حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو گذشتہ کئی برسوں سے ہمارا ملک پاکستان ایک ایسی ناکام ریاست کا تصور پیش کررہا ہے، لاقانونیت جس کا ایک سنگین مسئلہ ہے اگر چہ یہ مسئلہ پچاس کے عشرے ہی سے ابھرنا شروع ہوگیا تھا لیکن گذشتہ ایک عشرے سے تو اب اس کی کوئی مثال ہی باقی نہیں رہی ہے۔’’حکومتی وقار‘‘اور’’اقتدار کی ساکھ‘‘ جو کسی ملک کو آگے بڑھانے اور حالات کو بہتر بنانے میں بڑا کردار ادا کرتی ہیں، سرحد، کراچی اور بلوچستان میں آج ان کی دھجیاں کھلے عام بکھرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ جس مقصد، اسلام ۔کی خاطر اس ملک کو برصغیر سے کاٹا گیا تھا،اس کانفاذ تو بہت دور کی بات ہے، بلکہ دنیا کے معروف طریقہ کار۔جمہوریت۔کو بھی یہاں بار بار ذبح کیا جاتارہا ہے۔ سازشیں، اندر سے بھی اور باہر سے بھی، ہر جگہ کھلے عام اپنا کھیل دکھاتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ 65 طویل سالوں کے بعد بھی جبکہ ’’قوم، ملک، سلطنت‘‘ سب کے سب با شعور، بالغ اور پختہ ہوچکے ہوتے ہیں، ہمیں اپنی متعین منزل ہی کا پتہ نہیں چل رہا ہے۔ چھوٹے بڑے سب حیران ہیں کہ انہیں‘‘ جانا ہے کدھر، معلوم نہیں‘‘ اکثر اوقات گمان گذرتا ہے کہ وہ ابتدائی پڑائو جہاں سے ہم نے کبھی اپنے سفر کا آغاز کیا تھا، وہ پڑائو بھی ہم سے کہیں کھو گیا ہے۔اس وقت ہمیں نہ اپنی آغاز منزل کا پتہ ہے اور نہ اختتام منزل کا!
لگتا ہے جیسے ناخدایان وطن ابتک نابالغ ہیں۔ شاید وہ کئی ذہنی الجھنوں کا شکار (onfused)ہیں۔ شاید انہیں اس ملک کی تشکیل پسند نہیں آئی ہے۔ شاید انہیں بانیان پاکستان(قائد اعظم اور لیاقت علی خان)سے سخت بغض وعناد ہے۔ یا شاید انہیں ملک کے عوام ہی سے گھن آتی ہی. ناخدایان وطن جب اعلان کرتے ہیں کہ وہ ملک کے خلاف میلی آنکھوں سے دیکھنے والوں کی آنکھیں تک نکال دیں گے تو اندر ہی اندر وہ خود اس کی جڑیں بھی کھوکھلی کررہے ہوتے ہیں۔جب وہ کہتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کا ایک ناگزیر حصہ ہے تو پھر خود ہی کشمیر سے متعلق ساز باز بھی کرتے رہتے ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں ہمارے آئین کی بنیاد اسلا می ہے تو پھر خود ہی اسلام کی ایک ایک شق کی دھجیاں بھی بکھیرتے ہیں۔ جب وہ اعلان کرتے ہیں کہ پاکستان ایک آزاد و خود مختار ملک ہے تو پھر بھارت اور امریکہ کی ہر ہدایت کو من و عن توتسلیم بھی کرتے ہیں۔ فخریہ اظہار ہوتا ہے کہ حضرت امام حسینؓ نے حق کے لیے گردن تک کٹادی مگر یزید کے ہاتھوں پر بیعت نہیں کی۔ لیکن خود ہی ہر روز کسی نہ کسی حق گو کی گردن کاٹنے اور یزید سے بھی بڑھ کر خود کو یزید ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، دعویٰ کرتے ہیں کہ ملک کو اسلحے سے پاک کردیا جائے گا مگر پھر خود ہی گھر گھر غیر قانونی اسلحے بھی تقسیم کرتے ہیں۔ غرض کہہ مکرینوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو ملک میں گذشتہ نصف صدی سے اپنا راج کررہا ہے۔ ملک میں صدراتی نظام ہونا چاہئے یا پارلیمانی؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم. طالبان سے دوستی رکھنی چاہیے یا دشمنی؟ کسی کو خبر نہیں، روایتی بینکاری کا نظام چلنا چاہئے یا غیر سودی بینکاری کا نظام؟ سب کے سب لاعلم، ہفتہ وار چھٹی جمعہ کو ہونی چاہیے یا اتوار کو؟ یقینی طورپر کسی کو بھی نہیں معلوم۔ آئین73ء ہی کا چلنا چاہئے یا ایک بار پھر کسی نئے آئین کی مشقت کرنی چاہیے؟ سارے جغادری لاعلم! ایٹم بم رکھنا چاہیے یا اقوام متحدہ کے حوالے کردینا چاہیے؟ مکمل انتشار فکری کی کیفیت.اور یہ صورت حال کسی غریب، مجبور اور غیر تعلیم یافتہ افراد کو درپیش نہیں ہے بلکہ یہ صورت حال انہیں درپیش ہے جو اعلیٰ ترین ایوانوں میں بیٹھے ہیں، جن کے پاس مسلح افواج کی کمانیں ہیں، جن کے امریکہ، برطانیہ، فرانس، عرب ممالک اوراقوام متحدہ سب کے ساتھ براہ راست رابطے ہیں اور جو باہر کی تعلیم گاہوں سے مرعوب کن ڈگریاں لئے ہوئے آئے ہیں۔ چنانچہ ان تمام حالات میں پاکستان اگر ایک ناکام ریاست کا تصور پیش کررہا ہے اور عام افراد کے دل ہر روز اس خوف سے دھڑکتے رہتے ہیں کہ ملک اب ٹوٹا کہ تب ٹوٹا، تو اس بات پر کسی کو تعجب بھی نہیں ہونا چاہیے. ملک چلانے کے تویہ لچھن ہی نہیں ہیں. بلکہ یہ لچھن تو فروٹ کاایک چھوٹا سا ٹھیلا چلانے کے لیے بھی بہت مہلک ہیں۔
آخر ایسا کیوں ہے.؟ کیوں ہمارے ہاں حاکمانِ وقت ملک کو ایک چراگاہ اور لوٹ مار کا مرکز گردانتے رہتے ہیں؟ کیوں وہ اس پاک وطن کو غیروں کی گود میں ڈالنے کے لیے ہمیشہ تیار بیٹھے رہتے ہیں؟کیوں انہوں نے ایک اچھے دین، اسلام کے خلاف اپنی جبلی نفرت کا مظاہرہ کیا ہے؟ اور کیوں انہوں نے جمہوریت کا گلا بے دردی سے گھونٹنے ہی کو اپنی ترجیح اول قرا ردیا ہے؟ وجہ صاف ظاہر ہے. جو لوگ تحریک پاکستان لے کر ان دنوں چل رہے تھے اور جو اس وقت متحدہ ہندوستان کے چودہ کروڑ مسلمانوں کی نمائندگی کی شناخت بنے ہوئے تھے وہ بیرونی لادین یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے تھے اور ان کی طرز زندگی اور شراب وکباب کے دلدادہ تھی۔ وہ اپنے اپنے علاقوں کی وسیع و عریض اور لامتناہی جاگیروں کے آقا یان ولی تھے جن کی نظروں میں اپنے علاوہ باقی سب لوگ قابل نفرت اور ملیچھ تھے. ان کی خواتین، جو خود بھی قائدین تحریک پاکستان تھیں، ’’حیابیزار‘‘ اور ’’پردہ دشمن ‘‘ تھیں۔ وہ اپنی جاگیریں وسیع تر کرنے میں گذاراکرتی تھیں۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں چارپائیوں اور دریوں کے بجائے صوفوں اور ڈائننگ ٹیبلوں کے تکلفات پسند تھے اور جو اسلام کو دور قدیم کا کوئی فرسودہ طریق کارگردانتے تھے۔ علی گڑھ یونیورسٹی نے ان کے اندر افسرانہ تکبربھر دیا تھا اور انہیں اسلام کی بجائے مسلم قومیت کا فسوں سکھادیا تھا۔ ان کا نظریہ تھا کہ جس طرح عیسائیوں کے لئے عیسائی مملکتیںہیں، ہندوکے لئے ایک ہندو مملکت ہے، اسی طرح ہندی مسلمانوں کے لئے ایک مسلم ریاست بھی ہونی چاہیے۔ قوانین وہی مغربی ہوں لیکن ملک بس مسلمانوں کا ساہو!
