یکے بعد دیگرے منظر کتنی تیزی سے بدلتے چلے گئے ، کوئی منظر بھی تو ایسا نہ تھا کہ لمحہ بھر کو نظریں ٹھہر پاتیں، وہ لب کچھ بھی نہ کیتے تو آنسوؤں کی زبان بھیئ سمجھنا مشکل ہے بھلا- ایک دو نہیں سترہ سو مائیں ہیں وہاں گویا کہ سترہ سو داستانیں، کس میں حوصلہ کہ ان کو سنے یا رقم کرے -ماؤں کے عالمی دن کے موقع پر یہ ایدھی سنٹر کا ایک منظر تھا جسکو چند منٹ میں ایک ٹی وی چینل نے دکھا دیا -روتی ھوئی مائیں اولادوں کی بے رخی کی داستانیں سناتی ھوئی مائیں-جسمانی طور پر کچھ صحتمند نہ بھی تھیں لیکن ذہنی طور پر انکی گفتگو سے لگا کہ سب نارمل ہیں -انکی سب حسیں کام کر رہی ہیں -بلکہ زیادہ حساس ہو گئیں ہیں.
وہ ایدھی کے درودیوار کیسے کیسے ڈستے ہوں گے انہیں. ان دیواروں پر کتنی آہیں. کتنے نوحے ثبت ہو چکے ہیں اگر کسی ماں کو اپنے بیتے کو جنم دیتے وقت یہ معلوم ھو جائے کہ اسکا یہی بیٹا اسکا بوجھ برداشت نہیں کر سکے گا. اسکے مزاک کا بوجھ یا اسکی معاش کا بوجھ، یا اسکی بیماری کا بوجھ، تو اور وہ اس بوجھ کو یوں اتار ے گا کہ ایدھی کے رجسٹر میں ایک اور “ماں ” کا خانہ بھر جائے گا کسی گھر سے ایک اور ماں وہاں منتقل ہو جائے گی. آہ !! یہ قیامت سے پہلے قیامت کی گھڑیاں. آسمان کیسے کانپ نہ گیا ہوگا. زمیں کی تھر تھراہٹ کو بھلا کس نے محسوس کیا. شق ہوگئے ہونگے سمندر کے سینے بھی ان ماؤں کے نوحے سنکر.
صرف چند ہی لوگوں کے تاثرات سننے کا حوصلہ متحمل ہوسکا. ایک بات ،ایک شکوہ ہر ماں کے لبوں پر تھا وہ یہ کہ “انکا لخت جگر /انکا نور نظر ان سے ملنے تک نہیں آیا وہ پیسے خرچ نہیں کرسکتا تو نہ کرے بس صورت تو دکھا جایا کرے ، مہینے میں نہ سہی سال میں ایک بار ، کتنے سالوں سے وہ یہاں ہیں ،اسی آس میں وہ جی رہی ہیں کہ انکا لال ضرور انکو یہاں سے لے جائےگا. وہ جسے خون جگر دے کر پالا ہوگا. اپنا لہو قطرہ قطرہ دودھ کی صورت میں جسکی رگوں میں اتارا تھا ہاں با لکل کل کی ہی بات ہے جب اسے انگلی پکڑ اسے چلنا سکھایا تھا.
زیادہ دن نہیں گزرے
کہ میری گود کی گرمی تجھے آرام دیتی تھی
گلے میں میری
بانہیں ڈال کر تو اسطرح سوتا تھا
کہ اکثر ساری رات میری
اک کروٹ میں گزر جاتی
میرے دامن کو پکڑے
گھر میں تتلی کی طرح گھومتا پھرتا
(اور اب)
تیری دنیا میں اب ہر پل
نئے لوگوں کی آمد ہے
میں بے حد خاموشی سے
ان کی جگہیں خالی کرتی جا رہی ہوں
تیرا چہرہ نکھرتا جا رہا ہے
میں پس منظر میں ہوتی جا رہی ہوں
زیادہ دن نہ گزریں گے
میرے ہاتھوں کی یہ دھیمی حرارت
تجھے کافی نہ ہوگی
کوئی خوش لمس دست یاسمین آکر
گلابی رنگ کی حدت تیرے ہاتھوں میں سمو دیگا
میرا دل تجھکو کھو دیگا
میں باقی عمر تیرا رستہ تکتی رہوں گی
میں “ماں” ہوں
اور میری قسمت”جدائی” ہے
اور اس صدی کی ماں جدائی کی کون کون سی صورتیں نہیں جانتی. ایک جدائی یہ جدائی ہے جو ایدھی ہوم کے ان بھاری بھرکم آہنی دیواروں کے اس پار جدائی ہے اور ایک جدائی وہ جو یورپ سے آتی ہوائیں ان مشرقی دھندھلکوں میں لپٹی صبحوں کے لئے لاتی ہے. بغیر مستقبل، روشن مستقبل کی تلاش میں لاکھوں نوجوان راھی ملک عدم ہوئے اور بوڑھے ماں باپ کے لئے مہنگے صابن / پرفیوم چاکلیٹ اور دواؤں کے اخراجات باقاعدگی سے بھیجتے ہیں. بوڑھے باپ ہر صبح کو اس انتظار میں شام میں ڈھال دیتے ہیں کہ بس اب کچھ ہی دن ہیں کہ لخت جگر آتا ہی ہوگا پھر اس صحں میں ننھے معصوم پوتی پوتوں کی کلکاریاں گونجیں گی جہاں اب اداسی بال کھولے سوتی رہتی ہے اور اکثر تو وہ “نور العین” ہر وقت فلائیٹ نہ ملنے کے سبب ماں یا باپ کو کاندھا دینے کی سعادت سے بھی محروم رہ جاتا ہے.
