ریمنڈ ڈیوس کا تازہ تازہ غم کھائی ہوئی قوم کو ایک اور سانحہ سے دوچار ہونا پڑا روزو شب ھلاکتوں کی ماری قوم کو ایک تازہ ھلاکت نے ھلا کر رکھ دیا
اور سانحہ سے بڑا حادثہ یہ رھا کہ اس کی اطلاع امریکی صدر اوبامہ جاری کرتے ہیں–رات کے پچھلے پہر ایبٹ آباد کی بستی بلال ٹاؤن میں دنیا کا عظیم تریں آپریشن ہو رہا ہے
-جس واقت پاکستان کی فوج ،ایجنسیاں ، حکومت اور عوام سب خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے –اور امریکہ نے نیند کے ماروں کو جگانا کبھی مناسب نہیں سمجھا اور گھنٹہ بھر میں امریکی میرینز یہ عظیم الشان آپریشن کامیابی سے نمٹا کر فتح مندی کا تمغہ سینے پر سجائے یہ جا اور وہ جا —
سترہ کڑور عوام انگشت بدندان کہ سب کیسے / کیوں /کب ہوا؟؟؟ لیکن حکومت خاموش -آیئ ایس پی آر خاموش-
آئی ایس آئی خاموش-
اور ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر -جبکہ امریکی صدر پریس کانفرنس کرتے ہیں -ہر تھوڑی دیر بعد انکا کوئی حکومتی اہلکار اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے کوئی نہ کوئی بیان جاری کر رہا ہے -پینٹاگون مسلسل باخبر کئے ہوئے ہے اس کاروائی کی تفصیلات سے دنیا بھر کے نشر یاتی ادارے کواور ہمارے نشریاتی ادارے ان کی معلومات اور خبروں پر تجزیے اور تمصرے پیش کرنے میں ایک دوسرے پر بازی لے جاتے رہے-
ایک عذر طفلانہ جو گمان کے طور پر پیش کیا جاتا رہا کہ غالباً پاکستان کا ریڈار سسٹم جام کر دیا گیا
جس کی وجہ سے یہ ہیلی کاپٹر نہ دیکھے جا سکے اور محض ڈیڑھ کلومیٹر دور کاکول کی فوجی اکیڈمی اور فرنٹیئر فورس ریجمنٹ کا صدر دفتر جو ایبٹ آباد میں ہی واقع ہے سب اس کاروائی سے مکمل لاعلم رہے اور اسامہ جس کمپاؤنڈ میں تین برس سے مقیم تھے اور پچھلے چھ ماہ سے امریکی انتظامیہ جس آپریشن کی تیاری کر رہی تھی اس نے ” مشترکہ مفادات” رکھنے والے اپنے کولیشن پارٹنر سے شیئر کرنا مناسب نہ سمجھا !سول انتظامیہ فوج اور کسی حکومتی عہدیدار کی یہ ھمت نہ ہو ئی کہ اس عظیم آپریشن سے (جس پر امریکی سڑکوں پر نکل آئے اور جشن منانے لگے)
اپنی قوم کو اعتماد میں لیا جائے اور سم سے بڑا سوالیہ نشان یہ کہ وہ فوج غریب عوام اپنا پیٹ کاٹ کر جس کی شاہ خرچیاںبرداشت کر رہے ہیں بجٹ کا بڑا حصہ جس فوج کی بقا پر خرچ ہو رہا ہے کل خدانخواستہ ایسا ہی آپریشن پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر کیا گیا تو کیا یہی عذر لنگ پیش کیا جائے گا پاکستان کے ریڈار سسٹم کو جام کر دیا گیا تھا انکو پیشگی اطلاع ہی نہیں دی گئی تھی –پاکستان کی مفاد پرست اور نا عاقبت اندیش قیادت بار بار ٹھوکریں کھانے کے باوجود بھی دوست اور دشمن کی تمیز سے یکسر محروم ہے –یہی لوگ ہیں جن کو قرآن “صم بکم عمی ” کہہ کر مخاطب کر تا ہے
جو دوسروں کی جنگ کو اپنے گھر میں لا کر ملک کی تباہی کا سامان مکمل کرچکے ہیں -امریکا کی یہ آہنی گرفت دن بدن مضبوط سے مضبوط تر ہو رہی ہے اور 9/11 کے بعد سے آج تک ملک عملاً امریکی غلامی اور محکومی میں آچکا ہے -حکمران کے مفادات کی جنگ اپنی سر زمین پر اپنے وسائل سے لڑ رہے ہیں
اگر یہ کاروائی پاکستانی ایجنسیان کرتیں تو یوں عزت سادات تو رخصت نہ ہوتی
