بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ اسے کس جرم میں مارا گیا؟

روزنامہ جنگ کراچی اتوار 26 دسمبر کو صفحہ نمبر ۲ پر ایک خبر شائع ہوئی ہے۔ پہلے خبر کا خلاصہ آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں پھر ہم اپنی بات کریں گے۔ خبر کے مطابق’’گینگ ریپ کا ایک اور واقعہ سامنے آیا ہے جس میں درندہ صفت ملزمان نے بچی کو گڑیا دکھانے کے بہانے لے جاکر زیادتی کا نشانہ بنایا اور لاش گندے نالے میں بہا دی۔ خبر کے مطابق گلستان جوہر سے متصل بختاور گوٹھ میں رہائش پذیر محمد داؤد کی پانچ سالہ بیٹی زیب النسا 31اکتوبر 2010 کو گھر سے کوئی چیز لینے کے لئے دکان پر گئی اور پھر واپس نہ آئی اور 3 نومبر2010 کو دبئی ہاوئس کے قریب ایک تالاب سے اس بچی کی لاش برآمد ہوئی۔7نومبر کو عینی شاہدین کی گواہی کی بنیاد پر ان دلدوز سانحے کے ذمہ دار ملزمان کو گرفتار کیا گیا، جنہوں نے دوران تفتیش اعتراف کیا کہ انہوں نے اس ڈر سے کہ بچی ایک محلے میں رہنے کی وجہ سے ان کو شناخت کر لے گی اس لئے اس کو گلا دبا کر ہلاک کردیا گیا۔‘‘قارئین یہ اس خبر کا خلاصہ ہم نے آپ کے سامنے پیش کیا۔لیکن کیا یہ اس نوعیت کا واحد واقعہ ہے؟ نہیں بلکہ اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں معصوم بچے اور بچیوں کے ساتھ ایسی گھناؤنی وارداتوں کے ارتکاب میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک نجی ٹی وی کے مطابق چند دن پیشتر ایک اور واقعے میں پولیس نے ایک کم عمر نوجوان کو گرفتار کیا تھا اور اس نے بھی ایک کم عمر بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد جان سے مار دیا تھا۔

ہمارے معاشرے میں تو یہ رجحان پہلے نہیں تھا اب ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کیوں ایسی وارداتیں بڑھتی جارہی ہیں؟ ہم نے جب غور کیا تو اس کی کچھ وجوہات ہمیں سمجھ میں آتی ہیں جو ہم آپ سے شئیر کریں گے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اسلام سے دوری کے ہی باعث ہورہا ہے۔جب تک ہم اسلام کی تعلیمات پر عمل نہیں کریں گے اس وقت تک معاشرے میں بگاڑ ہی پیدا ہوگا۔اللہ تعالیٰ سورہ نور میں ارشاد فرماتے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ ﴿جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی پھیلے ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہوگا اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔سورہ نور آیت 19 ﴾ اور آگے فرمایا جارہا ہے مفہوم ﴿ مومنوں! شیطان کے قدموں پر نہ چلنا اور جو شخص شیطان کے قدموں پر چلے گا تو شیطان تو بے حیائی اور برے کام ہی بتائے گا اور اگر تم پر اللہ کی مہربانی نہ ہوتی تو ایک شخص بھی تم میں سے پاک نہ ہوسکتا مگر اللہ جس کو چاہتا ہے پاک کردیتا ہے اور اللہ سننے والا ﴿اور﴾ جاننے والا ہے۔ سورہ نور آیت 22

یہاں واضح طور پر بے حیائی کے کاموں سے منع کیا جارہا ہے بلکہ ایسے کاموں کو شیطان کے پیروی کا نام دیا جارہا ہے گویا کہ برائی اور بے حیائی کے کام شیطان ہی بتاتا ہے اور اس کے پیرو کار ہی اس پر عمل کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے بے حیائی کے کاموں سے منع کیا ہے لیکن ہمارا میڈیا اور ہمارے اربابِ اختیار اور محتلف این جی اوز اس کے بالکل مخالف طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہیں۔میڈیا پر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ بے حیائی اور برائی کے فروغ کا سب سے برا ذریعہ بنا ہوا ہے۔کوئی اشتہار،کوئی ڈرامہ ،کوئی شو ناچ گانے کے بغیر مکمل نہیں سمجھا جاتا ہر اشتہار میں ایک سے ایک بیہودگی اور بے ہنگم ناچ گانا دکھایا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ انٹر نیٹ جو کہ معلومات تک رسائی کا ایک بہترین ذریعہ ہے اس کو بھی ہمارے معاشرے میں انہی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور نیٹ کیفیز کے نام پر منی سینما گھر قائم ہوگئے ہیں جہاں نام تو انٹر نیٹ کا ہوتا ہے لیکن بنیادی طور پر وہاں سرور پر فلمیں محفوظ ہوتی ہیں اور وہاں سے شئیر کر کے وہ فلمیں دیکھی جاسکتی ہیں اور اس وقت اکثر نیٹ کیفز میں یہی کچھ ہورہا ہے۔

