اس آپریشن میں تعاون کے حوالے سے کچھ متضاد باتیں تو ہم نے آپ کو کالم کے آغاز میں بتائی تھیں اب اس میں ذرا مزید تضاد بیانیاں ملاحظہ کیجئے۔ ایک طرف صدر پاکستان،وزیر اعظم پاکستان بڑھ چڑھ کر اس آپریشن میں اپنے تعاون کو اعلان کرتے ہیں بلکہ ہمارے وزیر اعظم تو بیگانی شادی میں عبد اللہ دیوانہ کے مصداق اس آپریشن کو ایک عطیم کامیابی قرار دیتے ہیں۔ منگل 3مئی کو دفتر خارجہ کہتا ہے کہ ’’امریکہ نے اپنی پالیسی کے تحت کاروائی کی‘‘۔ ۔کئی مفاد پرست کالم نگاروں نے اس کاروائی کو بالکل حق بجانب قرار دیا‘‘’لیکن اگلے ہی روز پاکستان کا دفتر خارجہ اور عسکری ذرائع کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں بدھ 4 مئی کو دفتر خارجہ کے ترجمان کا بیان شائع ہوتا ہے کہ ’’سول اور عسکری قیادت 2 مئی کے آپریشن سے لاعلم تھی۔ پاکستان کے اندر کوئی اڈا ستعمال ہوا نہ پاک فوج نے معاونت دی،’کاروائی کسی قاعدے کے تحت نہیں آتی ہے‘‘ سوال یہ ہے کہ اگر کاروائی کسی قاعدے کے تحت نہیں آتی تو کیا اس بات کا آپ کو اچانک پتہ چلا؟ کیا ہمارے اتنے اہم شعبے کے ذمہ داران بین الاقوامی قوانین سے بالکل بھی ناواقف ہیں کہ پہلے دن تو کہا گیا کہ امریکہ نے اپنی پالیسی کے تحت کاروائی کی اور اگلے دن اس کی تردید فرمائی کہ کاروائی کسی قاعدے کے تحت نہیں آتی۔ اگر کارروائی کسی قاعدے کے تحت نہیں آتی تو جنابِ والا ابھی تک امریکہ سے اس بات پر احتجاج کیوں نہیں کیا گیا؟ ابھی تک امریکی سفیر کو دفتر خارجہ بلا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کیوں نہیں کرایا گیا؟ ابھی تک اقوام متحدہ میں اس حوالے سے کوئی رپورٹ کیوں نہیں کی گئی؟
تعاون کے حوالے جب بات کرتے ہیں تو پھر اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ جنرل کیانی نے اس واقعے کے بعد فجی کمانڈروں سے مشاورت کی،کور کمانڈر کانفرنس میں امریکی آپریشن،پاکستان کو آگاہ نہ کرنے اور انٹیلی جنس معلومات نہ ہونے کا جائزہ لیا گیا‘‘ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ امریکہ،افغانستان اور پاکستان کے سہہ فریقی اجلاس کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ کیا گیا اس میں ایک بار پھر جنرل کیانی اور آئی ایس آئی کے بیان کی تردید کردی۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے ’’ اسامہ کی ہلاکت مشترکہ کامیابی ہے،دہشت گردی کے خلاف تعاون جاری رہے گا: سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر ۔ اسی حوالے سے سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر کا یہ بیان بھی مدِ نظر رہے کہ ’’اسامہ کے ٹھکانے سے متعلق دو سال قبل معلومات امریکہ کو دیدی تھیں: سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر‘‘
اب بات ہوجائے اس کمپاؤنڈ کی جہاں مبینہ طور پر اسامہ بن لادن کو شہید کیا گیا۔ بدھ 4مئی کو روزنامہ جنگ میں آئی ایس آئی کے ایک افسر کا بیان شائع ہوا جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’’ اسامہ جس مکان میں چھپا ہوا تھا اس کا علم 2003سے تھا،اور آئی ایس آئی نے اسامہ کے ساتھی ابو الفرح اللہبی کی تلاش میں( 2003)میں یہاں چھاپا مارا تھا۔آئی ایس آئی آفیسر‘‘: یہ بیان ملک کے ایک مؤقر روزنامہ میں چھپا ہے اور یہ بیان کسی عام فرد کا نہیں بلکہ ائی ایس آئی کے ایک افسر کا ہے۔ لیکن اس کے برعکس ایک رپورٹ روزنامہ جنگ ہی میں جمعرات کو شائع ہوئی تھی وہ بھی ملاحظہ کیجئے اس رپورٹ میں ایبٹ آباد کے اسی کمپاؤنڈ کی تعمیر کرنے والے ٹھیکیدا کے حوالے سے خبر جاری کی گئی تھی کہ تفتیشی اداروں نے اس سے معلومات لینے کے بعد چھوڑ دیا اور اس خبر میں ٹھیکدار گل ملاح نے بتایا کہ ’’ 2004میں اس کمپاؤنڈ کی تعمیر شروع ہوئی اور 2005کے تاریخی زلزلے سے دو ماہ قبل مکمل کیا گیا : ٹھیکدار گل ملاح‘‘ اب مجھے بتائیں کہ اس میں ہم کس کی بات مانیں اگر آئی ایس آئی افسر کی بات درست مانتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر تفتیشی اداروں نے کمپاؤنڈ کی تعمیر کرنے والے ٹھیکیدار کو غلط بیانی کرنے پر گرفتار کیوں نہیں کیا؟ اور اگر ٹھیکدار کی بات درسدت مانی جائے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئی ایس آئی کے افسر نے غلط بیانی کیوں کی؟ اسی طرح مذکورہ آئی ایس آئی افسر والی خبر میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ’’ اسامہ کی یمنی نژاد بیوی نے بتایا تھا کہ وہ اس گھر میں چند ماہ پہلے ہی منتقل ہوئے تھے: آئی ایس آئی افسر‘‘۔ ٹھیک ہے جی اب یہ دیکھیں کہ دس مئی کو اچانک تمام نجی چینلز پر غیر ملکی خبر رساں ادارے کے حوالے سے ایک خبر چلائی گئی کہ ’’ اسامہ بن لادن کی یمنی نژاد بیوی نے بتایا ہے کہ وہ ایبٹ آباد والے مکان میں گذشتہ پانچ سال قبل منتقل ہوئے تھے۔ اور یہاں سے کہیں آتے جاتے نہیں تھے‘‘ اصولاً اس خبر کو یہاں ختم ہوجانا چاہئے لیکن خبر کو منفی تاثر دینے کے لئے اس میں یہ اضافہ بھی کیا گیا ’’ یمنی نژاد بیوی سے اسامہ کی شادی نائین الیون سے ایک سال قبل ہوئی تھی جب اس کی بیوی کی عمر ’’صرف‘‘ اٹھارہ سال اور اسامہ کی عمر 43سال تھی‘‘ یہاں شادی اور عمر کے ذکر کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن بڑی چالاکی سے اسامہ اور ان کی بیوی کی عمر کا فرق بیان کرکے ان کی شخصیت کو ایک منفی رخ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
اب ذرا بات کرتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کو مبینہ طور پر کس طرح شہید کیا گیا۔ اول اول جو خبر آئی وہ یہ تھی ’’امریکی کمانڈوز نے اسامہ بن لادن کو زندہ گرفتار کرنے کی کوشش کی لیکن مزاحمت پر ان کو سر میں گولی مار کر شہید کردیا گیا۔‘‘ لیکن اس کے بعد دوسری خبر یہ آئی کہ اسامہ بن لادن کو پہلے گرفتار کیا گیا،اس کے بعد ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا،ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ وہیں کمپیوٹر کے ذریعے امریکہ بھیجوائی گئی ،وہاں اسامہ بن لادن کی بہن کا ڈی این اے کا نمونہ موجود تھا،اس ڈی این اے کو ملایا گیا اور تصدیق ہونے کے بعد اسامہ بن لادن کو گولی مار کر شہید کردیا گیا ‘‘ غو ر کیجئے اس قدر افسانوی اور فلمی صورتحال پیش کی گئی ہے اور یہ تھیوری ایک معروف کالم نگار کہ جن کا قلم ہمیشہ حکومت وقت ہی کے حق میں لکھتا ہے اور جن کی گالیوں کی ٹیپ بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ موصوف نے یہ ساری کہانی بیان کی ۔ لیکن اس کے بعد ایک تیسرا بیان بھی سامنے آیا کہ اسامہ بن لادن نے کوئی مزاحمت نہیں کی اور خو د کو امریکی فوجیوں کے حوالے کردیا تھا لیکن انہوں نے اسامہ کے سر میں گولی مار کر انکو شہید کردیا اور مرحوم کی بارہ سالہ بیٹی اس کی گواہ ہے‘‘ اب یہاں بھی ذرا غور کیجئے کہ اس قدر ہنگامہ آرائی اور قتل و غارت گری کے بعد جو زندہ افراد موجود تھے ان میں مرحوم کی ایک بیوی بھی شامل ہے ،جو کہ ایک عاقل و بالغ اور سمجھدار خاتون ہیں لیکن ان کے بجائے موت کی شہادت بارہ سالہ بچی سے لی جارہی ہے جو کہ بجائے خود اس معاملے کو مشکوک بنا دیتی ہے۔
