میرے دوستو!
میرے دوستو!
میرے واسطے پھول لاتے رہو گیت گاتے رہو
میں پھول چنتا رہوں، گیت سنتا رہو ں
………………………………..
ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ یہ نظم بار بار لبوں پر آ جاتی ہی۔نظم کس کی ہی؟ ادب میں کیا مقام رکھتی ہی؟ان سوالات سے قطع نظر گہرا طنز محسوس ہوتی ہی۔بھلا پھول لانا اور چننا چہ معنی دارد؟؟ قبروں پر چڑھانے کے لئے …….ہاں یہ ٹھیک ہے۔ اس شہر میں بستیاں اجاڑ کر قبرستان آ با دہوئے ہیں ۔گیت گانے اور سننے سے ہمارا کیا تعلق ؟؟بلکہ مرثیہ گوئی اور مرثیہ خوانی میں ہم کمال فن کو چھو رہے ہیں۔
ہمارا پیارا شہرعروس ا لبلا دتو عر صہ ہوا فسا دا ت کو پیا را ہو گیا۔ نسلی اور لسا نی عصبیت کے عفریت نے شہر قا ئد اور شہرو ں کے قا ئد کرا چی کو یر غما ل بنا لیا۔ اب تو یہ بس ہنگا موں میں زندہ ہے، گولیوں کی چھائوں میں سانس لیتا ہے، جلائو گھیرائو پہ جیتا ہے، خوف میں نمو پاتا ہے۔ افواہوں کا جال ہو یا لاشوں کا انبار! گذ شتہ پچیس سا ل سے یہا ں کا کلچر ہے!!!
ایک وقت تھا کہ کسی نحس گھڑی یہاں کرفیو لگا۔ اور پھر باربار مشق ستم گر اس شہر کا مقدر ہو ئے۔ یہاں تک کہ بازاروں میں دستیاب اشیائے صرف کو کرفیو کی نسبت سے موسوم کردیا گیا وہ تو آسیب زدہ اور مصیبت زدہ کے وزن پر شہر کا نا م ’’ کرفیو زدہ ‘‘ رکھنے کی تجویز پیش ہوئی اور منظور بھی ہوجاتی کہ کسی لال بھجکڑ نے لغت دیکھ لی۔ کفن دفن کے انتظامات کے لیے جدید ادارے قائم ہوئے۔ کئی قبرستانوں کا افتتاح ہوا اور جلد ہی ہائوس فل کے بورڈ آویزاں ہوگئے۔ لٹھا اور کافور کی ضرورت پنساری کی دکان سے پوری ہونے لگی۔ ایک عرصہ تک ابلیس ناچتا رہا اور انسانیت کہیں دور کھڑی شرماتی رہی۔ سڑ کیں مورچوں میں، تعلیمی ادارے قلعوں میں، بازار مقتل میں تبدیل ہوگئے۔ یہاں بچے یتیم، جوان بوڑھے، عورتیں مرد اور مرد نا مرد بن گئے۔ ایک کروڑ کے لگ بھگ جیتے جاگتے انسانوں کا شہر ٹکڑوں میں، ٹولیوں میں بانٹ دیا گیا۔ احساس محرومی کے تانے بانے سے کشیدہ سازش اپنے جلو میں تباہی، بربادی کے سوا کچھ نہ لا ئی۔ اپنے ہم وطنوں کے گھا گ شکا ری امن کی فا ختہ کی گرد بھی نہ پا سکے۔ پھر نعروں کا جوش ختم ہوا اور عمل کی میزان پر سود و زیاں تو لے گئے۔ صد افسوس !! پھر عقو بت خا نے دریا فت ہوئے، کتنے معا ہدہ امن ہو ئے! سب بیکار! جلاوطنی اور روپوشی کا دور آیا۔ کراچی کے حق کےلیے لڑنے وا لے آسٹریلیا، کینیڈا، یورپ جا بسے۔ آنکھ مچولی کا کھیل ہوا۔ کتنے بھیس بدلے گئے۔ ایک یوٹرن اور پھر یوٹرن اور لاتعدا دیوٹرن ہوا۔
کبھی بہن بھائی، کبھی بھائی بھائی۔ بس ایک قلا با زی کھا ئی!! اور ڈکٹیٹر کی ہا ں میں ہا ں ملا ئی!! نظریہ ضرورت سال دو سال بعد بدل جاتا اور کراچی کا امن تا ش کے پتو ں کی ما نند بکھر جا تا پھر نئے شریک سفر کی تلا ش میں سرگرداں نئے بازار سجتے، دگنی بولیاں لگتیں، اور بیش قیمت انسا نی جا نو ں کے عوض نیا امن معا ہدہ لا گو ہوتا۔ مگر آ ج تک کو ئی مقد مہ درج ہوا نہ تفتیش کی ضرورت سمجھی گئی! گواہی اور شہادت تو دور کی با ت ہے!! انصا ف اور انتظامی امور کی درستی کے بجائے دھونس اور دھمکی کے آ گے سپر ڈال دیے۔ پا کستا ن کے بدخواہ اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر تمسخر اڑا تے رہے اور شہر کے حا لا ت آج بھی جوں کے توں منجمد ہیں!! کرفیو کی بازگشت آ ج پھر سنا ئی دے رہی ہے۔ آپریشن کے چر چے زبا نو ں پر ہیں! کرائے کے دہشت گرد منتظر ہیں کہ ایک با ر پھر وحشت کا با زار گرم ہو۔ خون مسلم کی ارزانی ہو! یہا ں ہر ذی نفس اپنے ہم نفسوں سے نظریں چرا کر گفتگو کر تا ہے۔ جا ن کا خوف جھوٹ بو لنے پر مجبو ر کردیتا ہے۔ اس کشمکش میں قیا دت سے محروم شہر ملک کی، قوم کی، ملت کی رہنما ئی کیسے کر ے؟؟؟ شہر کی دیواریں بے شناخت دعویداروں نے سیاہ کردیں ’’کرا چی ہما را ہی…‘‘
ہرگز نہیں!!!! کراچی ہم سب کا ہے یہ پا کستا ن ہے!! سمندر کے کنارے انسانی وسائل سے مالامال شہر جو پاکستان کی شہہ رگ ہے!! اور پاکستان جو مہاجروں، پنجابیوں، سندھیوں، بلوچوں، پشتونوں نے نہیں بنا یا تھا بلکہ ھندوستان کے گوشے گوشے میں مسلمانوں کی لا زوا ل قربانیوں نے پاکستان کا قیام ممکن بنایا سو کراچی چھوٹا پاکستان ہے۔ تو پھر ہم سب مل کر اٹھیں،!!! غائبانہ قیادت سے منہ موڑ کر اس بے سمت سفر کو ختم کریں اور کراچی کو حالت انجماد سے نکال کر پاکستان کی دھڑکن بنادیں۔ دھڑکن جو زندگی کی علامت ہے!!
یہ رنگ و نسل کے جھگڑے فقط ورنہ!
ہم لوگ خا صے خو ش اوقات ہیں!
karachi is again in under the shade of fear!