فحش فلمیں وی سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز کی صورت میں کھلے عام بِک رہی ہیں۔صدر کراچی،مال روڈ لاہور میں ٹھیلوں پر بلیو پرنٹ اور عریاں ڈانسز کی سی ڈیز بیچی جارہی ہیں۔ گویا کہ برائی کو آسان بنایا جارہا ہے یہاں ہمارے اربابِ اختیار اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مذموم کاروبار کو بند کرائیں لیکن انتظامیہ اس سے چشم پوشی کرتی ہے بلکہ ہم نے خود یہ بات دیکھی ہے کہ بیچنے والوں کو پکڑنے کے بجائے پولیس اہلکاروں نے اس کو کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے اور جو لوگ یہاں سے سی ڈیز وغیرہ خرید کر کچھ دور ہی جاتے ہیں تو پولیس اہلکار ﴿جوکہ ٹھیلوں سے تھوڑا ہٹ کر کھڑے ہوتے ہیں اور سب کو دیکھ رہے ہوتے ہیں ﴾ اس کو گھیر لیتے ہیں اور اس کی تلاشی لینے کے بعد اس کو تھانے میں بند کرنے کی دھمکیاں دیکر پیسے بٹورے جاتے ہیں۔ہم ایک ایسے ہی واقعے کے گواہ ہیں کہ ہم صدر سے بس میں سوار ہوئے ،بس ابھی وہیں رکی ہوئی تھی کہ اچانک بس میں دو پولیس اہلکار داخل ہوئے اور سیدھا ایک مسافرکے پاس گئے جو کہ صدر ہی سے بس میں بیٹھا تھا ﴿اور بس ابھی رکی ہی ہوئی تھی چلی نہ تھی ﴾ اس سے پوچھا کہ ابھی وہ یہاں سے سی ڈیز خرید کر آیا ہے،اس کے بعد اس مسافر کو اتارکر انہوں نے تلاشی لینا شروع کی اور پھر سی ڈیز بر آمد کرکے اس سے جوڑ توڑ شروع کردیا ۔یعنی برائی کو ختم کرنے کے بجائے اس کو کمائی ذریعہ بنالیا گیا ہے۔

میڈیا اور انتظامیہ کا تو ہم نے ذکر کردیا لیکن اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جو مغرب زدہ این جی اوز ہیں وہ کس طرح اس عمل میں حصہ دار ہیں؟ وہ کس طرح بے حیائی و برائی کو پھیلانے میں معاون و مددگار ہیں؟ اس کا جواب بھی بہت آسان ہے۔ایسی تمام این جی اوز کے کچھ بنیادی نکات ہوتے ہیں جن میں سر فہرست خواتین کو آزادی کے خوبصورت نعرے کی آڑ میں انہیں گھروں کے محفوظ سائبان سے باہر لانا ہے۔﴿یہ نکتہ کم و بیش تمام ہی این جی اوز کے منشور میں شامل ہے﴾۔اس کے بعد اکثر این جی اوز تعلیمی اداروں بالخصوص گرلز کالجز و اسکولز میں سروے کے نام پر ان کو ورغلانے کی کوشش کرتی ہیں اور ان کے جنسی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کرتی ہیں،﴿ایسا ہی ایک سروے مشرف دور میں آغا خان والوں نے کرایا تھا جس میں اسکول و کالج کی بچیوں سے صحت کے نام پر پوچھے گئے سوالات میں یہ بھی شامل تھا کہ اب تک انہوں نے کتنی دفعہ ’’جنسی تجربہ‘‘کیا؟ اس تجربے کو انہوں نے کیسا محسوس کیا؟ اور کیا اس دوران ان کے ساتھی نے کنڈوم استعمال کیا یا نہیں؟ یہ سوالات ایک گرلز کالج کی لڑکیوں سے پوچھے گئے تھے جس پر انہوں نے احتجاج کرتے ہوئے ان کے سروے فارم پھاڑ دئے تھے اور شدید احتجاج کیا تھا۔﴾ پردے کو دقیانوسی قرار دیکر ان کو چراغِ خانہ کے بجائے شمع محفل بنانے کی کوشش کرنا، مخلوط سوسائٹی کو فروغ دینا،جنسی بے راہ روی کو روکنے کے بجائے اس کے محفوظ طریقے بتانا جس سے ’’کسی بدنامی‘‘ کا خدشہ نہ ہو۔ (یہاں ہم یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ خدمت خلق کرنے والی دو معروف تنظیموں نے شہر میں کئی مقامات پر جھولے نصب کئے ہیں اور ان پر لکھا ہوتا ہے کہ قتل نہ کریں یہاں ڈال دیں یہ لوگ بھی اس برائی میں ایک لحاظ سے حصہ دار ہیں کہ یہ برائی اور گناہ کو ختم کرنے کی کوشش کے بجائے اس کا محفوظ راستہ بتا رہے ہیں ) نوجوان لڑکیوں کو آزادی کے نام پر حتی الامکان گمراہ کرنے اور جنسی جذبات بھڑکانے کے بعد شادی سے روکنا ،جی ہاں کئی این جی اوز کا یہ مشن ہے کہ وہ کم عمری کی شادی کے نام سے نوجوان لڑکیوں کو شادی نہ کرنے کی ترغیب دیتی ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شادی نہ کریں ۔غور کریں کہ اسلام تو اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ نوجوان لڑکیوں،لڑکوں،اور عورتوں اور مردوں کو بھی تجرد کے بجائے نکاح کی ترغیب دیتا ہے لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے کہ شادی کو ایک زنیجر اور قید کا نام دیکر اس سے روکا جاتا ہے۔اور کم عمری کی شادی کو صحت و مذہب کے خلاف ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس کے بعد میڈیا کے ذریعے ایک اور برائی ’’اسٹیٹس‘‘ کے نام سے ہمارے معاشرے میں پیدا ہوگئی ہے۔ اب ایک نوجوان لڑکا یا لڑکی شادی کی عمر کو پہنچنے کے بعد بھی شادی کرنا چاہیں تو وہ نہیں کرسکتے کیوں کہ خاندان،مان مرتبہ،دولت ہی اب سب کچھ ہے۔اب کسی لڑکی کا اخلاق،اس کی شرم و حیا،اس کی شرافت،اس کی پاکیزگی سب ایک طرف رہ جائیں گی اگر اس کے ماں باپ کے پاس جہیز نہیں ہے۔اگر وہ اپنے داماد کو سلامی میں کم از کم موٹر سائیکل نہیں دے سکیں گے تو ان کی بیٹی گھر بیٹھی رہے گی اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی المیہ ہے کہ اکثر کیسز میں یہ سب مسائل نہیں ہوتے یعنی لڑکی کے گھر والے اچھے خاصے کھاتے پیتے ہیں،دولت کی ریل پیل بھی ہے لیکن معلوم ہوا کہ خاندان سے باہر شادی نہیں کی جاسکتی اور اب خاندان میں لڑکی کے جوڑ کا رشتہ موجود نہیںہے تو وہ بیچاری اپنی خاندانی راوایات کی بھینٹ چڑھا دی جائے گی۔۔اسی طرح ایک نوجوان لڑکاجو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے،با اخلاق ہے اس کے ساتھ بھی یہی مسائل ہوتے ہیں اور اس طرح نکاح جیسی سنت جس کو نصف ایمان بھی کہا گیا ہے انتہائی مشکل اور دشواربنا دیا گیا ۔

