چنچلاتی دھوپ ۔۔ اسلام آباد کی تپتی سڑکیں اور دیوانوں کا جوش عروج پر تھا میں گاڑی میں بیٹھا ان کو دیکھ رہا تھا ، میں سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ کیسے لوگ ہیں ، یہ کیسے مجنوں ہیں ۔ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ، ان میں ریڑھی بان بھی تھے ، اور دوکان دار بھی ، ان میں مزدور بھی تھے اور سرمایہ کار بھی ، ان میں سائیکل چلانے والے بھی تھے اور گاڑیوں والے بھی تھے لیکن عزم اور چہرے کی روشنی سب میں کامن تھی ، ایک ہی جوش ، ایک ہی جذبہ ، ایک ہی دیوانہ پن۔
نعرے تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے نوجوانوں کا جذباتی انداز میرا دل موہ لینے کے لئے کافی تھی ، میں ان روشن پیشانیوں والے نوجوانوں کو دیکھتا تھا تو مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ انشااللہ یہ جذبہ کبھی پاکستان پر آنچ نہیں آنے دے گا۔
ایک دیدنی منظر تھا بوڑھے جوان اور بچے سب ایک کلمے والے پرچم تلے اللہ کی کبریائی اور محمد رسول اللہ کی رسالت کا دم بھر رہے تھے ، اس کلمے والی پرچم پر نظر پڑتے ہی میرا ذہن اس عظیم انقلا بی کی طرف چلا گیا جس کی کاوشوں کی وجہ سے آج ایک بھر پور تحریک کھڑی ہو چکی ہے ، جن کو نہ روپے پیسے کا لالچ ہے نہ کار اور کوٹھیوں کا ، ان کو چاہتے تو صرف ایک فلاحی اور اسلامی ریاست ۔
وہ چلتے جا رہے تھے اور میں سوچوں میں گم تھا وہ تپتی سڑک پر یوں جا رہے تھے جیسے ان کو موسموں کی بے رحمیوں کا اندازہ ہی نہ ہو ، بس جوش تھا اور ولولہ تھا ، نعرے تھے اور جواب تھے ، انقلاب کی گونچ تھی اور پر امید پاکستان کی آس تھی ، حکمرانوں سے گلہ تھا لیکن عوام کو بہتر مستقبل کی نوید سنائی دے رہی تھی ۔
یہ دیوانے حرمت قرآن کے لئے آئے تھے اور چاہتے تھے کہ وہ معلون پادری ان کے سامنے ہو اور اس کو نیست و نابود کر کے اللہ کی عدالت میں سر خرو ہو جائیں ۔ لیکن پھر سوچنے لگا یہ لوگ بھی حبس اور گھٹن کے ماحول میں کسی تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں ہیں ، جب امت مسلمہ سو رہی ہے ، حکمران خواب غفلت میں ہیں ، عالمی سامراجی طاقتیں اپنا کھیل کھیل رہی ہیں ۔
اسلام کو گزند پہنچانے کا کوئی بھی موقع یہ ملعون ہاتھ سے خالی نہیں جانے دیتے ، جو کام اسلامی حکومتوں کو کرنا چاہتے اور عوام کو ان کی پشت پر کھڑا ہونا چاہتے وہ کام یہ لوگ کر رہے ہیں اور آج سے نہیں گزشتہ چونسٹھ سالوں سے کر رہے ہیں ۔
جب اقتدار کے لالچ میں پڑے ہوئے لوگ بلیک میلنگ کی سیاست اور اپنے ذاتی مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں تو یہ جنونی اسلام کی عظمت کا پرچم لئے باطل نظاموں سے بغاوت کا عہد کر رہے ہیں ۔
ان کو دیکھ کر اور ان کے انقلابی لیڈر کو سن کر ایسا لگا کہ امید ابھی باقی ہے ، امتحان جیسے بھی ہوں یہ لوگ کامیاب ہی ہوں گے ، ان کو لوگ کچھ بھی کہہ لیں ، میڈیا ان کا ساتھ دے نہ دے ، بحض اور کینہ پرور لوگ کتنا ہی ان پر کیچھڑ اچھال لیں۔۔۔ لیکن یہ دیوانے اپنے کام میں اتنے مست ہیں کہ سیاست کی بے رحمیاں ، تیروں کی بوچھاڑ ، اور میڈیا ٹرائل ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔۔۔ کیونکہ یہ دیوانے ہیں اور دیوانے ، دیوانے ہی ہوتے ہیں ۔
فیس بک تبصرے