تائی اماں دو عشروں سے دیار غیر میں بیٹھے اپنے بیٹے کی منتظر تھیں. ہر دوسری بات میں اسکا ذکر کرتی تھیں کہ اس ذکر سے نہ معلوم انکی ممتا کو نہ معلوم کیسی ٹھنڈک ملتی تھی. اور آخری دنوں میں انھوں نے دوائیں اٹھا کر پھینکنا شروع کر دی تھیں پانی سے بھرا گلاس دھڑ سے زمیں پر مار دیتیں کہ “ایا کو کہو وہ آئیگا تو دوا کھاؤنگی “(وہ پیار سے اکلوتے بیٹے کو ایا کہتے تھے) اور انکا نواسہ پرنم آنکھوں سے کہہ رہا تھا کہ ” خالہ آپ نے دیکھا تھا نہ نانی کا چہرہ مرنے کے بعد بھی سیدھا نہ جا سکا دائیں سمت ہی رہا کیونکہ وہ مسلسل دائیں سمت ہی دیکھا کرتیں تھیں. پھر تو دروازے سے نظریں ہی نہ ہٹاتی تھیں کہ دیکھو ایا آگیا ہے. اس سے قبل جب نانا جان کا انتقال ہوا تو نانی اماں کی کتنی بڑی خواہش تھی کہ ماموں انکو کاندھا دیں مگر ماموں جان کو کبھی رخصت ہی نہ مل سکی ” اس نے ٹھنڈی آہ بھر کر ایک تلخ حقیقت بیان کی جو اب ہر گھر کی کہانی ہے بلکہ گھر گھر کی کہانی ہے.
اب یہ تجزیہ کرنے کا وقت ہے کہ ان روبہ زوال اقدار اور دین سے اس درجہ دوری کا ذمہ دار کون ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں قطرہ قطرہ جدائی کا زہر رھوں میں اتارتی ماں بھئی اس کی ذمہ دار ہے کہ ماں کی گود ہی تو پہلا مکتب تھی یہیں سے تو تہذیب اور شائستگی کے درس پانا تھے اسی کی ذات کو تاریک تاریک راہوں میں روشنی کا مینارہ بننا تھا ۔۔۔ کس نے بھلا دیا اس “ماں ” کو کہ وہ خاندان کی اساس اور اسلامی تہذعب کا بنیادی نشان ہے!
“ماں ” ایک لفظ نہیں ایک بلندی و عظمت کا استعارہ تھی. اور بہت سے اوقات میں محض اس لئے اللہ کی ناراضگی غضب بنکر اہل زمیں پر نازل ہونے سے رہ جاتی ہے اس مقام پر شیر خوار بچے ماؤں کا دودھ پیہے ہوتے ہیں (مفہوم حدیث). اور بہت سے عوامل ضرور کار فرما ہونگے لیکن کیا آج کی ماں نے بچوں کو ان اعلٰی تریں دینی اقدار اور روایات سے روشناس کروایا اور خود عمل سے ان اقدار کی پاسداری کا درس دیا -کون نہیں جانتا کہ حضرت ابو ہریرہ شدید خواہش کے باوجود حج جیسے فریضے کے لئے تشریف نہ لے گئے جبکہ صحت بھی اچھی تھی اور سامان سفر بھی پاس تھا. حج کی اتنی شدید خواہش کہ حج کے کاروانوں کو خدا حافظ کہنے دور تک انکے ساتھ جاتے. حسرت سے انہیں دیکھتے اور دعاؤں کی درخواست کر کے واپس پلٹ آتے. لوگ دریافت کرتے کہ شدید تڑ پ کے باوجود وہ کیوں حج کی سعادت حاصل نہیں کرتے وہ کہتے ” میں یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ بوڑھی ماں کو ایک دن بھی تنہا چھوڑوں” اور اس برس لوگوں نے دیکھا تھا کہ حج میں ابو ہریرہ بھی شامل ہیں کسی کے دریافت کرنے پر فرمایا ” کعبہ دل اجڑ گیا ہے اور کعبۃ اللہ میں ہی تسکین دل رہ گئی ہے” ماں کے بچھڑنے کا سوز و گداز گویا انکے وجود کا حصہ نظر آرھا تھا. اسلامی تاریخ ایسے بی شمار نقوش سے منور ہے. خود نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا ” اگر میری ماں زندہ ہوتیں اور نماز میں مجھے پکارتیں “اے محمد” تو میں نماز توڑ کر انکی خدمت میں حاضر ہوتا ” آپٌ کی عادت تھی جب حلیمہ سعدیہ تشریف لاتیں تو آپ میری ماں میری ماں کہہ کر انکی طرف لپکتے، اپنی رضاعی ماں کی انتہائی تکریم فرماتے، اپنی چادر انکے لئے بچھاتے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحآبہ کرام کو یہ وصیت فرمائی تھی کہ اویس قرنی جب مدینہ تشریف لائیں تو انسے دعا کی درخواست کرنا۔ کیونکہ اویس قرنی اپنی ماں کی شب و روز خدمت کی وجہ سے خدائے اقدس میں حاضری سے مھروم رہے۔ لیکن اس خدمت کا صلہ یہ ہے کہ اللہ کے نبیٌ نے صحابہ کو یہ وصیت کی کہ اگر اویس قرنی سے ملو تو اپنے لئے دعا کی درخواست ضرور کرنا خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ہر سال حج کے موقع پر یہ منادی کراتے کہ یمن کے قبیلے قرن سے تعلق رکھنے والے اویس قرنی موجود ہوں تو انہیں اطلاع دی جائے۔ ایک سال وہ حج کے لئے تشریف لائے تو حضرت عمر فاروق نے حضور اکرمٌ کی وصیت پوری کی اور انسے دعا کی درخواست کی۔ سبحان اللہ، یہ ہے اس قیمتی متاع اور گنج گراں مایہ کی خدمت کا صلہ۔
روایات میں ہے کہ ایک موقع پر موسٰی کلیم اللہ نے اللہ سے سوال کیا کہ “جنت میں میرا رفیق کون ہے” جواب ملا ایک قصاب جو فلاں بستی میں رہتا ہے –حضرت موسٰی نے بہت کوشش سے اسے تلاش کیا کہ وہ ایسا کیا عمل کرتا ہے جو اللہ کو اتنا محبوب ہے؟ حضرت موسٰی اسکے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا گھر کے ایک کونے میں اسکی ماں بیٹھی ہے اسنے اسے سہارا دیا پھر اسکا منہ اپنے ہاتھوں سے دھلایا، اسکو کھانا کھلایا، اور پھر اپنے ہاتھوں سے اسکا منہ صاف کیا۔ حضرت موسٰی نے سنا کہ اسکی ماں نے اسکو دعا دی “اللہ جنت میں تجھے موسٰی کا ساتھ نصیب کرے” وہ قصاب ہے نہ عالم دین ہے، نہ صوفی، نہ غازی، نہ مجاہد محض ماں کی خدمت اتنا عظیم مقام دلانے کا سبب بن سکتی ہے۔ اقبال اسرار خودی میں خوبصورت نظم میں ماں کا مرض بیان کرتے ہیں جسکے کچھ اشعار کا ترجمہ کچھ یوں ہے:
” ماں سے زندگی سر گرم ہے، ماں ہی سے زندگی کے اسرار بے نقاب ہوتے ہیں ہماری ملت کی ندی میں ہر پیچ و تاب مان سے ہے ، اس ندی میں موجیں اور گرداب و بلبلے اسی وجود کے باعث ہیں، ملت کو ماں کی آغوش سے اگر ایک ہی مسلمان حاصل ہو جائے جو غیرت مند اور حق پرست ہو تو ہمارا وجود ان رنجوں سے محفوظ ہو جائے، اسکی شام کی بدولت اسکی ہماری صبح دنیا کو روشن کردے”.
آج ہمیں بھی رنج و الم نے گھیرا ہوا ہے اور انفرادی اور اجتماعی حوالوں سے ہم جس بے سکونی میں مبتلا ہیں اقبال کی بصیرت آموز نظریں اسکا سادہ سا حل یہ پیش کر رہی ہیں کہ ماؤں کی آغوش وہ گیرت مند اور حق پرست نہیں پیدا کر رہی جو انقلاب بپا کر دیں. وہ کسی ایک ماں کا ایک ہی تو سپوت ہے جو سید احمد شہید ہے یا غازی علم دین، صلاحالدین ایوبی ہے یا محمد بن قاسم، قائد اعظم ہے یا ڈاکٹر محمد اقبال، حسن البنا شہید ہے یا سید ابوالاعلٰی مودودی.
اچھی مائیں اچھی قوم کو جنم دیا کرتی ہیں،آج کی ماں کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے ، دجالی فتنوں کے اس دور میں اپنی اولاد کو وہ مرد مومن بنانا جو نہ صرف ماں کا قدر شناس ہو بلکہ امت کا درد رکھتا ہو اور اسلام کا گراں مایہ اثاثہ ثابت ہو. آج کی ماں کی بیداری ہی وہ شاہ کلیہ ہے جس سے سارے مسائل کی گتھیاں سلجھ سکتی ہیں:
میری ساری حیات کا حاصل
تحفہ آسماں پر قربان ہے
یہ میری جاں کیا کہ سارا جہاں
جنت پائے ماں پر قرباں ہے
فیس بک تبصرے