کچھ دن پہلے ناموس رسالت ؐ کی حمایت میں پورے پاکستان میں مکمل ہڑتال ہوئی۔ کراچی تا خیبرپہیہ جام ،شہر شہر قریہ قریہ مظاہرے اور ریلیاں، حرمت رسول ؐ کے لیے جان قربان کرنے کا عزم ،پاکستان کے بڑے شہروں، کراچی، کوئٹہ، لاہور، پشاور اور اسلام آباد میں مکمل ہڑتال تھی۔ چھوٹے شہروں حیدر آباد، نواب شاہ، سکھر، ژوب، تھل،گوادر، ملتان، بہاولپور، گجرات، ڈیرہ اسمائیل خان وغیرہ بلکہ دیہاتوں میں بھی مکمل ہڑتال تھی۔ پاکستان میں عموماً محلے اور گلی کوچوں میں ہڑتالوں کے دور ان دوکانیں بند نہیں ہوا کرتی تھیں مگر اس ہڑتال کے اندر مشاہدے میں یہ بات نظر آئی ہے کہ گلی محلے کی دکانیں بھی بند تھیں۔ یہ ہے خاموش اکثریت کا اظہار عقیدت اپنے پیغمبر اسلام ؐ کے ساتھ۔
قارئین اس لیے ہم نے اس ہڑتال کا نام اللہ والوں کی ہڑتال رکھا ہے۔ یہ نام ہم نے کیوں رکھا ہے وہ اس لیے کے ہم پاکستان میں اپنی زندگی میں بہت سی ہڑتالوں کا مشاہدہ کر چکے ہیں یہ ایک انوکھی ہڑتال تھی۔اس لیے انوکھی تھی کہ ایک دن پہلے نہ تو کوئی گولی چلی، نہ کوئی بے گناہ قتل ہوا، نہ فائرنگ کی آواز آئی، نہ کسی کو ڈرایا دھمکایا گیا، نہ کوئی شیشہ ٹوٹا، نہ کوئی بس جلائی گئی، نہ ٹرانسپورٹرز کو بُرے نتائج کی دھمکیاں ملیں، نہ لوگ گروہ اور ٹولیوں کی شکل میں شہروں میں ٹائر جلاتے ہوئے، سڑکیں بلاک کرتے ہوئے دیکھے گئے لوگوں نے خود بخود ہڑتال کی۔ مارکیٹیں بند، ٹرا نسپورٹ بند، دفاتر بند غرض کے ہر کسی نے اس ہڑتال میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ مگر افسوس اس تاریخی موقعے پر جسطرح اخبارات کو اداریے، کالم نگاروں کو کالم، الیکڑو نک میڈیا پر خبریں، ٹاک شوز ہونے چاہیے تھے اس ہڑتال کی شان کے مطابق نہیں ہوئے کم ازکم ایک ہفتے تک ہڑتال کا موضوع زندہ رہنا چاہیے تھا کیونکہ یہ ہڑتال ایک خاموش اکثریت کی حقیقی آواز تھی جن کا اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت ہے، احترام ہے اور مرمٹنے کا جذبہ ہے۔ جن کو اپنے دین سے پیار ہے جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے مطیع ہیں جو اس مملکت پاکستان میں اللہ کا نظام چاہتے ہیں۔ حکومت الٰہیہ چاہتے ہیں، نظامِ مصطفٰے چاہتے ہیں۔
قارئین امت رسول ؐ ہاشمی دکھیا ہے۔ جن کوفیوڈرل لارڈز نے زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے، جنکواپنی آزاد رائے سے انگریزوں کے شیطانی طرز حکومت کو تبدیل کرنے کا موقعہ نہیں دیا جاتا۔ جن پر یہود و نصارا نے صلیبی جنگ مسلط کی ہوئی ہے اور اس میں پوری دنیا کے امریکی پٹھو حکمران ان کے اتحادی ہیں۔ جو صلیبیوں کے کہنے پر اپنے مسلمان ملکوں میں ان کا شیطانی نظام راج کیے ہوئے ہیں جو یہودونصارا کے کہنے پر چلتے ہیں جو مسلمانوں کے سروں کی قیمتیں وصول کر رہے ہیں۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں جن کو بجلی نہیں مل رہی، جن کو چولھا جلانے کے لیے گیس نہیں مل رہی۔ جن کے ملک پاکستان میں کارخانے بند ہیں۔ جن پر آئے دن ڈرون حملے ہو رہے ہیں، جو اپنے ہی ملک میں ہجرت کرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں، جن سے اپنی ہی فوج لڑ رہی ہے، عوام بار بار حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان سے مذاکرات کریں۔ ملک کی غالب اکثریت، دینی جماعتیں حتی ٰکے پارلیمنٹ کی قرارداد اور کمیٹی کی سفارش کہ حکومت کو خارجہ پالیسی تبدیل کرنی چاہیے موجود ہے، جن کے گھروں میں ڈکیتیاں ہو رہی ہیں، جو اپنے شہروں میں محفوظ نہیں ہیں، جن کے ملک میں کرپشن زوروں پر ہے، جن کے ملک کے حکمرانوں نے حج جیسے مقدس سفر کے اخراجات میں بھی کرپشن کر ڈالی۔ جو بے حد مظلوم قوم ہے جس کے لیے جانوروں سے بھی کم حقوق ہیں۔ یہ زلزلے کی ماری، سیلاب کی ماری، مہنگاہی کی ماری، بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ کی ماری، دکھوں کی ماری قوم جب بھی اپنے دین کی طرف بڑھتی ہے تو کوئی نہ کوئی شوشہ نادیدہ طاقتوں کی طرف سے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جیسے نظامِ مصطفیٰ ؐکی تحریک میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء امریکہ نے لگوا دیا تھا اور نظامِ مصطفیٰ ؐرائج کرنے کا موقعہ ضائع کر دیا گیا۔ لیکن اب حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مر مٹنے والے اوردین اسلام کے چاہنے والے یعنی اللہ والے ایک نقطے پر جمع ہو گیے ہیں اور ۵۱ تنظیموں نے اپنے آپ کو اس تحریک میں رجسٹرڈ کرا دیا تھا اور مزید آنے کی تیاری کر رہے تھے اور اپنی دینی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے نمائش سے تبت سنٹر تک مارچ اور جلسے مورخہ 9 جنوری2011 ء کا اعلان کر دیا گیاتھا اور اس بات کا بھی اعلان کر دیا تھا کہ پہلے کی طرح کسی بھی طالع آزماء کو اس تحریک کو ہائی جیک کرنے نہیں دینگے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے، توہین رسالت ؐ قانون کو تبدیل کرنے وا لے اور دین نظامِ مصطفیٰ ؐکو رائج ہونے سے روکنے والے ہاتھوں کو توڑ دیں گے۔ اور پاکستان میں جاری گو امریکہ گو مہم کی کامیابی تک یہ تحریک جاری رہے گی۔ یہ مارچ جلسہ بہت ہی کامیاب ہوا تھا حکومت تو دینی جماعتوں کے سامنے سر نگوں ہو گئی اور ایک بہت بڑی سازش فیل ہو گئی، مگر افسوس کہ دینی جماعتوں کے اس اتحاد کو یہ کہہ کر ختم کر دیا گیا کہ حکومت نے ہمارا مطالبعہ پورا کر دیااب اس اتحاد کی ضرورت نہیں۔
قارئین ہمارے نزدیک ایسے اتحاد وقت کی ضرورت ہے ہم اپنے کالموں میں اتحاد امت کے نام سے کالم لکھ رہے ہیں قوم کی امنگیں بھی ایسے دینی اتحاد کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ ہماری پاکستان کے علماء اور نظریہ پاکستان پر یقین رکھنے والی تمام دینی سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ وہ پاکستان کے مسلمانوں کو اتحاد کا تحفہ دیں اس سے اللہ بھی خوش ہوگا اور یہ وقت کی ضرورت ہے ملک بہت ہی مشکل وقت سے گزر رہا ہے دنیا کے تمام ملک امریکہ کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں، امریکہ اپنی جنگ افغانستان سے پاکستان میں لے آیا ہے، ہماری فوج اور آئی ایس آئی پر دباو ڈال کر اپنے ملک کے شہریوں سے لڑنے کے لیے کہہ رہا ہے، ہمارے ملک پر حملہ کر چکا ہے، ہماری آزادی اور خود مختاری ختم کر چکا ہے، ایسے وقت پر قوم کو اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی مسلح افوج کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنی چاہیے۔ یہ ملک ہوگا تو ہم ہوں گے، اللہ ہمارے ملک کی حفاظت کرے آمین ۔
مذہب فروشی کی ایک اور نئی دکان سے زیادہ کچھہ بھی نہیں یہ سب۔ حرمت رسول پر جان بھی قربان ہے۔ اور تعلیمات رسول کا کیا ہے ؟
فکر پاکستان والے صاحب ضد اور الزام تراشی میں اتنے دور نکل جاتے ہیں کہ ایک غیر مذہب بھی نہیں نکل سکتا، اور کاش دلیل کا جواب دلیل سے دیا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا۔ ہم تو جھوٹ کے مقابلے میں سچ ہی بولیں گے چاہے کچھ بھی ہو۔
اے اللہ ہمیں صحیح سمت میں سوچنے کی توفیق عطا فرما۔ سارا مغرب ہمارے مذہب کے پیچھے پڑے ہوئے۔ ہم مسلمانوں کو اپنے دین کی حفاظت کی توفیق عطا فرما۔ آمین۔
حضرت !!! بھان متی کے کنبہ کو یہ قوم بہت بھگت چکی ہے. کیا نواز شریف، کیا ایم کیو ایم ، کیا پیپلز پارٹی اورکیا قوم پرست جماعتیں…..آج لوگ سوال کر رہے ہیں. اور یہ سوال ایم کیو ایم سے بھی ضرور ہوگا کیونکہ ایم کیو ایم 10 سال سے زائد عرصہ سے اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے. آج نہیں تو کل سوال ضرور ہونگے. کہ تم ہمیشہ اقتدار سے چمٹے رہنا چاھتے ہو. غریب اور متوسط طبقات کی بات کرتے ہو مگر بیٹھتے اسی اشرافیہ اور سرمایہ دار کی گود میں جو تمہیں کراچی میں غلبہ کا لالی پاپ دیتا ہے. بجلی کا بحران ہو، یا کمر توڑ مہنگائی کا زکر، امریکی مداخلت ہو یا ناموس رسالت کا معاملہ تم نے کبھی بھی زیرلب بڑبڑاھٹ سے زیادہ کچھ نہیں کیا….
آپ ذرا ذرا سی بات پر پورے کراچی کو بند کرادیتے ہیں مگر آپ کو بجلی کے بحران پر عملی احتجاج کی توفیق نہیں ہوتی …ٹرانسپورٹ مافیا، لینڈ مافیا ، دودھ مافیا ، منافع خور مافیا جنہوں نے کراچی کے شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے ، آپ کو بھتہ دیتے رہیں تو آپ کو سب اچھا لگتا ہے. زبانی کلامی جمع خرچ البتہ آپ خوب کرتے ہیں.
آج نہیں تہ کل سوال ضرور ہونگے جناب….آج نہیں تو کل لوگ اس بھان متی اور اس کے کنبہ سے ضرور جان چھڑائیں گے.
مجھے سمجھ نہیں آتا کہ پاکستان کے سارے ڈیڑھ ہوشیار دین بیزار روشن خیال کہاں سے دلیلیں ڈھونڈھ کر لاتے ہیں ، کہ چونکہ امت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل نہیں کر رہی اس لیے اسے توہین رسالت پر بھی خاموش رہنا چاہیے….
اس پاکستان میں کون ہے جو توہین رسالت کا مرتکب نہیں ہورہا؟ کیا تعلیمات رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل نہ کرنا توہین رسالت نہیں ہے ؟ ہٹرتال چاہے کوئی بھی کرے وہ چاہے سیاسی جماعت ہو یا نام نہاد مذہبی جماعت ہو پاکستان کی اس کمزور معشیت کے باوجود ہڑتالیں کرنا بے مقصد ریلیاں نکالنا، بے ہودہ دھرنے دینا، ان سب کی وجہ سے روز کنواں کھود کر پانی نکالنے والا اپنی روزی کمانے والا بے آسرا رہ جاتا ہے اسکے بچے بھوکے مرتے ہیں، مریض اسپتال نہیں پہنچ پاتے راستے بند ہونے کی وجہ سے راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں، یہ سب حضور کی تعلیمات ہیں کیا؟ یا توہین حضور کی تعلیمات کی توہین ہیں یہ سب؟ ننگ سے بھوک سے لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں شریف گھر کی لڑکیاں جسم فروشی پر مجبور ہیں ملاوٹ کی وجہ سے لوگ زہریلی اشیاء کھانے پر مجبور ہیں یہ توہین رسالت نہیں ہے کیا؟ چائلڈ لیبر کے خلاف کبھی کسی نے آواز اٹھائی؟ یہ توہین رسالت نہیں ہے کیا؟ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا انکے امتی پانچ چھہ سال کی عمروں سے بھکاری بنائے جارہے ہیں یہ توہین رسالت نہیں ہے کیا؟ ان کتے کے بچوں کے صرف ایف سی کے وہ نوئے جوانوں کی شہادت نظر نہیں آتی جو عملی زندگی میں آنے سے پہلے ہی ماردئیے گئے، عین ٹریننگ کے آخری دن انکی زندگی کے چراغ گل کردئیے گئے ان کے لئیے کسی حرامی نے ریلی نہیں نکالی کسی نے غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھائی وہ کسی ماں کے لال نہیں تھے کیا؟ دھشت گردوں کو فورسز مارتی ہیں تو یہ حرامی سڑکوں پر آجاتے ہیں شور مچانے یہ سب توہین رسالت نہیں ہے کیا؟ بند کرو یہ بیہودہ بکواس اب بہت گمراہ کر لیا قوم کو اللہ کے واسطے اس قوم کو اب سکون سے جینے دو امن سے جینے دو، عزت نہیں دے سکتے تو کم از کم دو وقت کی روٹی تو نہ چھینو ان سے یہ ہڑتالیں دھرنے اور ریلیاں نکال کر۔ تمہارے یہ دھرنے یہ ہٹرتالیں یہ ریلیاں کچھہ بھی نہیں بگاڑ سکتیں امریکہ یا کسی اور کا۔ اس سے صرف اور صرف اپنے ہی ملک و قوم کی مزید بربادی ہونی ہے اللہ کے واسطے جان چھوڑ دو اب اس جاہل عوام کی۔
اس پاکستان میں کون ہے جو توہین رسالت کا مرتکب نہیں ہورہا؟ کیا تعلیمات رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل نہ کرنا توہین رسالت نہیں ہے ؟
کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ چونک سب توہین رسالت کے مرتکب ہیں اور یہ اجتماعی جرم ہے اس لئے اس قانون کو ہٹا دینا چاہئے؟ نہیں حضرت آپ فضول میں اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔
ہٹرتال چاہے کوئی بھی کرے وہ چاہے سیاسی جماعت ہو یا نام نہاد مذہبی جماعت ہو پاکستان کی اس کمزور معشیت کے باوجود ہڑتالیں کرنا بے مقصد ریلیاں نکالنا، بے ہودہ دھرنے دینا، ان سب کی وجہ سے روز کنواں کھود کر پانی نکالنے والا اپنی روزی کمانے والا بے آسرا رہ جاتا ہے اسکے بچے بھوکے مرتے ہیں، مریض اسپتال نہیں پہنچ پاتے راستے بند ہونے کی وجہ سے راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں، یہ سب حضور کی تعلیمات ہیں کیا؟
آپ کو یہ سب باتیں اس وقت کیوں یاد نہیں آتیں جب آپ کے من پسند سیاست دان ایسی حرکتیں کرتے ہیں، کاشف یحیی صاحب۔ آپ کو یہ سب انسانیت پسندی کی باتیں اسلام اور اسلام کے نام لیواؤں پر طنز کرتے ہوئے ہی کیوں یاد آتی ہیں؟ اب میں مثالیں دوں تو پھر آپ نے تعصب کا شور مچا دینا ہے۔ کبھی موقع ملے تو اپنے گریبان میں جھانک کر تو دیکھیں۔
یا توہین حضور کی تعلیمات کی توہین ہیں یہ سب؟ ننگ سے بھوک سے لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں شریف گھر کی لڑکیاں جسم فروشی پر مجبور ہیں ملاوٹ کی وجہ سے لوگ زہریلی اشیاء کھانے پر مجبور ہیں یہ توہین رسالت نہیں ہے کیا؟
مندرجہ بالا باتوں میں توہین رسالت کہاں سے آگئی؟ کیا دلائل اور نصوص سے ثابت کرنا پسند کریں گے آپ، جناب کاشف یحیی صاحب؟ جسم فروشی کا توہین رسالت سے کیا تعلق ہے؟
چائلڈ لیبر کے خلاف کبھی کسی نے آواز اٹھائی؟ یہ توہین رسالت نہیں ہے کیا؟
چائلڈ لیبر اور توہین رسالت؟ سمجھ نہیں آ رہی بات۔ کوئی نصوص ہیں آپ کے پاس یا محض اعتراض برائے اعتراض کی وجہ سے آپ یہ سب لکھے جا رہے ہیں؟
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا انکے امتی پانچ چھہ سال کی عمروں سے بھکاری بنائے جارہے ہیں یہ توہین رسالت نہیں ہے کیا؟
ان کتے کے بچوں کے صرف ایف سی کے وہ نوئے جوانوں کی شہادت نظر نہیں آتی جو عملی زندگی میں آنے سے پہلے ہی ماردئیے گئے، عین ٹریننگ کے آخری دن انکی زندگی کے چراغ گل کردئیے گئے ان کے لئیے کسی حرامی نے ریلی نہیں نکالی کسی نے غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھائی وہ کسی ماں کے لال نہیں تھے کیا؟
کاشف یحیی صاحب ، کیا آپ اپنی زبان سنبھال کر بات نہیں کر سکتے؟ کیا ایسا طرز تخاطب کسی شریف زادے کو زیب دیتا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنے کسی مخالف کو حرامی یا کتے کا بچہ نہیں کہا۔ آپ کس نبی کے امتی ہیں ؟ کس نبی کا طرز تخاطب ایسا ہے۔ میری معلومات کے مطابق ایسی گالیان تو مرزا غلام احمد قادیانی دیتا تھا۔ اللہ اکبر، آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں، آپ کے اپنے دلائل کی رُو سے اگر میں آپ سے پوچھوں کہ کیا آپ توہین رسالت کے مرتکب نہیں ہوئے تو آپ کا کیا جواب ہوگا؟
دھشت گردوں کو فورسز مارتی ہیں تو یہ حرامی سڑکوں پر آجاتے ہیں شور مچانے یہ سب توہین رسالت نہیں ہے کیا؟ بند کرو یہ بیہودہ بکواس اب بہت گمراہ کر لیا قوم کو اللہ کے واسطے اس قوم کو اب سکون سے جینے دو امن سے جینے دو، عزت نہیں دے سکتے تو کم از کم دو وقت کی روٹی تو نہ چھینو ان سے یہ ہڑتالیں دھرنے اور ریلیاں نکال کر۔ تمہارے یہ دھرنے یہ ہٹرتالیں یہ ریلیاں کچھہ بھی نہیں بگاڑ سکتیں امریکہ یا کسی اور کا۔ اس سے صرف اور صرف اپنے ہی ملک و قوم کی مزید بربادی ہونی ہے اللہ کے واسطے جان چھوڑ دو اب اس جاہل عوام کی۔
آپ تو اسے جذباتی ہو رہے ہیں جیسے سب کیا دھرا ان مذہبی جماعتوں کا ہے۔ میں آپ کے بلاگ پر پہلے بھی آپ سے درخواست کر چکا ہوں کہ فضول تنقید سے بہتر ہے آپ کوئی قابل عمل متبادل لائحہ عمل دیں۔ تب ہم آپ کی نیک نیتی جان سکیں گے۔ ایسی یاوہ گوئی صرف آپ کی شخصیت کے بارے میں منفی تاثر ہی چھوڑ سکتی ہے۔ جناب کاشف یحیی صاحب، میری درخواست پر غور کریں اور آئیندہ تنقید سے پہلے سوچ لیں کہ کیا آپ کے پاس کوئی متبادل موجود ہے؟؟؟؟؟؟
اگر نہیں تو کچھ نہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا۔
حضور کبھی غور سے پڑھا بھی ہے ان دھرنوں اور ہڑتالوں کے پوسٹرز کو؟ صرف اپنے آقا امریکہ کا نام سنا اور دانت نکوسے پہنچ گئے؟
Excellent comments and very true situation analysis. These Pseudo Religious parties are a black mark on our religion. They have been acting as Ulama E Soo and have No concern about true Islam. There is NO provision of such stupid Hartals in Islam
اولاد چاہے کتنی ناہنجار اور نالائق کیوں نا ہو اپنے باپ کی توہین برداشت نہیں کرتی .کیا تبصرہ نگار اپنے والد محترم کے خلاف بکواس برداشت کرسکتے ہیں؟ اگر کوئی اپنے باپ کو دی جانے والی گالی پر خاموش رہے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ وہ نطفہ نا تحقیق ہے…
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امت کے روحانی باپ ہیں.یہ امت چاہے کتنی ہی بگڑ جائے. اپنے نبی کی شان میں گستاخٰی کبھی برداشت نہیں کرسکتی. جو برداشت کرتے ہیں وہی اصل حرامی اور ملعون ہیں. جن پر دنیا میں بھی لعنت بھیجی گئی ہے اور آخرت میں انکا حساب الگ ہوگا.
