اور اب پی این ایس مہران…

شارع فیصل پر واقع پی این ایس مہران پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا دور دور تک دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں اور قرب و جوار کی عمارتیں لرز گئیں یکے بعد دیگرے ان دھماکوں اور سانحوں نے قوم کے اعصاب کو شل کر کے رکھ دیا ہے. سوال یہ ہے کہ انتہائی سیکورٹی ریڈ زون میں‌ دہشتگردون کی رسائی کس طرح ممکن ہوئی اور دہشتگرد اتنے اسلحے کے ساتھ بحفاظت کس طرح اس انتہائی حساس علاقے میں داخل ہوگئے؟ کیا کسی چیک پوسٹ سے انکا گزر نہیں ہوا؟ سوال یہ بھی ہے کہ یہ حساس ادارے جب اپنی سیکیورٹی میں ناکام ہیں تو قوم ان سے کس درجہ تحفظ کی توقع رکھ سکتی ہے؟ وہ رحمٰن ملک صاحب جو ایبٹ آباد سانحہ کے بعد کئی گھنٹے ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے تھے انھوں نے واقعہ کے صرف چند منٹ بعد اس واقعہ کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان پر ڈال دی اور کہا القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان کے سب سے بڑے دشمن ہیں جن کے خلاف اتحاد وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے.

17 کڑوڑ عوام جانتے ہیں کہ پاکستان کی سلامتی کے لئے اصل خطرہ کون ہے؟وہ امریکا نواز پالیسیاں جن کے رد عمل نے ہر طرف نفرتوں کی آگ پھیلا رکھی ہے
ہم نے پاکستان کو بچانے کے لئے امریکہ کو فوجی اڈے دئے تھے لیکن ہم پاکستان کو بچا نہ سکے دشمنوں نے من حیث القوم ہمارے اندر اتنی نفرت پیدا کر دی ہے کہ ہم نفرتوں کے ڈرون کی صورت میں ایک دوسرے پر برس رہے ہیں. جب ہم ایک دوسرے کو مارتے ہیں تو ہمارا دشمن تھپکی دیتا ہے کہ اور مارو. کل ہم امریکہ کی خوشی کے لئے شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کریں گے پھر جنوبی پنجاب میں پھر کوئٹہ کا رخ کریں گے یوں یہ آگ اور ڈو مور کا تقاضہ بڑھتا ہی چلا جائیگا ہم اپنی لگائی ہوئی آگ میں خود ہی جل رہے ہیں.

آہ مکافات عمل ملاحظہ کیجئے کہ ہم نے افغانستان میں طالبان کے خاتمے کے لئے امریکہ کو اپنا کند ھا دیا. ہر طرح کی سپورٹ اپنے محدود وسائل کے باوجود فراہم کی. لیکن آج وہی طالبان ہمارے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں اور جس امریکہ کی خاطر ہم نے یہ ناراضگی مول لی وہ امریکہ رات کی تنہائی میں ہمارے شہروں پر چڑھائی کر رہا ہے ہماری خود مختاری اس کے نزدیک ٹشو پیپر سے زیادہ اہم نہیں اور اب وہ امریکہ امداد بند کرنے کی دھمکی دیکر ہماری غیرت و حمیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک رہا ہے. ہمارے ہاتھ کیا آیا اس جنگ میں؟ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم…

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ ” دانا وہ ہے جو اپنے زمانے کو سمجھتا ہو ” یہ کیسی دانائی ہے کہ دن کی روشنی میں‌ اپنی تباہی و بربادی دیکھتے ہوئے بھی حکمران درست تجزئے پر آمادہ نہیں ہیں. اس سے قبل چیک پوسٹوں پر حملے، نیوی کی بسوں پر حملے، یہ سب اس بات کے اشارے تھے کہ ہم اپنی پالیسیوں کا جائزہ لیں. امریکہ کی دوستی کا دم بھرتے بھرتے زمین ہمارے پیروں سے نکلتی جا رہی ہے. سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ دینے والے سب سے پہلے پاکستان کو تباہی کا سندیسہ دیکر خود دیار غیر عیاشیوں میں مصروف ہیں. انہی کی پالیسیاں جاری و ساری بلکہ زیادہ خطرناک کھیل. ایک آگ جو آنکھوں دیکھے سب کچھ بھسم کئے دے رہی ہے. اپنے بھی خفا ہیں اور بے گانے بھی ناخوش. سرحدوں کے پار سے بھی خطرات ہیں اور سرحدوں کےاندر حساس سیکیورٹی مقامات تک محفوظ نہیں.

