پاکستان میں پٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتوں میں تباہ کن مسلسل اضافہ، اور حد سے بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ کوئی معمولی واقعات نہیں ہیں. گہری نظر سے دیکھا جائے تو اس کے پیچھے کوئی اور ہی کہانی پوشیدہ لگتی ہے. واحد مسلم ایٹمی قوت جس کے پیچھے ساری عیسائی، یہودی اور ہندو دنیا پڑی ہوئی ہے، ہوسکتا ہے کہ ان کے اہداف میں سے ایک ہماری معیشت کو کلی طورپر تباہ وبرباد کرنا بھی ہو. یہ قومیں ہماری معیشت کو شاید اس آخری سطح تک لے جانا چاہتی ہیں جہاں سسک سسک کر وہ بالآخر دم ہی توڑ دے. حالات کی سنگینی اب اس آخری درجے تک پہنچ چکی ہے کہ صنعت وتجارت کی تمام چھوٹی بڑی تنظیمیں چیخ اٹھی ہیں کہ ہولناک شرح بجلی اور طویل لوڈ شیڈنگ کے باعث ان کے لیے اب ملک میں صنعت وکاروبار کا جاری رکھنا ناممکن ہو گیا اور کارخانوں کو تالا لگانے کے علاوہ کوئی اور چارہ کارباقی نہیں رہ گیاہے۔
پاکستان کے وزرائے صنعت وخزانہ، صنعت وتجارت کے مالکان سے اکثر و بیشتر فرماتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا توازن ادائیگی تجارت درست حالت میں نہیں ہے، اس لئے انہیں اس کے توازن کو درست کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیئے. وہ کہتے ہیں کہ ملک کی برامدات میں اضافہ کئے بغیر بیلنس آف ٹریڈ کو ٹھیک کرنا ممکن نہیں ہے. بیشک یہ نصیحت ایک بہت درست بات ہے کیونکہ تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کی برامدات اس کی درآمدات کے حجم سے دس ارب ڈالر سے بھی زیادہ پیچھے ہیں. لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ اتنی اہم ذمے داریوں پر فائز ان شخصیات کو بھی پتہ نہیں ہے، یا شاید وہ مخص تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں، کہ صنعتکاروں کو جب اپنی پیداواری لاگت ہی پر قابو حاصل نہ ہوگا، اوردوسرے ممالک میں یہی اشیاء سستی لاگت پر تیار ہورہی ہوں گی، توعالمی مارکیٹ میں وہ ان سے کیسے مسابقت کرسکیں گے؟ آج حال یہ ہے کہ ملک میں بجلی، گیس، پیٹرول اور نقل و حمل سمیت کسی چیز کی قیمت میں بھی ٹہرائو نہیں ہے. قیمتوں کا بڑھنا یوں تو ایک فطری عمل ہے اور اس کا سامنا ہر ایک ملک کو کرنا ہی پڑتا ہے، لیکن تباہ کن طور پر جس طرح ہمارے ہاں بلا روک ٹوک مہنگائی کو فروغ پانے کی اجازت دی گئی ہے اس کے باعث کاروباری طبقے کو یہی پریشانی ہر وقت درپیش رہتی ہے کہ Quoteکی ہوئی ان کی قیمتیں، اشیاء کے برآمد کئے جانے تک اس سطح پر برقرار بھی رہیں گی یا نہیں؟ اور اسکی وجہ سے اسوقت تک بیرونی درآمد کنندگان خریداری پر آمادہ بھی رہ سکیں گے یا نہیں؟ یوٹیلیٹی سروسز اور فیول کی قیمتوں میں اندھا دھند اور نہ رکنے والے ان اضافوں کے باعث آج مارکیٹ کا ہر فرد غیر یقینی کا شکار ہے، اور یہ بات طے ہے کہ ہر سو چھائی ہوئی پیہم غیر یقینی کی کیفیت سے ایک مضبوط معیشت کبھی جنم نہیں لے سکتی۔
بد قسمتی سے اس وقت ہماری موجودہ صنعت وتجارت چوطرفہ دبائو کا شکار ہے.اگر ایک طرف مہنگائی، لوڈشیڈنگ، ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر اور لاتعداد ٹیکسوں کے بھرمار کی فضا ہے تو دوسری جانب اندرون ملک اعتماد سے عاری قیادت اورامن و امان کی ناقابل بیان صورت حال ہے. لیکن اچنبھے کی بات یہ ہے کہ ان حالات کو درست کرنے کی جانب سنجیدہ تو جہ کسی کی بھی نہیں ہے. جناب اسحاق ڈار جوگذشتہ سال محض ایک ماہ کے لیے وزیر خزانہ مقرر ہوئے تھے، انہوں نے بھی انڈسٹری کی حالت کی پرواکئے بغیر پٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں خطیر اضافہ کرنے سے گریز نہیں کیا. اور موجودہ وزیر خزانہ بھی سابقہ نقش قدم کی پیری کرتے ہوئے فیول کی قیمتیں مسلسل بڑھاتے رہے ہیں۔ حالانکہ دوسری جانب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوںمیں فی بیرل ستر فیصد تک کی کمی واقع ہوئی ہے. گلی کے ایک عام آدمی سے لے کر چوٹی کے صنعتکارتک سب کے سب حیران وپریشان ہیں کہ قیمتوں کی یہ کمی آخر باقی تمام اشیاء کو سہارا دینے کے لئے کیوں استعمال نہیں کی جارہی؟ مزید تعجب انہیں اس امر سے ہوتا ہے کہ بھارت اوربنگلہ دیش کی حکومتیں تو اپنے عوام اور صنعتکاروں کو اس بحران سے نکلنے کے لئے از خود سبسڈی دے رہی ہیں۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ تنگ آمد بجنگ آمد کے تحت پچھلے دنوں سب سے بڑے صنعتی شہر کراچی کے تاجران و صنعتکاران نے بجلی کے بلوں کو اجتماعی طور پر آگ لگا دی تھی اور اس فیصلے پر پہنچنے کے لیے سوچ بچار کررہے تھے کہ کیوں نہ ان بلوں کی ادائیگی ہی روک ہی دی جائے. قدرتی گیس جو کلی طور پر پاکستان کی اپنی پیداوار ہے (اور چونکہ اس کی درآمد نہیں ہوتی اس لیے اس پر کسی قسم کا زرمبادلہ بھی خرچ نہیں ہوتا لیکن اس کی قیمتوں میںبھی نہ رکنے والے مسلسل اضافے کئے جارہے ہیں. ابھی چند دن قبل ہی گیس کی شرح میں 33 فیصد مزید اضافے کی سفارش بھیجی گئی ہے. خدشہ ہے کہ اس اضافے سے حاصل شدہ خطرہ رقم کے بیشتر حصے کو 20 تا 2 گریڈ کے افسران کے مشاہروں اور دیگر مالی فوائد میں اضافے کے لیے ہی استعمال کیا جائے گا جیسا کہ ہماری تاریخ یہ سب کچھ بتارتی رہی ہے.
آج سے ایک سال قبل ہم نے اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین سے ایک ملاقات میں ان کی توجہ اس طرف دلائی تھی کہ بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں ہر آئے روز اضافے سے ہماری صنعتی و زرعی پیداوار کی لاگت کبھی ٹھیک طورپر متعین نہیں ہوسکے گی جس کے باعث ہمارے برآمدکنندگان فیصلہ نہیں کرپائینگے کہ درآمدی ممالک کووہ آخر کونسی قیمت Quoteکریں؟لیکن بدقسمتی سے اس سطح پر بھی ہمیں اس کا کوئی تشفی بخش جواب نہیں مل سکا. ڈاکٹر صاحب ہی نے اُس دور میں ہمیں اپنا ایک کتابچہ عنایت فرمایا تھا جس کا عنوان تھا۔WHY SHOULD WE QUIT THE IMF? ٰؒلیکن سال ڈیڑھ سال بعد پھر تمام حکومتی ذمے داران دوبارہ ا سی IMF سے رجوع کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کررہے تھے، جو سخت حیرت کا باعث ہے. مہنگائی کی ضرب کے ساتھ ساتھ تشویش کا دوسرا پہلو صنعت وتجارت پر بجلی کے طویل بریک ڈائون کا بھی ہے جس کے نتیجے میں ہماری نیم مردہ معیشت مزید موت کی طرف دھکیلی گئی ہے. پاکستان میں نہ صرف یہ کہ ’’اندھیر ‘‘ مچی ہوئی ہے بلکہ اسی’’گھپ اندھیری‘‘نے بھی اپنے قابو میں کیا ہوا ہی۔جب کمپنیوں کے صدردفاتر ہی اندھیرے میں ڈوبے ہوئے ہوں اور کارخانوں کی مشینیں خاموش ہوکے بیٹھ گئی ہوں تو معیاری مصنوعات وخدمات کہاں تک پیدا کی جاسکتی ہیں؟اوردن بھر چھ چھ اور آٹھ آٹھ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کے بعد کارخانوں کے پہئے اور صنعتوں کی چمنیاں کب تک چل سکتی ہیں؟ کیا یہ واقعی لوڈشیڈنگ ہے یا اصل میں فیکٹریوں کا شٹ ڈائون ہی؟ اگرچہ سردیوں کی وجہ سے ان دنوں اس ’’تاریکی‘‘ میں کمی آئی ہے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ میہ محض ایک عارضی بندوبست ہے اور اس کے بعد پھر اندھیرا ہی اندھیرا ہے.
