خررٹ آباد میں ہونے والے جعلی پولیس مقابلے کا معاملہ تو اب بالکل کھل کر سامنے آگیا ہے اور جو بات ہم نے کہی تھی وہی باتیں سامنے آرہی ہیں ۔اس پورے جعلی مقابلے کے ڈرامے کا ڈراپ سین ہوگیا اس پورے ڈرامے کا ڈراپ سین یہ ہے کہ یہ بدقسمت خاندان افغانستان سے براستہ پاکستان ایران جارہا ہے تھا۔ خاندان میں پانچ افراد شامل تھے جس میں گھر کا خاندان کا سربراہ جس کی عمر کا اندازہ پیتالیس سال لگایا گیا ہے۔اس کی پیتیس سالہ بیوی ،دوبیٹیاں اور ایک بیٹا جن کی عمریں اٹھارہ سے بائیس سال کے درمیان تھین۔اخباری اطلاعات کے مطابق اس خاندان نے کچلاک سے کوئٹہ جانے کے لئے گاڑی کرایہ پر گاڑی حاصل کی،روانگی کے فوراً بعد کچلاک تھانے کے اہلکاروں نے ان سے رشوت طلب کی اور بھتہ لیکر چھوڑ دیا لیکن اس کے ساتھ ہی اگلی چیک پوسٹ پر اطلاع دی کہ ’’اس نمبر کی گاڑی میں غیر ملکی ہیں،موٹی اسامی ہیں اپنا حصہ وصول کرلینا‘‘یہ خاندان جب بلیلی چیک پوسٹ پر پہنچا تو یہاں بھی ان سے رشوت طلب کی گئی اور رقم لیکر آگے جانے دیا گیا لیکن اگلی چوکی پر اطلاع کردی گئی ۔
یہ خاندان جب ائیر پورٹ تھانے کی چوکی پر پہنچے تو اس وقت تک انکے پاس نقد رقم ختم ہوچکی تھی (بعض اطلاعات کے مطابق بہت کم رہ گئی تھی)پولیس نے ان کو اتار دیا اور ان کے ہاتھ باندھ کر ان سے رشوت دینے کے لئے دباؤ ڈالتے رہے لیکن غیرملکیوں نے کہا کہ ہمارے پاس رقم ختم ہوگئی ہے۔اطلاعات کے مطابق پولیس کے ایک اے ایس آئی اور دیگر سپاہیوں نے رقم نہ ملنے پر غیر ملکی خاتون سے بدتمیزی شروع کی اور ان کے ساتھ نازیبا حرکات کرنا شروع کی،جب انہوں نے خاتون کو جنسی ہراساں کرنے کی کوشش کی تو غیر ملکیوں میں سے ایک نے نازیبا حرکات کرنے والے اہلکار کے منہ پر گھونسہ جڑ دیا اور بھاگ نکلے،یہ افراد بھاگتے ہوئے ایف سی کی چوکی کے نزدیک پہنچے اور چوکی کی دیوار کے ساتھ پناہ لیکر بیٹھ گئے کہ اس دوران پولیس اہلکاروں نے مزید نفری طلب کرکے ان کو گھیر لیا اور فائرنگ شروع کردی،فائرنگ کے دوران ایف سی کی نفری بھی پہنچ گئی،پولیس نے ان سے کہا کہ یہ غیر ملکی خود کش حملہ آور ہیں اور ان کے پاس ہینڈ گرنیڈ اور جیکیٹس ہیں جس کے بعد ایف سی کے اہلکاروں نے بھی فائرنگ شروع کردی، اس دوران ایک خاتون ہاتھ اٹھا کر فائرنگ روکنے کا اشارہ کرتی رہی اور لیکن فائرنگ نہ روکی گئی اور اس طرح ان پانچوں نہتے غیر ملکیوں کو ہلاک کردیا گیا۔‘‘ جبکہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ پولیس نے ان کے ہاتھ باندھ کر ان کو ایف سی کی چوکی جانب روانہ کیا اور ایف سی اہلکاروں سے کہا یہ خود کش ہیں حملہ کرنا چاہتے ہیں اس کے بعد ان کو ایف سی کی چوکی کے نزدیک ہی قتل کیا گیا.
