر جوتیاں مارتا ہے۔ چچا کہنے لگی: اب حالات بہتر ہیں۔ ہم تو بچپن میں یہ سوچتے تھے کہ یہ مسجد سے جو جوتیاں چوری ہوتی ہیں وہ شیطان چراتا ہے تاکہ جو ننگے سر نماز پڑھے اس کے سر پر برسائے۔ ہم اس بات پر بھی حیران ہوتے تھے کہ شیطان کو اللہ میاں نے اتنی آزادی دی ہے کہ وہ اس کے گھر میں آکر نماز ادا کرنے والوں کو مارتا پیٹتا ہے۔ بس یہ بچپن کی باتیں ہیں، کیا کریں، سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ چچا نے بتایا تھا کہ پہلے تو مار بھی پڑتی تھی، اب حالات بہتر ہیں، بات ڈانٹ ڈپٹ تک ہی محدود ہے۔
چچا کے سمجھانے کے بعد وہ کافی مطمئن ہوگیا تھا۔ لیکن چانٹے والے واقعے کے بعد اس کے دل میں خوف بیٹھ گیا ہے‘ اس کو گھبراہٹ ہونے لگتی ہے‘ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے، اور اب تو ایسا ہوگیا ہے کہ جب اسے زبردستی لے جانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ رونے لگتا ہے۔ کہنے لگا: رمضان میں‘ میں نے روزے رکھے اور پارک میں جاکر دس روزہ تراویح پڑھی۔ لیکن مسجد جانے سے ڈر لگتا ہے۔ عید کی نماز بڑے شوق سے پڑھی۔ عیدگاہ میں کوئی کسی کو کچھ نہیں کہتا، اس لیے اچھا لگتا ہے۔
بچے کے والد صاحب اور والدہ کو بلایا اور سمجھایا کہ اس پر سختی نہ کریں۔ وہ بولی: کیسے نہ کریں! اس کی عمر 12 سال ہوگئی ہے۔ ہمیں تو یہی معلومات ہیں کہ سختی کرو۔ انہیں سائیکو تھراپسٹ ڈاکٹر صدیق صاحب کے پاس بھیجا گیا۔ انہوں نے ماں باپ کو بتایا کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی کسی بچے کو نہیں مارا۔ حضرت انس بن مالکؓ آپؐ کے ساتھ رہے‘ حضرت زیدؓ آپؐ کے ساتھ رہے۔ انہوں نے بتایا کہ کبھی آپؐ نے ہمیں غلطی پر ڈانٹا تک نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو نہ صرف انسانوں (جن میں مسلمان‘ عیسائی‘ ہندو‘ یہودی‘ بدھ مت‘ لامذہب‘ آتش پرست سبھی شامل ہیں) کے لیے رحمت بن کر آئے بلکہ جانوروں اور تمام کائنات کے لیے بھی رحمت تھت۔ بچوں کو مارنا اور جبر کے ساتھ عبادت کرانا، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک سے متصادم بات ہے جو آپ کہہ رہے ہیں۔
بچے کے والدین کی سائیکو تھراپی کی گئی۔ بچے کی سائیکوتھراپی کی گئی، پھر وہ مسجد جانے لگا۔ 3 سال بعد وہ بچہ والدین کے ہمراہ پھر آیا۔ اس کا موڈ ٹھیک نہیں تھا۔ اسے لو بلڈ پریشر کی شکایت تھی۔ بچہ میٹرک میں تھا۔ اس کا معائنہ کیا گیا۔ گھر والوں کو بتایا گیا کہ بلڈ پریشر 100/70 ہے جو نارمل ہوسکتا ہے، اس لیے بلڈ پریشر مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ بچہ ذہنی دبائو میں ہے۔ وہ کہنے لگی: سب ڈاکٹر اور خاندان والے کہہ رہے ہیں اسے لو بلڈ پریشر کی بیماری ہے۔ ہم نے ڈرپس بھی لگوائی ہیں لیکن افاقہ نہیں ہورہا۔ انہیں سمجھایا کہ لو بلڈپریشر (Low BP) نام کی کوئی بیماری نہیں ہے۔ اگر کوئی فرد ذہنی طور پر پریشان ہو‘ انگزائٹی ہو‘ نیند کم آرہی ہو یا آرام نہیں کررہا یا غذا صحیح طرح سے نہیں لے رہا ہو تو کمزوری محسوس ہوتی ہے‘ چکر آتے ہیں۔ بلڈ پریشر بھی کم ہوسکتا ہے، لیکن یہ عارضی ہے۔ مسئلہ حل ہوجائے تو یہ خودبخود ٹھیک ہوجاتا ہے۔
بچے نے بتایا کہ میں اسکول میں پڑھائی میں ٹھیک ہوں۔ اب دو ماہ کی چھٹیاں تھیں۔ نویں کے امتحان کے بعد میں نے بال ذرا ڈیزائن والے رکھ لیے۔ ہم سب دوستوں نے ایک ہی طرح کے بال رکھے ہیں۔ لیکن گھر میں اعتراض ہورہا ہے اور مسجد میں تو باقاعدہ لوگ اشارے کرتے ہیں ’’ماڈرن گروپ آگیا۔‘‘ اس کے والد صاحب نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب! فیشن کیا اچھی چیز ہے؟ ہم یہ کہتے ہیں کہ انسان لگو۔ مسجد میں تو آپ کو پتا ہی ہے…
وہ لڑکا کہنے لگا: جمعہ کے دن مولوی صاحب نے تقریرکی اور فیشن کے بال رکھنے والوں کو برا بھلا کہا۔ تقریر تو انہوں نے سب کے لیے کی لیکن کئی لوگ سمجھ رہے تھے کہ ہماری طرف ہی اشارہ ہے۔ اس طرح ہمیں تضحیک کا نشانہ بنانا یا ہمارا مذاق اڑانا ٹھیک ہے؟
ڈاکٹر نے بتایاکہ انسان کی قدر وعزت اور حرمت دنیا میں سب سے قیمتی چیز ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو عزت کی بلندیوں تک پہنچایا۔ یہ بات سن کر بچے کے چہرے پر اطمینان کی کیفیت آگئی۔ اس کے والدین کو بتایا گیا کہ انسان میں عمر کے مختلف حصوں میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ انسان ایک جیسا نہیں ہوتا۔ 14,13 سال کی عمر میں بچے میں ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے جسے بلوغت یا Puberty کہتے ہیں۔ دماغ سے ہارمون نکلتے ہیں جو لڑکوں میں ہارمون (Testosterone) بنانے اور اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ اس عمر میں بچے ان ہارمونز کے زیرِ اثر اپنے اندر تبدیلیاں محسوس کرتے ہیں۔ ان کی مونچھیں اور ڈاڑھی نکلنے لگتی ہے‘ بغل اور پیٹ کے نچلے حصے میں بال نکل آتے ہیں‘ ان کے مزاج میں اتار چڑھائو آتا ہے‘ اس عمر میں بچوں کو نت نئی چیزیں اور آئیڈیاز آتے ہیں۔ وہ عجیب عجیب فیشن کرتے ہیں۔ ان کے نیند کے اوقات ڈسٹرب ہوجاتے ہیں۔ کسی بچے میں یہ کیفیات کم‘ کسی میں زیادہ ہوتی ہیں۔ ان کو اس عمر میں ان کی کیفیت کے مطابق رعایت ملنی چاہیے۔ بچوں کو اس عمر میں بہت زیادہ ٹوکنا نہیں چاہیے۔ چند سال میں یہ کیفیت ختم ہوجاتی ہے۔ ان کی مدد کرنی چاہیے اور انہیں ہارمون کی تبدیلی کے بارے میں بتاکر اطمینان دلانا چاہیے۔