زراعت جو ہماری خوشحالی کی جڑ بنیاد ہے، اور جس کے باعث ہماری زمینیں سدا سے سونا اگلتی رہی ہیں، اسے بھی انجانے ہاتھوں کے ذریعے مسلسل پیچھے دھکیلا جاتا رہاہے. ورنہ2 سالوں کے سفر کے بعد ہماری فصلوں کو 1950اور970 سے آگے جانے کے بجائے پیچھے نہیں آنا چاہئے تھا۔وہ ملک جو بیشتر غذائی اجناس میں خود کفیل ہوتاتھا آج بنیادی غذائی اشیاء کے لئے بھی باہر کی درآمدات کا محتاج ہے ۔چینی ،گندم،چاول،خوردنی تیل ،مرچیں اور کپاس وغیرہ سب کچھ باہر سے آرہے ہیں۔درآمدات کے ان خواہ مخواہ اضافوں کے باعث معیشت کا توازن تجارت و توازن ادائیگی آخر کیسے درست ہوسکتا ہی؟ اسکا مطلب ملکی زر مبادلہ کے ڈرین آئوٹ کے سوا اور کیا ہے؟
پھلتی پھولتی زراعت کے لیے بجلی اور پانی لازم وملزوم عناصر کی حیثیت رکھتے ہیں. ظاہر ہے کہ جب بجلی ہی نہیں ہوگی یا بجلی کی قیمت زمینداروں کی پہنچ سے بہت آگے نکل جائے گی تو ان کے ٹیوب ویل کیسے پانی پھینکیں گے اور ان کی زرعی برقی مشینیں آخر کیسے حرکت میں آئیں گی ؟چنانچہ ان سب کمزوریوں کا مجموعی نتیجہ کم اور نا قص زرعی پیداوار کی صورت میں نکلے گا۔ اگرچہ متبادل طور پر اب زمینداروں نے جنریٹرز کا استعمال بھی شروع کردیا ہے لیکن جنریٹرز کا مسلسل استعمال کوئی قابل قبول حل نہیں ہے کیونکہ اس سے لاگت پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔
ہمارے دشمنوں نے شاید اب یکسو ہو کر طے کرلیا ہے کہ اس خوبصورت ملک کو ہدف بنا کر تباہ کردیا جائی۔ہمارے خیال میں وہ اس پر کئی زاویوں سے کام کررہے ہیں جن میں سے ایک ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دینا بھی ہے. صیہونی اپنی خفیہ سازشوں کے لئے دنیا بھر میں ویسے ہی معروف ہیں چنانچہ خدشہ کیاجانا چاہئے کہ وہ بھی ہماری معیشت کو برباد کرنے میں درپردہ مصروف کار ہوں گے۔ اگر حالات کی درستگی کا ارادہ کیاجائے تو پھر کسی بھی امکانی پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ ہوسکتا ہے کہ ہماری حکومتیں جان بوجھ کر اس کھیل میں حصے دار نہ ہوں تاہم خواہی نہ خواہی ان کے اٹھائے گئے اقدامات سازش کاروں کے حق ہی میں جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
اب سے کچھ عرصے قبل ہمارے دشمنوں نے ملک میں برڈ فلو(ird Flu) کا اچانک ہوا کھڑا کرکے ہماری دیرینہ صنعت مرغبانی کو بھی اسی طرح تباہ کردیا تھا جس کا نتیجہ ملک کے بے شمار لوگوں کی بیروز گاری اور کئی مرغبان حضرات کے جائیدادوں کی قرقی کی صورت میں نکلا تھا۔ اس زمانے میں بھی ہم نے اپنے مضامین کے ذریعے اس مصنوعی(ake) بیماری اور نظر نہ آنے والی پس پردہ یہودی سازش کے خلاف کافی کچھ لکھا تھا۔ کسی خوشحال ملک کی معیشت پر دشمن قوتیں کس طرح قبضہ کرتی ہیں،اس کے بعض حیران کن انکشافات ایک معروف انگریزی کتابAWNS IN THE GAME مصنفہ’’ولیئم گائی کار‘‘ میں پیش کئے گئے ہیں ان میں سے بعض کا مطالعہ ہماری معیشت کی بربادی کی تشخیص کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہوگا۔کار لکھتا ہے۔