بھوکے کو روٹی کیوں نہیں ملی، بیمار کو دوا کیوں نہیں ملی، کنواں کیوں نہیں کھودا، غریب کی دیکھ بھال کیوں نہیں کی ، ٥ سال کی عمر میں بھکاری کیوں بنا دیا گیا ، شریف گھرانوں کی لڑکیاں کیوں جسم فروشی پر مجبور ہوئیں؟ یہ وہ سوال ہیں جو اشرافیہ سے کرنے والے ہیں جن کے بارے میں آواز اٹھانا گناہ سمجھا جاتا ہے. راستے میں لوگ ریلیوں کی وجہ سے نہیں وی آئی پی موومنٹ بروزن متحدہ قومی موومنٹ کی وجہ سے دم توڑتے ہیں. کیا اس اشرافیہ کے جرائم کو کسی ثبوت کی ضرورت ہے ؟ کیا یہ سسٹم چلنے والا سسٹم ہے ؟ لوگ کب تک برداشت کریں گے ؟ حد ہوتی ہے کسی چیز کی …
ہان جی فکر پاکستان نے ٹھیک فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہڑتال تو صرف اس ٹائم کرو جب کوئی بھتہ نہ دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی بڑے ہی بیغیرت لوگ متحدہ ہو گئے ہیں :0 👿
بھائیو اگر کسی باپ کے دو بچے ع اور غ ہیں۔ باپ اپنے دونوں بچوں کو نصیحت کرتا ہے کہ بیٹا سگریٹ نہیں پینا، جھوٹ نہیں بولنا، فواحش میں مت پڑنا۔ اب ع ان نصیحتوں کو سن کر اس کو حق جانتا ہے لیکن کبھِی باپ کی غیر موجودگی میں سگریٹ پی لیتا ہے، کبھی جھوٹ بھی بول دیتا ہے۔ اسکے مقابلے میں غ یہ نصیحتیں سن کر اپنے باپ کو گالیاں دینے لگتا ہے۔ اب آپ کے خیال میں کیا ع اور غ کا جرم برابر ہے؟ ع کو ہم نافرمان سمجھ سکتے ہیں لیکن توہین کرنے والا نہیں جبکہ اس کے مقابلے میں اپنے باپ کا منہ پر ہی انکار کرنے والا اور اسے گالیاں دینے والا تو لعنتی اور قابل تعزیر ہے۔
لیکن کیا کریں کے استعمار کے چمچے اپنی حرکتوں سے باز آنے والے نہیں۔ یہ اپنی مطلب براری کے لیے جاہلانہ تمثیلیں گھڑ لاتے ہیں کہ اس ملک میں کون توہین رسالت نہیں کرتا۔ منافقت کی حد ہوتی ہے۔ اگر کوئی انکے والد ماجد کو گالیاں دیدے بلکہ ان کے مربی پیر صاحب لندن والے کو کوئی غلط بات کہہ دے تو جامے سے باہر ہوجاتے ہیں جس کا مظاہر آپ دیکھ رہے ہونگے۔ لیکن مقدس ترین ہستی کی توہین پر احتجاج سے معیشت کو نقصان ہوتا ہے کی بکواس کریں گے۔
یہ جہلاء کہتے ہیں کے احتجاج اور ہڑتالوں سے روز کمانے والے عام آدمی کا نقصان ہوتا ہے۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ یہ جو اللہ باران رحمت برساتا ہے تو اس سے بھی بہت سوں کے گھر ڈھے جاتے ہیں۔ تو کیا اللہ رب العزت بارش برسانا بند کردے کہ اس سے کچھ لوگوں کو نقصان ہوتا ہے لیکن بحیثیت مجموعی انسانیت کا بھلا ہوتا ہے۔ فصلوں کے لیے پانی وافر مقدار میں دستیاب ہوجاتا ہے جس سے اکثریت کی غذائی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ ان بے ضمیروں کی عقل پر ماتم کے علاوہ اور کیا کیا جاسکتا ہے۔ تف ہے ان پر۔
یارو۔۔۔ میرے اعمال اپنی جگہ۔۔۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اپنی جگہ۔۔۔ میں تھوڑا سا نافرنبردار بھی ضرور ہوں لیکن میرے عشق رسول کی شدت کو کوئی نہیں مانپ سکتا۔۔۔ میں ہر گناہ کروں لیکن میرے رسول کی شان میں کوئی گستاخی کردے تو میری حرارتِ ایمان جوش مارتی ہے۔۔۔ میرے محبوب پر کوئی انگلی اٹھائے تو میں اس انگلی سمیت پورے جسم کو کاٹ دینا مناسب سمجھتا ہوں۔۔۔
یارو۔۔۔ میرے جیسے کروڑوں عاشقان رسول کی نیتوں پر شک نا کرو۔۔۔ کہ وہ بھی پروانے ہیں میرے محبوب کے۔۔۔
یارو۔۔۔ غلطیاں گناہ ہر جگہ ہیں۔۔۔ لیکن خدارا ہماری نیتوں پر تو شک نا کرو۔۔۔
جو گناہ اور قصور کاشف یحییٰ نے گنوا دیے ہیں۔۔۔میرے نزدیک۔۔۔ وہ مذہب سے زیادہ حکومتی اور سیاسی نوعیت کے ہیں۔۔۔مثال کے طور پر حکومتِ وقت اگر سود جائز کر دے۔۔۔ تو حساب بھی حاکمِ وقت سے زیادہ ہو گا۔۔۔ حکومتِ وقت اگر معاش نہیں مہیا کر رہی۔۔۔ حکومتِ وقت اگر حفاظت نہیں میسر کر پا رہی۔۔۔ تو اس میں شدائیانِ رسول اللہ کا کیا قصور ہے۔۔۔۔
کاشف یحییٰ صاحب۔۔۔ خدارا۔۔۔ ہر جگہ عام مسلمان اور عوام کا قصور نکالنا بند کیجیے۔۔۔ ہم کو بھی بولنے کا حق ہے۔۔۔ ہم کو بھی اپنی آواز دوسروں تک پہنچانے کا حق ہے۔۔۔ آپ کی نظر میں ہم غلط ٹھرے تو آپ بھی لکھیے۔۔۔ آپ بھی ہمارے خلاف روشن خیالیوں کے جلوس نکالیے۔۔۔ لیکن براہ مہربانی۔۔۔ ہماری نیتوں پر شک مت کیجیے۔۔۔۔
سلام پیش کرتا ہوں منتظمینِ “اللہ والوں کی ہڑتال” کو۔۔۔ کہ اتنا پرسکون اور منتظم جلسے کا انعقاد کیا۔۔۔
اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے۔۔۔ آمین۔۔۔
اگر کوئی کراچی میں رہتا ہے تو اسکا مطلب یہ ہوگیا کے وہ متحدہ قومی موومنٹ کا رکن ہے ؟ بہت واضع الفاظ میں بتا رہا ہوں کے میرا تعلق نا کسی سیاسی جماعت سے ہے نا ہی کسی نام نہاد مذہبی جماعت سے۔ میں صرف پاکستانی ہوں اور مسلمان ہوں۔ یم کیو ایم کو جس نے جتنا برا کہنا ہے جی بھر کے کہے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا پورے پاکستان میں ایسی کوئی سیاسی جماعت ہی نہیں جسکی حمایت کی جاسکے، اور مذہبی جماعتوں کے تو بات ہی چھوڑ دیں یہ سب مذہب فروش ہیں۔ اس وقت پاکستان جس تاریخی بد تر دور سے گزر رہا ہے اس میں ہٹرتال کرنا ملک سے غداری کے مترادف ہے تبصرے پر تبصرے کرنے والے غور سے پڑھیں کے میں نے واضع الفاظ میں لکھا ہے کے چاہے کوئی بھی سیاسی جماعت یا نام نہاد مذہبی جماعت ہٹرتال کرے وہ غلط ہے۔ یہ جو ہٹرتالوں اور دھرنوں پر فخر کرنے والے لوگ ہیں آج تک کیا ملا ہے انہیں ہٹرتالیں کر کے اور دھرنے دے کر؟ سوائے لوگوں کی بددعائیں لینے کے لوگوں کو پریشان کرنے کے کیا ملا ہے انہیں؟ ہر دوسرے دن یہ جاہل لوگوں کو ہٹرتالوں دھرنوں اور ریلیوں میں الجھائے رکھتے ہیں بجائے کوئی مثبت سوچ دینے کے کوئی مثبت اقدام کرنے کے الٹا ملک کے بربادی کا سبب بنتے ہیں لوگوں کی پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کے ہڑتالوں دھرنوں اور ریلیوں کی حمایت وہ لوگ کر رہے ہیں جو بیچارے خود سب سے زیادہ اس سسٹم کی گندگی کا شکار ہیں جہیں پاکستان کی معیشت کی بربادی اور مناسب روزگار کے زرائع نہ ہونے کے سب پاکستان سے دور اپنے گھر والوں سے دور روزی کی تلاش میں جانا پڑا ہے، یہ جو لوگ جماعت اسلامی کے پوسٹر دکھا رہے ہیں ان سے پوچھو کے پچھلے تیس سالوں سے اس ہی سب ڈرامے بازی کی روٹی کھا رہے ہیں یہ لوگ اور انکے اکابرین، پاکستان کو تو کوئی فائدہ نہ ہوا ہاں حکومتوں کو بلیک میل کر کر کے ان کے اکابرین نے کروڑوں روپے بنا لئیے، اور یہ جاہل صرف اور صرف ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں اور انشاءاللہ ہوتے رہیں گے۔ پاکستان کی معیشت وینٹیلیٹر پر ہے اس وقت کوئی بھی ہٹرتال کرے وہ ملک سے غداری ہے پھر چاہے وہ ایم کیو ایم ہو اے این پی ہو پی پی پی مسلم لیگ ہو یا کوئی سی بھی سیاسی جماعت ہو یا نام نہاد مذہبی جماعتیں ہوں یہ لوگ ایسی گھٹیا حرکتیں کر کے پاکستان کو مزید کمزور کر رہے ہیں، ہمت ہے کسی میں تو جاو جی ایچ کیو کے سامنے دھرنا کے کر دکھاو وہاں انکی ماں مرتی ہے دھرنے دیتے ہوئے، اور اپنے پہلے تبصرے میں جتنی باتیں میں نے گنوائی ہیں وہ سب توہین رسالت کے زمرے میں ہی آتی ہیں، توہین رسالت کا مطلب صرف یہ ہی نہیں ہے کے حضور پاک کی شان میں بدکلامی کی جائے، حضور پاک کی تعلیمات کے برخلاف عمل ہونا بھی توہین رسالت کے زمرے میں ہی آتا ہے، یہ جماعت اسلامی والے جو آج ہر دوسرے روز اسلام کا رونا رو کر دھرنے ریلیاں ہٹرتالیں کررہے ہیں انہیں مشرف دور میں پورے پانچ سال سرحد میں مکمل حکومت ملی ہے کیا تیر مار لیا انہوں نے سرحد میں؟ کونسی شریعت نافذ کردی انہوں نے سرحد میں؟ دین کی کیا خدمت کی انہوں نے پانچ سالوں میں؟ مشرف کو بلیک میل کرتے رہے اور مال لے کر اسکے ہر اقدام کی حمایت کرتے رہے، پانچ سال دھشت گرد پالتے رہے یہ دھشت گردوں کے ہاتھہ مظبوط کرتے رہے جسکا خمیازہ آج پورا پاکستان بھگت رہا ہے۔ یہ سب مذہب فروش ہیں انکا مذہب سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ منیر عباسی صاحب بلکل یہ سب کیا دھرا ان ہی مذہب فروشوں کا ہے پورے پانچ سال ان ہی لوگوں نے صوبہ سرحد میں دھشت گردوں کو دودھہ پلا کر پالا ہے ان لوگوں نے جسکا بھگتان آج پورے پاکستان کو دینا پڑ رہا ہے، کبھی خود کش حملوں کے خلاف ان لوگوں نے ریلی کیوں نہیں نکالی ؟ سوائے علامہ طاہرالقادری کے کسی ایک عالم کا فتویٰ لا کر دکھا دیں خود کش حملوں کے خلاف میں بلاگ لکھنا چھوڑ دونگا۔ اوقات یہ ہے کے پورے پاکستان سے تین سیٹیں نہیں نکال سکتے انکے اس ہی مذہب فروشی والے کارناموں کی وجہ سے لوگ ان پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرتے، اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کے تمام سیاسی جماعتوں سے بار بار ڈسنے کے باواجود لوگ ان مذہب فروشوں کے ووٹ دینے کو تیار نہیں ہیں انکی اوقات جاننے کے لئیے اتنا ہی کافی ہے۔ بجائے قوم کو مثبت سوچ دینے کے کوئی تعمیری راہ دکھانے کے یہ جانور دھرنے اور ہٹرتالوں جیسے گھٹیا کاموں میں الجھائے رکھتے ہیں آفرین ہے ان جاہلوں پر بھی کے ہر دوسرے روز ان مذہب فروشوں کا ایندھن بننے کے لئیے سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ متبادل تو میں اپنی ہر تحریر میں پیش کرتا ہوں کے ان دھرنوں اور ہٹرتالوں سے نکلو قوم پرستی سے نکلو، فرقہ پرستی مسلک پرستی سے نکلو، یہ ریلیوں کی جہالت چھوڑو علم و تحقیق کی طرف آو، خود اگر ان مذہبی اور سیاسی جماعتوں کا ایندھن بن کے ضایع ہو چکے ہو تو خدارا اپنی نسلوں کے ان سب درندوں سے بچاو، بجائے ان سب کی درندگیوں کی حمایت کرنے کے انکی مخالفت کرو اپنے بچوں کے بتاو کے کامیابی دھرنوں اور ہٹرتالوں سے یا فرقوں میں قومیتوں میں بٹنے سے نہیں ملتی کامیابی علم سے ملتی ہے تعلیم سے ملتی ہے مثبت سوچ سے ملتی ہے، ان سب جانوروں سے بچاو اپنی نسل کو یہ ہے متبادل خود اگر معیاری تعلیم حاصل نہیں کرسکے تو اپنے بچوں کو ایک مشن کے طور پر اپنا سب کچھہ لٹا کر وہ اعلیٰ تعلیم دلواو تاکے کہیں سے تو یہ جاہلت کا سلسلہ رک سکے اور کوئی مثبت اور تعمیری راہ نکل سکے۔ اور اگر جاہلت میں رہنا ہی عزیز ہے تو پھر بناو ایندھن اپنے بچوں کے بھی ان ہی سیاسی جماعتوں کا اور ان مذہب فروشوں کا اگر یہ ہی سوچ رہی تو پھر حق بنتا ہے کے اس قوم کے اوپر ذرداری جیسے حکمران ہی حکومت کریں۔
دو نومبر 2009 کی یہ خبر ضرور پڑھنا افاقہ ہوگا اور اگر غیرت ہوئی تو بلاگنگ بھی چھوڑ دینا۔ اس کے ساتھ مولانا حسن جان کا فتویٰ بھی پڑھ لینا جو خودکش حملوں کو حرام قرار دینے کی وجہ سے ہی شہید کیے گئے، باقی کی بکواس کا جوب تو وقار بھائی نے دے دیا ہے۔ اور ہاں وہ پوسٹر میں نے تم جیسے جھوٹوں کو گھر تک پہنچانے کے لیے لگائے ہیں کہ جماعت صرف امریکہ کے خلاف ہی جلسے کرتی ہے۔ ویسے تو تم سر تا پا جھوٹے ہو، لیکن پھر بھی اگر تم میں تھوڑی سی بھی غیرت ہوئی تو کم از کم معافی ضرور مانگنا اپنے اس جھوٹ پر۔۔۔۔ اور یہ رہا علماء کا فتوی جس میں سب شرکاء کے نام بھی موجود ہیں۔ پڑھ لو او اپنے عہد کو پورا کرو ورنہ چُلو بھر پانی تو ہوگا ہی تمہارے یہاں۔۔۔۔ 😉
علماء کا خودکش حملوں کے خلاف فتویٰ
مجھے امید ہے کاشف یحیی صاحب اب اپنے قول کی پاسداری کرتے ہوئے بلاگنگ ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیں گے۔ میری نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں۔ میری دعا ہے کہ وہ اب حقیقی دنیا میں بہتر اور تعمیری کام کرنے کے لئے وقت نکال پائیں گے، مگر میں یہ بھی چاہوں گا کہ وہ جاتے جاتے میرے سوال کا جواب بھی دے جائیں جس میں میں نے ان سے استفسار کیا ہے کہ اپنے مخالفین کو حرامی یا کتے کا بچہ کہنے سے توہین رسالت ہوتی ہے یا نہیں۔