اب غور کریں کہ جب برائی کے اسباب مہیاہوں،جذبات کو برانگیجۃ کرنے کا سامان موجود ہو،کیبل کے ذریعے ہر گھر میں فحش پھیلایا جائے،گناہ کو آسان بنایا جائے،نکاح کو مشکل بنایا جائے تو پھر ایسے سانحات ہی جنم لیتے ہیں۔اور معصوم بچیاں ان درندہ صفت بدکار لوگوں کے آسان شکار ہوتے ہیں۔ ہم لوگ اپنی اپنی جگہ چیختے رہیں گے،یہی این جی اوز بھی ایسے واقعات کو خوب اچھال کر اپنی پبلسٹی کرتی رہیں گی لیکن ان جرائم کا سد باب نہ ہوسکے گا جب تک کہ برائی اور گناہ کے اسباب کو ختم نہ کیا جائے گا،جب تک نکاح کو آسان نہ بنایا جائے گا۔برائی ختم نہ ہوگی اور معصوم بچیاں ان برائیوں کا ،ان گناہوں کا کفارہ ادا کرتی رہیں گی اور جب روز قیامت اللہ تعالیٰ ان معصوم جانوں سے پوچھے گا ’’ بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ اسے کس جرم میں مارا گیا ‘‘ تو وہ معصوم اس پورے معاشرے کو مجرم قرار دیگی۔ میں اور آپ بھی اس جرم میں شریک ہونگے۔

فیس بک تبصرے

بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ اسے کس جرم میں مارا گیا؟“ پر 3 تبصرے

  1. فحاشی کے پھیلنے میں ہماری حکومت کا بہت ہاتھ ہے۔۔۔ روشن خیالی کے نام پر بے حیائی کی ہمت افزائی کی جارہی ہے۔۔۔

    آپ نے بہت اچھی کوشش کی ہے اس بیماری اور گناہ کو منظر عام پر لانے کے لیے۔۔۔ اس کے لیے آپ مبارکباد کے حقدار ہیں۔۔۔ امید ہے آپ کا پیغام دلوں میں اتر جائے گا۔۔۔۔ آمین

    اسی سلسلے کی تحریر میں نے اپنے بلاگ پر بھی کی تھی۔۔۔ http://wp.me/p1wpiT-4h

  2. ہمارا معاشرہ بہت زیادہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ اسی لیے تو سیلاب آتے ہیں اور زلزلے ہمیں تہہ و بالا کردیتے ہیں

  3. reaching at root cause is the right way to solve any problem. and masha’Allah you did it perfectly.

Leave a Reply