بچہ تو مطمئن ہوگیا لیکن والد صاحب کہنے لگے کہ یہ بگڑ نہ جائے۔ بچے نے بتایاکہ ہم دوست مل کر محلے کے کئی غریب بچوں کو چھٹیوں میں ٹیوشن پڑھا رہے ہیں۔ ہم نے محلے میں کئی جگہ پودے لگائے ہیں۔ ہمارا خیال ہے جب یہ درخت بن جائیں گے تو لوگ ان کے سائے سے فائدہ اٹھائیں گے اور ہمیں دعا دیں گے۔ والد صاحب کو بتایا گیا کہ مسجد میں بچوں پر تنقید تو بہت ہی برا عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت 114 میں اسے بڑا ظلم بتایا ہے۔ کوئی بھی فرد کسی مسجد میں آنے والے پر تنقید کرے‘ بغیر اس فرد کے پوچھنے کے نصیحت کرے‘ ڈانٹے‘ مارے تو اللہ کی نظر میں یہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ ایسی کوئی بھی حرکت جس سے کسی فرد کو مسجد میں آنے یا اللہ کا ذکر کرنے میں ذہنی یا جسمانی تکلیف ہو اسے مسجد میں آنے سے روکنے کا اقدام سمجھا جائے گا۔ یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ اللہ نے اپنی کتاب میں بتایا اس کا دنیا میں شدید عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔ دنیا کا عذاب کس طرح آئے گا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے چینی‘ قتل و غارت گری‘ راتوں کو نیند نہ آنا‘ انگزائٹی‘ ڈپریشن… یہ کیا ہیں؟ ہر عقل رکھنے والا خود سوچ سکتا ہے۔
بچے کے والد صاحب کہنے لگے کہ سب کچھ کیسے ٹھیک ہوگا؟ انہیں بتایا کہ یہ تو کسی علم والے سے پوچھیں۔ اس وقت ترکی وہ ملک ہے جہاں اچھے لوگوں نے اسمبلی میں اکثریت حاصل کی ہے۔ حکومت عدالت کا کہنا مانتی ہے‘ قانون کی حکمرانی ہے‘ صفائی ستھرائی میں وہ دنیا میں بہت آگے ہیں۔ لیکن ان کی ایک اہم بات مساجد کے بارے میں ان کا طرزعمل ہے۔ یونیورسٹی کے طالب علم صالح نے بتایا کہ اس سال وہ اپنی امی کے ساتھ ترکی گیا تھا۔ اس نے استنبول اور دیگر شہروں میں نماز ادا کی۔ مسجد میں لڑکے ماڈرن ترین لباس پہن کر آرہے تھے۔ کسی نے بالوں میں جیل لگائی ہوئی تھی‘ کسی نے درمیان میں بال رکھے ہوئے تھے‘ کوئی پینٹ میں تھا‘ کسی نے بڑا نیکر (جو گھٹنوں سے نیچے تک ہوتا ہے) اور بنیان پہنا ہوا تھا۔ ہر طرح کے لڑکے نماز میں ہوتے لیکن کوئی کسی پر اعتراض کرنا تو درکنار کسی کی طرف تنقیداً دیکھتا بھی نہیں۔ ترکی میں بزرگانِ دین کا بڑا اثر ہے۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے افراد ایک نکاتی ایجنڈے پر کام کرتے ہیں کہ کسی پر تنقید نہیں کرنی۔ صرف مثبت کام کرنے ہیں۔ ترک یہ سمجھتے ہیں کہ مسجد اللہ کا گھر ہے۔ اللہ کے گھر میں ہمیں اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق بات نہیں کرنی۔ جس کا جس طرح چاہے‘ جس حلیہ میں چاہے مسجد میں آئے اور اپنے رب کا ذکر کرے۔ بچے ترکی کی مسجدوں میں کھیلتے نظر آئیں گے، وہاں کسی کی نماز بچوں کے شور کرنے اور کھیلنے سے خراب نہیں ہوتی۔
