سرکاری کالجز میں چار سالہ بی ایس ڈگری پروگرام اور طالبعلموں کی مشکلات

طلبہ کسی بھی قوم کا وہ بہترین سرمایہ شمار کئے جاتے ہیں جن پر پوری قوم اس آس کے ساتھ سرمایہ کاری کرتی ہے کہ انہوں نے ہی مستقبل میں ملک کی باگ دوڑ سنبھالنی ہی۔ جس معیار کے طلبہ کسی قوم کو میسر ہوں اسی انداز اور رفتار سے قوم ترقی کرتی ہی۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں طلبہ کو ہر ممکن سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ۔ ان کو مختلف سکالر شپ اور وظائف دئے جاتے ہیں ، کلاس رومز اور تعلیمی اداروں میںمتعلقہ آلات فراہم کئے جاتے ہیں اور انہیں بہترین اساتذہ کرام فراہم کئے جاتے ہیںتاکہ طلبہ کو حصول علم میں کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ یکسو ہو کر اپنی تعلیم پر توجہ دیں ۔ جس کے نتیجے میں طلبہ اپنے آپ کو ملک و قوم کی ترقی کے لئے بہتر انداز میں تیار کرسکیں۔

پاکستان میں دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح تعلیم کے شعبے کا بھی دستور نرالا ہے جس کے باعث آئے دن طلبہ و طالبات، اساتذہ کرام اور نان ٹیچنگ سٹاف سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔ کلاسز کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے اور تعلیمی اداروں میں ہڑتالیں معمول بن چکی ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے تعلیم کے شعبے کو مسلسل نظر انداز کرنا، طلبہ و اساتذہ کو سہولیات کی عدم فراہمی اور تعلیمی اداروں میں متعلقہ تعلیمی ماحول کا فقدان ہی۔

صوبہ پنجاب گزشتہ کچھ عرصے سے شدید تعلیمی بحران کا شکار ہی۔ بحران کا آغاز اس وقت ہوا جب صوبائی حکومت نے صوبے کے 26سرکاری کالجز کو خودمختاری دینے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں ان کالجز میں بورڈ آف گورنرز قائم کر کے یہاں دو سالہ بی ای، بی ایس سی پروگرام کی جگہ چار سالہ بی ایس پروگرام متعارف کروادیا۔  حکومت پنجاب کے بلند و بالا دعوئوں اور ہوائی قلعوں کے برعکس چار سالہ بی ایس ڈگری پروگرام کے باعث صوبے میں تعلیمی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ چار سالہ بی ایس ڈگری پروگرام کی وجہ سے گریجویشن میں داخلہ لینے والے طلبہ و طالبات کی تعدادخوفناک حد تک کم ہو چکی ہی۔  پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ جو کہ پنجاب حکومت کا اپنا ادارہ ہی، اس کی رپورٹ کے مطابق چار سالہ ڈگری پروگرام میں صوبے بھر سے 12,400طلبہ و طالبات نے داخلہ لیا جبکہ گزشتہ برس یہ تعداد 23,500تھی۔ لاہور کے پانچ سرکاری کالجز میں جن میں دو خواتین کالج بھی شامل ہیں، گزشتہ سال دو سالہ بی ای، بی ایس میں کل 10,800طلبہ و طالبات نے داخلہ لیا جبکہ رواں سال چار سالہ پروگرام شروع ہونے کے باعث یہ تعداد انتہائی کم ہو کر 4,150طالبعلموں تک محدود ہو چکی ہی۔  اسی طرح لاہور شہر کے معروف تعلیمی ادارے اسلامیہ کالج سول لائنز میں پچھلے سال بی ای، بی ایس سی میں کل 1000طلبہ نے داخلہ لیا اور امتحانات میں شرکت کی جبکہ اس سال دو سالہ ڈگری پروگرام کے خاتمے اور اس کی جگہ چار سالہ نیا پروگرام شروع کرنے کی وجہ سے محض 326طلبہ نے کالج میں داخلہ لیا اور ان میں سے بھی صرف 212طلبہ نے امتحانات میں شرکت کی۔ باقی 114طلبہ نا مناسب سہولیات اور تعلیمی عمل کے معطل رہنے کی وجہ سے امتحانات سے پہلے ہی ڈگری چھوڑ چکے ہیںجس کی واضح طور پر ذمہ دارپنجاب حکومت کے ان تعلیمی ’’ماہرین‘‘ پر عائد ہوتی ہے جن کے ذرخیز ذہنوں نے بغیر کسی پیشگی منصوبہ بندی اور مناسب ہوم ورک کے یہ ڈگری پروگرام صوبے میں شروع کیا۔