اب ہم بات کرتے ہیں لاش کو دریا برد کرنے کی۔ اس پر بات کرنے سے پہلے ہم یہ بتاتے چلیں کہ اگر واقعتاً اسامہ بن لادن اس واقعے میں شہید ہوتے تو امریکہ کے لئے اس صدی کی اس سے بڑی خبر کوئی نہ ہوتی، امریکہ پوری دنیا کے اخباری نمائندوں کو ان کی لاش کی تصاویر دکھاتا اور گراؤنڈ زیرو پر جشن کا مزہ دوبالا کیا جاتا لیکن لاش کو سمندر برد کرنے کے دعوے سے یہ سارا معاملہ مشکوک بن جاتا ہے۔ یہاں منگل دس مئی کو شائع ہونے والے ایرانی انٹیلی جسن افسر کے بیان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ’’ اسامہ بہت پہلے ہلاک ہوچکے تھے،ٹھوس ثبوت موجود ہیں: ایران ‘‘ یہ بیان دس مئی کو اخبارات کی زینت بنا ہے۔ اب ہم جائزہ لیتے ہیں لاش کو سمندر برد کرنے کے بیانات کا۔ پہلے کہا گیا کہ ’’لاش کو اس لئے سمندر برد کیا گیا کہ کوئی ملک اس کو لینے کو تیار نہ ہوتا: امریکی حکام (منگل 3مئی ) جبکہ اسی دن اخبارات میں امریکی حکام کا یہ بیان بھی شائع ہوا کہ ’’ لاش کو اس لئے سمندر بر دکیا گیا تاکہ اسامہ بن لادن کا مزار نہ بن جائے ‘‘ امریکی حکام کہتے ہیں کہ کوئی ملک لاش کو لینے کو تیار نہ ہوتا جبکہ برطانوی اخبار نے دعویٰ کیا کہ امریکہ نے سعودی عرب کو لاش لیجانے کی پیش کش کی لیکن سعودی عرب نے انکار کردیا اس کے بعد لاش کو سمندر برد کیا گیا۔ لیکن اگلے روز کے اخبارات میں سعودی عرب نے کہا کہ اسامہ کی لاش کو حوالے کرنے کی کوئی بات نہیں کی گئی ‘‘ پھر ایک طرف کہا جاتا ہے کہ لاش کو اسلامی رسوما کی ادائیگی کے بعد سمندر برد کیاگیا لیکن اب ایک تازہ ترین بیان یہ آیا ہے کہ امریکی صدر نے سینیٹرز،انٹیلیجنس حکام کو کہا ہے ہ اگر وہ چاہیں تو اسامہ بن لادن کی پوسٹ مارٹم کے بعد کی تصاویر دیکھ سکتے ہیں‘‘ یا اللہ یہ کون لوگ ہیں،جن کا کوئی دین ایمان نہیں ہے۔ 2مئی سے لیکر 11مئی تک کسی نے بھی اسامہ بن لادن کے پوسٹ مارٹم کا ذکر نہیں کیا اب اچانک انکشاف کیا جارہا ہے کہ ’پوسٹ مارٹم ‘‘ کے بعد کی تصاویر ۔ غور کیجئے کہ تقریبا دو سے ڈھائی گھنٹے تک ایک آپریشن کیا جاتا ہے یعنی پاکستانی وقت کے مطابق رات کو تین بجے یہ آپریشن مکمل ہوتاہے۔ اور پاکستانی وقت کے مطابق دن دو بجے کہا جاتا ہے کہاسامہ کی لاش کو سمندر برد کردیا گیا یعنی گیارہ گھنتے کے اندر اندر لاش پاکستان سے امریکہ بھی پہنچائی گئی،اس کے بعد لاش کا پوسٹ مارٹم بھی کیا گیا، لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد مبینہ طور پر سعودی عرب کو لاش لیجانے کی پیش کش بھی کی گئی،سعودی عرب نے منع بھی کردیا اس کے بعدلاش کو سمندر میں لیجایا گیا اور پھینکے سے پہلے اس کی مبینہ طور پر اسلامی رسومات بھی اد اکی گئیں۔ صرف گیارہ گھنٹے میں ۔ جبکہ گیارہ گھنٹے بھی ہم نے خبر جاری ہونے حساب سے بتایا ہے کیوں کہ خبر کم از کم دو گھنتے بعد جاری کی گئی ہوگی۔ گویا کہ محض نو گھنٹے میں یہ سارے کام پایہ تکمیل تک پہنچائے گئے۔
پھر ایک شوشہ یہ چھوڑا گیا کہ ’’ امریکی صدر،نائب صدر اور وزیر خارجہ نے وہائٹ ہاؤس میں اس آپریشن کی کاروائی براہ راست دیکھی، لیکن جب اسامہ کی تصاویر سے متعلق سوال کیا گیا تو جواب آیا کہ کاروائی تو براہ سات وہائٹ ہاؤس میں دیکھی گئی لیکن سیٹلائٹ اسامہ کی تصاویر لینے میں ناکام رہا‘‘ اور اس کے چند دن بعدسی آئی اے کے سربراہ لیون پینیٹا فرماتے ہیں کہ ’’ امریکی صدر نے آپریشن کی کاروائی براہ راست نہیں دیکھی‘‘
قارئین کرام جھوٹ اور مکر و فریب کا یہ سلسلہ پتا نہیں کہاں تک جائے گا۔ ہم نے تو صرف اپنے محدو علم اور اخبارات میں شائع ہونے والے خبروں میں ہی اتنی تضاد بیانیاں دیکھ لی ہیں لیکن اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ابھی مزید کتنے نئے انکشافات اور تضادات سامنے آئیں گے۔ فی الحال ہم اپنے اس سلسلے کو یہی ختم کرتے ہیں اور اگر مزید اس بارے میں مواد ملا تو پھر آپ لوگوں کی خدمت میں حاضر ہونگے ۔
فیس بک تبصرے