ابتدا ء میں تو پولیس نے روایتی طور پر خود کش حملے کا ڈرامے چلانے کی کوشش کی لیکن جب یہ ڈرامہ نہ چل سکا تو لاشوں کا پوسٹ مارٹم نہ ہونے دیا گیا، واقعے کے اگلے روز جب سی سی پی او کوئٹہ دوؤد جونیجو نے پریس کانفرنس کی اور وہاں جب صحافیوں نے ان سے سوالات کئے تو نہ صرف یہ کہ وہ ان کے تسلی بخش جوابات نہ دے سکے بلکہ اپنے گزشتہ روش کے بیان سے بھی مکر گئے کہ ان کو فائرنگ سے ہلاک کیا گیا بلکہ انہوں نے ایک نئی بات کہی یہ سارے کے سارے بم پھٹنے کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں۔لیکن یہاں ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ جیسا کہ ثابت ہوا کہ غیر ملکی غیر مسلح تھے تو ایف سی کا اہلکار کیسے جاں بحق ہوا؟ کہیں ایسا تو نہین کہ کسی اہلکار نے اپنی کسی ذاتی رنجش کا بدلہ لینے کے لئے اپنے ہی ساتھی کو تو ہلاک نہیں کردیا ؟ یا پھر کہیں اس اہلکار نے سارے واقعے کو بے نقاب کرنے کا ارادہ کرلیا تھا جس کے بعد اس کو راستے سے ہتایا گیا؟ کیوں کہ واقعے کے ابتدائی چندگھنتوں تک تو سی سی پی او کوئٹہ اور ایف سی کے ذمہ داران نے میڈیا پر آن لائن یہ کہا کہ ہمارا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی ساتھی زخمی ہوا ہے۔ تو پھر یہ اہلکارکر کیسے ہلاک ہوا ۔ابھی راز کھلنا بھی باقی ہے۔
گذشتہ روز پولیس کے ناچاہنے کے باجود دباؤ کے باعث لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو انکشاف ہوا کہ ایک خاتون تو سات ماہ کی حاملہ بھی تھی۔ کیا دہشت گرد ایسے ہوتے ہیں؟ کچھ لوگوں نے ہم پر اعتراض کیا کہ ہم فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ہونے والے حملو ں کی تو مذمت نہیں کرتے لیکن فہشت گردوں کی حمایت میں کالم لکھتے ہیں تو میں ایسے ساتھیو کی خدمت میں کچھ باتیں عرض کرنا چاہیں گے۔ پہلی بات تو یہ کہ ملک میں ہونے والیے دہشت گردی کے واقعات میرے لیئے بھی اتنے ہی دکھ اور تکلیف کاباعث ہوتے ہیں جتنے کے کسی اور کے لئے ہوسکتے ہیں اور ہم ان واقعات کی مذمت کرتے بھی رہتے ہیہیں۔دوسری بات یہ کہ دہشت گرد میری یا آپ کی مذمت سے نہیں رکتا،وہ آپ کے ملک کے قوانین کو نہیں مانتا ،وہ آپ سے کوئی سرکاری طور پر ریلیف ھاصل نہیں کرتا بلکہ وہ قانون اور معاشرے کی نظر میں ایک مجرم ہے۔جبکہ اگر ایک سرکاری اہلکار کوئی جرم کرتا ہے بالخصوص وردی والا تو اس کے جرم کی شدت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ نمبر ایک وہ قانون کی پاسداری کا حلف اٹھاتا ہے اور قانون شکنی کا مرتکب ہوتا ہے۔ نمبر دو وہ وپنے جرم کو چھپانے کی اہلیت رکھتا ہے اور اپنے جرم کو بھی قانون سے کیش کرتا ہے جبکہ دہشت گرد کا جرم ،جرم ہی کہلاتاہے۔ نمبر تین جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ہی قانون شکنی کریں تو پھر معاشرے کے افراد کا ریاست کے اداروں سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ ان کا قانون،عدالت اور انصاف سے جب اعتبار اٹھتا ہے تو وہ پرھ افراد قانون اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں اس طرح وردی میں کی آڑ میں جرم کرنے سے معاشرے میں انارکی پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ قانون نافذ کرنے اداروں کی کرپشن اور جرائم کو روکنے کی کوشش کی جائے تاکہ معاشرے میں انتشار اور بے یقینی پید انہ ہو۔
شکریہ جناب ، مزید حقائق سے پردہ اٹھانے کے لیے