والسلام۔
پہلے آپ یہ کہتے ہیں کہ :
سوائے علامہ طاہرالقادری کے کسی ایک عالم کا فتویٰ لا کر دکھا دیں خود کش حملوں کے خلاف میں بلاگ لکھنا چھوڑ دونگا۔
پھر آپ یہ کہتے ہیں کہ:
یہ جتنے نام آپ نے اس لنک میں دیئے ہیں یہ سب بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں اور یہ بھی آپ جانتے ہی ہونگے کے طاہر القادری صاحب بھی بریلوی مسلک سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ بریلوی مسلک کیونکے پر امن اور تصوف کے ماننے والے لوگ ہیں اسلئیے یہ لوگ بلکل مخالف ہیں اس دھشت گردی اور خود کش حملوں کے۔ مجھے کسی دیوبندی کسی سلفی کسی اہل حدیث کسی وہابی کسی منافق جماعتیئے کا فتویٰ دکھا دیں آپ کی بات مان لونگا میں۔
پھر آپ یہ کہتے ہیں کہ :
مجھے بریلویٰ مسلک کے علاوہ فتویٰ دکھا دیں آپ
پھرجب آپ کو یہ بتایا جاتا ہے کہ :
اجلاس کے شرکاء میں ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی، مفتی محمد خان قادری، انجینئر سلیم اللہ، مولانا محمد خان لغاری، مفتی صفدر علی قادری، مولانا عبدالمالک، علامہ زبیر احمد، عبدالرؤف ملک، محمد سیف اللہ نقشبندی، محمد اطہرالقادری، ڈاکٹر مفتی غلام سرور قادری بخاری، شیخ محمد نعیم بادشاہ، عاکف سعید، محمد مشتاق، خلیل الرحمن حقانی، فرید احمدپراچہ، مولانا محب النبی، محمد یحییٰ مجاہد، مولانا امیر حمزہ، حافظ خالدولید، پروفیسر حافظ محمد سعید، مولانا سید نیاز حسین نقوی، نصرت علی شہانی، حافظ پروفیسر محمد حسیب، ابوعمار زاہدالراشدی، مفتی محمد حسیب قادری، قاری منیر احمد برکاتی، مجیب الرحمن انقلابی اور علامہ فضل الرحیم شامل ہیں۔۔۔
اب میں جن چند کو جانتا ہوں انہیں کے بارے میں بتا دیتا ہوں کہ مولانا عبدالمالک، عاکف سعید، فرید احمدپراچہ (نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان)، مولانا امیر حمزہ (مدیر الدعوہ، جماعت الدعوۃ)، پروفیسر حافظ محمد سعید (جماعت الدعوۃ)۔
مولانا حسن جان کا تعلق جمعیت علماء اسلام سے تھا۔ آپ کو خودکش حملوں کی مخالفت اور انکے خلاف فتوی دینے کی پاداش میں مولانا نعیمی سے بہت پہلے 15 ستمبر 2007 کو افطار کے وقت شہید کیا گیا۔
مولانا حسن جان شہید دیوبندی تھے ، اطلاعا عرض ہے۔
تو آپ خاموش ہو جاتے ہیں، بلکہ اپنا پینترا بدل کر جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کی کردار کشی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
میرا سوال ہے: آپ بلاگنگ کب چھوڑیں گے؟
یہ تو تقیہ کرنے لگے بھئی اپنے بلاگ پر تو دس جگہ بھائی کے گن گاتے رہے ہو اور اب ایک اور جھوٹ کہ میرا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے۔ یار تم سے بڑا ____ کون ہوگا۔ ہڑتالیں اور جلسے قوم سے غداری کے مترادف ہیں۔ اپنے استاد حسن نثار جس کا چھاپہ تو لگاتا ہے، سے بھی پوچھ کہ وہ پھر کیوں میرا بھائِ موومٹ کے گن گاتا ہے؟ کاہے کو زمین اور آسمان کے قلابے ملاتا ہے جب یہ کراچی یا لاہور میں جلسے کرتے ہیں اور مزدوروں کو دیہاڑی دینے کے جھانسے میں پکڑ کر لے جاتے ہیں؟
اس کا قصور نہیں ہے بھئی۔ اس نے اگر بھائی کی فکر کے علاوہ کسی اور فکر کو اپنایا ہوتا اور کچھ تعلیم حاصل کی ہوتی تو شاید کچھ علم و حکمت کی باتیں کرتا۔ ساری دنیا میں اپنے مطالبات منوانے اور اپنا پر امن پروگرام پیش کرنے کا یہی طریقہ رائج ہے۔ لوگ ریلیاں نکالتے ہیں، ہڑتالیں کرتے ہیں کہ یہ جمہوری طریقہ ہے۔ آج تک کسی مفکر و دانشور نے نہیں کہا کہ یہ سب کچھ ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ دور غلامی کو ہی لے لیں۔ ایسے حالات میں جب مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بے تھی مسلم لیگ الگ وطن کا مطالبہ لیے کھڑی ہوئی اور جلسے جلوسوں اور ہڑتالوں سے اپنی طاقت کا احساس دلایا اور بالآخر اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی لیکن استعمار کے ایجنٹ اور چمچے جنہیں پالا ہی اس لیے جاتا ہے کہ وہ اسلام پسندوں پر بھونکیں سیدھے سادھے عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے یہ دجال کے حواری جاہلانہ تمثیلیں گھڑ لاتے ہیں۔ اور نام کیا رکھتے ہیں؟ فکر پاکستان۔۔۔۔ حالانکہ اسے فکر جہالستان ہونا چاہیے۔
بلاگستان میں جہاں انہیں اپنے آقا کے خلاف کچھ لکھا نظر آئے تو پہنچ گئے نمک حلالی کرنے کے لیے۔ یاد رکھو، پاکستانی عوام تم ____ کی حرکتوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہ استعمار کے چمچے جب امریکہ افغانستان پر حملہ کرتا ہے تو اس کے حق میں ویلکم امریکہ ریلی نکالتے ہیں۔ لیکن استعمار مخالف ریلی پر بھونکتے ہیں۔ یہ جماعت اسلامی والے ہر دوسرے دن اس لیے نکلتے ہیں کہ تم جیسے منافقوں کو ننگا کیا جاسکے۔
پاکستان میں انتخابی نظام کی کمزوریاں تو سب پر واضح ہیں لیکن اس کے باوجود اس فکر جہالستان جیسے ____ جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتے۔ یہاں کامیاب ہونے کے لیے ہر طرح کے حربے آزمائے جاتے ہیں۔ لوگوں کو نوکریوں کا جھانسہ دیا جاتا ہے۔ ٹھیکوں کی بندربانٹ، برادردی سسٹم، پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے، مخالفین پر حملے وغیرہ اس سب کے ساتھ ساتھ پری پول ریگنگ۔۔۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ پری پول ریگنگ کیسے۔ جناب کراچی کی مثال لیجیے۔ یہاں لسانی فسادات اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ایک دوسرے کے لوگوں کو مارنا اور اپنے ہم زبان لوگوں کو یہ باور کرانا کہ اگر ہم کامیاب نہ ہوئے تو مخالفین تمہیں کراچی میں رہنے نہیں دیں گے۔
اس سب کے ساتھ الیکشن تو جماعت اسلامی نہیں لڑ سکتی نا بیٹا۔ اگر جماعت بھی یہی حرکتیں شروع کردے تو ہم میں اور تم منافقین میں کیا فرق رہ جائے گا؟ اگر جماعت بھی یہ سب شروع کردے تو کامیابی دور نہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود 2001 کا الیکشن بھول گئے کیا؟
صوبہ سرحد میں حکومت بنانے کے بعد جو کام کیے اس کے پھل تو آج تک موجودہ حکومت کھارہی ہے اور اس عقل کے اندھے کو یہ تک نہیں معلوم کہ صوبائی حکومت شریعت نافذ کر نے کے اختیارات ہی نہیں ہیں۔ اس کی طرف صرف ایک قدم حسبہ بل تھا جسے اس کے پیر و مرشد پرویز مشرف نے مختلف حیلے بہانوں سے نافذ نہیں ہونے دیا۔
اگر علم و تحقیق ہی سب کچھ ہوتی تو چنگیز خان کے ہاتھوں سقوط بغداد نہیں ہوتا۔ کہ جب چنگیز خان کی فوجیں سرحد پر دستک دے رہی تھیں تو عالم فاضل حضرات مباحثوں میں لگے تھے۔ روسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کون سی علم و تحقیق ہورہی تھی؟ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں کون سی علم و تحقیق ہوئی کہ جس کی بدولت انہوں نے ایرام و شام جیسی سپر پاورز کو برباد کردیا؟
عقل کے اندھے افغانسان میں اپنے سابق والد ماجد روس کا حال نہیں دیکھا کیا؟ ان کے پاس کون سا ایٹم بم تھا؟ جب انہوں نے روس کو للکارانے کا اعلان کیا تو اس جیسے جاہل کہتے تھے کہ یہ روس سے لڑیں گے۔ روس سپر پاور ہے، یہ تو جہاں گیا ہے وہاں سے واپس نہیں آیا ہے۔ عافیت اسی میں ہے کہ سر جھکا کر اور ہاتھ باندھ کر غلامی کی زندگی اختیار کرلو۔ کیونکہ ملک تو انتہائی ناگفتہ بہ صورت حال سے گذر رہا ہے۔ ان حالات میں بغاوت ملک سے غداری کے مترادف ہوگی۔ یہ جاہل نیا نہیں ہے بھئی۔ لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح نہتے افغانیوں نے سوویت یونین کو دریائے آمو کے اس پار دھکیل دیا۔ یہ جاہل اس کے جواب میں بھونکیں گے کہ ان کو امریکہ کی طرف سے اسلحہ اور ڈالر مل رہے تھے۔ ان مادیت پرستوں کو کیا معلوم کہ جذبہء ایمانی کیا چیز ہوتی ہے۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ آج کل یہ افغان مجاہدین سے طالبان سے مذاکرات کرنے کی کوشش کیوں کررہے ہیں؟ ویت نام میں اپنے آقا کا حشر یاد نہیں کیا؟ کیوبا اور ایران کی مثالیں یاد ہیں کہ نہیں؟ انہوں نے کون سی علم و تحقیق میں ترقی کی ہے۔ ایران میں تو اسلام پسندوں نے تم جیسے _____کی ____ پر خوب لات ماری ہے جو ان سے پہلے ایرانی عوام کی قسمت امریکہ کے حوالے کیے بیٹھے تھے۔
حقیقت یہی ہے کہ ان بے سروسان مجاہدین نے ان کے آقا و مولا کا افغانستان میں بھرکس نکال دیا ہے اور اب وہ وہاں سے نکلنے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔ اور یہ نام نہاد فکر مند ہمیں امریکہ کی ذہنی غلامی پر رضامند کررہا ہے کہ ہم امریکہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ شرم اس جیسوں کو مگر نہیں آنی۔ اب یہ مزید بھونکیں گے۔ یہ جاہل سمجھتے ہیں کہ زیاد بھونکنے سے، اونچا بھونکنے سے یہ مخالفین کو خاموش کروادیں گے، تم جیسوں کے لیے محترم نعیم صدیقی کا ایک شعر نظر کرتا ہوں کہ:
باطل کے سیاست بازوں ہم
ہرباطل سے ٹکرائیں گے
ہر جھوٹ پہ دھاوا بولیں گے
مکاری سے لڑجائیں گے
بازار میں کھوٹے سکوں کا
یوں عام چلن کیوں ہونے دیں
ہر کفر کا رستہ روکیں گے
ہر ظلم کے آڑے آئیں گے
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
وجاہت اقبال صاحب میرے ہی موقف کی تائید کر دی ہے آپکے دئیے ہوئے لنک نے۔ یہ جتنے نام آپ نے اس لنک میں دیئے ہیں یہ سب بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں اور یہ بھی آپ جانتے ہی ہونگے کے طاہر القادری صاحب بھی بریلوی مسلک سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ بریلوی مسلک کیونکے پر امن اور تصوف کے ماننے والے لوگ ہیں اسلئیے یہ لوگ بلکل مخالف ہیں اس دھشت گردی اور خود کش حملوں کے۔ مجھے کسی دیوبندی کسی سلفی کسی اہل حدیث کسی وہابی کسی منافق جماعتیئے کا فتویٰ دکھا دیں آپ کی بات مان لونگا میں۔ یہ بات مجھے بھی پتہ ہے کے ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو ان دھشت گردوں کے خلاف ہی فتویٰ دینے کی پاداش میں شہید کیا گیا ہے میرا سلام ہے اس شہید پر کہ وہ حق کی راہ میں شہید ہوا۔ بریلوی مسلک تو پہلے سے ہی ان درندوں کی درندگی کا شکار ہے مزاروں پر حملے مساجدوں پر حملے یہ سب ان دھشت گردوں نے بریلوی مسلک پر ہی حملے کیئے ہیں۔ بریلوی مسلک والے تو کبھی بھی خود کش حملوں کے حق میں سڑکوں پر نہیں آئے، یہ جھوٹے منافق اور جانور جماتی جو ہیں نہ یہ ہین فساد کی اصل جڑ انکے ہاں تو کوئی عالم بھی نہیں ہوتا یہ کہاں سے دیں گے فتویٰ یہ منافق ہیں کنجر نہیں مذہب فروش ہیں دھشت گردوں کے سردار ہیں۔ ضیاءالحق کی جائز اولاد ہیں یہ لوگ۔ ان جانوروں میں سے کوئی ایک بھی خود کش حملوں کے خلاف ریلی نہیں نکالتا۔ مجھے بریلویٰ مسلک کے علاوہ فتویٰ دکھا دیں آپ۔ اور یہ جو منافق اعظم بکواس کر رہا ہے اسے کھلا چیلنچ ہے کے میرے بلاگ یا کسی اور کے بلاگ پر میرا کوئی ایک بھی تبصرہ ایم کیو ایم کے حق میں لا کر دکھا دے۔ اور اگر نہیں لا سکے تو ڈوب کے مر جائے جھوٹ اور منافقت پھیلانے پر۔
یار فکر مند صاحب آپ کے اس تبصرے سے تو صاف پتہ چل گیا ہے کہ آپ کی تعلمی استعداد کیا ہے اور حالات حاضرہ پر کتنی نظر ہے۔ اور آپ پاکستانی شخصیات کے بارے میں کتنا جانتے ہیں۔ آپ کو شرم آنی چاہیے کہ جب کچھ نہیں ملا تو بانی جماعت پر کیچڑ اچھالنے لگے وہ بھی اپنی کم علمی اور جھوٹ کے سہارے۔ آپ کو تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔
میں نے جو لنک دیا ہے اس کے مطابق جن علماء نے متفقہ فیصلہ دیا ہے ان میں : اجلاس کے شرکاء میں ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی، مفتی محمد خان قادری، انجینئر سلیم اللہ، مولانا محمد خان لغاری، مفتی صفدر علی قادری، مولانا عبدالمالک، علامہ زبیر احمد، عبدالرؤف ملک، محمد سیف اللہ نقشبندی، محمد اطہرالقادری، ڈاکٹر مفتی غلام سرور قادری بخاری، شیخ محمد نعیم بادشاہ، عاکف سعید، محمد مشتاق، خلیل الرحمن حقانی، فرید احمدپراچہ، مولانا محب النبی، محمد یحییٰ مجاہد، مولانا امیر حمزہ، حافظ خالدولید، پروفیسر حافظ محمد سعید، مولانا سید نیاز حسین نقوی، نصرت علی شہانی، حافظ پروفیسر محمد حسیب، ابوعمار زاہدالراشدی، مفتی محمد حسیب قادری، قاری منیر احمد برکاتی، مجیب الرحمن انقلابی اور علامہ فضل الرحیم شامل ہیں۔۔۔
اب میں جن چند کو جانتا ہوں انہیں کے بارے میں بتا دیتا ہوں کہ مولانا عبدالمالک، عاکف سعید، فرید احمدپراچہ (نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان)، مولانا امیر حمزہ (مدیر الدعوہ، جماعت الدعوۃ)، پروفیسر حافظ محمد سعید (جماعت الدعوۃ)۔
مولانا حسن جان کا تعلق جمعیت علماء اسلام سے تھا۔ آپ کو خودکش حملوں کی مخالفت اور انکے خلاف فتوی دینے کی پاداش میں مولانا نعیمی سے بہت پہلے 15 ستمبر 2007 کو افطار کے وقت شہید کیا گیا۔
مولانا حسن جان کے بارے میں جاننے کے لیے وکی پیڈیا کا یہ لنک دیکھیں
کس دنیا میں رہتے ہو یار؟ کچھ خدا کا خوف ہی کرلو، مرنا نہیں ہے کیا؟ اب منافقین اور بھائی کی طرح جھوٹ پر قائم رہنے کے بجائے اپنے وعدے پر عمل کرو، منیر عباسی صاحب بھی یہی پوچھ رہے ہیں۔
اگر کسی کو حق اور سچ جاننے کی چاہ ہے تو جماعت اسلامی کے موجد اور پہلے سربراہ کی کتاب خطبات پڑھہ لے۔ تاکے دیوبندیوں ، بریلویوں، اہل حدیثیوں اور دیگر مکاتب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو پتہ چل سکے کے یہ جو آج بلاگ پر بڑھہ چڑھہ کر ان مذہب فروشوں کی حمایت کر رہے ہیں ان مذہب فروشوں کے رہنما کے ان ہی دیوبندیوں، بریلویوں، اہل حدیثیوں کے بارے میں کیا رائے تھی مودودی صاحب کی، اس جاہل اعظم کو تو یہ تک نہیں پتہ کے جماعت اسلامی وجود میں ہی کیوں آئی تھی، تقسیم سے پہلے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کی مذہبی جماعتیں موجود تھیں پھر جماعت اسلامی کیوں بنائی گئی؟ جماعت اسلامی تو بنی ہی دیوبندیوں بریلویوں اور اہل حدیثیوں کے خلاف تھی، سرے سے منکر تھے مودودی صاحب ان لوگوں کے۔ انکا اپنا ایک نظریہ تھا صحیح یا غلط یہ الگ بحث ہے مگر یہ مودودی صاحب کی تصانیف پڑھئیے تاکے پتہ چل سکے کے جو یہ آج دیوبندی اور بریلوی حضرات انکی حماعت میں زمین آسمان ایک کر رہے ہیں انکے رہنماوں نے دراصل ان ہی دیوبندی اور بریلویوں کے خلاف جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی تھی، درس نظامی والی پوسٹ پر بھی بہت بحث کی تھی اس جاہل اعظم نے لیکن جیسے ہی میں نے اسے بتایا کے جا اور جا کر اپنے رہنما مودودی صاحب کی رائے پڑھہ لے درس نظامی کے بارے میں تو یہ دم دبا کے بھاگ گیا۔ قدرت کا کرشمہ دیکھو کے آج یہ ہی جماعت اسلامی جو کے سرے سے منکر تھی ان سب مسلکوں کی آج اپنی بقا کی خاطر ان ہی مسلکوں کے پیچھے کھڑی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کے دنیا انہیں منافق منافق منافق کہتی ہے اور بلکل ٹھیک کہتی ہے یہ ہیں ہی منافق، کل تک جن مسلکوں کے خلاف بر سر پیکار تھے آج ان ہی مسلکوں کے ساتھہ مل کر اپنی منافقت سے معصوم لوگوں کو بہکا رہے ہیں یہ لوگ۔ میری تمام دیوبندی بھائیوں سے بریلوی بھائیوں سے اہل حدیث بھائیوں سے گزارش ہے کے مودودی صاحب کی تصانیف کا مطالعہ ضرور کریں تاکے انہیں پتہ چل سکے کے جماعت اسلامی کیوں بنائی گئی تھی اور کیا رائے تھی ان لوگوں کے آپ کے بارے میں۔ یہ سب پڑھنے اور جاننے کے بعد بھی اگر کوئی دیوبندی بریلوی اہل حدیث اگر ان منافقوں کی حمایت کرے تو پھر اسکا اللہ ہی حافظ ہے۔ چلیں میری بات چھوڑیں اپنے اپنے مسلک کے عالموں سے جا کر دریافت کر لیں کے مودودی صاحب کی جماعت اسلامی کی کیا رائے ہے ان سب مسلکوں کے بارے میں۔ جو بھی جواب ملے اسے یہاں پوسٹ کی صورت میں لکھنا ضرور تاکے ان منافقوں کا اصل چہرہ سب کے سامنے آسکے۔
لیجیے سر جی حق اور سچ کا جواب بھی آگیا اور آپ کا کچھا چٹھا بھی کھل گیا اور منافقت عیاں ہوگئی نیچے وقار بھائی کے تبصرے میں۔ بہر حال یہ آرٹیکل جماعت کے بارے میں نہیں بلکہ تمام دینی جماعتوں کی تحریک کے بارے میں تھا جس پر آپ آکر ان تمام جماعتوں کو مذہب فروش کہنے کے ساتھ ساتھ گالیاں بھی دے رہے تھے اب جماعت دشمنی میں سب بھول کر انہیں جماعت اسلامی کے خلاف اکسانے کی بھونڈی کوشش اور ساتھ ہی فرقہ واریت ابھارنا۔ یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ یہ امریکی ایجنٹ اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے کہاں تک جاسکتے ہیں بلکہ جارہے ہیں۔ 😆 😆 😆
آپ بحرحال اپنے وعدہ تو وفا کریں پھر اس کے فوراً بعد کسی نفسیاتی ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ ڈاکٹر جواد بھی اس میں مدد دے سکتے ہیں۔
اب تک تو تم سارے علماء کو گالیاں دے رہے تھے اب جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے بارے میں اپنی جہالت پر مبنی بکواس لے کر آگئے۔ بھئی تمہیں شرم نہیں آتی؟ اتنی بیے عزتی ہونے کے باوجود اپنے جھوٹ کے پلندے کو چھپانے کے لیے مزید جھوٹ۔ جب دلائل سے لاجواب کردیا تو اب لوگوں کومزید جھوٹ بول کر بہکانے کی کوشش، بیٹا تم جیسے خبیثوں کی ایسی حرکتوں سے ہمیں موقع ملتا ہے کہ لوگوں تک مزید سچ پہنچادیں۔
دوستو! یہ رہا خطبات کا لنک آپ حضرات سے گذارش ہے کہ اسے ضرور پڑھیں تاکہ مولانا مودودی صاحب کی عظمت و اہلیت کا اندازا ہوسکے۔ اس کتاب میں مولانا نے توحید، نماز، روزہ، زکوۃ، حج اور جہاد پر پٹھان کوٹ میں دارالسلام کی مسجد میں جو خطبات دیے تھے انہیں کتابی شکل میں شایع کیا گیا ہے۔ دین کے بنیادی ارکان کے بارے میں جاننے کے لیے یہ بہترین کتاب ہے۔
بھائیو! یہ رہا تحریک آزادی ہند اور مسلمان کے حصہ اوّل اور حصہ دوم اس میں مولانا نے برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی حالت ذار کا جائزہ لیا ہے اور آخر میں ایک صالح جماعت کی ضرورت کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ درحقیقت یہی کتاب ہے جس میں جماعت کے قیام کا مقاصد پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے علاوہ روداد جماعت اسلامی کی 4 جلدیں جماعت کے بارے میں جاننے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ مزید کتابیں یہاں سے ڈائونلوڈ کی جاسکتی ہیں۔
http://quranurdu.com/books/urdu_books/
جماعت اسلامی ہمیشہ سے اتحاد بین المسلمین کے داعی رہی ہے یہی وجہ ہے کہ انقلاب ایران کے بعد آیت اللہ خمینی اور جماعت اسلامی کے قریبی تعلقات قائم ہوئے اور خمینی صاحب کے الفاظ میں پاکستان کی دوشخصیتیں علامہ محمد اقبال اور سید مودودی انقلاب ایران کے معماروں میں سے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد جب اس فکر جہالستان جیسے _____ نے نفاذ شریعت اسلامی کے مطالبے پر یہ کہنا شروع کیا کہ کس کا اسلام نافذ کریں؟ بریلوی، دیوبندی، شیعہ یا اہل حدیث تو اس وقت تمام مکاتب فکر کے علماء کو جمع کرنے اور 20 نکات کی منظوری کے ساتھ اس جیسے بے غیرتوں کے منہ پر مارے میں جماعت میر کارواں تھی۔ لیکن اس عبداللہ بن ابی کے بیٹے کا ہاتھ جھوٹ لکھتے ہوئے لرزا نہیں۔ اللہ نے بے شک قرآن میں درست لکھا ہے کہ “جب ان جاہلوں کے سامنے اللہ کی آیات سنائی جاتی ہیں تو یہ اندھے بہرے اور گونگے ہوجاتے ہیں”۔
آخری بات یہ کہ میں کبھی اس ملعون سے کسی درس نظامی والی پوسٹ پر بحث میں نہیں الجھا۔ یہ بیغیرت یہاں بھی جھوٹ بول رہا ہے۔ اس کے ناپاک بلاگ پر میں چند بار ہی گیا ہوں اور وہاں یہ اپنے الطاف بھائی کے گن گارہا تھا اس کے اسکرین شاٹ آپ سے شیئر کررہا ہوں۔
اب اس سب کے بعد یہ اور کیا کہے گا؟ کچھ اور جھوٹ گھڑے گا کیوں کہ اس کے پاس اپنی گھسی پٹی بکواس کرنے اور حسن نثار کے الفاظ میں بھونکنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں۔ مجھے تو ہنسی آرہی ہے بیچارا رات بھر بغض و حسد میں سو نہیں پایا۔ اس انتہائی گندے شخص نے اپنے آباء سے زبان بھی گندی ہی پائی ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کے میں تجھے منافق کہتا ہوں، آدھی بات لکھہ کر لوگوں کو بہکا رہا ہے، اور اتنی بات میں بھی ایم کیو ایم کی حمایت کہاں نظر آگئی تجھے؟ آج تیرے بے غیرت اکابرین بھی یہ ہی بات کر رہے ہیں اسلامی انقلاب کے پوسٹر پورے شہر میں لگاتے پھر رہے ہو تم لوگ۔ اگر میں نے الطاف حسین کے انقلاب کی بات کوڈ کی ہے میں نے تو صرف بات کوڈ کی تھی تم نے تو انقلاب کے نعرے کو ہی چرا لیا تو پھر اسکا مطلب میں یہ نکالوں کے پوری جماعت اسلامی ہی ایم کیو ایم کے فلسفے کی قائل ہوگئی ہے؟۔ مودودی صاحب کے بارے میں نے ایک بھی لفظ غیر شائستہ نہیں لکھا ہے میں نے انکے فلسفے کی بات کی ہے اور میں اب بھی اپنی بات پر قائم ہوں مودوی صاحب سرے سے انکاری تھے فرقہ بندی اور مسلک پرستی کے، جماعت اسلامی بنانے کا مقصد ہی یہ تھا کے یہ دیوبندی اور بریلوی اور دوسرے فرقے لوگوں کی صحیح رہنمائی نہیں کر رہے تھے انکی نظر میں، انکا ماننا ہی یہ تھا کے یہ لوگ دین اسلام کے غلط تشریحات کر کے پیش کرتے ہیں قوم کو مسلکوں اور فرقوں میں الجھائے رکھتے ہیں۔ یہ ہی اصل وجہ تھی جماعت اسلامی بنانے کی کے مسلمانوں کے فرقہ بندی اور مسلک پرستی سے نکال کر ایک قوم بنایا جائے۔ جبکہ آج کی جماعت اسلامی کا منشور ہی یکسر بدل گیا ہے آج جماعت اسلامی ان ہی فرقوں اور مسلکوں والے لوگوں سے اقتدار کی خاطر اتحاد کرتی ہے، دین اسلام کی سربلندی والا فلسفہ بھاڑ میں جھونک کر تم لوگوں نے مودودی صاحب کے فلسفے کی بھی توہین کی ہے، اب تم لوگ صرف اور صرف اقتدار کی خاطر لوگوں کو بیوقوف بناتے ہو، حکومتوں کو بلیک میل کرتے ہو اور مال بناتے ہو، برگیڈیئر امتیاز نے ٹی وی پر سب کے سامنے اقرار کیا ہے کے قاضی حسین احمد کو بے نظیر کی حکومت گرانے اور آئی جے آئی بنانے کے لئیے آئی ایس آئی نے پچاس لاکھہ روپے دئیے تھے، کہاں تک جھوٹ بولو گے تم لوگ، تم لوگ مذہب فروش ہو مذہب کا نام لے کر مال بناتے ہو تم لوگ پیشہ ور بلیک میلر ہو قوم بہت اچھی طرح سے جانتی ہے تمہیں جب ہی تمہارے اپنے گھر والے تک تمہیں ووٹ نہیں دیتے ہر بار منہ کی کھاتے ہو۔ تمام دیوبندی علماء بریوی علماء مودودی صاحب کے فلسفے سے بے انتہا اختلاف رکھتے ہیں اسکی سب سے بڑی وجہ ہی یہ ہے کے مودودی صاحب نے سب سے پہلی چوٹ ان ہی لوگوں پر ماری ہے کے یہ سب قوم کے بہکا رہے ہیں مسلک پرستی میں الجھا کے، اور اس جاہل اعظم کو کیا پتہ کے میں خود مودودی صاحب کے فلسفے سے بہت زیادہ متفق ہوں میں دل سے عزت کرتا ہوں مودودی صاحب کی۔ لیکن افسوس کے آج جماعت اسلامی نے مودودی صاحب کے فلسفے کو بھلا دیا اور مال و اقتدار کو کی ہوس کو ہی اپنا مذہب بنا لیا ہے۔