حکومت اور وزارت تعلیم پر یہ الزام کہ اس نے چار سالہ بی ایس ڈگری پروگرام بغیر کسی منصوبہ بندی کے شروع کیا محض خام خیالی نہیں۔ اگر اس الزام کا بغور جائزہ، ثبوتوں اور حالات و واقعات کی روشنی میں لیا جائے تو حکومت کی تعلیم سے وابستگی اور سنجیدگی کی قلعی کھل جاتی ہی۔ چار سالہ بی ایس ڈگری پروگرام دنیا کے مختلف ممالک میں نافذ ہے جس کا بنیادی مقصد طلبہ و طالبات کو ان کی اپنی فیلڈکا تفصیلی علم مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں خاص طور پر سوشل سائنسز سے روشناس کروانا ہی۔ جس کے لئے خصوصی کلاس رومز، لیبارٹری، لائبریری اور کمپیوٹر لیب کی موجودگی ناگزیر ہی۔ لیکن آفرین ہے صوبہ پنجاب میں تعلیم کے کرتا دھرتاافراد پر جنہوں نے ان تمام پہلوئوں سے کنارہ کشی کرتے ہوئے افراتفری میں اور بغیر کسی پیشگی نوٹس و منصوبہ بندی کے یہ پروگرام صوبے کے 26کالجز میں نافذ کردیا۔

کالجز میں بی ایس کے طلبہ کے لئے نہ تو الگ سے کوئی لائبریری  بنائی گئی اور نہ ہی پہلے سے موجود لائبریریوں میں وہ کتب مہیا کی گئیں ہیں جو بی ایس کے جدید نصاب میں شامل ہیں۔ اگر کہیں اکا ّدکاّ کتب دستیاب بھی ہیں تو طلبہ کی تعداد کے لحاظ سے ناکافی ہیں۔ یہی حالت کمپیوٹر لیب کی ہی، گورمنٹ کالج آف سائنس وحدت روڈ لاہور میں بی ایس کے 350طلبہ کے لئے صرف 60کمپیوٹر دستیاب ہیں ۔ لیب کلاسز کے بعد فوری طور پر بند کر دی جاتی ہے جس کے باعث طلبہ کلاسز کے بعد کمپیوٹر استعمال نہیں کر سکتی۔اس طرح ہاسٹل کے طلبہ کے لئے سرے سے ہی کمپیوٹر کی سہولت میسر نہیں۔ اب بی ایس کے مضامین کی اسائنمنٹ اور پراجیکٹ بنانے کے لئے طلبہ جائیں تو جائیں کہاں؟ یہی صورتحال اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور میں ہی۔ کمپیوٹرلیب میں موجود0میں سے صرف 20چالو حالت میں ہیں اور ان میں بھی نہ تو مطلوبہ سافٹ وئیر انسٹال ہیںا ور نہ ہی انٹر نیٹ کی سہولت دستیاب ہے ۔ جبکہ یہاں حکومت کے دعوے کے مطابق بی ایس آئی ٹی بھی کروایا جا رہا ہے جس میں 80طلبہ نے داخلہ لیا تھا۔ اب کیا کوئی دانش مند انسان تصور کر سکتا ہے کہ آئی ٹی کی تعلیم کمپیوٹرز اور انٹرنیٹ کے بغیر بھی دی جاسکتی ہی؟اور اس ’’معیار‘‘کی تعلیم حاصل کرنے کے بعدطلبہ کیا ہنر لے کر عملی میدان میں قدم رکھیں گی؟

آئی ٹی کے طلبہ کی طرح نیچرل سائنسز کے طلبہ کی حالت بھی کچھ ایسی ہی ہی۔ بی ایس کیمسٹری اور فزکس کے لئے موجود لیب میں مطلوبہ کیمیکل اور آپریٹس نہایت قلیل تعداد میں موجود ہیں اور وہ بھی کئی سال پرانی۔ بی ایس پروگرام شروع ہونے کے بعد نئے آلات و کیمیکلز مہیا کرنے کی بھی زحمت گورا نہیں کی گئی۔ جبکہ بلنگ و بانگ حکومتی دعوے صرف اور صرف اعلانات تک محدود ہیں۔ کسی اعلیٰ حکو متی عہدیدارنے ان کالجز کا دورہ کرنے اور یہاں موجود طلبہ کی مشکلات سننے کے لئے وقت نہیں نکالا جس کے باعث طلبہ میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جس کا اظہارطلبہ سڑکوں پر آ کر کرتے رہتے ہیں۔

چار سالہ بی ایس ڈگری پروگرام کے مسائل میں ایک اور نہایت اہم و توجہ طلب مسئلہ آئوٹ لائن یا کورس کا مکمل نہ کروایا جانا ہی۔ بی ایس پروگرام کا پہلا سیمسٹر 15اکتوبر کو شروع ہوا اور 7مارچ کو امتحانات کا آغاز کر دیا گیا جبکہ طلبہ کو امتحانات سے تقریبا دو ہفتے پہلے تیاری کے لئے فارغ کر دیا گیا۔ اس طرح سیمسٹر کا آغاز بھی طلبہ و اساتذہ کے مسلسل احتجاج کے باعث مقررہ وقت پر نہیں ہوسکا اور دوران سیمسٹر بھی احتجاج کے باعث کئی بار تعلیمی عمل متاثر ہوا۔ یوں طلبہ کو پڑھنے اور اساتذہ کو پڑھانے کے لئے مناسب وقت نہیں مل سکا جس کے باعث کورس بھی ختم نہ ہوسکا۔ اس ساری صورتھال کا نزلہ بھی طالبعلموں ہی پر گرا جنہیں امتحانات میں آئوٹ آف کورس سوالات آنے کی شکایت ہے جس کی وجہ سے کئی امتحانی سینٹرز میں طلبہ نے پرچوں کا بائیکاٹ کیا اور شدید احتجاج کیا۔ اس صورتحال کی بنیادی وجہ بھی حکومت اور وزارت تعلیم کی بے حسی اور تعلیم سے متعلق معاملات میں قابل افراد کی بجائے منظور نظر افراد کی من مانیاں ہیں۔