تاہم اگر یہ دہشت گرد نہیں بھی تھے اور غیر قانونی طریقے سے دوسرے ملک جانے کی کوشش کر رہے تھے تو بھی یہ ایک قسم کی انسانی سمگلنگ کے ذمرے میں آتا ہے اور ایک جرم ہے۔ یورپ اور دیگر ممالک میں غیر قانونی طریقے سے سرحد پار کرنے والوں کے عبرت ناک انجام سے تو آپ بھی واقف ہوں گے۔ فرض کریں یہ لوگ پاکستان سے بچ کر نکل بھی جاتے تو ایرانی بارڈر فورسز ان پر فائرنگ کر دیتیں۔ میرے خیال سے کسی بھی ملک میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے والوں کا ایسا انجام کوئی انہونی بات نہیں۔ تاہم اگر پولیس اس پورے خاندان کو اخلاقی دائرہ کار میں رہتے ہوے واپس ان کے ملک بجھوا دیتی تو بہتر ہوتا۔ اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت دے، آمین
یاسر بھائی میرے خیال میں یہ یورپ یا امریکہ کی بات نہیں ہورہی. پاک افغان سرحد سے ہر روز ہزاروں افراد بغیر قانونی دستاویزات کے دونوں طرف آتے جاتے رہے ہیں. اور ہمارے گلی کوچے تو افغان مہاجرین سے بھرے پڑے ہیں. تو کیا انکا بھی قتل عام جائز ہے؟
بدقسمت خاندان کے پاس ایران کا ویزہ موجود تھا اور یہ ان میں موجود ایک حاملہ خاتون کو کوئٹہ کے اسپتال لے جانا چاہ رہے تھے۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ميں نے ٹی وی پر خبر آتے ہی متواتر ديکھنا شروع کر ديا تھا اور اپنا فيصلہ سنا ديا تھا کہ يہ چيچن دہشتگرد نہيں ہيں ۔ کسی چھوٹی غلطی کے مرتکب ہو سکتے ہيں ۔ ہماری پوليس کے کرتوت صرف وہی جانتا ہے جسے کبھی واسطہ پڑا ہو ۔ اللہ سب کو اپنی حفظ و امان ميں رکھے
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
دہائی ہے۔ظلم کی حد ہے۔خدا ظالموں کو غارت کرے۔ غریب الوطنی میں ایک پورے خاندان کا نام و نشان ایسے سفاکانہ طریقے سے مٹا دینا اور پاکستان میں انسانی حقوق کی چیخ پکار کرنے والوں کی طرف سے کوئی بیان نہ آنا بھی ایک اچھنپے سے کم نہیں۔
میری زاتی رائے میں اخروٹ آباد کے اس واقعہ میں سفاکی اور درندگی کا مظاہرہ کرنے والوں پہ مقدمہ چلا کر انھیں باقاعدہ عبرت کا نشان بنا دینا چاہئیے۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ اور میری وکلاء برادری، اسلامی جماعتوں اور پاکستانی عوام سے بھی استدعا ہے کہ وہ اس مقدمے میں فریق بنیں۔ اور مجرموں کے خلاف کسی صورت نرمی نہ برتنے دی جائے۔ اور جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنے حلف۔ اپنی وردی کی تذلیل کی ہے۔ اور وردی پوشوں یا قانون کا نفاذ کرنے والوں کے جرم کی سنگینی اسلئیے بھی کئی گنا بڑھ جاتی ہے کہ جس مقدس فریضے کے لئیے انھیں قوم اپنا پیت کاٹ کر انھیں ہر سہولت اور ماہانہ تنخواہ دیتی ہے وہ ان جرائم کی روک تھام کی بجائے خود اسقدر سنگین اور ظالمانہ جرائم کرتے پھرتے ہیں۔ دنیا کی بہت سے ممالک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اسطرھ کے دیگر اہلکاروں کے لئیے تہری یعنی تین گنا سزا ان ممالک کے قوانین میں تجویز کی گئی ہے۔
ویسے تو پاکستان میں آئے دن سننگدلانہ قتل و غارت ہقتی رہتی ہے جو کسی طور بھی جائز نہیں مگر ایک پورے مسافر خاندان کو محض پیسوں کے لالچ اور گندی خواہشات کے اپنے جرم پہ پردہ ڈالنے کے لئیے یوں گولیوں سے بھون دینا جس میں سات ماہ کا پیت میں ایک معصوم جان بھی شامل ہو۔ جن پہ دیس دور کوئی روانے والا بھی نہیں۔ اس ظلم پہ اگر انصاف نہیں ہوا تو ہمیں مکمل تباہ ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ پاکستان میں ہر معاملے میں انصاف ہونا چاہئیے مگر یہ کیس پاکستانی معاشرے کی اعلٰی اقدار کا ٹیسٹ کیس ثابت ہوگا۔ اگر ہم بہ حیثیت انصاف نہ کرواسکے تو پھر ہمیں اپنے مسلمان ہونے کا دوبارہ سے جائزہ لینا پڑے گا۔
اگر حقائق یہی ہیں جیسا آپ بتا رہے ہیں تو ان تمام اہلکاروں کو فی الفور گرفتار کر کے ان پر قتل عمد کا مقدمہ چلنا چاہیئے،اوران سب کوسزائے موت ہونا چاہیئے تاکہ باقی سب کو آنکھ کان ہوں۔