جماعت اسلامی کے دستور کی دفعہ 4 کے تحت اس کا مقصد مندرجہ ذیل ہے جو 1957 میں مولانا مودودی کی امارت میں نافذ ہوا:
جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی تمام سعی وجہد کا مقصود عملاً اقامتِ دین(حکومتِ الٰہیہ یا اسلامی نظام زندگی کا قیام) اورحقیقتاً رضائے الٰہی اور فلاحِ اخروی کا حصول ہوگا۔
تشریح: ”الدین“، حکومت الٰہیہ اور اسلامی نظامِ زندگی۔ تینوں اس جماعت کی اصطلاح میں ہم معنی الفاظ ہیں۔ قرآن مجید نے اپنے جس مفہوم کو بیان کرنے کے لیے ”اقامت دین“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں اسی مفہوم کو یہ جماعت اپنی زبان میں ”حکومتِ الٰہیہ“یا اسلامی نظام زندگی کے قیام سے ادا کرتی ہے۔ ان تینوں کا مطلب اس کے نزدیک ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ انسانی زندگی کے جس دائرے میں انسان کو اختیار حاصل ہے اس میں وہ برضا و رغبت اسی طرح اللہ کی تشریعی حکومت تسلیم کرے جس طرح دائرہ جبر میں کائنات کا ذرہ ذرہ چارو ناچار اس کی تکوینی حکومت تسلیم کررہا ہے۔ اللہ کی اس تشریعی حکومت کے آگے سرجھکانے سے جو طریقِ زندگی رونما ہوتا ہے وہی”الدین“ ہے، وہی ”حکومت الٰہیہ“ ہے اور وہی ”اسلامی نظام زندگی ہے۔
اقامتِ دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں بلکہ پورے دین کی اقامت ہے خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، نماز، روزہ اور حج زکوٰة سے ہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے ۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیر ضروری نہیں ہے۔
پورے کا پورا اسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیہ و تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہر مومن کو اسے بطور خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہل ایمان کو مل کر اس کے لیے جماعتی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اگرچہ مومن کااصل مقصد رضائے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں خدا کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مومن کا عملی نصب العین اقامت دین اور حقیقی نصب العین وہ رضائے الٰہی ہے جو اقامتِ دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔
کتابچہ ہم جس طرف بلاتے ہیں میں ایک جگہ مولانا مودودی فرماتے ہیں کہ:
اپنی جماعت کے بارے میں ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ حق صرف ہماری جماعت میں دائر و منحصر ہے۔ ہم کو اپنے فرض کا احساس ہوا اور ہم اٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ کو آپ کا فرض یاد دلارہے ہیں۔ اب یہ آپ کی خوشی ہے کہ آپ ہمارے ساتھ کھڑے ہوں، یا خود اٹھیں اور اپنا فرض ادا کریں، یا جو بھی آپ کو یہ فرض ادا کرتا ہوا نظر آئے اس کے ساتھ مل جائیں۔
مولانا نے کبھی کسی خاص فرقے کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا بلکہ تمام مسلمانوں پر ایک لطیف پیرائے میں تنقید کی ہے کہ وہ اقامت دین کے بجائے دوسرے کاموں میں لگے ہیں۔
اب میرا سوال فکر منافقت صاحب سے ہے کہ اس میں کہاں لکھا ہے کہ چونکہ اسلام کے سارے فرقے صحیح کام نہیں کررہے اس لیے ہم انہیں ایک قوم بنانے کے لیے میدان عمل میں آئے ہیں؟ ذرا غور سے پڑھیے۔ اس میں جماعت کا متمع نظر حکومت الٰہیہ کا قیام ہے۔ اور یہ اسے قائم کرنے کے لیے اپنے حصے کا کام کررہے ہیں۔ اور اسے یہ اسلامی انقلاب کی منزل کہتے ہیں۔ پوری دنیا میں مولانا کو امام انقلاب کہا جاتا ہے۔ اگر خاندان کو کوئی بزرگ صحیح العقیدہ ہو تو ان ہی سے پوچھ لیتے کہ انقلاب کا نعرہ جماعت نے چرایا ہے یا دوسری لسانی و قومی تنظیموں نے۔۔۔۔ 😉
بھائی تم جتنا زیادہ لکھ رہے ہو اس سے تمہاری اتنی ہی قلعی کھل رہی ہے کہ تمہار علم محض اخباری تراشوں اور حسن نثار اور احمدی فیم مبشر لقمان جیسے دلالوں کی مرہون منت ہے۔ بھائی جائو تھوڑا سا کھلے دل سے مطالعہ کرلو۔ یہ جو لنک وقار بھائی نے دیے ہیں ان ہی کو پڑھ لو۔
میں نے آج ہی آپ کے بلاگ کا چکر لگایا ہے جس سے یہ واضح ہوا کہ آپ کا مائنڈ سیٹ کس قسم کا ہے۔ ہر پوسٹ مین ایک ہی بکواس کہ دینی جماعتیں مذہب فروش ہیں لیکن الطاف حسین کی مدح سرائی۔ کبھی اپنے پیر و مرشد کے نام کچھ لکھا ہے۔ بریگیڈیر امتیاز جو آج کل خود شاید جیل میں ہو، اس جیسے جھوٹے آپ جیسے حضرات کو چاہیے کہ عدالت جائیں اور ثابت کردیں کے جماعت نے پیسے لیے ہیں۔ تو کچھ بات بھی بنے۔ جناب آپ جن کی باتوں کو کوٹ کرتے ہیں ان کے بارے میں تو گھر کی گواہی موجود ہے یعنی امریکی سفیر کا خفیہ مراسلہ کہ یہ لوگ ہمارے پائوں پر بچھے جاتے ہیں۔ ان کے تیس ہزار مسلح لوگ ہمارے بہترین دوست ہیں۔ درحقیقت ایم کیو ایم کے کارکنوں کا یہ وتیرا رہا ہے کہ وہ ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ میرا تعلق تو کسی سیاسی مذہبی جماعت سے نہیں لیکن اندرون خانہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے پروپگینڈا صرف دینی جماعتوں کے بارے میں ہی کرتے ہیں۔
جزاک اللہ وجاہت بھائی، آپ نے میرا کام آسان کردیا۔ خیر سے آپ بھی اس ابن عبداللہ بن ابی کو پہچان گئے ہیں۔ بحرحال اب یہ نیا ڈھونگ رچا رہا ہے کہ میں تو مولانا مودودی کا معتقد ہوں۔ تف ہے ایسے منافقوں پر جو منہ پر ہی مکر جاتے ہیں۔ اس جاہل کے علم کا یہ عالم ہے کہ اسے مولانا مودودی کے عرصہ امارت کا بھی علم نہیں ہے اور اپنے ایک انتہائی گھٹیا چھاپہ تحریر “جماعت اسلامی یا جماعت حرامی” جس کا نام بعد میں بدل کر اس نے “آستین کے سانپ” رکھ دیا لیکن اس تحریر کے یوآرایل میں اب بھی پہلے والا نام ہے جو یہ تبدیل نہیں کرسکتامیں فرماتے ہیں کے: جماعت اسلامی نے مشرقی پاکستان میں معصوموں کا قتل عام کیا، یہ شروع سے پاکستان مخالف تھے، پاکستان کو توڑنے میں انکا ہاتھ ہے، جنرل ضیاء کے ساتھ مزے کیے وغیرہ وغیرہ۔ اب کوئی اس سے پوچھے کہ بھیا مولانا مودودی تو 1941 سے 1971 تک جماعت کے امیر رہے۔ یعنی معصوموں کا قتل عام اگر ہوا تو امیر جماعت کی ایما پر ہوا۔ 1971 میں امارت سے استیفے کے بعد بھی وہ جماعت کی مجلس شوری میں اور اہم فیصلوں میں شامل رہے، یعنی ضیاء الحق کے آغاز حکومت 1978 میں مولانا کی وفات تک جماعت ان سے رہنمائی لیتی رہی۔ یعنی فکر جہالستان ایک اپنے ہی الفاظ میں قاتلوں کے سربراہ سے اور پاکستان کے مخالفوں سے متفق ہے اور دل سے عزت کرتا ہے۔ 🙄
دوستو مولانا مودودی ہمیشہ اس ملک کو پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ اللہ کے نعرے کا مجسم پیکر بنانے کی جدوجہد کرتے رہے۔ اب آپ عبداللہ بن ابی کی آل اولاد کے بلاگ کا اگر وزٹ کریں تو آپ کو اس کی ایک پوسٹ “پاکستان کا مطلب کیا” نامی ملے گی اس میں یہ استعمار کا چمچہ یہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ اللہ کبھی نہیں تھا اور درحقیقت اقامت دین کوئی فریضہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ جماعت اسلامی اور دوسری دینی جماعتوں اور انکے ملائوں کا کھانے کمانے کا دھندہ ہے۔
اب کوئی شخص اس قسم کے خیالات رکھتا ہو اور پھر یہ کہے کہ میں تو مولانا مودودی کے خیالات سے متفق ہوں اور انکی دل سے عزت کرتا ہوں تو لوگ باگ اسے کیا کہیں گے؟ شاید پاگل۔
بھائیو! اس کی باتوں پر ہنسئے گا مت، بیچارے کا دل ٹوٹ جائے گا۔ بھلا بتائے کہ جو ہمیشہ سے انقلاب انقلاب اسلامی انقلاب، اور لا شرقیہ، لا غربیہ اسلامیہ اسلامیہ کے نعرے لگاتے رہے ہوں، جو اپنے امراء و قائدین کو قائد تحریک اسلامی کہتے ہوں انکی اصطلاحات کو چوری کرنے والے انکے بانیوں پر چوری کا الزام لگارہے ہیں۔ بیچارا کھسک گیا ہے۔ قول و فعل میں اس قدر تضاد کبھی نہیں دیکھا۔
خیر سے اوپر دیے گئے فتوے پر کہتے ہیں کہ یہ تو بریلوی مسلک کے لوگ ہیں صرف۔ اب اس میں شامل مختلف مسالک کے افراد کی نشاندہی کی گئی تو اسکی بولتی بند ہوگئی۔ یہ جاہل لوگوں کو پہچانتا تک نہیں ہے۔ ڈاکٹر منیر عباسی نے اس سے ایک سوال کیا جیسے چھوڑ کر الٹی سیدھی بے دلیلیں ہانک رہا ہے۔ اس کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔
جناب فکر پاکستان،
اب تک کی بحث سے نہایت محظوظ ہوا. آپ کی باتوں میں سوائے موضوعیت (subjectivity ) کے اور کچھ نظر نہیں آیا. اور مستقل آپ کی باتیں غلط ثابت ہوتی رہیں.
1) آپ توہین رسالت کو نان اشو نہیں کہہ سکتے لہٰذا آپ نے ایک سطعی موضوعیت سے کام چلانے کی کوشش کی اور مستقل معاشرتی ناہمواریوں اور محرومیوں کو توہین رسالت کہتے رہے. اس ضمن میں آپ نے ڈاکٹر منیر عباسی کے سوالات کے جوابات دینا بھی ضروری نہیں سمجھا کہ کسی شریف زادی کی جسم فروشی توہین رسالت کس طرح ہے؟ اور اپنے مخالفین کو حرامی یا کتے کا بچہ کہنے سے توہین رسالت ہوتی ہے یا نہیں؟
پھر آپ ہر بار پاکستان کے مسائل کی جڑ یعنی امریکہ کی غلام اشرافیہ پر بات کرنے سے مستقل احتراز کرتے ہیں.اور ہمیشہ انکے جرائم کا بار مذہبی جماعتوں پر ڈالتے پائے جاتے ہیں. یقیناََ مذہبی جماعتوں سے کوتاہیاں ہوئی ہیں لیکن انہیں ان جرائم کا مرتکب قرار نہیں دیا جاسکتا جو وہ کرسکنے کے کبھی قابل ہی نہیں رہے.
2)پھر آپ نے قائد تحریک کے انقلاب کی بات بھی کی ….یہ بات ہی نہایت مضحکہ خیز ہے کہ ایسا شخص جو موت کے خوف سے ہزاروں میل دور لندن میں بیٹھا ہے اور وہاں کی شہریت اختیار کرچکا ہے.کس طرح پاکستان میں انقلاب کی بات کر رہا ہے؟ جبکہ اس کی جماعت اقتدار کے لیے اسی عوام دشمن کا اشرافیہ کا دست و بازو بانی ھوئی ہے. کیا انقلابیوں کے یہی چلن ہوتے ہیں؟
3) ایک پرامن ھڑتال پر آپ بڑی خار کھائے بیٹھے ہیں. کیا آپ نے کراچی کے حقیقی مسائل کی طرف کبھی بات کرنے کی کوشش کی ؟ کیا ٹارگٹ کلنگ آپ کے نزدیک کوئی مسئلہ نہیں؟ کیا بدامنی، لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور طرح طرح اور انواع و اقسام کی مافیائیں آپ کے نزدیک کوئی مسئلہ نہیں؟ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں افراد کے پلاٹوں پر ناجائز قبضے ہوئے ہیں جن کو چھڑانے میں ان بدنصیبوں کو خون تھوکنا پڑے گا.کیا یہ آپ کے نزدیک کوئی مسئلہ نہیں؟ کراچی میں انڈسٹری کو تباہ و برباد کرنے میں بھتہ مافیا کا ایک بہت بڑا رول ہے. نا صرف بڑی انڈسٹریاں بلکہ چھوٹے دکان دار تک اس بھتہ مافیا کے ہاتھوں تنگ ہیں . کیا یہ آپ کے نزدیک کوئی مسئلہ نہیں؟ آپ ان مسائل پر بات کیوں نہیں کرتے؟ صرف اس لیے کے اس پر بات کرنے سے آپ کی پسندیدہ جماعت بھی زیربحث آتی ہے؟
4) ایک طرف آپ دیوبندیوں ، بریلویوں اور اہل حدیث حضرات کو مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی تصانیف پڑہنے کا مشورہ دے رہے ہیں تاکہ مولانا مودودی صاحب کے مبیٓنہ غلط خیالات سے یہ حضرات آگاہ ہو جائیں تو دوسری طرف کل کی جماعت اسلامی کو اچھا اور آج کی جماعت اسلامی کو برا کہہ رہے ہیں.
5) حضرت ! بات تلخ ہے مگر کہے بغیر چارہ نہیں کہ نا تو آپ کا کوئی مطالعہ ہے اور نا ہی کوئی ویژن…آپ ایک بھولے بھالے انسان ہیں جو آسانی سے حالات اور پروپگینڈہ کا شکار ہو جاتے ہیں. کبھی فرصت ملے تو ٹھنڈے دل و دماغ سے ، تمام تعصبات سے بالاتر ہو کر غور کریے گا. آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ صرف اور صرف موضوعیت کا لالی پاپ جسے ایم کیو ایم نے کراچی کے عوام کو مذھبی جماعتوں اور دین سے دور کرنے کے لیے دیا ہوا ہے، چبا چبا کر اپنا منہ سرخ کررہے ہیں.