یہ کیفیت ایک دو کی نہیں تھی۔ تقریبا تمام کے تمام قائدین، کیا مرد اور کیا عورتیں، سب کے سب انہی رنگوں میں رنگے ہوئے تھے۔ اگر ان میں سے دو چارنے سوٹ کی جگہ شیروانی پہن لی تھی یا نماز روزوں کی پابندی کرلی تھی، اس سے تحریک پاکستان پر کوئی جوہری فرق نہیں پڑا تھا۔ ہاں البتہ قائد اعظمؒکی بات اور تھی۔ بیشک وہ اوپر سی’’کرسٹان‘‘تھے (جیسا کہ لوگ اس زمانے میں انہیں کہا کرتے تھی) لیکن اندر سے وہ سچے مسلمان تھے اور اسلام کے آفاقی او ر ہمہ گیر مذہب ہونے کا احساس ان کے اندر بہت زیادہ تھا۔ وہ دل سے خواہاں تھے کہ آئندہ حاصل ہونے والا ملک پاکستان صرف ایک’’مسلم مملکت‘‘ ہی نہ ہو بلکہ صحیح معنوں میں ایک ’’اسلامی مملکت‘‘ بھی ہو جہاں اسلامی قوانین بھر پور طریقے سے کار فرما ہوں اور جہاں مغرب کو اسلام کی برکتیں ابھرتی ہوئی نظر آئیں۔ اس بارے میں ان کی لاتعداد تقریریں بلاکسی کانٹ چھانٹ کے ابتک نہ جانے کتنی بار شائع ہوچکی ہیں۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ قائد اعظم کے ذہن میں محض ایک’’سیکیولر اسٹیٹ‘‘کا نقشہ تھا وہ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ بولتا ہے۔ لیکن قائداعظم تو بس ایک ہی شخصیت تھے۔ ان کے پاس مخلص، محب قوم، عاجزی پسند، اصولوں کے باوفا اور اسلامی انقلاب کی سوچ رکھنے والے لوگ نہ دائیں طرف تھے نہ بائیں طرف۔ غلط یا صحیح ان سے یہ تاریخی جملہ بار بار منسوب کیا جاتا ہے کہ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں‘‘. غالبا وہ خود بھی اپنی اس وسیع و عریض ٹیم سے مطمئن نہ تھے،غالبا یہی وجہ ہے کہ جب متحدہ بھارت میں جماعت اسلامی کے ایک وفد نے انہیں اس جانب متوجہ کیا تھا کہ آپکا مشن درست ہے مگر آپ کے ساتھی اس مشن کے اہل نہیں ہیں تو قائد اعظم نے اس کی تردید نہیں کی تھی بلکہ فرمایاتھا کہ ’جب طبل جنگ پہ چوٹ پڑچکی ہو تو میدان جنگ میں کمانڈروں کو تبدیل کردینے سے سوائے شکست کے اور کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔‘(مفہوم)۔ پھر تکمیل پاکستان کے بعد قائد اعظم کی عمر کیا رہی؟ اور وہ تعمیر وطن میں کتنا حصہ لے سکے؟ جولائی 1948 کے بعد(یعنی محض۱۱ ماہ بعد ہی) وہ بری طرح صاحب فراش ہوگئے اور ہدایات کے مطابق زیارت میں بستر مرگ پر منتقل ہوگئے تاآنکہ۱۱ ستمبر1948 کو وہ اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔ پاکستان کا بانی اعظم اپنے ہی تخلیق کردہ وطن کی پہلی سالگرہ میں بھی ذاتی طور پر شرکت نہ کرسکے۔۔۔ اس لیے اس معاملے میں قائد اعظم کو دوش دینا کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے.
