صوبہ بلوچستان ایک طویل عرصے سے بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔ یہاں آئے دن بم دھماکے،گیس لائن کو نقصان پہنچانا،اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ یہاں کی قوم پرست تنظیموں کا کہنا ہے کہ خفیہ ایجنسیاں اور ایف سی یہاں کے امن کی خرابی کی ذمہ دار ہے۔ صوبہ بلوچستان میں ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں سب سے زیادہ نوجوان لاپتہ ہوتے ہیں۔ مقامی افراد کا ماننا ہے کہ خفیہ ایجنسیاں اور ایف سی کے اہلکار ہمارے نوجوانوں کو اغوا کر کے لیجاتے ہیں اور پھر ان کو ماورائے عدالت مقابلوں میں مار دیا جاتا ہے۔ گزشتہ روز بھی کوئٹہ سے چار مسخ لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ لیکن گزشتہ روز یعنی 17مئی کو کوئٹہ میں پیش آنے والے واقعے نے صوبے میں ایف سی کے کردار اور پولیس مقابلوں ہونے والی ہلاکتوں پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا ۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق کہا گیا کہ کوئٹہ میں چمن بارڈر کے نزدیک ایف سی چیک پوسٹ پر مبینہ طور پر پانچ خود کش حملہ آوروں کو جن میں تین خواتین بھی شامل تھیں ،پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا گیا ۔سی سی پی او کوئٹہ نے تو تفصیلات بتاتے ہوئے یہاں تک کہا کہ ”ان خود کش حملہ آوروں کو پولیس کی ایک چوکی پر روکا گیا جہاں پر انہوں نے خود کش جیکٹ دکھا کر کہا کہ ہم خود کش حملہ آور ہیں جس کے بعد پولیس نے انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی اور اس کے بعد یہ پانچوں حملہ آور ایف سی کی چیک پوسٹ پر پہنچے جہاں انہوں نے خود کش حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس سے پہلے ہی ایف سی کے اہلکاروں نے ان پر فائر کھول دیا اور کسی کو سنبھلنے کا موقع نہیں مل سکا اور یوں یہ پانچو ں خود کش حملہ آور موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔“ اس کے بعد دوسری خبر یہ آئی کہ ”ایف سی اہلکاروں نے انکو روکنے کی کوشش کی تو ان ملزمان نے ایف سی پر فائرنگ کردی اور ایف سی کی جوابی فائرنگ سے چار ملزمان ہلاک جبکہ ایک خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا“ ایف سی اور پولیس کے مطابق مبینہ حملہ آوروں نے خود کش جیکٹ پہن رکھی تھیں ۔ انکے جسموں پر ہینڈ گرینیڈ بھی بندھے ہوئے تھے اور وہ مسلح بھی تھے۔
لیکن یہاں کچھ سوالات پیدا ہوئے کہ اگر ایک خود کش حملہ آور نے خود کو اڑا دیا تو دیگر کیسے محفوظ رہے؟ ان کی خود کش جیکٹس اور ہینڈ گرنیڈ کیوں نہ پھٹے؟ اور میڈیا کے نمائندوں نے ایک سوال یہ بھی اٹھایا کہ لاشوں کی پوزیشن یہ بتاتی ہے کہ ان کو یہاں لاکر مارا گیا ہے یا پھر کہیں اور سے مار کر یہاں ڈالا گیا ۔ جب اس مقابلے کے بارے میں شکوک پیدا ہوئے تو پھر چند ہی گھنٹوں بعد ساری حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ ”بہادر“ پولیس اور ایف سی اہلکاروں نے ان نہتے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو چوکی کے سامنے فائرنگ کر کے ہلاک کیا ہے۔ نجی چینلز پر وہ فوٹیج بھی دکھائی گئی کہ پانچوں ہلاک شدگان ایف سی کی چیک پوسٹ کے سامنے لیٹے ہوئے ہیں اور ایف سی اہلکار ان پر گولیاں برسا رہے ہیں۔جبکہ ایک لڑکی ہاتھ اٹھا کر ان سے زندگی کی بھیک مانگ رہی ہے لیکن اہلکاروں نے فائرنگ نہیں روکی اور ان کو وہیں قتل کردیا۔ جبکہ ہمارے پاس موجود دو تصاویر یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ان لوگوں کو قتل کرنے سے پہلے ان کے ہاتھ پیر باندھے گئے تھے۔