لے پٹرھہ لے منافق کے دیوبندیوں اور بریلویوں اور اہل حدیث وغیرہ کے بارے میں مودودی صآحب کے کیا نظریات تھے، ہر ہر بات حوالے کے ساتھہ دے دی ہے جا اور جا کر دیکھہ لے اور اپنی منافقتوں سے دیوبندیوں بریلویوں اور اہل حدیث والوں کو بہکانہ چھوڑ دے اب، بڑا ہمدرد بنا پھرتا ہے نا تو ان سب کا یہ دیکھہ تیرے قائد کے کیا کیا خیالات ہیں، میں مودودی صاحب کے اس نظرئیے سے بلکل متفق ہوں کے فرقہ بندی اور مسلک پرستی کی وجہ سے ہی آج مسلمانوں کا یہ حال ہوا ہے۔ تمام دیوبندی بریلوی اہل حدیث بھائیوں سے گزارش ہے کے اپنے بارے میں جماعت اسلامی والوں کے رائے پڑھہ لیں اور پھر فیصلہ کریں کے یہ جو آج مذہب کے ٹھیکےدار بن رہے ہیں انکا اصل چہرہ کتنا گھنوونا ہے، یہ اندر سے آپ لوگوں سے کتنا بغض رکھتے ہیں اور سامنے کیسے بچھے جاتے ہیں اتحاد بین المسلمین کے جھوٹے نعرے لگا لگا کر۔ یہ مذہب فروش ہیں انہوں نے اپنے قائد کے نظرئے تک سے غداری کی ہے یہ میرے یا آپ کے کیا ہونگے۔ اب پڑھئیے انکے قائد کے نظریات اپنے بارے میں۔ ”مودودی“جماعتِ اسلامی گروپ کے عقائد و نظریات
مودودی اور ان کی جماعت اسلامی کا شمار دیوبندی فرقے میں ہوتاہے مگریہ لوگ دیوبندیوں سے بھی دو ہاتھ بد عقیدگی میں آگے ہیں یہ بھی دیوبندی ہی کہلاتے ہیں مگر دیوبندی بھی اندرونی طور پر ان سے بیزار ہیں لیکن بد عقیدگی میں سب ایک ہی تھالی کے چٹّے بٹّے ہیں ۔
مودودی کی نگاہِ بصیرت الیی ہے کہ ہرطرف اسکو کمزور یاں ہی کمزور یاں نظر آتی ہے اللہ تعالیٰ سے لیکر ہر نبی صحابی اور ولی اللہ کی شان میں نکتہ چینی کی ہے ۔
مودودی عقائد ::
عقیدہ :نبی ہونے سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی ایک بڑا گناہ ہوگیا تھا کہ انہوں نے ایک انسان کو قتل کردیا ۔(بحوالہ :رسائل و مسائل ص 31)
عقیدہ :نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مودودی لکھتا ہے کہ صحرائے عرب کایہ ان پڑھ بادیہ نشین دور جدید کا بانی اور تمام دنیا کا لیڈر ہے ۔(بحوالہ :تفہیفات ص 210)
عقیدہ : ہر فرد کی نماز انفرادی حیثیت ہی سے خدا کے حضور پیش ہوتی ہے اور اگر وہ مقبول ہو نے کے قابل ہوتو بہر حال مقبول ہوکر رہتی ہے ۔خواہ امام کی نماز مقبول ہو یا نہ ہو۔
(بحوالہ :رسائل و مسائل ص282)
عقیدہ :خدا کی شریعت میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے ۔جس کی بناءپر اہل حدیث حنفی ،دیوبندی ،بریلوی ،سنی وغیرہ الگ الگ اُمتیں بن سکیں یہ اُمتیں جہالت کی پیدا کی ہوئی ہیں ۔(بحوالہ : خطبات ص 82)
عقیدہ :اور تو اور بسا اوقات پیغمبروں تک کو اس نفس شریر کی رہز نی کے خطرے پیش آئے ۔
(بحوالہ :تفہیمات ص 163)
عقیدہ :ابو نعیم اور احمد ہنسائی اورحاکم نے نقل کیا ہے کہ ید چالیس مرد جن کی قوت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو عنایت کی گئی تھی ۔دنیاکے نہیں بلکہ جنّت کے مرد ہیں اور جنت کے ہر مرد کو دنیا کے سو مردوں کے برابر قوت حاصل ہوگی ۔یہ سب باتیں خوش عقیدگی پر مبنی ہیں اللہ کے نبی کی قوتِ باہ کا حساب لگانا مذاقِ سلیم پر بار ہے الخ ۔(بحوالہ :تفہیمات ص 234)
عقیدہ :قرآن مجید نجات کے لئے نہیں بلکہ ہدایت کے لئے کافی ہے ۔(بحوالہ:تفہیمات ص 321)
عقیدہ :میں نہ مسلک اہل حدیث کو اس کی تمام تفصیلات کیساتھ صحیح سمجھتا ہوں اور نہ حنفیت کا یا شافعیت کا پابند ہوں۔(رسائل و مسائل ص 235)
عقیدہ :23سالہ زمانہ اعلانِ نبوت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے فرائض میں خامیاں اور کوتائیاں سرز د ہوئیں ۔(قرآن کی چار بنیا دی اصطلا حیں )
عقیدہ :جولوگ حاجتیں طلب کرنے کے لئے خواجہ اجمیر یا مسعود سالار کی قبرپر یا ایسے دوسرے مقامات پر جاتے ہیں زنا اور قتل کا گناہ کم ہے ۔یہ گناہ اس سے بھی بڑا ہے ۔(تجدید و احیاءدین ص 62)
عقیدہ :اصولِ فقہ ،احکام فقہ ، اسلامی معاشیات ،اسلام کے اصول عمران اور حکمت قرآنیہ پر جدید کتابیں لکھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ قدیم کتابیں اب درس و تدریس کےلئے کار آمد نہیں ہیں ۔
(بحوالہ :تفہیمات ص 213)
مودودی کی چند گستاخیاں اور بیباکیاں ::
خدا کی چال :ان سے کہو اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے ۔(تفہیم القرآن پارہ نمبر 11رکوع 8)
نبی اور شیطان:شیطان کی شرارتوں کا ایسا کامل سدّباب کہ اسے کس طرح گھس آنے کا موقع نہ ملے ۔ انبیاءعلیہم السلام بھی نہ کرسکے ۔تو ہم کیا چیزہیں کہ اس میں پوری طرح کامیاب ہونے کا دعوٰی کرسکیں ۔(ترجمان القرآن جون 1946 ءص 57)
ہر شخص خدا کا عہد ہے :مومن بھی اور کافر بھی ۔حتّٰی کہ جسطرح ایک نبی اس طرح شیطانِ رجیم بھی ۔
(ترجمان القرآن جلد 25عدد 1،2،3،4ص 65)
نبی اور معیار مومن :انبیاءبھی انسان ہوتے ہیں اورکوئی انسان بھی اس پر قادر نہیں ہوسکتا کہ ہر وقت اس بلند ترین معیار کمال پررہے ۔ جو مومن کےلئے مقرّر کیا گیا ہے ۔بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر نبی جیسا اعلیٰ واشر ف انسان بھی تھوڑی دیر کے لئے اپنی بشر ی کمزوری سے مغلوب ہوجاتا ہے ۔(ترجمان القرآن )
ایلچی :محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ ایلچی ہیں۔جن کے ذریعہ سے خدانے اپنا قانون بھیجا ۔(بحوالہ :کلمہ طیّبہ کا معنی صفحہ نمبر 9)
منکرات پر خاموش :مکّہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کے سامنے بڑے بڑے منکرات (برائیوں )کا ارتکاب ہوتا تھا۔مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مٹانے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اسلئے خاموش رہتے تھے ۔
(ترجمان القرآن 65 ءص 10)
محمد ی مسلک ہم اپنے مسلک اور نظام کو کسی خاص شخص کی طرف منسوب کرنے کو ناجائز سمجھتے ہیں مودودی تو در کنار ہم اس مسلک کومحمد ی کہنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں ۔(رسائل و مسائل جلد 2ص437)
محترم حضرات !آپ نے مودودی کے عقائد پڑھے یہی عقائد ان کی جماعت اسلامی کے بھی ہیں مودودی کے بارے میں دیوبندی مولوی محمد یوسف لُد ھیا نوی اپنی کتاب ”اختلاف اُمّت اور صراطِ مستقیم“ میں لکھتا ہے کہ مودودی وہ آدمی ہے جس نے حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حجّۃالا سلام امام غزالی علیہ الرحمہ تک تمام عظیم ہستیوں کے ذات میں نکتہ چینی کی ہے ۔
مودودی کی کتاب تفہیمات غلاظتوں سے بھری پڑی ہے ۔جس سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کے عقائد کیا تھے ۔
٭٭٭٭٭
ابے اب تک تو تو ننگا ہوچکا ہے اس کے باوجود دوسروں پر بھونک رہا ہے۔ غلاظت کے ڈھیر۔ ہمیں معلوم ہے کہ کیچڑ میں پتھر مارنے سے اپنے کپڑے ہی خراب ہوتے ہیں اور مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس سلسلے میں کہا تھا میرا کام تو جس چیز کو میں حق جانتا ہوں اس کی طرف لوگوں کو بلانا ہے۔ اور تنقید کے سلسلے میں جائز اور برائے اصلاح تنقیدوں کو میں سراہتا ہوں لیکن جن کا کام تنقید برائے تنقید ہے تو اس میں میری کوشش ہوتی ہے کہ اگر میرا دامن کانٹے دار جھاڑیوں میں الجھ جائے تو میں اپنا دامن چھڑانے کی کوشش کرتا ہوں لیکن اس کے بدلے میں کانٹا دامن چھوڑنے پر آمادہ نہ ہو تو میں اپنے دامن کا وہ حصہ پھاڑ کر چھاڑی کے حوالے کردیتا ہوں اور آگے کی طرف سفر جاری رکھتا ہوں۔
بحرحال جہاں تیری اتنی بکواس کا پوسٹ مارٹم کیا ہے وہییں کچھ اور صحیح۔ سب سے پہلے تو مبارکباد کے بڑی محنت سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر تو کسی شریر ویب سائیٹ سے اسے لاکر چھاپا ہے۔ ابے تجھے تو کاپی پیسٹ کرنا تک نہیں آتا۔ کم از کم کسی ویب سائٹ سے اٹھاتے ہوئے تحریر کی درجہ بندی کے لیے لگائے گئے ستاروں کو تو ہٹادیتا۔ اب تجھے تیری اس کاپی پیسٹ کا کیا جواب دوں، ان الزامات کے تو لوگوں نے پہلے ہی بخیے ادھیڑے ہوئے ہیں۔ لیکن تو پہلے کاپی پیسٹ کرنا سیکھ۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ تو نے شاید زندگی میں پہلی بار مولانا کی کتابوں کا نام سنا ہو۔ پتہ بھی ہے کہ مولانا کی تصنیف “رسائل و مسائل” کے کتنے حصے ہیں؟ تفہیمات کے کتنے حصے ہیں؟ بڑے فخر سے شریر لوگوں کا چھاپہ لگانے کے بعد کہتا ہے کہ حوالے کے ساتھ بات کررہا ہوں۔ اے عبداللہ بن سبا کے چیلے یہ تو بتا کہ ان دونوں تصانیف کے کس حصے میں ہے۔ ترجمان القران کے شمارے کا لکھ دیا کہ 1965 کا، ابے کون سے مہینے کا؟ ذرا یہ سب مہیا کر تاکہ تجھے یہیں تیری جھوٹ کی قبر میں دفن کیا جائے۔
یہ ہے رائے دیوبندیوں بریلویوں اور اہل حدیثوں کی مودودی صاحب کے بارے میں۔ ابھی تو ایک لنک دیا ہے اتنا مواد ہے میرے پاس کے تجھے منہ چھپانا مشکل ہوجائے گا۔ مگر تو منافق ہے تو اب بھی باز نہیں آئے گا اپنے منافق باپ قاضی کی طرح بےغیرتی سے ڈٹا رہے گا اپنی منافقت پہ۔
اتنی جگ ہنسائی کے باوجود باز نہیں آیا ہے تو۔ بڑا ہی ڈھیٹ ہے بھئی۔۔۔
پہلے کہہ رہا تھا کہ سارے مسلمان توہین رسالت کرتے ہیں یہاں اس کا جواب دیا تو جواب گول کرکے کہنے لگا کہ کسی عالم نے خود کش حملے کے بارے میں فتوی نہیں دیا، وجاہت صاحب نے یہاں اس کا جواب دیا اور خبر کا لنک بھی دیا تو کہنے لگا کہ یہ تو صرف بریلوی علماء ہیں۔ وجاہت بھائی نے ادھر وضاحت سے بیان کیا کہ کون کون سے علماء ہیں تو جواب ندارد، اگر تجھ میں تھوڑی سی بھی غیرت ہوتی تو بلاگنگ چھوڑ دیتا اور چلو بھر پانی میں ڈوب مرتا۔
بحرحال، علم و تحقیق ہی مسئلے کا حل ہے کے جب یہاں بخیے ادھیڑے تو چوکڑی بھول گیاپھر مولانا کی خطبات پرھنے کا مشورہ دے کر لوگوں کو بہکانے لگا کہ جناب اس میں مودودی نے بہت واہیات بکی ہے۔ جب یہاں اسکا کچھا چٹھا کھولا تو نیا چولا بدلا کہ میں تو مودودی کا پرستار ہوں۔ اور اب نہ جانے کہاں سے یہ واہیات چھاپہ لگا آیا۔
محترم قارئین بات ہورہی تھی بریلویوں، دیوبندیوں اور اہل حدیث اور دوسرے مسالک کے بارے میں مولانا مودودی کے عقائد، رائے کی۔ اب کوئی پاگل ہی اس کے اوپر چھاپے گئے مواد کو مولانا محترم کا ان مسالک کے بارے میں عقیدہ یا تنقید یا رائے تصور کرسکتا ہے۔ یہ سارا مواد قابل اعتراض تو ہوسکتا ہے لیکن بریلویوں، دیوبندیوں، اہل حدیث اور دیگر مسالک پر تنقید یا انکے بارے میں رائے ہر گز نہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بیچارا گھبراہٹ میں اول فول حرکتیں کررہا ہے۔
جواد صاحب۔ میری تحریروں مٰیں میں نے حالات کا اور مسملمانوں کی حالت ذار کا زمہ دار علماء حضرات کو ٹھرایا ہے وہیں میں نے سیاستدانوں کے بھی برابر کا زمہ دار ٹھرایا ہے، آپ کہیں سے بھی میری کوئی ایک پوسٹ ایسی دکھا دیں جس میں میں نے کسی سیاستدان کی تعریف کی ہو۔ میں نے ہمیشہ برا بھلا ہی کہا ہے انہں اور لوگوں کے درخواست کی ہے کے ان سب سیاستدانوں اور مولوی حضرات کی شخصیت پرستی سے باہر آجاو ان سے جان چھڑا لو یہ صرف اور صرف ہمارے مسلوں میں اضافہ کر سکتے ہیں ہمارے مسلوں کو حل نہیں کرسکتے۔ یہ سب ہمارے قاتل ہیں لٹیرے ہیں ہمارے حقوق انکے اولادوں کو مل رہے ہیں اور ہم اتنے بیغیرت ہوچکے ہیں کے پھر بھی انہیں ہی اپنے کاندھوں پر بٹھا کر اعوانوں تک لے جاتے ہیں۔ اب آپ بتائیے اس میں کیا غلط کہتا ہوں میں؟