انقلاب فرانس کے پیچھے بھی یہی صیہونی تھے۔ اس انقلاب کے وقوع پذیر ہونے سے قبل تک رونما ہونے والے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ698اور815 کے درمیان برطانیہ کا کو قومی قرضہ(اٹھاسی کروڑ پچاسی لاکھ)پائونڈ تک پہنچ چکا تھا جبکہ 1945تک پہنچتے پہنچتے یہ رقم کائناتی لحاظ سے وسیع(بائیس ارب پچاس کروڑ ،پینتس لاکھ، بتیس ہزار تین سو بہتر پائونڈ تک داخل ہوگئی تھی۔ لیکن اس کے مخص ایک سال بعد 1945-46 میںمحضarrying Charges ہی (چوالیس کروڑ ،چون لاکھ،چھیالیس ہزار،دوسو اکتالیس)پائونڈز تھی۔ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے آئرلینڈ کے ایک ماہر معیشت نے کہا تھا کہ’’ صرف یہود حاوی کوئی تنظیم ہی اس طرح کے اضافی (DD) پائونڈز پر اصرار کرسکتی ہی‘‘(باب دوم) آگے چل کر یہی مصنف ولیئم گائی کار صیہونیوں کے خفیہ منصوبے کو بے نقاب کرتے ہوئے مزید کہتا ہے کہ’’ اپنے دلائل کے لیے عقل و منطق کا سہارا لیتے ہوئیayer Rothshield(عالمی مضبوط ایک یہودی بینکار فیملی) نے واضح کیا کہ برطانوی انقلاب کے نتیجے میں حاصل ہونے والے مالی نتائج کی حیثیت ،فرانسیسی انقلاب سے حاصل ہونے والے مالی’’انعامات‘‘ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہی! روتھ شیلڈ نے اپنے خفیہ منصوبے سے پردہ ہٹا تے ہوئے کہا کہ ہم (یہودیوں) کی اجتماعی دولت کے عیارانہ استعمال کے باعث ان کے لیے ایک ایسی خراب معاشی صورت حال پیدا کرنا ممکن ہوجائے گا جس میں عوام الناس بھوک،افلاس اور بے روز گاری کے باعث قحط کی سی صورت حال سے دوچار ہوجائیں گی‘‘(باب۳بعنوان ’’وہ لوگ جنہوں نے انقلاب فرانس برپاکیا‘‘) ایک اور موقع پر اسی کتاب (awns In The Game)میں بیان کیا گیا ہے کہ’’ایڈورڈ گبن(۴۹۷۱ ۔ ۷۳۷۱) نے سود خوروں اور یہودی کاروباریوں کے ان غالب تباہ کن اثرات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور ’’سلطنت روما کے زوال اور انہدام‘‘ کے لئے انہی طبقوں کو مورد الزام ٹھرایا ہی۔ گبن نے فیرو کی بیوی پوپائے کے اس کردار کا خاصی تفصیل سے جائزہ لیا ہے جو اس نے وہاں ایک ایسے ماحول کو جنم دینے میں ادا کیا تھا جس کے باعث نشے میں چور ہوکر رومی رعایا خراماں خراماں اپنی بربادی کی جانب چلی جارہی تھی۔جائز وناجائز ہر قسم کے کاروبار و تجارت کا یہودی غلبہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا اور آخر کار دورونزدیک اس حد تک پھیل گیا کہ ہر یورپی ریاست کی معیشت کم وبیش انہی کے ہاتھوں میں قید ہوکے رہ گئی‘‘۔