قائد اعظم بہت ذہین، بہت جمہوری، بہت مصمم الارادہ اور بہت اسلامی ذہن کے مالک تھے البتہ حصول وطن کی تحریک کے لئے قائدین کے انتخاب میں انہوںنے ہاتھ کھلا رکھا تھا۔ نتیجہ یہ ہواکہ وطن کے لئے تھوڑی بہت زبان ترکرنے والی شخصیت بھی قیادت کے منصب پر فائز ہوگئی حالانکہ اسے اسلام ،نظریہ پاکستان اور نظریہ اسلامی معیشت کے بارے میں دھیلے کے برابر بھی معلومات نہ تھیں۔ اصول یہ کارفرما رہا کہ چونکہ تحریک ِپاکستان کا قافلہ چل پڑاہے اس لئے’’ جو آئے آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں‘‘اس کا نتیجہ یہ ہواکہ حصول ارض وطن کی تحریک میں گدھے، گھوڑے، شیر، خچراور لومڑیاں سب کے سب شامل ہوگئے۔ قافلہ قائدین میں جو لوگ تھے ان میں شرابی بھی تھے،زانی بھی تھے، منافقین بھی تھے، لبرل بھی تھے، دہریئے بھی تھے، مغربی تہذیب کے دلدادہ بھی تھے، قادیانی بھی تھے، آغاخانی بھی تھے، کانگریسی بھی تھے اور بڑے بڑے فیوڈل لارڈز بھی تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں اسلامی انقلاب کی باریکیوں کا پتہ ہونا تو درکنار، الٹا اسلام ہی کے نام سے وحشت تھی۔ تحریک درجہ بدرجہ آگے بڑھ رہی تھی اور اسکی ہر سطح پر بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے لوگ جوق درجوق شامل ہورہے تھے۔ اس سے’’ تحریک پاکستان‘‘ کو تو بے شک تقویت ہورہی تھی لیکن’’ مقصد ِ تحریک پاکستان‘‘ پس منظر میں کہیں کھویا چلاجارہا تھا۔ مقصد یہ نہ تھا کہ بس ایک آزاد مسلم مملکت حاصل کرلی جائے بلکہ مقصد یہ تھا کہ ایک آزاد اسلامی مملکت کا خواب پورا ہو جہاں اسلامی نظام کو آزادانہ طور پر کارفرماہونے کا موقع دیا جائے۔ اس طرح اس جنگ کے نتیجے میں فتح تو حاصل ہوئی مگر وہ مخص جزوی فتح ہی رہی۔ عملی فوجی جنگ کی قیادت بھی اگر اسی طرح کے منتشر الفکر اور ذاتی مفادات کے اسیر جنرلوں اور کرنلوں کے ہاتھوں میں ہو تو اسکا انجام بھی وہی ہوگا جو حصول پاکستان کے بعد نتائج کی صورت میں ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ فتح حاصل کرلینا بھی ایک کارنامہ ہے لیکن اس فتح کو برقرار رکھنا اس سے بھی بڑا کارنامہ ہے جو صرف نظریاتی کارکنوں کے باعث ہی ممکن ہی۔