گھر سے ! ہم امریکہ کی دوستی نبھانے اپنے گھر کے صحن میں میں اسے رستے دیتے دیتے گھر ہی اسکے حوالے کر بیٹھے –ہم “دوستی” اور “شراکت داری” نبھاتے نبھاتے ” کعصف معکول ” بن گئے — ہم انکے مفادات کا ایندھن بن کر گیلی لکڑیوں کی مانند آھستہ آھستہ اندر ہی اندر سلگتے رہے–جبکہ خود ڈاکٹر ہنری کسنجر امریکی دوستی کی تعریف سے یون پردہ اٹھاتے ہیں”
America has no friends or enemies, only interests “
ہم اس حقیقت کو سمجھ ہی نہ پائے اور63 برسوں سے دوستی کی قیمت محکومی کی صورت میں ادا کرتے رہے — ہم کہتے ہیں کہ امریکا سے دشمنی ہمارے مفاد میں نہیں — سوال یہ ہے کہ ہمارے “مفادات” ہیں کیا؟؟؟ اس کا علم کیا خود ہمیں بھی ہے ؟؟؟ ہم نے اپنے مفادات کا کب تحفظ کیا؟؟؟
کب انکے لئے آواز اٹھائی ؟؟؟؟ڈاکٹر عافیہ ان قید میں شب و روز ظلم و ستم کا نشانہ ہے اور ہم نے ریمنڈ ڈیوس کو اپنی بے حمیتی کا تاج پہنا کر پورے پروٹوکول سے رخصت کیا –مفادات تو بڑی قوتوں کے ہوتے ہیں ہم کیری لوگر کی خیرات پانے والے تو محضان کے آلہ کار ہیں!!! اور ہمارا پڑوسی بھارت اس کھیل میں پوری ہشیاری سے شریک ہو کر امریکی اور اپنے مفادات کا ترجمان بنکر ہمارے گرد روز بروز گھیرا تنگ کر رہا ہے — ابھی رحمان ملک صاحب تو خاموش ہی تھے اس واقعہ پر کہ بھارت سے فوراً چدم برم کا بیان آگیا کہ ” ہم تو کہتے ہی تھے پاکستان دہشت گردوں کی پناہ ہے”
جس تیزی کے ساتھ واقعات رونما ہورہے ہیں اور امریکی اور بھارت گٹھ جوڑ بے نقاب ہو رہا ہے خدانخواستہ ہماری آزادی ہی نہیں خود ہمارے وجود کو بھی خطرات لاحق ہیں —
بارک اوباما نے اپنی تقریر میں امریکی قوم کو مبارکباد دی اور پوری رعونت کے ساتھ کہا کہ” امریکا جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے اور اپنے مفادات کے لئے ہر انتہائی قدم اٹھائے گا”
طاقتور جب اپنی طاقت کے زعم میں تمام حدودوں کو پامال کر دیتے ہیں تو قدرت کا قانون ہے بی بسوں کو طاقت مہیا کرتی ہے دنیا آج سے قبل بھی بہت سی سپر پاورز کے قبرستان بنتے دیکھ چکی ہے
کون نہیں جانتا کہ امریکی ٹیکنالوجی دہشت گردوں کے لئے بہت کم اور بے گناہ انسانوں کی کثیر تعداد کو نیست و نابود کر دینے کا باعث بن رہی ہے — خود امریکی تحقیقی ادارے رپورٹس پیش کرتے ہیں ڈرون حملوں میں سو میں سے دو یا تین دہشت گرد نشانہ بنتے ہیں باقی 98 فیصد مرنے والے معصوم و بے گناہ شہری عورتیں اور بچے ہوتے ہیں –اور خود افغانستان میں صرف ایک برس میں 5 ہزار سویلین امریکی فوجی کاروائیوں میں لقمہ اجل بن گئے —
دہشت گردی کے خلاف یہ نام نہاد جنگ اسکی قیمت ہمارے لئے روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے –بی بی سی کا یہ تبصرہ مبنی بر حقیقت ہے ” زندہ اسامہ سے ذیادہ مردہ اسامہ خطر ناک ہے”اور اس پس منظر میں امریکی تھنک ٹینک کیا سوچ رہے ہیں /کیا حکمت عملی بنا رہے ہیں اور اب تاوان کی اگلی قسط ہمیں کب اور کتنی ادا کرنی پڑے گی ؟؟
وقت آھستہ آھستہ ان سوالوں سے پردہ اٹھائے گا – لیکن گزشتہ دس برسوں کا تخمینہ پوری دیانتداری اور معروضی انداز میں مرتب کیا جائے تو معمولی سوجھ بوجھ کا آدمی بھی اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ یہ سراسر خسارے کا سودا تھا– این آر او کی بیساکھی کا سہارا لے کر جو قیادت کھڑی ہوئی امریکا نے اس کی نکیل پکڑ کر اس کو اپنے مفادات کا ایندھن بنایا اور یہ سودا پاکستان کی آزادی اور خود مختاری پر چکایا گیا –