اس جعلی مقابلے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان کے قوم پرست رہنما اور ناراض بلوچ نوجوان بالکل درست کہتے ہیں کہ صوبہ میں بدامنی کی ذمہ دار ایف سی ہے۔ اگرچہ صوبہ بلوچستان کی صورتحال میں ہم بھارت کے ہاتھ کو نظر انداز نہیں کرسکتے اور یہ بات درست بھی ہے کہ بلوچستان میں بدامنی میں بھارت بہت زیادہ ملوث ہے لیکن ہم بھارت کو تو بعد میں کچھ کہیں گے پہلے ہمیں اپنی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔ یہ واقعہ تو چونکہ بہت بڑا تھا ور اس میں غیر ملکیوں کی ہلاکت ہوئی ہے اس لئے اس میں میڈیا نے غیر معمولی دلچسپی لی اور سارے معاملے کو بے نقاب کیا۔لیکن کتنے ہی بے گناہ نوجوان ایسے ہیں جو پہلے لاپتہ کئے جاتے ہیں اور پھر ان کی لاشیں برآمد ہوتی ہیں۔ان کے قتل کی کہانیاں کب بے نقاب ہونگی؟
بہرحال اب حکومت کو چاہئے کہ وہ اس معاملے کو معمول کا کوئی واقعہ سمجھ کر نظر انداز نہ کرے بلکہ واقعے میں ملوث ایف سی اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دے اور بلوچ نوجوان میں پائی جانی والی بے چینی کو ختم کرنے کے اقدامات کئے جائیں اور ان کے جائز مطالبات کو تسلیم کیا جائے تاکہ بلوچ نوجوان اپنی ناراضگی ختم کرکے قومی دھارے میں شامل ہوسکیں
اگر یہ واقع واقعتا یوں ہی ہوا ہے جیسے آپ نے بیان کیا ہے تو یہ ظلم اور سفاکی کی انتہاء ہے۔ عقل اور دل یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتا کہ کچھ لوگ اسقدر شقی القلب ہوتے ہیں اور اس طرح کی دردنگی کا مظاہرہ بھی کر سکتے ہیں۔
ایسے ذمہ داروں کو اس انتہائی سنگدلی کی کڑی سے کڑی سزا دی جائے اور یہ ظلم ثابت ہونے پہ سر عام سزائے موت دی جائے۔
ایسی درندگی کے مظاہرے پہ کچھ کہنے کو میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ اپنے صدمے اور جذبات کو مناسب طریقے سے بیان کر سکوں۔
محترم جاوید گوندل صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ : آپ وطن سے درر دیار غیر میں موجود ہیں اور دیار غیر میں انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ آپ نے وطن کے حالات سے آگاہ رہے۔ ملک میں ہونے والی اچھی سرگرمیوں اور ترقی سے دایر غیر میں موجود اہل وطن کو خوشی ہوتی ہے اور ملک میں ہونی والی واردتوں،جرائم، اور دہشت گردی کی واقعات پر انسان پردیس میں رہتے ہوئے بھی اپنے وطن کی تکلیف محسوس کرتا ہے۔ آپ کا تبصرہ اسی بات کی غمازی کرتا ہے کہ آپ اپنے ملک کے حالات سے واقفیت رکھتے ہیں اور یہاں ہونے والے افسوسناک واقعات پر آپ کادل بھی دکھتا ہے۔
میرے بھائی اس واقعے کی مکمل تفصیلات تو ابھی سامنے نہیں آئی ہیں۔آہستہ آہستہ ساری بات سامنے آرہی ہے لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ یہ پانچوں نہتے تھے اور ایک لڑکی زخمی حالت میں گرنے کے باوجود ہاتھ اٹھا کر فائرنگ روکنے کا اشارہ کرتی رہی لیکن قانون نافذ کرنے والے اہکاروںنے اس کی ایک نہ سنی اور تمام افراد کو قتل کردیا اور اس کے بعد اس واقعے کو پولیس مقابلے کا رنگ دیدیا۔ ہمارے پاس موجود غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ان لڑکیوں سے پہل ےزیادتی کی گئی اور بعد پکڑے جانے کے خوف سے ان کو قتل کیا گیا ہے۔ لیکن چونکہ اس بات کی ابھی تصدیق نہیں ہوئی ہے اس لئے ہم اس کو اپنے مضمون میں شامل نہیں کیا۔
وعلکیم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔
اللہ تعالٰی آپ کو اور سبکو حق سچ کی تلاش، حق سچ کی تشہیر، اور حق سچ کو جاری کرنے اس پہ قائم رہنے کی توفیق عمل دے۔