اگر تحریک پاکستان کے قائدین مندرجہ بالا مثبت اوصاف کے مالک ہوتے تو ایک طرف وہ قانون سازی بھی اسی کے مطابق کرتے اور دوسری طرف عوام کو بھی ذرائع ابلاغ کے ذریعے اسی کے بارے میں’’ایجوکیٹ‘‘کرتے تاکہ ان کے اور ان کی نسلوں کے ذہن سے تحریک پاکستان کے مقاصد کبھی اوجھل نہ ہونے پائیں۔ اس طرح کی کوششیں ملک کو ایک طرف اسلام اورجمہوریت کی بہاریں عطا کررہی ہوتیں تو دوسری طرف عوام کو اچھا، باوفا، جانباز، دلسوز اور دینی شہری بننے میں بھی مدد دیتیں۔ یہ خیال ظاہر کرکے ہم خدانخواستہ قائد اعظم پر تنقید نہیں کررہے ہیں کیونکہ ان جیسا قائد مسلمانوں کو بڑی مشکل سے دستیاب ہواتھا۔ ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ اس طرح کا آزادانہ انتخاب قائدین ان سے بالکل غیر ارادی طور پر ہواتھا۔
اس خاص نکتے کو مسلم دنیا میںمحض جماعت اسلامی کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم ہی نے اہمیت دی تھی۔ اسلامی انقلاب کی طویل تحریک کے لئے انہوں نے محض بھیڑ اکھٹی کرنے کی بجائے لوگوں کی درجہ بندی کرکے، انہیں منتخب دینی لٹریچر پڑھواکے اور انہیں بے شمار تربیتی مراحل سے گذارکے، اسلامی انقلاب کی جانب ان سب کو یکسو کرلیاتھا۔ اسی لئے آج 70 سال گذرجانے کے باوجود تحریک اسلامی کا کارکنوں کے ذہنوں میں ابتک سید مودودی کا فلسفہ اسلامی انقلاب نقش اول کی طرح واضح ہے۔ بلند نصب العین تک پہنچنے کے لئے قائدین قافلہ کا ٹھیک انتخاب اور ان کی ذہنی ہم آہنگی بھی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہی۔شاید یہی ہمارا مسئلہ بھی رہا ہی.
ممکن ہے کہ قائد اعظم کو اس نکتے کا خود بھی احساس ہو لیکن حالات و واقعات نے انہیں شاید اس جانب توجہ دینے کا موقعہ نہ دیا ہو. ممکن ہے کہ تحریک پاکستان کے لئے انہیں بہت زیادہ وقت نہ مل سکا ہوکیونکہ واقعات بہت تیزی کے ساتھ تبدیل ہونے شروع ہوگئے تھے. ممکن ہے کہ مذکورہ بالا صفات کے افراد اس وقت بڑی تعداد میں دستیاب نہ ہوں. ممکن ہے کہ قائد اعظم نے سوچا ہو کہ دستیاب افراد کے ساتھ ہندوئوں اور انگریزوں کے ساتھ پہلی معرکہ آرائی تو کرہی لیجائے جس کے بعد تعمیر وطن کے دوران مہروں کی تبدیلی کا کام بھی کرلیا جائے گا جس کے لیے انہوںنے قیام پاکستان کے بعد مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمدعثمانی اور مولانا مودودی سے کام لینا بھی شروع کردیا تھا. تاہم یہ ایک خلا تحریک پاکستان کے دوران بہت واضح طور پر ہمارے سامنے نظر آتا ہے. ایسا خلا جس نے بعد میں ہمارا سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ دیا.