حضرت علی بن ابی طالب نے ایک موقع پر فرمایا تھا:
امیرالمومنین، ایک حکمران اپنی رعایا اور ملک کے لئے وہی درجہ رکھتا ہے جو ایک عمارت کے لئے چھت کا ہوتا ہے اگر چھت صاف ستھری ہو تو بارش کا پانی پر نالے کے زریعے صاف شفاف حالت میں نیچے آتا ہے اگر چھت ہی گندی اور غلیظ ہو تو بارش کا صاف ستھرا اور خالص پانی بھی چھت کی گندگی کی وجہ سے گندا ہو کر نیچے آتا ہے پرنالہ خود بارش کا پانی صاف نہیں کر سکتا وہ تو پانی کو نیچے منتقل کرتا ہے.

اسوقت چھت کی وہ گندگی پرنالوں کے ذریعے اس طرح فضا میں سرایت کر گئی ہے کہ تعفن کے باعث سانس لینا محال ہے. اسلئے بلاشبہ پرنالوں کی صفائی کی نہیں اب ضرورت اور فوری ضرورت ہے چھت کی صفائی کی. اب چہرے نہیں نظام کو بدلنے کے لئے اٹھ کھڑا ہونا ہوگا. ہمیں چھت کی صفائی کا یہ قرض ادا کرنا ہوگا ہماری آئندہ نسلوں کا یہ قرض ہے ہم پر کہ ہم انہیں ایک خوشحال مضبوط اور مستحکم پاکستان دیکر جائیں…

فیس بک تبصرے

اور اب پی این ایس مہران…“ ایک تبصرہ

  1. –اب چہرے نہیں نظام کو بدلنے کے لئے اٹھ کھڑا ہونا ہوگا -ہمیں چھت کی صفائی کا یہ قرض ادا کرنا ہوگا ہماری آئندہ نسلوں کا یہ قرض ہے ہم پر کہ ہم انہیں ایک خوشحال مضبوط اور مستحکم پاکستان دیکر جائیں — — —

    مگر کیسے؟ یہ سب کیسے ممکن ہو؟ جس جمہوری چناو کی بنیاد پہ سیاسی بصیرت سے عاری موجودہ حکمران اتراتے ہیں اور محض جمہور کے زریعئے چنے جانے کو اپنے ہر قدم کا کو جائز اور حلال سمجھتے ہیں۔نادرہ نے انکشاف کے مطابق اسی جمہوری چناؤ میں ساڑھے تین کروڑ سے زائد ووٹروں کی فہرستیں جعلی نکلیں۔ یا حیرت۔ باہم مقابلے کے امیدواروں میں سے کوئی ایک امیدوار ایک ووٹ کی برتری سے بھی کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ تو اسطرح کے ساڑھے تین کروڑ کے جعلی ووٹروں کی موجودگی آپ کس طرح اہل لوگوں کو منتخب کریں گے۔

    جعلی ریفرنڈموں، اقتدادری شبخونوں ، اورامپورٹرڈ نام نہاد حکمرانوں کی موجودگی میں آپ کیسے یہ مرحلہ سرانجام دیں گے؟۔

    میری ذاتی رائے میں ہمیں زبانی جمع تفریق سے نکل کر اپنی قوم سے ملنا چاہئیے۔ انھیں بتانا چاہئیے کہ ہم بہ حیثیت قوم کس مخمصے میں پھنس چکے ہیں۔ اور نئے حکمرانوں کا چناؤ بے شک ایک فرد ایک ووٹ کے اصولوں کے تحت ہو مگر امیدواروں اور خاصکر حکمرانوں کی اس دیانتدار اور عیوب سے پاک اہلیت پہ تقاضے سے کم پہ راضی نہیں ہونا چاہئیے جس کی نشاندہی آئین پاکستان نے کر رکھی ہے۔

Leave a Reply