صاحبو فکر جہالستان جیسے لوگ، وہ لوگ ہیں جن کا بس چلے تو کہیں کہ خبردار نماز نہ پڑھنا کیونکہ قرآن میں لکھا ہے کہ “خبردار نماز کے قریب نہ جانا” اس کے بعد والے حصے کو ہضم کر لیتے ہیں کہ جس میں کہا گیا کہ “ناپاکی اور نشے کی حالت میں” ۔ عبداللہ بن سبا کے یہ پیروکار پوری آیت میں سے عوام کو گمراہ کرنے کے اپنے مطلب کی باتیں نکال لاتے ہیں۔ یہی حال ان جھوٹوں کا مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریروں کے سلسلے میں بھی ہوتا ہے کہ صرف تنقید کرنے اور لوگوں کو بہکانے کے لیے اپنے مطلب کی باتیں نکال لاتے ہیں اور باقی چھوڑ دیتے ہیں بلکہ بعض دفعہ تو جھوٹی باتیں بھی گھڑ لیتے ہیں۔
مولانا مودوی پر جو اعتراضات کیے گئے ہیں ان کے بہت سے لوگوں نے جوابات دیے ہیں جن میں سے کچھ اس کتاب “مولانا مودودی پر اعتراضات کا علمی جائزہ حصّہ اوّل اور حصّہ دوم میں بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کے مولانا عامر عثمانی مرحوم نے بھی مولانا پر اعتراضات کا بہت خوبصورتی سے دفاع کیا ہے۔ اور اس سلسلے میں انکی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہے۔ مشہور زمانہ مولانا طارق جمیل کے مولانا مودودی کے بارے میں احساسات تو آپ دیکھ ہی چکے ہونگے۔ اگر نہیں دیکھا تو یہاں دیکھ لیں
بہر حال میں اس فکر جہالستان کی طرف سے مزید ریفرنس کا منتظر ہوں۔ کیا ہوشیاری دیکھائ ہے اس نے کہ یہ سب کچھ کتاب کی کون سی جلد میں اسے گول کرگیا۔ اب ظاہر ہے کہ اس نے اگر ان کتب کا مطالعہ کیا ہو تو کچھ معلوم بھی ہو۔ کہ اس کتاب کی کتنی جلدیں ہیں۔ بلکہ مخالفین کی تحریروں سے چھاپہ لگالایا جن کو خود گالیاں دیتا ہے لیکن بہر حال یہ لوگ تو وقت پڑنے پر گدھے کو بھی بنا لیتے ہیں۔ 😀
اب تو صرف کھمبا نوچتا رہ بیٹا اس سے زیادہ تو کچھہ کر بھی نہیں سکتا اب۔
ٹوٹلی اسپیچ لیس، انکو کہو آم تو جواب املی آتا ہے۔ 😉
اب مجھے اندازہ ہوگیا ہے کہ آپ تمام حضرات بھینس کے آگے بین بجارہے ہیں۔۔۔
میں تو اسے یہی کہہ رہا ہوں کہ، وإذا خاطبهم الجاهلون قالو سلاما۔ السلام و علیکم۔
وقار بھائی آپ لگے رہیں۔
کیا مطلب؟ آپ خود اس کام سے کنارہ کش ہوکر وقار بھائی کو وقت کے ضیاع کا مشورہ دے رہے ہیں؟
بہت افسوس کی بات ہے۔
ویسے میں کاشف یحیی صاحب سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات کا اب بھی منتظر ہوں۔ اسے میری سادہ دلی نہ تصور کیا جائے۔
منیر بھائی میں آپ کے سوال کی بنیاد ہی بلکل غلط ہے، آپ نے ایک بیان کو فتوی قرار دے دیا ہے تو ااب اسے میں آپکی سادگی سمجھوں یا مجرمانہ غفلت؟ اول بات تو یہ ہے جو لنک آپ نے دیا ہے وہ سرے سے فتوی ہے ہی نہیں یہ محض ایک بیان ہے جسے آپ جیسے کسی اندھی تقلید کرنے والے نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئیے فتوے کی بڑی سی بیڈنگ لگا کر پیش کیا ہے۔ ایسے اخباری بیان تو ہزاروں آتے رہتے ہیں اور ان میں آپ نے جن جن شخصیات کا نام گنوایا ہے اس میں سے تو کتنے ہی ایسے ہیں جو کے سرے سے مفتی ہی نہیں ہیں، یعنی وہ فتوی دینے کے اہل ہی نہیں ہیں مثال کے طور پر فرید پراچہ صاحب کو آپ نے مفتیوں کی فہرست میں شامل کر دیا کچھہ تو اللہ کا خوف کرلیں آپ میرے بھائی، لوگوں کو گمراہ کرنے اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے آپ نے تو ساری ہی حدیں پار کرلی ہیں۔ فتوی وہ ہوتا ہے جو علامہ طاہرالقادری صاحب نے دیا ہے جو کے ایک سو پچاس صفحات پر مشتمل ہے کبھی فرست ملے تو یہ اخباری بیان جو کے آپ نے فتوے کے طور پر پیش کیا ہے اسے اور علامہ طاہر القادری صاحب کے فتوے کو آمنے سامنے رکھہ کر مطالعہ کر لیجئیے گا آپکو فتوے اور اخباری بیان میں فرق سمجھہ میں آجائے گا۔ افسوس کے آپ نے ایک اخباری بیان کو فتوی قرار دے کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اب کسے بلاگنگ چھوڑنی چاہیے مجھے یا آپکو اسکا فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں میں۔
پاکستان میں خود کش حملوں کے خلاف علماء کا متفقہ فتوی
پاکستان میں خود کش حملوں کے خلاف علماء کا متفقہ فتوی
پاکستان میں خودکش حملے حرام ہیں،حکومت ان کے اسباب ختم کرے، مختلف مکاتب فکر کے علماء کا مشترکہ بیان
10/15/2008 لاہور ( نمائندہ جنگ ) متحدہ علماء کونسل پاکستان نے قرار دیا ہے کہ پاکستان میں خودکش حملے حرام اور ناجائز ہیں، حکومت اس کے اسباب ختم کرے، علماء کرام کا متفقہ فتویٰ ہے کہ پاکستان میں خودکش حملے حرام اور ناجائز ہیں لیکن محسوس ہوتا ہے کہ حکومت درپردہ ان حملوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔ اس میں اوپر بیان کیے گئے علماء شامل تھے۔
دہشت گردی کے خلاف فتوی کی اسلام آباد میں تقریب رونمائی
منیر بھائی، اندھی تقلید سے نکل کر اور اپنی آنکھوں سے تعصب کی عینک اتار کر اس لنک کو پڑھئیے گا تو آپکو پتہ چلے گا کے اسے کہتے ہیں با ظابطہ فتویٰ، اور اگر آپ اسے خریدنا چاہئیں تو باآسانی اردو بازار میں دستیاب ہے یہ۔ افسوس کے آپ نے فرید پراچہ جیسے کو مفتی بنا دیا۔ یہ تو عالم دین تک نہیں ہے اور آپ نے اسے مفتی بنا دیا سلام ہے آپکی عظمت کو۔ تمام لوگوں سے گزارش ہے کے اس لنک کو ضرور پڑھیں تاکے سب کو پتہ چل سکے کے فتویٰ کسے کہتے ہیں اور فتویٰ دینے کا اہل کون ہوتا ہے، اور کیسے ان منافقوں نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئیے دو ٹکے کے اخباری بیان کو فتویٰ بنا کے پیش کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
حضرت مولانا عبدالمالک درس نظامی، درس حدیث، پی ایچ ڈی (شیخ الحدیث جامعہ منصورہ لاہور)
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ: جامعہ قاسم العلوم سرگودھا سے دینی تعلیم حاصل کی، ادیب عربی، عالم عربی، ایم اے، ایل ایل بی، پی ایچ ڈی، رکن علماء اکیڈمی۔
مولانا حسن جان مدنی۔ درس نظامی، درس حدیث، فاضل دینیات، ایم اے اسلامیات، پی ایچ ڈی اسلامی یونیورسٹی مدینہ المنورہ۔
ڈاکٹر طاہر القادری۔ درس نظامی، درس حدیث، ایل ایل بی، پی ایچ ڈی۔
ڈاکٹر سرفراز نعیمی۔ درس نظامی، پی ایچ ڈی پنجاب یونیورسٹی۔
بھائیو یہ کاشف یحیی ابو جہل بھیّا نے صرف اسی کو فتوی تسلیم کرنا ہے جو کسی مفتی نے دیا ہوگا اور جو ایک سو پچاس صفحات کا ہو۔ یعنی انہوں نے یہ فتوی پہلی بار ہی دیکھا ہے اس مسئلے کے بعد۔ 😆
اب ذرا اوپر بیان کیے گئے افراد کی تعلیمی استعداد دیکھیں، اور بتائیں کے طاہر القادری کے مقابلے میں فرید پراچہ کی تعلیمی قابلیت میں ایسی کیا کمی ہے کہ وہ کوئی فتوی نہیں دے سکتے۔ اوئے تو نے اسے اپنی طرح میٹرک پاس سمجھا ہوا ہے؟
منیر عباسی صاحب، انہوں نے اپنی ڈھیٹائی سے باز نہیں آنا جی۔ الٹا آپ کو ہی کہہ رہا ہے بلاگنگ چھوڑنے کو۔ 😀
گالیوں سے توہین رسالت ہوتی ہے کہ نہیں وہ تو یہ گول ہی کرگئے۔ اور میں اب بھی ان کے ریفرینس کا انتظار کررہا ہوں کہ تفہیمات اور رسائل و مسائل کی کس جلد سے اس نے یہ اقتباسات چھاپے تھے۔ لیکن۔۔۔۔
اتنا تو میں جان چکا ہوں کہ اب آپ حیلے بہانوں سے جان چھڑا رہے ہیں۔ ہم نے کونسا گن پوائینٹ پر آپ سے آپ کا بلاگ چھین لینا ہے۔ فرید پراچہ پر آپ کا اعتراض اگر تسلیم کر بھی لیا جائے تو مولانا حسن جان شہید کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔
اگر آپ کو اس اخباری بیان کا محرک فتوی بھی فراہم کر دیا جائے تو مجھے یقین ہے آپ نے ماننا نہیں۔ اس لئے میں آپ کی ڈھٹائی کو سلام کرتے ہوئے اس بحث سے کنارہ کش ہوتا ہوں۔
آپ کی تازہ ترین دلیل ظاہر کرتی ہے کہ آپ نے ہر صورت نہیں ماننا۔ ایسے بندے سے بحث کر کے اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
کاشف یحیی عرف فکرپاکستان صاحب، اگر یہی آپ کی فکر ہے تو ایسی فکر کا کیا فائدہ جو مخالفین کو گالیوں اور اپنے اندر بھرے بغض و عناد کو باہر نکالے بغیر اپنا مدعا نہیں بیان کرسکتا. آپ کا آخری تبصرہ ایڈیٹ کیا گیا ہے آپ کی گندی زبان کی وجہ سے. یہاں بہت سے تبصرہ نگاروں نے تبصرے کیے لیکن کسی نے بھی نظریاتی اختلاف کے باوجود کسی رہنما کو گالیاں نہیں دیں، انفرادی حیثیت میں نشانہ نہیں بنایا. لیکن آپ سب پر بازی لے گئے. یہ آخری انتباہ ہے آپ کے لیے. اگر اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے تبصرہ نہیں کرسکتے تو تبصرے سے گریز کریں.
ثابت ہوگیا کہ تم لوگ کس قماش کے لوگ ہو، تہمارے نزدیک فتوے کی اہمیت اتنی ہی کے جو بھی کم علم اٹھے اور ایک اخباری بیان داغ دے وہ تمہارے لئیے فتویٰ ہوتا ہے، اول تو یہ فتویٰ ہے ہی نہیں اگر یہ صرف اخباری بیان ہے اگر یہ فتویٰ ہوتا تو مارکیٹ میں با آسانی دستیاب ہوتا جب کے ایسا کچھہ بھی نہیں ہے کیوں کے یہ محض ایک اخباری بیان تھا جسے کم علمی یا مجرمانہ غفلت کی وجہ سے فتویٰ بنا کے پیش کیا گیا، فتویٰ کسے کہتے ہیں اسکا میں لنک دے چکا ہوں اور قارئین تک اب دودھہ کا دودھہ اور پانی کا پانی پہنچ چکا ہے اور تم لوگوں کے منافقت جھوٹ اور مکاریاں عیاں ہوچکی ہیں۔ تم تو ویسے بھی کسی گندتی میں نہیں آتے میں نے منیر صاحب سے سوال کیا ہے مجھے امید ہے کے منیر صاحب ایک عام فہم انسان اور باقائدہ مفتی کے درمیان کے فرق کو سمجھتے ہیں۔ امید ہے منیر صاحب اس اخباری بیان کو فتویٰ کہنے پر اپنے ضمیر کی آواز کو ضرور سنیں گے۔ باقی فیصلہ میں قارئین کے ضمیر پر چھوڑتا ہوں کے وہ اپنے ضمیر کی آواز کے عین مطابق فیصلہ کریں کے کیا فتویٰ اتنی ہی غیر اہم چیز ہے کے کوئی بھی ایرا غیرا نتھو خیرا اٹھے اور فتویٰ دے دے، میں منیر بھائی کے جواب کا منتظر ہوں۔ امید ہے منیر بھائی اپنے ضمیر کے آواز کو ضرور سنیں گے۔ ( نوٹ۔ اوپر کے دونوں تبصرے ٹائیپنگ ایرر کی وجہ سے ڈلیٹ کر دئیے جائیں)
ہائے اللہ لوگ تو آپ سے پوچھ رہے ہیں کہ کس قماش کے لوگ ہو تسی اوئے؟ اس تحریر پر تو تم پوری طرح عیاں ہوچکے ہو۔ تمہاری ساری بکواسات کے ایک ایک پوائنٹ کا خوب پوسٹ مارٹم کیا ہے لوگوں نے اور تم انکا جواب دینے کے بجائے گفتگو کا رخ موڑنے کے لیے اوچھے ہتکنڈوں پر اتر آئے اور دروغ گوئی اور جھوٹ کا سہارا لیا۔
آخری تبصرے میں فرید پراچہ صاحب پر انتہائی گندے الفاظ میں جھوٹے الزامات لگائے کہ وہ عالم بھی نہیں جسے ویب منتظم صاحب نے ترمیم کرکے قابل اشاعت کیا۔ جب تمام حضرات کی علمی استعداد کی تفصیلات فراہم کی گئیں تو اب فتوے کی اہمیت کاراگ الاپنا شروع۔ کس قدر منافقت ہے تم میں بھئی۔
کاشف یحیی ابوجہل بھیا آپ کا کردار تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آپ علماء کرام کو طنزیہ دین کا ٹھیکیدار کہتے رہے۔ اور اب فتوے کے لیے مفتی کے ساتھ ساتھ 154 صفحات کا فتوی بھی چاہیے۔ یعنی دین کے ٹھیکیدار ضروری ٹھرے۔
اگر کاشف یحیی صاحب کے فرید پراچہ پر کئے گئے اعتراض کو بفرض محال تسلیم کر بھی لیا جائے، اور صرف طاہر القادری کے فتوے کو تسلیم کر بھی لیا جائے کہ اس سے کاشف یحیی صاحب خوش ہوتے ہیں تو بھی میرے سوال کا جواب نہیں ملا مجھے کہ کسی کو حرامی یا کتے کا بچہ کہنے سے توہین رسالت ہوتی ہے کہ نہیں۔
بھائیو اتنا مشکل سوال تو نہیں ہے یہ؟ کیا میں نے تمام کائینات کی کثافت معلوم کرنے جیسا مشکل سوال پوچھ ڈالا ہے؟
یہ فکر پاکستان نہیں کن** پاکستان ہے۔ جو اس کا ہمنوا نہیں یا اس کی بات نہیں مانتا وہ دہشت گرد، سارے پاکستان کی تباہی کا ذمہ دار، سارے جہاں کی برائیاں اس کے مخالف میں ظاہر ہو جاتی ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے اس شخص کو جو بھی اپنے آ پ کو مسلمان کہتا ہے اس سے سخت بغض و عناد ہے۔ اپنا لکھا ہوا ہی اس شخص کو سمجھ نہیں آتا کہ یہ کیا لکھ رہا ہے.