(باب سوئم) امریکہ کا نامور صنعتکار ہنری فورڈ اپنی کتاب ’’ دی انٹر نیشنل جیوز‘‘ کے باب چھ میں لکھتا ہے کہ’’اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کرنے اور ان کی قیمتیں بڑھانے کا طریقہ یہودی خوب جانتے ہیں اور وہ اس حربے کو انقلاب فرانس اور انقلاب روس کے دوران استعمال بھی کرچکے ہیں‘‘ اس ضمن میں معروف کتاب یہودی پروٹوکولز پر بھی ایک نظر ڈالنا نامناسب نہ ہوگا۔پروٹو کولز نمبر۳ کہتے ہیں کہ’’ہم ایک عالمی معاشی بحران پیدا کردیں گے اور پھر یکے بعددیگر تمام ممالک میں ساری مزدور قوت کو سڑکوں پر لے آئیں گی۔ پھر ان پاگل عوام کے حملوں سے فضا میں ہر چیز بکھرتی اور ٹکڑے ٹکڑے ہوتی نظر آئے گی۔‘‘
اوپر بیان کردہ معروف مغربی مصنفوں اور خود یہودی دستاویزات کی شہادتیں ایسی نہیں ہیں کہ معمولی سمجھ کے انہیں نظر انداز کردیا جائے۔ لہٰذا ان حقائق کی روشنی میں بجلی و گیس کی قیمتوں میں تباہ کن اضافے اور ملک پر لوڈشیڈنگ (تاریکی) کے تسلط کو خاص اہمیت کے ساتھ جانچا جانا چاہئے۔ شاید ان کا در پردہ مقصد یورپ کی طرح پاکستان کی معیشت کو بھی خطرے سے دوچار کرنا اور دائو پر لگانا ہے۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت جو ہمارے دشمنوں کو ہمیشہ سے کھٹکتی رہی ہے، سادہ سی بات ہے کہ وہ بھی صرف اسی وقت مئوثر ثابت ہوسکے گی جب کہ ملک معاشی لحاظ سے بھی مستحکم ہو۔ ایک ایسی صورت حال میں جبکہ کارخانے بند ہورہے ہوں (بلکہ باہر منتقل ہورہے ہوں) اور زمیندارسر پکڑے اداس بیٹھے ہوئے ہوں‘تو اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ ملک کتنے اتھل پتھل کا شکار نہ ہوگا۔؟ باہر کی ڈکٹیٹ کردہ معاشی ومالیاتی پالیسوں نے حال یہ کردیا ہے کہ آج ہمارا ملک دیوالیہ ہونے کی سطح پرآکے کھڑا ہو گیا ہے۔ صنعت وکاروبار کو تو فروغ تب ہی حاصل ہوسکے گا جبکہ ملکی معاشی پالیسیاں حوصلہ افزاء ہوں اور سیاسی فضا ء پر امن نظر آئی۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشی مینجرز اس پر قابو پانے کے لئے جو نسخے آزمارہے ہیں، ان سے مثبت اثرات سامنے آنے کی بجائے مخص منفی اثرات سامنے آرہے ہیں۔
ٹھوس اور حوصلہ افزاء پالیسیوں کی جانب سے ان معاشی مدبروں کا انجان بنے رہنا حادثے سے بھی بڑھ کے حادثہ ہے۔ عرصئہ دراز سے کرچی کو بدامنی، قتل اور دہشت گردی کے لیئے مستقل طورپر منتخب کیا گیا ہے جس کا واضح نتیجہ صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کے مسلسل فرار کی صورت میں نکل رہا ہے۔ اس کے پیچھے صیہونی سازشوں کو کارفرما سمجھنا کون سا مشکل کام ہے؟ اس لیے اوپر ہم نے جس سنگین پہلو کی جانب توجہ دلائی ہے، اس پر ناخدایان ملک کا سوچ بچار کرنا نہایت ضروری امرہے۔
فیس بک تبصرے