امریکا اور مغربی اقوام جس طرح مسلمانوں پر فکری اور تہذیبی یلغار کئے ہوئے ہیں اور انکا میڈیا اسلام اور مسلمانوں کو وحشت پسند اور درندگی کی علامت بنا کر پیش کر رہا ہے قرآن پاک کی کھلم کھلا بی حرمتی کے واقعات ہو رہے ہیں اور پیغمبر آخر الزماں نبی پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان میں گستاخی کے جو پے در پے واقعات ہورہے ہیں
اور یہان تک کہ مسلمانوں کے تشخص مسجد کے مینار تک اب ان کے عتاب اور نفرت کا شکار بن گئے ہیں اور مسلمان مردوں کی داڑھی اور خواتیں کے حجاب تک کے خلاف قانون سازیاں ہو رہی ہیں — کیا اس پس منظر میں ہمارے اور امریکا کے مفادات ” مشترک” ہو سکتے ہیں یا بارک اوباما جن مشترکہ اقدار کی بات بار بار کرتے ہیں کون سی اقدار ہیں جو ہم میں اور ان میں مشترک ہیں –صرف ایک ہی قدر مشترک ہے جو آگ اور ایندھن میں ہوتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جو آگ انہوں نے بھڑکائی ہوئی ہے ہم اسکا ایندھن ہیں اور آگ کے شعلے جب ذرا مدھم سے ہونے لگتے ہیں تو ان کو” کیری لوگر بل “سے ہوا دی جاتی ہے —
ساری دنیا جانتی ہے سب بینا اور نابینا جانتے ہیں کہ امریکا کا اصل ہدف پوری دنیا میں اپنی بالادستی کو قائم کرنا اور قائم رکھنا ہے اور انکے تھنک ٹینک پر امید ہیں کہ اگلے 50 برس تک انہیں دنیا میں کوئی طاقت ایسی نظر نہیں آرہی جو امریکا کی بالادستی کو چیلنج کر سکے
–
امریکا کی خطے میں موجودگی کی بڑی وجہ اسامہ کا گھیراؤ تھی تو اب لامحالہ امریکا کو خطے سے نکل جانا چاہئے کہ اس نے اپنا ہدف حاصل کر لیا ہے لیکن دور بین نگاہیں دیکھ رہی ہیں کہ اب القاعدہ کا پیچھا کرنے کا واویلا کرتے ہوئے اور ایٹمی اثاثوں تک دہشت گردوں کی رسائی کو نا ممکن بناتے بناتے وہ خود ایٹمی اثاثوں تک رسائی حاصل کرنے کا خواہشمند ہے اور اسامہ کے بعد اس جارحانہ اقدام کے لئے وہ ہموار زمین کی تلاش میں سر گرداں ہوگا اور ویسے بھی اس نے ہمارے علاقوں میں جاسوسی کے لئے نیا خلائی سیارہ خلا میں چھوڑا ہے جو لیزر ہتھیاروں سے لیس اور ایٹم بم سے زیادہ خطرناک ہے اور دشمن کو دفاع کا موقع تک نہیں دے گا —
ایک طرف یہ خطرات دوسری جانب بیروزگاری، مہنگائ ، جانو مال کا عدم تحفظ- حلمران توجیہہ یہ پیش کرتے ہیں کہ اگ امریکا نے آنکھیں پھیر لیں تو معیشت کا بھٹہ بیٹھ جائے گا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ وسائل جو ہم نےاس جنگ کی آگ میں جھونکے ہیں اگر ملک میں ترقیاتی اسکیموں اور عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرتے تو آج ایک مستحکم پاکستان ہمیں میسر ہوتا — اب بھی ضرورت ہے کہ ہم امریکا سے تعلقات اور خارجہ پالیسی کی بنیادی خدوخآل پر نظر ثانی کریں اور ملکی وسائل سے معاشی ترقی اور علاقائی امن کے لئے مناسب حکمت عملی وضع کریں حقیقت تو یہ ہے کہ
جس کشتی کے پتواروں کو،خود ملاحوں نے توڑا ہو
اس کشتی کے غم خواروں کو، پھر شکوہ طوفان کیا ہوگا –
افشاں جی اللہ پاک آپ کے اس درد اور جذبات کو قبول فرمائے، آپ نے پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی کرکے بہت بڑا کام کیا ہے۔