اب بلاگ کے منتظمین کا تعصب عروج پر پہنچ چکا ہے اسلئیے مزید کچھہ کہنا بیکار ہے۔ میں اپنا پیغام جن لوگوں تک پہنچانا چاہتا تھا ان لوگوں تک میرا پیغام پہنچ گیا۔ حق اور سچ کا فیصلہ اب وہ خود کرلیں گے میں نے ساری حقیقت فیکٹس اینڈ فیگر کے ساتھہ دے دی ہے، بمہ کتاب کا نام اور صفحہ نمبر تک دیا ہے۔ اور فرید پراچہ اور طاہرالقادری صاحب کی برابری کرنا اتنا مظحقہ خیز عمل ہے کے اس پر میری ہنسی ہی نہیں رک پا رہی۔
بلاگ کے منتظمین کا تعصب اگر آپ نظر انداز کرتے ہوئے میرے سوال کا جواب دے دیں تو نوازش ہو گی کاشف یحیی صاحب۔
کیا کسی کو حرامی یا کتے کا بچہ کہنے سے توہین رسالت ہوتی ہے؟
پلیز مجھے جواب دے دیں۔ پلیز۔
ہنسی رک نہیں پارہی؟ ہنسی تو قارئین کی نہیں رک رہی۔ جو آتا ہے آپ پر لعنت بھیج کر چلاجاتا ہے۔ ہر بندہ یہی کہتا ہے کہ تجھے خود نہیں پتہ کہ تو کہہ کیا رہا ہے۔
بلاگ کے منتظمین پر تو مجھے حیرت ہے کہ اس جاہل مطلق کے گالیوں بھرے تبصرے اب بھی بلاگ کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ اور انہیں موڈریٹ کرنے کا خیال اب آیا ہے۔
میرا چیلنج تمہارے لیے اب بھی موجود ہے کہ بیان کیے گئے کتابوں کی کون سی جلد میں یہ سب کچھ موجود ہے؟ یہ تفصیلات مہیا کر تو شاید آپ کا کچھ بھرم رہ جائے ورنہ یہاں بے عزتی تو آپ کی خوب ہوئی ہے۔
مجھے فکر پاکستان صاحب کی ذہنی حالت پر رحم آرہا ہے ان کو پتہ ہی نہیں ہے کہ وہ کیا کچھ کہہ رہے ہیں اور اپنی ہی باتوں کی تردید پر تردید کرتے چلے جارہے ہیں اور اپنی باتوں کے جال میں خود پھنستے جارہے ہیں۔
غور کیجئے محترم فکر پاکستان کہتے ہیں کہ ’’میں مودودی صاحب کے اس نظرئیے سے بلکل متفق ہوں کے فرقہ بندی اور مسلک پرستی کی وجہ سے ہی آج مسلمانوں کا یہ حال ہوا ہے۔ ‘‘یہ الفاظ محترم فکر پاکستان نے اپنے تبصرے میں تحریر کیئے ہیں۔ان الفاظ پر غور کیجئے یہاں محترم فکر پاکستان صاحب مولانا مودوی صاحب کی اس سوچ یا نظریئے سے متفق ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے نزدیک مولانا مودودی صاحب کایہ نظریہ بالکل درست ہے ۔ اب اگر مولانا مودودی صاحب کا یہ نظریہ ان کے نزدیک درست ہے اور وہ اس سے متفق ہیں تو پھر ان کو اس بات کی حمایت کرنی چاہئے لیکن اگلے ہی جملے میں محترم فرماتے ہیں ’’دیوبندی بریلوی اہل حدیث بھائیوں سے گزارش ہے کے اپنے بارے میں جماعت اسلامی والوں کے رائے پڑھہ لیں اور پھر فیصلہ کریں کے یہ جو آج مذہب کے ٹھیکےدار بن رہے ہیں انکا اصل چہرہ کتنا گھنوونا ہے، ‘‘ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سوچ اور نظریہ رکھنے والوں کا چہرہ اتنا ہی گھنائونا ہے تو آپ خود کو کس صف میں شامل کریں گے کیوں کہ بقول آپ کے آپ اس نظریہ سے متفق ہیں۔
دوسری بات اگر یہ سوچ ،یہ نظریہ درست نہیں ہے تو پھر آپ اسے متفق کیوں ہیں؟
اور اگر یہ سوچ یہ نظریہ درست ہے تو اس کو منفی انداز میں پیش کرے تمام مسالک کو جماعت اسلامی کے خلاف بھڑکانے کی بھونڈی کوشش کیوں کی جارہی ہے؟
اگر یہ سوچ اور نظریہ درست ہے تو پھر اتنی اخلاقی جرائت کیوں نہیں کرتے کہ اسی فورم پر بجائے یہ کہنے کہ ’’ندی بریلوی اہل حدیث بھائیوں سے گزارش ہے کے اپنے بارے میں جماعت اسلامی والوں کے رائے پڑھہ لیں اور پھر فیصلہ کریں کے یہ جو آج مذہب کے ٹھیکےدار بن رہے ہیں انکا اصل چہرہ کتنا گھنوونا ہے، ‘‘ ببانگ دہل مولانا مودودی کے نظرئے کی حمایت کیوں نہیں کی جارہی ؟
ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ آپ مولانا موودی صاحب کی مسالک کے خلاف سوچ سے متفق ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی آپ تبصرے میں لکھتے ہیں کہ’’حضرات !آپ نے مودودی کے عقائد پڑھے یہی عقائد ان کی جماعت اسلامی کے بھی ہیں مودودی کے بارے میں دیوبندی مولوی محمد یوسف لُد ھیا نوی اپنی کتاب ”اختلاف اُمّت اور صراطِ مستقیم“ میں لکھتا ہے کہ مودودی وہ آدمی ہے جس نے حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حجّۃالا سلام امام غزالی علیہ الرحمہ تک تمام عظیم ہستیوں کے ذات میں نکتہ چینی کی ہے ۔
مودودی کی کتاب تفہیمات غلاظتوں سے بھری پڑی ہے ۔جس سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کے عقائد کیا تھے ۔اب مجھے بتائیں کہ کیا ہم آپ کی مولانا مودودی سے متفق ہونے کی بات کو درست سمجھیں یا ان کے خلاف مولانا یوسف لدھایانوی رح کی بات کو درست سمجھیں ۔ اگر مولانا یوسف صاحب کی بات کو درست سمجھیں تو اس کی زد میں تو خود آپ ہی آتے ہیں
اور اگر آپ کے مطابق یہ نظریہ غلط ہے تو خود آپ ہی کہتے ہیں کہ ’’ آج کی جماعت اسلامی کا منشور ہی یکسر بدل گیا ہے ‘‘ تو بھائی اگر جماعت اسلامی کا منشور بدل گیا ہے تو آپ کو تو خوشی ہونی چاہئے تھی کہ جماعت اسلامی نے ایک غلط بات کو چھوڑ دیا۔ آپ ایک طرف مولانا مودودی اور جماعت کو تمام مسالک کے خلاف کہتے ہیں اور ساتھ ہی ان کی جانب سے تمام مسالک کے درمیان اتحاد کی کوششیں بھی آپ کو اچھی نہیں لگتی ہیں۔ بھائی صاحب زرا سوچیں تو سہی کہ آپ کیا کہنا چاہتےہیں؟ آپ کا نقطہء نظر کیا ہے؟
اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ طاہر القادری صاحب بھی مفتی نہیں ہیں وہ بھی ایک لیکچرار یا اسکالر ہیں۔ ان کے متعلق میں اور کچھ نہیں کہنا چاہوں
اس کے ساتھ ساتھ کچھ باتیں میں مزید عرض کرنا چاہونگا کہ میرے محترم دوست انقلاب کے جس نعرے کو آپ الطاف حسین کا نعرہ کہتے ہیں تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ’’انقلاب انقلاب- اسلامی انقلاب ‘‘ کا نعرہ جماعت اسلامی نے متعارف کرایا تھا اور یہ نعرہ آج سے نہیں بلکہ انقلاب ایران کے بعد پاکستان میں متعارف کرایا گیا تھا۔
اس کے علاوہ اگر چہ ہم کسی مسلک کے خلاف نہیں ہیں لیکن ریکارڈ کی درستگی کے لیئے آپ کو بتاتے چلیں کہ کراچی میں اس وقت ایم کیو ایم،اے این پی اور پیپلز امن کمیٹی کے ساتھ ساتھ سنی تحریک (جو کہ بریلوی مکتبہ فکر والوں کی ایک سیاسی جماعت ہے ) بھی بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے۔ ایم کیوایم کے ساتھ مسلح تصادم میں یہ جماعت ملوث رہی ہے اور اس کے علاوہ پر تشدد ہڑتالیں بھی اس جماعت کے کریڈٹ پر ہیں۔
کتے کو کتا ہی کہا جاتا ہے منیر بھائی۔
سلیم اللہ شیخ بھائی، آپ پہلے آدمی ہیں جس نے مہذب طریقہ گفتگو اپنایا ہے۔ اب میں آپکو آپکی ہر بات کا جواب دیتا ہوں۔ میں مودودی صاحب کے اس فلسفے سے اس نظریہ سے بلکل متفق ہوں کے جو مسلک پرستی اور فرقہ بندی کے خلاف ہے۔ تو آپ یہ سوچ رہے ہیں کے پھر میں نے وہ لنک کیوں دیا یعنی میں نے دیوبندی بریلوی اور اہل حدیث حضرات کی حماعت کی وہ لنک دے کر۔ ایسا ہرگز نہیں ہے یہ بات میں نے وقار اعظم کے اس تبصرے کی روشنی میں کہی تھی جس میں انہوں نے فرمایا تھا کے مودودی صاحب نے کبھی بھی دیوبندی بریلوی اور اہل حدیث حضرات کے خلاف کبھی کوئی بات نہیں کی، جبکے یہ سراسر جھوٹ ہے مودودی صاحب سرے سے ہی فرقہ بندی اور مسلک پرستی کے خلاف تھے، مثال کے طور پر آپ یہ پڑھہ لیجئیے،
عقیدہ :خدا کی شریعت میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے ۔جس کی بناءپر اہل حدیث حنفی ،دیوبندی ،بریلوی ،سنی وغیرہ الگ الگ اُمتیں بن سکیں یہ اُمتیں جہالت کی پیدا کی ہوئی ہیں ۔(بحوالہ : خطبات ص 82)
عقیدہ :میں نہ مسلک اہل حدیث کو اس کی تمام تفصیلات کیساتھ صحیح سمجھتا ہوں اور نہ حنفیت کا یا شافعیت کا پابند ہوں۔(رسائل و مسائل ص 235)
یہ میرے الفاظ نہیں ہیں یہ مودودی صاحب کے الفاظ ہیں کتاب کا نام اور صفحہ نمبر ساتھہ دیا گیا ہے۔ یہاں یہ لنک دینے کا مقصد یہ تھا کے وقار اعظم نے جو دیوبندیوں بریلویوں اور اہل حدیثیوں کو جو تاثر دیا تھا کے مودودی صاحب ان سب کے خلاف نہیں تھے لنک دینے کا مقصد یہ غلط تاثر زائل کرنا تھا۔ پھر موصوف نے فرمایا کے دیوبندی بریلوی اور اہل حدیث حضرات مودودی صاحب سے کوئی بغض نہیں رکھتے یہ بھی بلکل غلط بات ہے کیوں کے یہ لنک جو میں نے دیا ہے یہ کسی دیوبندی بریلوی یا اہل حدیث میں سے ہی کسی کا تحریر کردہ ہے اسلئیے اس میں مودودی صاحب کی شان میں گستاخی کو میری تحریر سمجھنا سمجھہ سے بالا تر ہے۔ لب لباب یہ کہ مودودی صاحب مسلک پرستی کے سرے سے خلاف تھے اور اس ہی بات کی وجہ سے دیوبندی بریلوی اور اہل حدیث حضرات کی نظر میں مودودی صاحب غلط ہیں۔ یہ انکی سوچ ہے میری نہیں۔ اور رہی بات جماعت اسلامی کے منشور بدلنے کی تو یہ میرے لئیے تکلیف کا باعث ہے خوشی کا نہیں، کہ مودودی صاحب جن مسالک اور فرقہ بندیوں کے خلاف تھے آج جماعت ان ہی مسالک اور فرقہ بند لوگوں کی ہم پیالہ ہم نوالہ بنی ہوئی ہے جنہیں جماعت کے سربراہ نے جہالت کی پیداوار قرار دیا تھا، اور اس ہی بلاگ پر دیکھہ لیں کے کیسے بڑھہ چڑھہ کر دفاع کیا جاتا ہے مسلکوں اور فرقوں کا۔ یہ ہے وہ نظریہ کی تبدیلی جو کسی طور بھی مناسب نہیں ہے جسکی وجہ سے آج جماعت اپنی ساکھہ کھو چکی ہے۔ امید ہے اب آپ تک میری بات پہینچ گئی ہوگی۔
بیٹا مہذب طریقہ گفتگو مہذب لوگوں سے ہی اپنایا جاتا ہے۔ تجھے تو خوش ہونا چاہیے کہ تیری تمام تر گالیوں کے باوجود تجھے کسی نے براہ راست گالیاں نہیں دیں۔
موصوف کا فرمانا ہے کہ:: یہ تک نہیں پتہ کے جماعت اسلامی وجود میں ہی کیوں آئی تھی، تقسیم سے پہلے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کی مذہبی جماعتیں موجود تھیں پھر جماعت اسلامی کیوں بنائی گئی؟ جماعت اسلامی تو بنی ہی دیوبندیوں بریلویوں اور اہل حدیثیوں کے خلاف تھی، سرے سے منکر تھے مودودی صاحب ان لوگوں کے۔
اب اس کی ذہنی سطح کا اندازہ لگائیں کے یہ جماعت اسلامی پر الزام لگاتا ہے کہ جماعت اسلامی بنی ہی ان فرقوں کے خلاف تھی یعنی انہی کے جیسا ایک الگ فرقہ۔۔۔ بھلا بتائیے کہ مولانا مودودی نے اتنے چھوٹے اور سطحی مقصد کے لیے جماعت اسلامی قائم کی تھی۔ مولانا ضرور فرقہ بندی کے مخالف تھے لیکن کبھی کسی فرقے کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ وہ ان سب کے اتحاد کے لیے کوشاں رہے۔ اسے جماعت اسلامی کا مقصد جو اسکے دستور میں درج ہے جو خود مولانا کی امارت میں بنایا گیا بھی دکھادیا گیا لیکن اتنی سی بات اس بھائی کے چیلے کی سمجھ میں کیسے آسکتی ہے۔ اس پر یہ جھوٹ پر جھوٹ گھڑ رہا ہے کہ حالانکہ مسلکی اختلاف کو ہوا دینے کی اس نے کوشش کی جب دیکھ کہ ہر کوئی آکر اس کو ہی لعن طعن کررہا ہے تو سوچا کہ لوگوں کو اسی پوائنٹ پر جماعت اسلامی کے خلاف بھڑکایا جائے۔ اگر اس کا ذرا بھی مطالعہ ہوتا تو یہ کبھی بھی یہ بات نہیں کہتا کہ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی ان فرقوں کے مخالف تھے۔ نقاد ضرور کہہ سکتے ہیں لیکن مخالف نہیں بلکہ ان کو اس زمانے میں بھی ان کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی۔
جھوٹ گھڑتے ہوئے پتا نہیں کہاں سے کاپی پیسٹ کیا جس کا ریفرنس اس سے مانگ رہا ہوں کہ کون سی جلد میں ہے یہ سب کچھ یہ لیکن یہ بھاگ گیا۔
اس کا گھٹیا پن ملاحظہ کیجیے کہ یہ احکام اللہ اور رسول سے روگرادانی کو توہین رسالت کہہ رہا تھا لیکن منیر عباسی صاحب کے اس سوال پر کہ کیا کسی کو حرامی، کنجر یا کتے کا بچہ کہنے سے توہین رسالت ہوتی ہے کہ نہیں کے جواب میں کہتا ہے کہ کتے کو کتا ہی کہتے ہیں۔ شرم اس کو مگر نہیں آتی۔۔۔
یہ تو مجھے بھی علم ہے کہ کتے کو کتا ہی کہیں گے، مگر وہ جاندار جسے اللہ نے احسن تقویم پر تخلیق کر کے بنی نوع انسان میں پیدا کیا ، کیا اسے کتا کہنے سے توہیں رسالت ہوتی ہے کاشف یحیی صاحب؟
پس نوشت: کیا میں اب تک آپ کو گالیاں دے رہا تھا جو آپ کو صرف سلیم اللہ شیخ صاحب ہی مہذب انداز میں بولتے یا لکھتے دکھائی دئیے؟
ایک ایسے ملک میں جہاں انسانوں کو بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے طور پر غلام بنا کر رکھا گیا ہو۔۔اور انتخابات کے دن اُنہیں ہانک کر “پولنگ اسٹیشن” پہنچایا جاتا ہو اور وہ بس “ٹھپہ”لگانے کے کام آتے ہوں ، اور یہی ان بیچاروں کا کل مصرف ہو۔۔وہاں کیا انتخابات کا یہ نظام کبھی کسی “تبدیلی” کا عنوان بن سکتا ہے۔۔یقیناً نہیں ، یہاں اب “بتوں” نے ہی جیتنا ہے جن کے یہ کمی کمین عوام غلام ہیں۔۔جاگیردار، وڈیرے،خوانین،سردار، سرمایہ دار اور خونی فاشسٹ۔۔جہاں ملک کے لوگوں کوeducateنہیں بلکہ64سالوں سےdis-educateکیا گیا ہو، قصداً اور منظم منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہو، کیا موجودہ” انتخابی نظام” وہاں کوئی تبدیلی پیدا کر سکتا ہے۔۔یقیناً نہیں۔۔اس کا حل انتخابی نظام میں تبدیلی ہے۔۔ایسے ملک میں “متناسب نمائندگیproportional representation” کا نظام افراد اور شخصیتوں کا قلع قمع کرسکتا ہے۔۔اس نظام میں لوگ شخصیتوں کو ووٹ نہیں ڈالتے، پارٹی اور پارٹی پروگرام کو ووٹ دیتے ہیں۔۔کیا یہ کوئی نئی بات ہے۔۔یقیناً نہیں۔۔پھر اس پر بات کیوں نہیں ہوتی، کیوں نہیں ہوئی۔۔بات یہ ہے کہ ملک کا نظام پریس و میڈیا مالکان کے تعاون سے اسلام سے دور، عوام کو محروم در محروم اور جمے ہوئے نظام ظلم کو بچانے پر جمائے رکھنے پر کمر بستہ ہے۔۔آئیے قوم کو بیدار کریں ، ان کی تربیت کریں، انہیں منظم کریں۔۔ورنہ اپنے بچوں کو تازہ و توانا غلامی میں دے کر رخصت ہونے کی تیاری کریں۔۔۔فیصلہ آپ کا ہی ہوگا۔۔۔
جتنی باتیں آپ نے کی ہیں سب درست ہیں۔ واقعی اگر ہمارے ملک میں متناسب طریقہ انتخاب رائج کیے جائین تو بہت سی خرابیاں دور ہوسکتی ہیں۔ میں اپنے طور پر اس بات پر پوسٹ لکھوں گا انشاءاللہ۔