دنیا بھر میں جہاں جہاں چار سالہ بی ایس ڈگری پروگرام نافذ العمل ہے اور خود پاکستان میں بھی جن سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں چار سالہ پروگرام جاری ہے وہاں وہ ادارہ خود طلبہ کے لئے پیپر بناتا ہے ۔ جس کا فائدہ یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے سلیبس مکمل نہ ہوسکے تو ٹیچر وہ حصہ پیپر میں شامل نہیں کرتا۔ جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے شروع کئے گئے چار سالہ بی ایس ڈگری پروگرام کا دستور نرالا ہی۔ یہاں پیپر بنانے اور امتحانات لینے کا اختیار کالجز کو نہیں دیا گیا بلکہ پنجاب یونیورسٹی براہ راست سیمسٹر کے اختتا م پر طلبہ سے امتحان لے گی۔ جس کے باعث اس پروگرام کی افادیت اور بنیادی روح ہی ختم ہو کر رہ جاتی ہی۔ اگر یہی طریقہ کار جاری رکھنا تھا تو دو سالہ بی ای، بی ایس سی پروگرام میں کیا قباحت تھی؟ اگر حکومت کو ان کالجز کے اساتذہ کرام پر اعتماد نہیں تو پھر سرے سے ان کالجز میں بی ایس پروگرام شروع ہی کیوں کیا گیا؟ بی ایس پروگرام کی آڑ میں کالجز میں جو بورڈ آف گورنرز بنائے گئے ہیں انہوں نے ان کالجز کی تعلیمی حالت بہتر بنانے میں اب تک کیا کردار ادا کیا ہی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب دینے سے خود حکومت اور اس کے تعلیمی ماہرین بھی قاصر ہیں۔

عجلت اور ناقص پلاننگ کے باعث شروع کئے گئے چار سالہ بی ایس ڈگری پروگرام میں ہر روز نئے مسائل کا سامنا ہے جس کے باعث طلبہ، اساتذہ اور والدین شدید ذہنی کوفت و مخمصے کا شکار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نیک نیتی سے بغیر کسی تعصب و تخصیص کے ماہرین تعلیم، طلبہ اور اساتذہ سے رابطہ کرے اور ان مسائل کا حل نکالنے کے لئے سب لوگوں کی آراء کی روشنی میں کوئی واضح اور مربوط حکمت عملی وضع کرے تاکہ پنجاب حکومت جو دیگر کئی محاذوں پر اپنے مخالفین کے تیروں کا نشانہ ہے ، تعلیمی میدان میں سرخرو ہوسکے اور طلبہ و طالبات یکسو ہو کر اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔

فیس بک تبصرے

سرکاری کالجز میں چار سالہ بی ایس ڈگری پروگرام اور طالبعلموں کی مشکلات“ پر 2 تبصرے

  1. ہر نئی چیز کی شروع میں مخالفت کی جاتی ہے۔ چار سالہ بی اے پروگرام کی بھی اسی وجہ سے ہورہی ہے۔ کالجوں کے اساتذہ کو تن آسانی کی عادت پڑ گئی ہوئی ہے۔ سالہا سال سے ایک ہی کورس پڑھا پڑھا کر ان کا ہلنے جلنے کو دل نہیں کرتا۔ اس پروگرام کو سیٹل ہونے میں وقت لگے گا، لیکن اتنی بھی لُٹ نہیں پڑی ہوئی جتنی ات ان لوگوں نے مچائی ہوئی ہے۔
    پس موضوع: یہ مضمون کل کے ایکسپریس میں پڑھاتھا، سوچ رہا تھا کہ تصویر کو ٹائپ کرنے کا تردد کیوں کیا ہے۔ اب مصنف کا نام دیکھا تو پتا چلا کہ یہ تو آپ ہی تھے۔ خیر اچھی تحقیق تھی۔ لیکن جب ٹرینڈ بدلے تو لوگ باگ ذرا بدک جاتے ہیں، اگلے سال دیکھئیے گا۔

  2. yar ye sab jo ap ne likha he mujy samaj nahi ai konasa govt college bs ki 4 sala degree offer kr raha he .mujy to ap ka ye tabsasra jotha lagta he.reply zaror karain main ap k jawab k muntazir houn. 

Leave a Reply