AP LOG YE NAHI DEKHTE HEN KE GOZISHTA 10 SALON ME EK BHI DEHSHAT GURD COURT KE ZARYE SAZA NAHI MILI OR NA NAHAD GHUNDE JO EK ISLAMI MUMLAKAT KO TORKE LESANI BUNIADON PER TAKSEEM KAR KE YAHOOD OR HONOOD KE ALAKAR BANE HOWE HEN ,PAKISTAN SIRF ISLAM KE NAM PER BANA HE OR IS PER SIRF MUSALAMANO KA HAQ HE OR AGAR KOI OR APNI DOSRI SHANAKH KAR WANA CHAT A HE THEN HE MUST ELIMINATED
محترم دوست بات تو آپ کی درست ہے کہ یہود و ہنود کے ایجنٹ ملک کو لسانی اور فرقہ وارانہ فسادات میں مبتلا کرکے کمزور کرنا چاہتے ہیں اور ملک کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں لیکن افسوس کہ جو بات آپ کو اور مجھے سمجھ آرہی ہے وہ ہماری قیادت کو سمجھ نہیں آرہی ہے۔
اور رہی بات دہشت گردوں کو عدالت سے سزا ملنے کی تو میرے بھائی کہ اگر پولیس اصل مجرموں کو گرفتار کرے گی تو سزا ہوپائے گی نہ! یہاں تو یہ عالم ہے کہ خفیہ ایجنسیاں رپورٹ دیتی ہیں کہ کراچی کی ٹارگٹ کلنگ میں حکومتی اتحادی جماعت ملوث ہے۔ لیکن اس رپورٹ کو اٹھا کر پھینک دیا جاتا ہے اور ساری ٹارگٹ کلنگ مذہبی جماعتوں اور آج کل تو طالبان کا نام چل رہا ہے ان کے سر ڈال دی جاتی ہے۔
ایجنسیاں رپورٹ دیتی ہیں کہ ملک میں ہونے والے دھماکے ریموٹ کنٹرول ہیں لیکن حکومت اور میڈیا اس کو خود کش کہنا شروع کردیتے ہیں اور ساری بات تبدیل ہوجاتی ہے۔ ایجنسیاں رپورٹ دیتی ہیں کہ بم دھماکوں اور دہشت گردی میں را اور بلیک واٹر ملوث ہیں لیکن حکومتی ادارے اور وزیر داخلہ صاحب ان ساری رپورٹس کے بجائے ہر بات کو طالبان،القاعدہ، اور کالعدم جماعتوں پر ڈال کر یہود و ہنود کی خدمت سر انجام دیتے ہیں۔ اب بتائیں کہ ایسے میں عدالتیں کیا کرسکتی ہیں جب پولیس بے گناہ افراد کو دہشت گردی بنا کر پیش کردے اور ان کے خلاف کوئی ثبوت ہی نہ ہو تو !
read in jang also
http://ejang.jang.com.pk/5-19-2011/Karachi/pic.asp?picname=106.gif
یہ ظلم کی انتہا ہے… .. .. خدارا.. .. .. پاکستان کو ایک اور… بنگلہ دیش.. .. بنانے سے… گریذ… کرنا چاہیئے…. خرارا… ین سیکورٹی….. ایجنسیوں کو… لگام دو… .. . ایجنسیوں کو… لگام دو… .. ایجنسیوں کو… لگام دو… .. ورنہ پھر نا کہنا….. ھمیں.. خبر نہ .. .. . تھی…. ….. .. .. .. .
اللہ نہ کرے کہ سقوط ڈھاکہ جیسا کوئی اور سانحہ رونما ہو۔
shame on our security personals and their big boss lanat ha es tra k dareno pr
عرفان ملک صاحب اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ایجنسیاں کرپٹ ہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کٹرول کوئی نہیں ہے۔ فوج اور ایجنسیوں کو ملک بننے سے لیکر اب تک احتساب سے بالاتر رکھا گیا جس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ ایف سی،رینجرز،فوج یہ سب بھی کسی احتساب سے بالاتر نہیں ہیں۔ ایک اسلامی مملکت میں جب خلیفہ وقت کا بھی احتساب کیا جاسکتا ہے،ایک غیر مسلم کے دعوے پر خلیفہ وقت کو بھی عدالت میں طلب کیا جاسکتا ہے اور نہ صرف طلب بلکہ ان کو مدعی کے برابر کھڑا کیا جاسکتا ہے تو ہماری افواج اورطبقہ اشرافیہ اس سے مستثنیٰ کیوں ؟
tell me photo you are showing on second .. a woman with tighten hand with rope. but you see live news we all can see same hand was free at time of firing.
http://www.dawn.com/2011/05/19/chech…witnesses.html
محترم آپ کا پواینٹ بالکل درست ہے۔ میں اس پر کوئی بحث نہیں کرسکتا لیکن یہ بھی دیکھیں کہ تصویر میں واضح طور پر ہاتھ باندھے گئے ہیں۔ اب اصل بات کیا ہے اس بارے میں معلومات حاصل کرکے ہی میں کچھ کہہ سکتا ہوں