بچپن بھی کبھی لو ٹ کر آ یا ہے مگر اس کی یاد کہا ں جا تی ہے؟ بقول ماں کے با د شا ہی وقت ہے نہ فکر نہ اندیشہ! چھو ٹی چھو ٹی باتو ں پر کھلکھلا نا، معمولی کھلو نو ں پر جا ن دینا، رو ٹھنا اور خود ہی مان جانا! بس ایک خوشگوار کسک ساری عمر ساتھ رہتی ہے مگر بچپن کی کچھ یا دیں حقیر نہیں ہو تی۔ ایسی ہی ایک یاد ہے جو میرے دل کے نہا ں خا نہ میں بسی ہوئی ہے، جو دما غ کے ایسے گو شہ میں پیوست جہا ں کی یا د داشت کبھی زا ئل نہیں ہوتی۔ مگر پھر بھی میں بتا پا ئوں گی، الفاظ کا پیراہن پہناسکوں گی یا شدت جذبات سے لرزتے لبوں، برستی آ نکھو ں سے کچھ کہا نہ جائے گا ۔کیو نکہ اس سے وا بستہ میری ماں کے آ نسو ہیں بلکہ اس قوم کی ہر ماں کے آ نسو ہیں جسے میں آ ج بھی اپنے چہرے پر، اپنی ہتھیلیو ں پر گر تا ہوا محسوس کر تی ہو ں! بس اک خندق جو مجھے سونے نہیں دیتی اور جا گتے میں چین نہیں لینے دیتی ۔ ایک دبی ہو ئی چنگاری ہے جو دھیرے دھیرے سارے وجود کو جلا کر خاکستر کر رہی ہے۔
یو نیور سٹی کا متوسط سرکاری گھر جس کی اصل شان اس کا پھولوں، پھلوں سے لدا چمن تھا۔ ایک کنارے پر بڑا سا چھتنار نیم کا درخت جس کی گھنیری شا خیں جھک کر ہم بچو ں کی ٹو ہ میں لگی رہتی۔ سب کچھ صحیح تھا پھر اچانک ابا مزید تعلیم کے لیے جرمنی چلے گئے۔ امی اور ہماری دیکھ بھال کے لیے نانا، نا نی ،ما مو ں اور طلعت با جی آ گئی۔ ایک تقریب کا سماں، اتنے چا ہنے وا لے جو آ جا ئیں! مگر دیکھتے دیکھتے تقریب خوف اورسرا سیمگی میں بدل گئی۔ لان میں انگریزی کے حرف L ’’شکل کی خندق جو کھد گئی۔
دن میں تو بچے اس میں چھپم چھپا ئی کھیلتے مگر سر شام اچھا بھلا گھرا ور آ رام دہ بستر چھو ڑ کر آ نسئو ں، سسکیو ں، آ ہو ں سے یہ خند ق آ با د کی جا تی۔ ہر طرف سوال ہی سوال تھے اور کسی کے پاس جواب نہ تھی۔ آ یت کریمہ کاورد سنتے بچے ما ئوں کے تر دامن میں نیند کی وا دیو ں میں اتر جاتے۔ مگر جنگی طیارو ں کی گھن گرج ، گھٹا ٹوپ اندھیرو ں میں روشنیو ں کے جھماکے صرف اس کو سو نے دیتے جو کبھی نہ اٹھنے کے لیے سو تا. پا کستا ن کی حفا ظت اور مدد کو ن کر رہا ہے؟ غدا ری اور سازش کہاں ہو رہی ہے؟ خدا جانے قوم کیا ہو تی ہے اور ہم ایک قوم کیو ں نہ بن سکے؟ گاہے امید اور گا ہے ما یو سی کے تبصرے، جذ با ت کے اتار چڑھا ئو، الفا ظ کے زیر و بم بحث اور خبریں سنتے سنتے ذہن میں سوا لا ت کلبلا تے مگر تتلیاں اور جگنو پکڑ نے کی عمر میں جواب مل بھی جا تے تو فہم کہا ں ہوتا؟ مگر آ ج مجھے بخو بی علم ہے کہ قو میں تو نظریہ سے بنتی ہیں اور نظریہ پر جیتی ہیں اور اس ملک کی بنیاد سچا، آ فا قی نظریہ توحید ہے۔ زندگی کی ساری خوبصورتیاں تو نظریہ آ زا دی سے منسلک ہیں۔ آ زادی تگ و تا ز، تحرک، تسلسل سے قائم رہتی ہے۔ غلا می چا ہے جسمانی ہو، معا شی اور ذہنی زہر ہلا ہل ہے۔ آج جسمانی سے زیادہ معا شی اور ذہنی غلا می رو بہ عمل ہے۔
عالمی طا قتو ں کا طے شدہ ہدف اس مملکت کو نا کا م ثا بت کر نا ہے۔ با ہم متصا دم عد لیہ، مقننہ ، افوا ج پا کستا ن! اٹھا رہ کرو ڑ سے زیادہ نفو س اور اس قدر ما یو سی اور نا مر دی! ایک طرف لا تعلقی اور بے نیا زی کی صلیب پر جھو لتے عوام الناس اور دوسری جا نب عا قبت نا اندیش حکمرا نو ں کے مبہم ، نا مبارک فیصلے جو قوم کو جان کنی میں مبتلا کیے ہو ئے ہیں۔ پا کستان کی سا لمیت کو پا رہ پا رہ کر نا وہ نکتہ ہے جس پر اغیا ر ایک ہیں اور ہم محض منتشرہجو م! سو ہمیں آ ج خود کوقوم ثابت کرنا ہے۔ سقو ط ہسپا نیہ کے مو قع پر حکمران ابو عبداﷲ کی ماں فا طمہ کہتی ہے ’’جس سلطنت کی حفا ظت تم مردوں کی طرح نہ کر سکے تو اب اس کے کھو دینے پر عورتو ں کی طر ح آ نسو نہ بہا ئو!‘‘۔ یقینا ایک ریا ست کا سقو ط اس کے شہریو ں کے لیے بلا تخصیص مرد و زن آ نسو بہا نے کابھا ری جوا زرکھتے ہیں!!!
کسی بھی انقلاب کو بپا کر نے کے لیے محض 30% اذ ہان کی تبدیلی درکا ر ہے تو کیا اس ملک کی سالمیت اور بقا کے لیے 30% عوام بھی یکسو نہیں ہیں!! بنظر غائر جا ئزہ سے پتہ چلتا ہے کہ صو رت حال اس سے مختلف ہے۔ نہ جا نے کس لمحے عوام کی خا مو ش اکثر یت غیر ملکی آ قا ئو ں کے حمایت یا فتہ مقتدر طبقہ کے احتسا ب پر اتر آ ئے۔ اور اگر یو ں ہوا تو نا کا میو ں ،پسپا ئیو ں کی طویل فہرست چشم زدن میں تحلیل ہو جا ئے گی ! مجھے گمان نہیں یقین ہے کہ یہ معجزہ ممکن ہے! اگر جو ہما رے علماء قیادت سنبھا لیں اور قرار داد مقا صد جو اس ملک کے تمام دسا تیر کے ماتھے کا جھو مر ہے کے نفاذ کو حرز جا ن بنا لیں، میرے دیس کی ما ئیں اپنی کوکھ اور گود میں پلنے وا لی نسل کو نظر یہ پا کستا ن منتقل کر دیں، میرے دہقان اس وطن کی مٹی کو سونا بنا ئیں ، میرے جوا ن اس ملک کے لییء جا ن کی با زی لگا دیں………….
تا کہ آ ئندہ اس ملک کی آ زا دی کی خاطر آ نگنوں ِ گلیو ں میں کھدنے وا لی خند قو ں کے ساتھ حسرتو ں اور آ نسوئو ں کے بجا ئے ولولہ انگیز یا دیں جڑی ہوں۔
خواہشیں تو اچھی ہیں اگر پوری ہوجائیں