فیشن کرنے والے لڑکوں اور شور کرنے والے بچوں کے علاوہ خواتین بھی جس لباس میں چاہیں مسجد جاسکتی ہیں۔ ترکی کا دورہ کرنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک لڑکی اسکرٹ پہن کر آئی، اس نے بیگ سے بڑی چادر نکالی، اوڑھ کر نماز ادا کی اور جاتے وقت چادر اتارکر بیگ میں رکھی اور چلی گئی۔ ایسی درجنوں لڑکیاں مسجد آتی ہیں۔ ترکی کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ انہوں نے اپنی خواہش کی پیروی نہیں کی اور جو بھی مرد‘ عورت‘ بچے اللہ کے گھر آنا چاہیں ان کے لیے رکاوٹیں دور کرکے آسانیاں پیدا کردیں۔ اللہ کی مساجد میں اللہ کا ذکر کرنے والوں کے لیے آسانیاں بہم پہنچائیں۔ ہم ترکی کی مثال سامنے رکھ کر اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں۔ اس طرح ہماری مساجد میں بھی نوجوان‘ بچے اور خواتین جوق درجوق آئیں گی۔
اللہ کے گھر آباد کرنے کا انعام اللہ تعالیٰ دے گا۔ جن انعامات کا اللہ نے وعدہ کیا ہے ان میں سے بہت سے انعامات کو اہلِ ترکی دیکھ رہے ہیں۔۔۔
ميں 13 سال کی عمر سے 50 سال کی عمر تک مختلف مساجد اور مدرسوں کا مطالعہ کرتا رہا ہوں ۔ ميں اُن مدرسوں کی بات نہيں کر رہا جو عام طور پر محلہ کی ہر مسجد کے ساتھ ہوتے ہيں ۔ پاکستان آنے کے بعد اپنے محلہ کی مسجد ميں مجھے 11 سال کی عمر مين پچھلا پڑھا ہوا دہرانے اور آگے پڑھنے کيلئے بھيجا گيا ۔ وہاں مسجد کے امام نہيں پڑھاتے تھے بلکہ کوئی اور صاحب تھے ۔ اُنہوں نے مجھے بھاگنے پر مجبور کيا ۔ مگر ميں مسجد ميں نماز پڑھنے جاتا رہا کيونکہ امام بڑے مشفق تھے
مساجد کے متعلق جو بھی شکايات ہيں اس کی ذمہ دار نہ صرف مختلف حکومتوں کی لاپرواہی ہے بلکہ زيادہ قصور وار اس مسجد کے گرد رہنے والے مسلمان ہيں جو اپنا اُلو سيدھا رکھنے کيلئے مسجد کو جاہل قسم کے لوگوں کے سپرد کر ديتے ہيں يا ايسے لوگوں کو ہٹانے کی کوشش نہيں کرتے ۔ ذرا سوچئے کہ جو لوگ اپنے بچے کو مہنگے سکول ميں پڑھانے کيلئے 5000 سے 10000 روپيہ ماہانہ فيس ديتے ہيں وہ سب مل کر 500 روپے ماہانہ دے کر ايک منظور شدہ مدرسہ سے فارغ التحصيل شخص کو مسجد کا امام کيوں نہيں بناتے ؟ خيال رہے ان منظور شدہ مدرسوں کی اسناد گريجوئيشن اور ماسٹرز کے برابر ہيں ۔ يہ مدرسے ميٹرک پاس لڑکوں 6 سے 8 سال ۔ گريجوئيٹ لڑکون کو 4 سے 6 سال اور ماسترز لڑکوں کو 3 سال کا قرآن و حديث کا کورس مکمل کراتے ہيں
ميرا مطلب 500 روپے ماہانہ فی گھر ہے
بہت اچھا خیال ہے ۔ مگر ہمارے دل میں اس کی اہمیت ہو تب ہی یہ ممکن ہے