آپکی دروغ گوئی پہ زرا حیرت نہیں ہوئی، آپ اگر سچ اور حق کہتے تو ضرور حیرت ہوتی، کیوں کے سچ کہتے ہوئے آپکی زبان میں آبلے پڑ جائیں کے کہ پاکستان میں بد امنی خاص طور پر گذشتہ ایک دھائی سے نہیں تین دھائی سے ہے۔ اس تمام فساد کی جڑ جماعت اسلامی —- ضیاء الحق تھا۔ جسکا بھرپور ساتھہ جماعت اسلامی نے دیا اور کروڑوں ڈالر کمائے۔ آپ لوگوں کی ان ہی دروغ گوئی اور منافقت کی کی وجہ سے آج تک آپ لوگ پاکستانیوں کے ووٹ نہیں لے پائے۔
ارے بھائی آپ نے تو سنا ہی ہوگا کہ منافقوں پر حق بات بہت بھاری ہوتی ہے جیسے حق اور سچ سنتے ہی آپ لٹھ لے کر دوڑ پڑتے ہیں۔ 3 دہائیوں سے تو آپ کی آنکھوں کے تارے محترمی بھائی حضرات نے کراچی اور حیدرآباد کو مقتل بنایا ہوا ہے، وہ کس کھاتے میں ہے جی؟ تمام فساد کی جڑ تو جماعت اسلامی ہے کہ اس نے ضیاء کی حمایت کی تھی ہیں جی۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے کس طرح ضیاء کی حمایت کی تھی؟ اس کی حکومت میں تھی؟ اچھا جی، کتنے ماہ؟ صرف تین ماہ اوہ ہو، اچھا اس کے ساتھ اور کون کون سی جماعتیں تھیں؟ پتہ ہے؟ اور بھی جماعتیں ہونگی پھر گالیاں جماعت کو ہی، محترم بغض و عناد تو واضح ہوگیا۔۔۔۔
ویسے جماعت کا راستہ روکنے کے لیے ایم کیو ایم کی پیدائش کا سبب بننے والے ضیاء الحق اور جمعیت کا راستہ روکنے کے لیے اسٹوڈینٹ یونین پر پابندی لگانے والے ضیاء کی تو جماعت اسلامی شکار رہی ہے۔۔۔ لیکن یار لوگ بغض معاویہ میں باز نہیں آنے والے۔
کروڑوں ڈالر کمانے والے منصورہ میں چند کمروں کے مکان میں رہائش پذیر نہیں ہوتے لندن میں عیاشی کرتے۔۔۔۔
بھائی ووٹ کا معیار تو یہاں یہ ہے کہ پولنگ اسٹیشن جائو تو بھائی لوگ پہلے سے ووٹ کاسٹ کرچکے ہوتے ہیں، اس کے علاوہ جیسے ریفرنڈم میں آئسکریم کھلا کر فارم بھروارہے تھے ویسے ہی ووٹ کے لیے بھی رگنگ ہوتی ہے، نوکریوں کا وعدہ، رقوم کا لالچ، ٹھیکوں کی منظوری برادری سسٹم وغیرہ وغیرہ اور پھر دھونس اور دھاندلی الگ، اگر جماعت بھی یہ سب کچھ کرے تو یقیناً کامیابی دور نہیں۔ ویسے اس سب کے بیغیر 2001 کا الیکشن یاد نہیں کیا؟
محترم فکر مند صاحب، آپ کے تبصرے میں سے کچھ غیر اخلاقی الفاظ ہذف کیے گئے ہیں۔ آپ سے گذارش ہے کہ تبصرہ کرتے ہوئے تہذیب و اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ اگر آپ بغض معاویہ میں بدکلامی کیے بغیر اپنا مدعا بیان نہیں کرسکتے تو برائے مہربانی تبصرہ کرنے سے گریز کریں۔
سمجھ نہیں آتا کہ بعض لوگ جماعت اسلامی کا نام سنتے ہی آپے سے کیوں باہر ہو جاتے ہیں ؟ 🙁
جواد بھائی یہ سوال آپکو مرحوم ڈاکڑ اسرار صاحب سے کرنا چاہئیے تھا۔
محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی کیا بات کررہے ہیں حضور؟ انہیں جماعت کے سیاست میں حصہ لینے کے حوالے سے تحفظات ضرور تھے لیکن وہ تنقید برائے اصلاح کرتے تھے اور ایک مخلص انسان تھے۔ آپ جیسی ذہنیت نہیں تھی انکی۔ ان کی تحریروں اور تقاریر سے ہر ذی شعور اسی نتیجے پر پہنچے گا جو اس تحریر میں تحریک پاکستان کے بارے میں موجود ہے۔ ڈاکٹر اسرار صاحب تو بہت کچھ کہتے رہے ہیں جنہیں سن کر آپ کو بدہضمی ہوسکتی ہے۔ سنا ہے کبھی وہ سب کچھ؟ 😉